عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 12####
💞💞💞💞💞💞💞💞"ڈاکٹر صاحب اب کیسی ہے وہ؟" ارحان نے ڈاکٹر کو باہر آتے دیکھ کر پوچھا۔
"ارحان کہاں ہے حائمہ کیا ہوا ہے اسے؟" اکرم صاحب بھی عون کے ساتھ پہنچے تھے۔
"دیکھیں مریضہ اب ٹھیک ہے لیکن ابھی بے ہوش ہے انکی یہ بے ہوشی دو تین گھنٹے تک کی ہو سکتی ہے۔" ڈاکٹر نے کہا۔
"لیکن ڈاکٹر ہوا کیا ہے کوئی وجہ بھی تو ہو گی؟" اکرم صاحب نے پوچھا جبکہ ارحان سر جھکائے ایک طرف کھڑا تھا عون ملامتی نظروں سے اپنے بگ بی کو دیکھ رہا تھا۔
" انکی اچانک طبیعت خرابی کی وجہ خوف اور ذہنی دباؤ ہے۔ خوف تو انھیں کسی چیز سے ہوا میرا مطلب ہے فوبیا وغیرہ اسکی وجہ ہو سکتی ہے اور ذہنی دباؤ کی وجہ آپ کو معلوم ہونی چاہئے کیونکہ جب وہ آئیں تھیں تو انکا بی پی ہائی تھا۔" ڈاکٹر یہ بتا کر چلا گیا۔
"چاچو آپ بیٹھ جائیں آپکی طبیعت خراب ہو جائے گی۔" عون نے انھیں کہا۔
لیکن وہ ارحان کے سامنے کھڑے ہو کر بولے" کیوں ہوا یہ سب؟"
" چاچو وہ اسے لفٹ سے فوبیا ہے آپ کو پتہ ہے بس لفٹ میں جانے کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہو گئی۔" ارحان کا سر ہنوز جھکا ہوا تھا اور لہجہ پست تھا۔
" ارحان آفندی آپ یہ بتائیں گے کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ اسے لفٹ سے فوبیا ہے آپ اسے کیوں لفٹ میں لے کر گئے؟ اور کیوں میری بیٹی کو ذہنی دباؤ کا شکار کر دیا ہے؟ اگر یہ رشتہ پسند نہیں تھا تو انکار کر دیتے۔" اکرم صاحب نے ارحان کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
انکے لہجے میں اجنبیت تھی ارحان انکی آنکھوں کا سرد تاثر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
حیران تو عون بھی ہوا تھا کہ چاچو کو کیسے اس رشتے کی حقیقت کا علم ہوا۔
" چاچو آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔" ارحان کی آواز کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
"جھوٹ مت بولو ارحان آفندی اکرم صاحب کا ہاتھ ارحان پر آٹھ چکا تھا مگر وہ عون نے روک لیا تھا۔
" چاچو آپکا بی پی ہائی ہو رہا ہے۔ آئیں بیٹھیں یہاں۔" عون انھیں لے کر بینچ پر بیٹھ گیا۔
" چاچو میرا یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہے آپ کو ضرور ...." ارحان ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ عون بولا "ارحان بھائی چلے جائیں ابھی آپ چاچو کی حالت دیکھیں آپ۔"
ارحان عون کے الفاظ سن کر حیران رہ گیا تھا بچپن سے آج تک وہ عون کے منتیں کر چکا تھا کہ وہ اسے ایک دفعہ بھائی بولے لیکن عون ہمیشہ اسے بگ بی ہی بلاتا تھا لیکن آج اسکا بھائی کہنا عون کو یوں لگا کہ وہ اسکا نہیں حائمہ کا بھائی ہے مگر وہ وہاں سے چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
گزشتہ رات حائمہ جب اپنے نام کی پکار سن کر پلٹی تو سامنے اکرم صاحب کو کھڑے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔
اکرم صاحب اسے لے کر نیچے نرم گھاس پر بیٹھ گئے۔
"حائمہ میری بچی تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا سب؟" اکرم صاحب اسکا ہاتھ تھام کر بولے۔
"کیا بتاتی ابو بتانے کو کچھ تھا نہیں۔ زندگی میں امی کہتی ہیں آج تک انھیں سکھ نہیں دیا تو پھر اپنا دکھ کیوں دیتی آپ کو؟" حائمہ نے گلو گیر لہجے میں کہا۔
"بیٹا ماں تو کچھ بھی کہہ دیتی ہے غصے میں اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ آپ سے محبت نہیں کرتی اور تمھیں کسنے کہا کہ ہماری بیٹی ہمیں دکھ دے سکتی ہے۔ سب بتاؤ۔" مجھے اکرم صاحب نے اسے کہا۔
حائمہ سر نیچے کر کے انھیں سب بتانے لگی جسے سن کر انکے اعصاب تن گئے تھے۔
"بس حائمہ اب اور نہیں میں وکیل سے کہہ کہ خلع کہ کاغذات بنواتا ہوں۔ تم لاوارث نہیں ہو۔" اکرم صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے۔
حائمہ انکے پیچھے اٹھی اور انکا ہاتھ روک کر بولی "نہیں ابو میں ایسا نہیں چاہتی۔" آنسو اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔
"حائمہ میرا بہادر بچہ کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو؟"اکرم صاحب بے بس ہوئے تھے۔
" ابو پلیز یہ میرے بس میں نہیں ہے آپ سب جان چکے ہیں۔" حائمہ نے لجاجت سے کہا کیونکہ وہ تقسیم ہو کر رہ گئی تھی۔
"جیسا تم چاہو لیکن یاد رکھنا جن اپنوں کی خوشی کی تم بات کر رہی تھی وہ تمھیں خوش دیکھ کر ہی خوش ہونگے۔" اکرم صاحب نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔
"ابو آپ کسی کو یہ بات مت بتائیے گا۔" حائمہ نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا گئے اور اسکے ماتھے پر بوسہ دے کر چلے گئے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
" کیا ہوا ہے حائمہ کو؟ کیسی ہے وہ؟" شازیہ اکرم نے عون کو فون کر کے پوچھا۔
"چچی وہ بلکل ٹھیک ہے۔شام تک گھر آ جائے گی۔" عون نے ان کی پریشانی دور کی۔
"سچ کہہ رہے ہو نا؟ کوئی مسئلہ تو نہیں؟" شازیہ اکرم بہت فکر مند تھیں۔ انکی پریشانی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
" جی چچی وہ بلکل ٹھیک ہے۔ ہٹی کٹی ہے۔" عون نے اپنا لہجہ ہشاش بشاش رکھتے ہوئے کہا۔
" اچھا یہ لو مہوش سے بات کرو۔" شازیہ اکرم نے مہوش کو فون دیا۔ جو حائمہ کی طبیعت کا سن کر آئی تھی۔
" ہاں عون کیا ہوا تھا؟" مہوش نے پوچھا۔
عون نے اسے سارا واقعہ سنایا جسے سن کر مہوش کو بھی بہت افسوس ہوا۔
- - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - -
ہسپتال سے واپسی پر اکرم صاحب حائمہ کو اپنے کمرے میں لے آئے تھے۔
آغا جانی، صوفیہ بیگم، عباس آفندی، شازیہ اکرم، مہوش ساجد، اور شمائلہ آفندی سب ہی اس کیلئے بہت پریشان تھے۔
ابھی عون اپنے کمرے میں گیا تھا۔ اسنے آج حائمہ کو اتنا ہنسایا تھا کہ جسکا حساب نہیں۔
جبکہ ارحان اپنے کمرے میں بند تھا اسے کل رات کی گفتگو یاد آ رہی تھی۔
"آ گئی تم میرے دماغ پر سوار ہونے؟" ارحان نے گزشتہ رات اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔
"ارحان آپ صاف صاف بتائیے کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟" حائمہ کے سر میں اس وقت رونے کی وجہ سے شدید درد تھا، جو اسکی آنکھوں سے واضح تھا جو کہ سرخ ہو رہی تھیں۔
"جو میں چاہتا ہوں وہ تم جانتی ہو، تو پھر جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی تم میری؟" ارحان نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا۔
" آغا جانی نے وقت دیا تھا نا ہمیں وہ پورا ہونے پر آپ نے ہی فیصلہ کرنا ہے۔ تو پھر کیوں ڈر رہے ہیں؟ کہیں یہ ڈر تو نہیں کہ آپ کی ہار ہو جائے گی۔" حائمہ نے طنزاً کہا۔
"ہارنا نہیں سیکھا ارحان آفندی نے لیکن اب میں تمہیں مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ بچپن سے ہر کسی کے منہ سے حائمہ حائمہ سن کر میں تھک چکا ہوں۔ اب اور نہیں میرا بھائی، میرے ماں باپ تک تمہارے گن گاتے ہیں۔ میرے حصے کا وقت بھی تم نے لیا ہے اور اب میری زندگی تباہ کر رہی ہو۔" ارحان نے اسے سختی سے بازو سے پکڑا۔
"ارحان چھوڑیں درد ہو رہا ہے۔" حائمہ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔
" اور اگر نہیں رکھنا یہ رشتہ تو کچھ ایسا کریں کہ آپ کو جواز مل جائے اسے ختم کرنے کا۔" حائمہ نے اسے کہا۔
ارحان نے اسکی بات سن کر کہا "بس دو ہفتے میں یہ قصہ میں تمام کروں گا۔ اور اسے زور سے پیچھے دھکا دیا جسے وہ بمشکل سہار پائی تھی۔
وہ باتیں یاد کر کے ارحان نے اب سگریٹ سلگا لی تھی۔
.- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
"ابو مجھے میرے کمرے میں جانا ہے۔" حائمہ نے کہا وہ کب سے یہی بات کئے جا رہی تھی ۔
"حائمہ بچے کیوں ضد کر رہی ہو؟" اکرم صاحب اسکی ضد سے تنگ آ چکے تھے۔ وہ اسے ارحان کے پاس بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔
"کیوں نہیں جانے دے رہے بچی کو؟" شازیہ اکرم نے پوچھا۔
"بس میں اسکا خیال خود رکھنا چاہتا ہوں۔" اکرم صاحب نے بات بنائی۔
"ابو ارحان ہے نا وہاں۔" حائمہ نے کہا۔
" اچھے سے جانتا ہوں کہ وہ ہے وہاں۔" اکرم صاحب نے الفاظ چبا کر کہا۔
"اوہو اگر جانا چاہتی ہے تو جانے دیں۔" شازیہ اکرم صاحب نے اسے جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
" تم شادی کر رہی ہو؟ اس لنگور کزن سے!"عون مہوش کے سر پر جا کر کھڑا ہوا تھا۔
"ہاں خود ہی تو کہہ رہے تھے کہ ساتھ شادی کرتے ہیں۔" مہوش نے مسکراہٹ دبائی۔
"ہاں تو ساتھ شادی کرنے کو کہا تھا اس لنگور سے نہیں۔" عون نے تپ کر کہا۔
"میرا منگیتر ہی ہوا نا! اسے یاد آ گیا کہ میں اسکی منگیتر ہوں۔" مہوش نے بولا تو عون بولا "وہ سب کیا تھا؟"
"کیا؟" مہوش نے بھولپن سے پوچھا۔
" وہ جب سڑک پر اکیلی کھڑی تھی تم۔تمہاری گاڑی خراب تھی اور کچھ لڑکے تمہیں تنگ کر رہے تھے۔" عون نے کہا ۔
"اچھا پھر؟" مہوش نے ابرو اٹھائے۔
" تو جب میں وہاں پہنچا تو تم نے مجھے اپنا منگیتر بتایا تھا۔ یاد کرو ایک سال پہلے کی بات ہے۔" عون نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
" ارے یار وہ تو مصلحتاً کہا تھا نا سمجھا کرو۔" مہوش نے ہنسی روکی۔
" جیسے بھی کہا تھا۔مصلحتاً کہا تھا یا پھر خصلتاً کہا تھا۔ اب میں ہی منگیتر ہوں اور میں ہی تمہارے ساتھ شادی کروں گا۔ کرتا ہوں پھپھو سے بات مذاق ہو رہا ہے کوئی یہاں؟" عون غصے سے کہتا چلا گیا۔ جبکہ پیچھے مہوش اسکے تیور دیکھ کر حیران تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
حائمہ کمرے میں داخل ہوئی تو ارحان بیڈ پر لیٹا ہوا تھا بازو سر پر رکھا ہوا تھا۔
وہ چپ چاپ جا کر صوفے پر لیٹ گئی۔
دو دن بعد ارحان اسکے ساتھ ایک بزنس پارٹی پر گیا۔ جس پر حائمہ نے سفید کرتا اور کیپری پہنی ہوئی تھی۔ ساتھ سفید دوپٹہ جو اچھے سے سیٹ کیا ہوا تھا۔
"ہائے ارحان!"
"اسلام علیکم مس خان!" ارحان نے اس لڑکی سے کہا جو بزنس ٹائیکون خان فاروقی کی بیٹی تھی۔
"یہ لڑکی کون ہے؟ سیکرٹری ہے کیا؟" اسنے ارحان کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جسے بڑی مہارت سے حائمہ نے پکڑتے ہوئے کہا "میں حائمہ ارحان آفندی ہوں۔"
"ارحان یہ سچ کہہ رہی ہے؟" اسنے پوچھا۔
" جی مس خان آپ ملک سے باہر تھیں جب میری شادی ہوئی۔ اچھا میں بعد میں بات کرتا ہوں۔" ارحان یہ کہہ کر دوسری طرف چلا گیا۔
"ارے رمشا تم کیا کر رہی ہو..." ثناء جو اپنے والد کے ساتھ آئی تھی حائمہ کو مس خان کے ساتھ دیکھ کر چونکی۔
" حائمہ کیا تم ارحان کے ساتھ آئی ہو؟" ثناء نے پوچھا۔
" ہاں اور کسکے ساتھ آؤں؟" حائمہ نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔
" اوہ میں سمجھی ڈرائیور کے ساتھ آئی ہو!" ثناء نے طنز کیا۔
" میری شادی ڈرائیور سے نہیں ہوئی۔" حائمہ نے دانت پیسے تھے۔
"ہاں لیکن جس سے ہوئی ہے وہ بھی زبردستی ہوئی ہے۔" ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر مس خان بولی" واقعی؟"
" ہاں نا رمشا زبردستی گلے کا ہار بنی ہے یہ۔" ثناء نے کہا ۔
حائمہ وہاں سے ہٹ گئی۔ لیکن پیچھے رمشا کی آواز آئی تھی "نخرہ تو دیکھو ذرا یہ تو کہیں سے بھی ارحان آفندی کے قابل نہیں اسے تو ڈریسنگ سینس بھی نہیں۔"
"ارحان گھر چلیں!" حائمہ ارحان کو کھینچ کر گاڑی تک لائی جس پر وہ بہت غصہ تھا۔"
وہ پریشان تھا گھر میں کوئی اس سے بات نہیں کر رہا تھا اور اب سب کے سامنے حائمہ کا اسطرح کرنا اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔"
" آغا جانی؟ کہاں ہیں سب؟" ارحان اسکا ہاتھ پکڑ کر لاؤنج میں آیا۔ اسنے اتنے زور سے حائمہ کا ہاتھ پکڑا تھا کہ اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
" کیا ہوا ہے؟" عباس صاحب اور سب لاؤنج میں آئے۔
ارحان آغا جانی کی طرف مڑا اور بولا" آپ نے کہا تھا کہ جو فیصلہ کروں گا قبول ہوگا۔ تو میرا فیصلہ یہ ہے کہ میں مزید یہ رشتہ برداشت نہیں کر سکتا۔"
"ارحان!" صوفیہ بیگم چلائی تھیں۔
"بس میں وکیل سے کہہ چکا ہوں کہ طلاق کے کاغذات بنا دے۔" ارحان نے کہا حائمہ نیچے گرنے لگی تھی عون نے اسے پکڑا تھا۔
"تم پر کوئی زبردستی نہیں جو مرضی کرو تم بلا لو وکیل کو ایک ہفتے میں کام ختم کرو تم۔" آغا جانی نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔
باقی سب ابھی تک حیران و پریشان تھے۔
حائمہ نے آغا جانی کی طرف دیکھا۔ اسکی نظروں میں شکوہ تھا اسی کی ذات اس سب میں تماشہ بنی تھی۔ کسی کی خواہش پوری کرنے کیلئے اور کسی کی انا کی تسکین کیلئے وہ بھاگ کر کمرے میں بند ہو گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"بس اس کو ختم کر دو حائمہ آفندی کی کہانی اتنی ہی تھی۔" فون پر سے آواز آئی۔
"میرا تو اکرم آفندی سے زمین کا جھگڑا ہے۔ لیکن حائمہ آفندی سے تمہاری دشمنی کی وجہ؟" اس شخص نے پوچھا۔
ک"ام کرو پیسہ مل جائے گا فالتو سوال نہیں آگے سے!" فون کاٹ دیا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!Stay tuned!!!
Aj to long epi di he surprise me

VOUS LISEZ
عیدِ زندگی (مکمل)
Comédieحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...