عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 23####
💞💞💞💞💞💞💞💞"مجھے کیا پتہ تھا کہ تم پلٹو گی اور یہ ہو گا۔" ارحان نے معصومیت سے کہا۔
"نہیں تو آپ نے بلایا تھا، تو بات تو سننی تھی۔" حائمہ اپنا ڈریس دیکھتے ہوئے بولی۔
"مطلب میری اہمیت ہے؟" ارحان نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے تھے۔
"اہمیت کا تو پتہ نہیں مگر احترام ضرور ہے آپ کا آخر کو جڑے جو ہوئے مجھ سے۔" حائمہ نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا جو ارحان کو آگ لگا گیا تھا۔
حائمہ جانے کیلئے آگے بڑھی تو وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا "کہاں!"
" یہ داغ چھوٹا سا ہے۔ اسے صاف کر دوں ایسے اچھا نہیں لگتا۔" حائمہ نے کہا۔
" مگر میری بات جو میں نے کرنی تھی۔" ارحان نے تپ کر کہا۔
"دوسری بیوی کو سنائیے گا۔" حائمہ نے اسی کے انداز میں کہا اور آگے بڑھ گئی جب پیچھے سے وہ بولا "پھر شکایت نہ کرنا تب!"
جبکہ حائمہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی کہ "موقع ملے تو پوچھے بھی نہ پھر مجھے!"
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"یار کیا مسئلہ ہے کیوں لڑ رہے ہو؟" حائمہ سٹیج پر آتی ہوئی بولی۔
"حائمہ اس سے کہو مجھ سے بات نہ کرے۔" مہوش نے کہا۔
"یار حائمہ شادی کے پہلے دن کوئی دلہن ناراض ہوتی ہے کیا؟" عون نے بھی اپنا دفاع کرنا چاہا۔
"مگر مہوش کیوں ناراض ہے؟" حائمہ کو انکی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
" اس نالائق سے پوچھو۔" مہوش نے عون کی طرف اشارہ کیا۔
" یہ نامعقول ہے چھوٹی سی بات کو بڑھا رہی ہے۔" عون نے جواب دیا جبکہ حائمہ دونوں کے منہ دیکھ رہی تھی۔
" چھوٹی سی بات؟ حائمہ بتاؤ تم کیا دلہن کو منہ دکھائی نہ دینا چھوٹی سے بات ہے؟" مہوش نے پوچھا جس پر ایک لمحے کو حائمہ نے سوچا کہ منہ دکھائی اسے کونسا ملی تھی مگر پھر سر جھٹکتی عون سے استفسار کرنے لگی۔
"بھئی اب میں پورا کا پورا مل رہا ہوں۔ یہ کیا کم منہ دکھائی تھی۔" عون نے مزے سے کہا۔
"عون غلط بات منہ دکھائی دو اسے ورنہ پٹو گے۔" حائمہ نے اسے کہا۔
"یہ لو تم تو بہت بے صبری نکلی میں نے دے ہی دینی تھی دو تین دن بعد۔" عون نے خوبصورت نفیس سا بریسلٹ جیب سے نکالتے ہوئے کہا اور اسے پہنایا تھا۔
"تم اسے تنگ کر رہے تھے؟" حائمہ نے پوچھا۔
"ہاں اب اپنی بیوی کو نہ تنگ کروں تو کیا تمہیں کروں؟ تاکہ تمہارا ہٹلر شوہر مجھے مار دے۔" عون نے کہا۔ جس پر حائمہ اسے گھورتی اٹھنے لگی تو مہوش بھی بولی تھی۔ "دوسروں کی لڑائیاں کب تک سلجھانی ہیں؟ اب اپنا معاملہ بھی سلجھا لو تو بہتر ہوگا۔"
" یہ دونوں ارحان کے چمچے نہ ہوں تو!" حائمہ نے سوچا اور سٹیج سے اتر گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
"اللہ اللہ کرکے عون کی شادی ختم ہوئی بھئی میں تو تھک گئی ہوں۔" صوفیہ بیگم نے کہا تو شازیہ اکرم بھی بولی۔
" ہاں بھابھی تھک تو میں بھی گئی ہوں۔ اس لڑکے نے تو سب کو گھن چکر بنایا تھا۔ ہر چیز اپنی مرضی کی کروائی اسنے۔"
"ہاں نا اب کون ایک ایک چیز کی باریکی دیکھے مگر اس لڑکے کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔" صوفیہ بیگم نے انھیں جواب دیا ۔
"ویسے بھابھی یہ تو ماننا ہوگا سب کچھ اچھا تھا۔ سب تعریف کر رہے تھے۔" شازیہ اکرم نے کہا۔
جس پر صوفیہ اکرم بولی "شکر سب خیر خیریت سے ہو گیا۔"
"بھابھی ہنی مون کی ٹکٹس منگوا لیں تھیں آپ نے۔" شازیہ اکرم نے پوچھا تو صوفیہ بیگم بولیں "ہاں صبح دے دیں تھیں میں نے۔ پرسوں شام جائیں گے یہ لوگ انگلستان۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
" ابو کیا کر رہے ہیں؟" حائمہ اکرم صاحب کے کمرے میں داخل ہوئی۔
"ارے میرا بچہ آیا ہے۔" اکرم صاحب نے اسے سینے سے لگایا تھا۔
"کوئی کام ہے حائمہ؟" کو اکرم صاحب نے مسکرا کر پوچھا۔
"جی ابو وہ دراصل مجھے آپ کو کچھ بتانا تھا۔" حائمہ مسلسل انگلیاں چٹخا رہی تھی۔
"بولو بچے کیا بات ہے؟" اکرم صاحب نے نرمی سے پوچھا۔ بلاشبہ وہ ہمیشہ ایک اچھے باپ اور دوست ثابت ہوئے تھے، تبھی تو حائمہ انسے ہر بات کرتی تھی۔
" ابو وہ میں نے عکاشہ کو کہہ کر اپنی سیٹ کروالی ہے۔ میں نانو کے پاس جا رہی ہوں۔" حائمہ نے انسے کہا۔
"کیوں بچے کوئی شکایت ہے ہم سے؟" اکرم صاحب نے پوچھا تو وہ بولی "نہیں ابو میں وہاں رہنا چاہتی ہوں اس رمضان تا کہ اپنے لیے کوئی فیصلہ کر لوں۔ رمضان میں ڈیڑھ ہفتہ ہے مگر میں ابھی جا رہی ہوں آپ کو اعتراض تو نہیں ہے نا؟"
" نہیں بچے تم ضرور جاؤ۔ ویسے بھی تمھیں پنجاب گئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔" انھوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے جانے کی اجازت دی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
صبح جب حائمہ اٹھی تو سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ حائمہ پنجاب جا رہی ہے۔ بڑوں نے تو اسے خوشی سے اجازت دی تھی مگر ارحان کو اس پہ بہت غصہ تھا۔
"کیا سمجھتی ہو تم خود کو؟ مسئلہ کیا ہے تمہارا؟" ارحان نے اسے بازو سے پکڑا تھا وہ جو پیکنگ کر رہی تھی اس افتاد پر حیران رہ گئی۔
"آپکا کیا مسئلہ ہے؟ پہلے آپ بتائیں!" حائمہ نے بازو چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی۔
"میرا مسئلہ تم ہو!" ارحان نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
" کیوں میں آپ کا مسئلہ کب سے ہو گئی۔" حائمہ نے طنز کیا۔
"تم پنجاب نہیں جاؤ گی۔ میں نے کہا دیا بس!" ارحان نے اسے کہا مگر وہ بازو چھڑاتے ہوئے بولی "تم ہوتے کون ہو روکنے والے مجھے؟"
حائمہ نے ارحان کو تم کہا تھا اور یہاں ارحان کو پتہ چل گیا تھا کہ حائمہ کو اس پر بہت غصہ ہے، جس پر وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
ارحان غصے سے بھرا بیٹھا تھا جب عون اسکے پاس آیا۔
"بگ بی روکا نہیں آپ نے اسے؟" عون کے پوچھنے کی دیر تھی کہ ارحان پھٹ پڑا تھا۔
"تمہاری بہن ہے۔ وہ کسی کی کہاں سنے گی؟ اسے بس اپنی مرضی کرنی ہے۔ اسے کسی کی ذات سے کیا مطلب اور تم کہتے تھے نا اسے محبت ہے مجھ سے! بکواس کرتے تھے تم خوار ہو کہ رہ گیا ہوں میں۔ بس میں نے بھی سوچ لیا ہے ایسے ہی تو ایسے ہی سہی اب میں فیصلہ کر دوں ۔گا میں مزید خود کو سولی پر نہیں لٹکا سکتا۔"
" بگ بی آپ مجھ پہ کیوں غصہ کر رہے میں نے کچھ نہیں کیا اور رکیں ابھی پتہ چلتا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ نہیں۔" عون نے کہا اور جلدی سے حائمہ سے ایک کال کرنے کے بہانے فون لے کر آیا اور ارحان کو دکھایا۔
موبائل پہ وال پیپر ارحان کی ہی تصویر تھی اور پاسورڈ بھی حائمہ ارحان تھا۔
" بگ بی صبر کر لیں وہ واپس آ کر آپ کے ہی حق میں فیصلہ دے گی۔" عون نے کہا اور چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
آج عکاشہ اور حائمہ پنجاب چلے گئے تھے اور شام کو عون اور مہوش بھی لندن چلے گئے تھے۔ جنھوں نے ایک ہفتے بعد واپس آنا تھا۔ کیونکہ رمضان شروع ہو رہا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
حائمہ گجرات میں داخل ہوئی۔ یہ اسکی نانو کا شہر تھا آج چار سال بعد وہ یہاں آئی تھی۔ سارے راستے عکاشہ نے اسے پریشان نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ واقعی بڑے بھائیوں کی طرح اسکا خیال کرتا تھا۔
"نانو کیسی ہیں؟" حائمہ گھر میں داخل ہوتے ہی نانو کے گلے لگی تھی۔
"حائمہ تو ایتھے آوڑ تو پیلا دسدی تے سئی۔" (آنے سے پہلے بتاتی تو سہی! ) نانو اسے دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھی۔
"السلام علیکم ممانی!" آپ کی امی کیسی ہیں اب؟" حائمہ سکینہ بیگم سے ملی جو اسکی اکلوتی ممانی تھی یعنی اکلوتے ماموں کی اکلوتی بیوی!
"ہاں بچے آپریشن کامیاب ہو گیا ہے اور اب ماں جی بلکل ٹھیک ہیں۔" ممانی نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا اور پھر شام کو ماموں کے ساتھ بھی اسنے خوب باتیں کیں۔ یہاں آ کر وہ سب بھول چکی تھی۔
"ارے عکاشہ تم ذرا اپنی منگیتر یعنی اپنے ماموں کی بیٹی اور میری پیاری دوست نشاء کو تو بلاؤ۔ وہ بھی اس رمضان اپنی پھپھو کے گھر رہے گی." حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر عکاشہ ہنستا ہوا بولا "بلاتا ہوں اسے!"
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
اگلے دن نشاء بھی آ گئی اور وہ لوگ گھومنے نکل گئے۔ انھوں نے کھاریاں، لالہ موسیٰ، جہلم اور قلعہ روہتاس دیکھا اور پھر شام کے وقت وہ اپر جہلم کینال پہنچے اور کینال ویو پارک میں داخل ہوئے اور نہر کو دیکھنے لگے۔
"کتنی خوبصورت جگہ ہے نا؟" یہ نشاءنے اس سے پوچھا تو حائمہ بولی "ہاں کراچی میں تو زندگی کی گہما گہمی میں خوبصورتی نظر ہی نہیں آتی۔"
"اچھا تم لوگ باتیں کرو۔ میں پانچ منٹ میں آئس کریم لے کر آتا ہوں۔" عکاشہ نے کہا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد وہ کھوئے والی قلفی لا کر بولا "معذرت! ارادہ تبدیل ہو گیا ہے۔ قلفی کھاؤ اب!" جس پر دونوں لڑکیوں نے ہنستے ہوئے قلفی پکڑ لی تھی۔
" حائمہ کیا سوچ رہی ہو؟" نشاء نے پوچھا تو حائمہ لمبی سانس بھر کر بولی "یہ نہر کتنی پرسکون ہے جیسے اپنے اندر ایک طوفان چھپائے بہہ رہی ہو۔ دل چاہتا ہے کہ اس نہر میں بہہ جاؤں تا کہ میرے اندر کا طوفان بھی اسکے ساتھ بہہ جائے۔"
"حائمہ تم ٹھیک ہو!" عکاشہ نے اس سے پوچھا تو وہ بولی "ہاں میں ٹھیک ہوں۔ بس چلو گھر چلیں۔" اور چل دی
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
رمضان شروع ہو چکا تھا۔ عون لوگ گھر آ چکے تھے
اور گلی میں رونق ہی رونق تھی۔ سحری اور صبح کے وقت دریاں بچھائی جاتی تھی اور غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ ہر گھر سے سحری اور افطاری کا انتظام کیا جاتا تھا۔
رات کو کرکٹ کھیلتے تھے۔ بچے جب عون کے ساتھ کھیلتے تو ارحان کو حائمہ کی یاد آتی کیونکہ وہ جب ہوتی تھی تو وہ بھی بچوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔ سب بچے بھی اسے یاد کررہے تھے۔
رمضان کا آخر تھا۔ آج ستائیسواں روزہ تھا، جب رات کو ارحان نے سبکو کہا کہ کل صبح وہ لوگ پنجاب کیلئے نکل رہے ہیں۔ اسنے فیصلہ کر لیا ہے جو وہ وہیں جا کر سنائے گا اور کوئی بھی اب اسکے فیصلے پر نہ بولے۔ کیونکہ وہ جھکا بھی اور وہ سب کیا جو سب نے کہا۔ اور برداشت بھی کیا اور انتظار بھی کیا اب وہ جو بھی فیصلہ کیا وہ سب کو مان لینا چاہیے۔ جس پر سب حیران تھے۔ کیونکہ ارحان کا لب و لہجہ سب کو پریشان کر رہا تھا۔
سب کو جو امید تھی کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے، اب وہ سب پریشان تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"حائمہ بگ بی آ رہے ہیں سبکے ساتھ فیصلہ سنانے۔" عون نے ٹرین میں اسے فون کیا تو وہ اسکی بات سن کر پریشان ہو گئی تھی۔
"کیا فیصلہ کیا ہے اسنے؟" حائمہ نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔
"بگ بی نے کہا وہ سب کر چکے، جھک بھی گئے، معافی بھی مانگی اور انتظار بھی کیا مگر لا حاصل تھا سب کچھ۔ اب وہ جو فیصلہ کریں گے اس پر کوئی اعتراض نہ کرے اور تم جانتی ہو کہ ہم سب کس فیصلے پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ حائمہ ایم سوری میں وعدہ پورا نہیں کر سکا میں نے کہا تھا اپنی بہن کیلئے لڑوں گا مگر..." عون نے آہستگی سے کہا۔
" کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ اتنے سیریس تم کب سے ہو گئے؟ اور میں بہت خوش ہوں کوئی مسئلہ نہیں ہے مجھے۔" حائمہ نے ہنستے ہوئے کہا مگر اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا کہ آنسو کیسے اسکے آنکھوں سے نکل آئے تھے۔
عون نے فون بند کر دیا تھا جبکہ وہ چپ چاپ بیٹھی تھی مگر نشاء کمرے میں آئی تو اسے یوں پتھر بنے دیکھ کر حیران ہوئی تھی اور اسکے آنسوؤں نے بھی اسے پریشان کیا تھا۔
"کیا ہوا حائمہ؟" نشاء نے اس سے پوچھا۔
"کچھ نہیں امی ابو کی یاد آ رہی ہے۔" حائمہ نے کہا اور آنسو صاف کر لئے اور پھر اسے بتایا کہ کل سب آ رہے ہیں شام کو پنچ جائیں گے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
سب موجود تھے اور خوشی خوشی باتیں کر رہے تھے۔
آغا جانی تو اپنی بہن سے کب سے بیٹھے باتیں کر رہی تھے۔
حائمہ بھی کافی دیر باتیں کرتی رہی سب سے اور اب وہ اندر چلی گئی تھی۔
عون اور مہوش اسکے پیچھے آئے تھے۔
"تم پریشان ہو نا؟" مہوش اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔
"نہیں تو میں کیوں پریشان ہوں گی؟" حائمہ نے مسکراتے ہوئے کہا مگر اسکی آنکھیں اسکا ساتھ نہیں دے رہیں تھیں۔
"تم فکر نہیں کرو ارحان بھیا تمہارے حق میں ہی فیصلہ کریں گے۔" مہوش نے اسے کہا تو حائمہ اسے دیکھ کر بس مسکرا سکی۔
" بگ بی نے کہا تھا کہ تم لوگ جاؤ۔ میں ایک کام کر کے آؤں گا۔" عون نے ارحان کی غیر موجودگی کی وضاحت دی۔
"انھوں نے مجھے اپنے فیصلے کا اشارہ دیا ہے۔ چلو چھوڑو آج انتیسواں روزہ ہے۔ چاند دیکھنا ہے خبر تو دیکھو کوئی!" حائمہ نے کہا اور اٹھ کر کہا اور باہر چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
عید کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
سب لوگ بہت خوش تھے لیکن دو دن لگاتار سفر کی وجہ سے سب تھک کر سو چکے تھے۔
مگر صرف وہ اکیلی جاگ رہی تھی۔
چھت پر بیٹھی آسمان کو گھورتی جا رہی تھی جبکہ آنسو اسکی آنکھوں سے خودبخود نکل رہے تھے۔
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ یہی فیصلہ لینا چاہتی تھیم مگر اب وہ قبول کیوں نہیں کر پا رہی تھی۔
اچانک اسکے سر سے ایک کاغز ٹکرایا تھا، جسے کھول کر اسنے پڑھا تھا اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!جی تو آج کی قسط کیسی لگی بتائیں جلدی سے مجھے اور یہ سیکنڈ لاسٹ قسط تھی لاسٹ قسط سے پہلے آپ سب لوگ پورے ناول کا ایک اچھا سا پیارا سا لمبا سا ریویو لکھیں جس میں بتائیں ناول کے سٹارٹ پہ سٹوری کے بارے میں کیا سوچا تھا؟ کس کس کو حائمہ کا ہیرو پہلی قسط میں عون لگا تھا؟ کونسا کردار سب سے برا اور سب سے اچھا لگا؟ اس فنی سے سٹوری میں چھپے کچھ اہم پیغام کو سے لگے آپ کو اور ہر کیریکٹر کے بارے میں بتائیں اچھی اور بری بات اور پھر میری غلطیاں بتائیں تا کہ میں اگلے ناول میں نہ کروں اور جلدی سے ریویو دیں تا کہ میں پھر جلدی ہی آپ کو آخری قسط دے دوں
سحر قادر!!

BINABASA MO ANG
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...