عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر####EPISODE 15####
💞💞💞💞💞💞💞💞ارحان بھاگتا ہوا ہسپتال کے کوریڈور میں آیا تھا۔
"عون کیا ہوا ہے؟" ارحان نے سانس بحال کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
عون نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولا "آغا جانی کو ڈاکٹر نے ڈسچارج کر دیا ہے انھیں گھر لے جائیں اور پھر یہاں آئیں۔"
ارحان بس سانس بھر کر رہ گیا اور آغا جانی کو گھر لے گیا جو سارا راستہ خاموش رہے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
آغا جانی کو انکے کمرے میں چھوڑنے کے بعد وہ جب اوپر اپنے کمرے میں جانے لگا تو چچی کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اندر داخل ہوا۔
شازیہ اکرم مصلے پہ بیٹھی دعا مانگ رہی تھیں۔ ارحان انکے ضبط پر حیران تھا انھوں نے اسے ایک لفظ تک نہیں کہا تھا۔
شمائلہ آفندی، مہوش، صوفیہ بیگم اور علی کے سامنے بھی وہ خود پر ضبط کرتی رہی تھیں لیکن وہ اب رو رو کر دعا مانگ رہیں تھیں۔ رات کو جب وہ آیا تھا وہ تب بھی مصلے پر تھیں اور اب بھی وہ ویسے ہی دعا مانگ رہی تھیں۔
"چچی!" اسنے انھیں پکارا.
انھوں نے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے اور پھر اسکی طرف دیکھ کر بولیں "آؤ بیٹا کیسی ہے وہ؟"
ارحان انکی آنکھوں میں موجود اپنی مرضی جواب سننے کی خواہش دیکھ کر منہ پھیر کر بولا "چچی ابھی کچھ معلوم نہیں."
شازیہ اکرم کے چہرے پر ایک دم اداسی چھائی تھی۔
"چچی آپ رات سے ایسے ہی بیٹھی ہیں طبیعت خراب ہو جائے گی۔ آرام کر لیں۔" ارحان انکے نیچے بیٹھتے ہوئے بولا۔
"ارحان میں ماں ہوں اسکی بہت ضبط کر رہی ہوں۔ لیکن میرا دل پھٹا جا رہا ہے. میری معصوم بچی نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ میں کیسے اٹھ جاؤں میں اپنے رب سے آج اپنی دعا قبول کروا لوں پھر اٹھوں گی۔ مجھے سکون نہیں ہے ارحان میری بیٹی زندگی اور موت کی کشمکش ہے۔ میں اب اسکی زندگی کی دعا بھی نہ مانگوں۔" شازیہ اکرم نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
کچھ دیر توقف کرنے کے بعد بولیں" دیکھنا اللہ اسے ضرور زندگی کی طرف لوٹائے گا۔"
" چچی اتنا یقین ہے آپ کو؟" ارحان نے انھیں کہا۔
" مجھے اپنے رب پہ یقین ہے وہ مجھے مایوس نہیں کریگا۔ وہ مجھ گنہگار کو مایوس نہیں کرے گا وہ تو غفور و رحیم ہے۔ میرا رب تو ناراضگی میں بھی اپنی رحمتیں ختم نہیں کرتا۔" انھوں نے کہاوہ خفا بھی ہو تو محبت کرنا نہیں چھوڑتا
میری رب کی ناراضگی بھی کتنی پیاری ہےوہ پھر سے دعا کرنے میں مشغول ہو گئیں جبکہ ارحان ایک بار پھر ہسپتال کیلئے گھر سے نکل گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
" عون بولو کیا ہوا ہے؟" ارحان نے عون کو کندھوں سے پکڑ کر پوچھا۔
"بگ بی آپ چاچو یا بابا سے پوچھ لیں میں نہیں بتا سکتا۔" عون نے منہ نیچے کر کے آہستگی سے کہا۔
"عون کیا مسئلہ ہے یار؟" ارحان جھنجھلایا تھا۔
اسنے اکرم صاحب کا رخ کیا جو بینچ پر بیٹھے تھے۔
"چاچو کیسی ہے وہ؟" ارحان نے پوچھا۔
انھوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر سر نیچے کر لیا اور بولے" ٹھیک ہے وہ اب تم پریشان مت ہو۔"
انکا انداز نپا تلا تھا۔
ارحان کو یوں لگا جیسے اسے دنیا کی سب سے بڑی دولت مل گئی ہو۔
"چاچو میں..............." ارحان کہہ رہا تھا کہ اکرم صاحب بولے "ارحان بس میں تھکا ہوا ہوں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے میری بیٹی کو وقت پر ہسپتال پہنچایا۔"
ارحان انھیں دیکھتا رہا لیکن پھر ساتھ بیٹھے عباس صاحب کے اشارہ کرنے پر وہ عون کے پاس آیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
عون نے اسے دیکھا تو چہرے پر شرارتی سی مسکراہٹ آ گئی اور وہ بولا "آ گئے آپ؟ سن لیا کہ کیسی ہے وہ۔"
" عون کے بچے!" ارحان نے اسے گردن سے پکڑا اور بولا "عون کے بچے تو خود نہیں بتا سکتا تھا میں پریشان ہو گیا تھا۔"
"کاش بگ بی آپ کو یہ نئی نئی محبت پہلے ہو جاتی۔" عون نے افسوس کرنے والے لہجے میں کہا۔
"یہ کیا نئی محبت نئی محبت لگایا ہوا ہے تم نے؟" ارحان نے اسے پوچھا تو وہ اپنی گردن چھڑاتے ہوئے بولا۔ "دیکھیں آپکی شادی تو ہو گئی اب پرانی لیکن محبت اب ہوئی لیکن عموماً لوگوں کی محبتیں پرانی ہوتی ہیں۔"
" پرانی اور نئی محبت زرا روشنی ڈالو نا اس پر؟" ارحان اب پرسکون تھا۔
"دیکھیں لوگ شادی سے پہلے محبت کرتے ہیں نا وہ پرانی محبت ہوتی ہے اور جو شادی کے بعد کرتے ہیں وہ نئی محبت ہوتی ہے۔" عون نے ایسے کہا جیسے دنیا پر اس سے زیادہ ذہین آدمی موجود ہی نہیں ہے ۔
" اور یہ فلسفہ کس نے بیان کیا ہے۔" ارحان نے دونوں بازو سینے پہ باندھے۔
" عون عباس آفندی۔" نے عون نے کالر جھاڑے تھے۔
" زیادہ بکواس نہیں کرو میں جا رہا ہوں حائمہ کے پاس۔" ارحان اندر کی طرف بڑھتا ہوا بولا.
"بگ بی تنگ نہ کریں اسے وہ بے ہوش ہے ابھی اسے تھوڑی دیر کیلئے ہوش آیا تھا. مگر سر پر لگنے والی گولی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ زیادہ دیر ہوش میں نہیں رہی تھی۔ صرف چاچو اور بابا سے پانچ پانچ منٹ بات ہوئی ہے۔" اسکی عون نے اسے روکا جس پر ارحان لمبی سانس بھرتے ہوئے بولا "اچھا میں بابا اور چاچو کو گھر بھیج دوں وہ ساری رات یہاں رہ کر تھک گئے ہونگے اور تم بھی چلے جاؤ۔"
ہاہا چاچو رہنے ہی نا دیں آپکو اپنی لاڈلی کے پاس اکیلے۔ میں یہی رہوں گا تو ہی وہ گھر جائیں گے۔" عون نے کہا اور پھر خود جا کر چوچو اور بابا کو گھر بھیجا مبادا کہیں اکرم صاحب ارحان کی بات سن کر جائیں ہی نا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
آج اسے ہسپتال میں دوسرا دن ہو چکا تھا شام ہو رہی تھی۔ وہ دوبارہ ہوش میں نہیں آئی تھی ابھی تک۔
ارحان کو عجیب محسوس ہو رہا تھا کیونکہ وہ کبھی چپ نہیں رہتی تھی ہمیشہ ہر کسی کو تنگ کرتی تھی اور رونق لگائے رکھتی تھی اور آج اسے یوں دیکھ کر بہت برا لگتا تھا۔
شازیہ اکرم، صوفیہ بیگم، شمائلہ آفندی، مہوش اور علی دن میں باری باری ہسپتال آئے تھے۔
اب ارحان کا ضبط جواب دے گیا تو وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اسے خود پر ہنسی بھی آئی تھی کہ کل جسکو وہ چھوڑ رہا تھا آج اسکے کیلئے پریشان ہے وہ اب بھی حیران تھا کہ کیسے ایک ہی لمحے میں اسکے دل کی کایا پلٹ گئی تھی۔
"اپنی بیوی کو کہہ دیں جلدی ٹھیک ہو جائے میری شادی رکی ہوئی ہے۔" عون نے پیچھے سے اسے کہا تو وہ اسے آنکھیں دکھاتا حائمہ کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
نجانے کتنی ہی دیر وہ اسے دیکھتا رہا اور پھر وہ اسکا ہاتھ تھام کر اس سے باتیں کرنے لگا جیسے وہ کرتی تھی نجانے کتنی دیر ایسے باتیں کرتا رہا تھا وہ، لیکن اسکے آنکھیں نہیں کھولیں تھیں۔
وہ تھک کر اپنا سر اسکے ہاتھ پر رکھ گیا تھا اسکی آنکھوں سے دو آنسو نکلے تھے۔ وہ شرمندہ تھا ہر چیز کیلئے ہر بات کیلئے معافی مانگنا چاہتا تھا مگر وہ سن نہیں رہی تھی۔
حائمہ کو اپنے ہاتھوں پر نمی محسوس ہوئی تھی۔ اسنے آہستہ آہستہ آنکھیں کھلیں تھیں۔
"بابا!" اسکے منہ سے نکلا تھا۔
"حائمہ میں ارحان ادھر دیکھو۔" ارحان نے اسے ہوش میں آتے دیکھ کر سر اٹھایا تھا حائمہ کا ہاتھ ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا ۔
"آپ کیا کر رہے ہیں یہاں؟" حائمہ نے کمزور سی آواز میں اسے کہا تھا۔
"حائمہ تم یہاں ہو تو مجھے بھی یہیں ہونا چاہیے نا۔" ارحان نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
" نہیں جہاں پر میں ہوں آپکو وہاں بھول کر بھی نہیں ہونا چاہیے۔" حائمہ نے لمبی سانس لی تھی۔
"حائمہ ایسا کیوں کہہ رہی ہو ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔" ارحان نے اسے کہا۔
"آپ مجھے اپنی زندگی سے نکال چکے ہیں شاید۔" حائمہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا.
ارحان حائمہ کی آنکھوں میں شکوے اور ٹوٹ جانے کا احساس دیکھ کر نظریں چرا گیا تھا اور بولا "حائمہ میں شرمندہ ہوں۔"
حائمہ نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے چھڑایا اور بولی "آپ ہر حق کھو چکے ہیں. حائمہ آفندی کو وقت نے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی ہوں میں اور آپ نے ہی کیا تھا کہ حائمہ آفندی جس دن پاؤں پر کھڑی ہو جاؤ گی اس دن چھوڑ دونگا۔" اتنا زیادہ بول کر حائمہ کا سانس پھول رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے زیادہ بولنے سے منع کیا تھا مگر وہ بول رہی تھی اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
"حائمہ پلیز تم زیادہ نہ بولو، آرام کرو۔" ارحان نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ بولی "چلے جائیں یہاں سے آپ خدا کا واسطہ مزید میرا ضبط نہ آزمائیں۔"
ارحان اسکو یوں دیکھ کر بعد میں بات کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے باہر آ گیا جبکہ حائمہ اندر سکون آور ادویات کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد پھر غنودگی میں چلی گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!Stay tuned!!!
سو ریڈر اب عون کی شادی کی تیاری کر لیں جشن ہونے والا ہے جلد ہی ہمارے شہزادے کی شادی کا شادی کے سینز کیلئے اپنی قیمتی آراء ضرور دیں اور
امید کرتی ہوں میرے ریڈرز کو سکھ کا سانس آیا ہوگا حائمہ کو زندہ دیکھ کر تو اب کچھ نظر کرم کر دیجئے گا رائٹر پر بھی اور جلدی سے ریویوز دے دیں اپنے آخر میں آپ کو روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر قسط دیتی ہوں صرف ایک دو بار کچھ ضروری مسائل کی وجہ سے دیر کہ ہے ورنہ میں جلدی قسط دیتی ہوں بتائیں حائمہ کا فیصلہ کیسا ہے اور ارحان کا بدلنا کیسا لگا؟؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

YOU ARE READING
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...