عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 16####
💞💞💞💞💞💞💞💞"ارے آغا جانی آپ کو ویسے کیا سوجھی ہارٹ اٹیک کی؟ ایک طرف میں بیچارہ دو بوڑھوں کو دیکھ رہا تھا پہلے ہی اور حائمہ کو بھی۔ اسکے علاوہ ایک کم عقل کو بھی سمجھا رہا تھا۔ اوپر سے آپ نے اپنی تیمارداری کی ذمہ داری بھی مجھ معصوم کو سونپ دی۔" عون اس وقت گھر پر لاؤنج میں آغا جانی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ جبکہ سب اسکی باتوں پر ہنس رہے تھے من
حائمہ کو دو دن بعد ڈسچارج کیا گیا تھا اسلئے آج سب گھر پر ہی تھے۔
حائمہ کے سر پر ایک پٹی اور بازو پر پلستر ابھی بھی موجود تھا۔ اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھی۔
"برخوردار ذرا دو بوڑھوں پر روشنی ڈالیں تاکہ مجھ ناقص العقل کو بھی معلوم ہو انکی ذاتِ گرامی کے بارے میں۔" آغا جان نے اپنے ہشاش بشاش لہجے میں اس سے سوال کیا۔
جس پر وہ عباس صاحب اور اکرم صاحب کی طرف اشارہ کر کے بولا
"ارے نفیل آفندی صاحب ..........." آغا جانی نے اسے گھورا تو گڑبڑا کر بولا" آغا جانی یہ میرے بابا اور چچا بوڑھے ہی تو ہیں۔"
جس پر آغا جانی نے قہقہہ لگایا تھا۔
"اور میں کیا ہوں؟" آغا جانی نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
"ارے آپ تو میری جان ہیں نا!" عون نے انکے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔
" ویسے یہ کم عقل کون ہے اور کیوں؟" ابکی بار صوفیہ بیگم بولی ورنہ وہ سب تو چپ کر کے دادا پوتے کی باتیں سن رہے تھے۔
"کمعقل بگ بی ہیں اور وہ اسلئے ہیں کہ اتنی اچھی بیوی کو سنبھال نہ سکے۔" عون نے کہا مگر اب جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
اکرم صاحب نے اپنے لہجے کو حتیٰ الامکان عام بناتے ہوئے سرسری سے انداز میں ارحان سے کہا "ارحان یہ کام کب نبٹا رہے ہو تم؟"
"چاچو وہ....... میں......." ارحان اب خاموش تھا۔ جبکہ عون آغا جانی کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہوئے انھیں ارحان میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں بتا رہا تھا جس پر وہ مسکرا دئیے تھے۔
"ارحان صاف صاف بات کرو میں اپنی بچی کو یوں نہیں چھوڑ سکتا۔" اکرم صاحب نے کہا۔
"چاچو میں بھی اسے نہیں چھوڑ سکتا۔" ارحان نے انکے پیچھے پیچھے اسی لہجے میں کہا جس پر سب خوش ہوئے تھے. شازیہ اکرم کو بھی بہت خوشی ہوئی تھی مگر اکرم صاحب اسے بولے
"میری بیٹی کی زندگی ہے کوئی مذاق نہیں. ایک بار تم فیصلہ کر لو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔"
"چاچو میں سنجیدہ ہوں یقین کریں آئندہ کبھی شکایت کا موقع نہیں دونگا۔" ارحان نے منت کرنے والے لہجے میں کہا جس پر شازیہ اکرم بولیں "بچہ غلطی مان رہا ہے تو چھوڑ دیں۔"
اکرم صاحب نے آغا جانی کی طرف دیکھا اور سر نیچے کر کے بولے "جہاں اتنا وقت دیکھ لیا کچھ اور عرصہ بھی دیکھ لیں گے لیکن آخری فیصلہ حائمہ کرے گی۔ اگر کچھ عرصے میں یہ حائمہ کو نہ منا سکا تو پھر میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہی کھڑا ہونگا اور ابھی بھی سب خود کرنا ہوگا اسے کوئی بھی میری بیٹی پر دباؤ نہ ڈالے۔"
یہ کہہ کر اکرم صاحب اٹھ گئے جبکہ آغا جانی کا سر جھک گیا کیونکہ حائمہ کو اس شادی کیلئے راضی کرنے والے تو وہی تھے اور انھوں نے اکرم صاحب کو خود کہا تھا کہ وہ خوش رہے گی مگر ارحان نے انکا مان توڑ دیا۔
" ارے میری تو کوئی سنے نا درمیان میں ہی روک دیا۔ ابھی تو میری دلہن بھی لانی ہے۔" آغا جانی آپ نے عون نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کیلئے کہا۔
"چل ہٹ بے شرم کہیں کا!" آغا جانی اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر بولے جس پر وہ منہ بنا کر بولا "اب ایسے مذاق تو نہ کیا کریں آغا جانی۔زور سے لگتی ہے۔"
YOU ARE READING
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...