Episode 13

2K 146 267
                                    


عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر

####EPISODE 13####
❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️❣️

"حائمہ میرے بچے!" آغا جانی اسکے پاس آئے تھے۔
"کیوں آئے ہیں آپ؟ آپ بھی جائیں۔ کچھ نہیں لگتا میرا کوئی بھی۔ سب اس ارحان آفندی کے پیارے ہیں۔ میں کسی کو نظر نہیں آتی۔" حائمہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"حائمہ تم ہی ہو جو اسے اس سب سے روک سکتی ہو اور کوئی نہیں روک سکتا۔ کل تم اس سے بات کرنا۔" آغا جانی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
حائمہ نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں ٹوٹ جانے کا احساس تھا۔
" صحیح ہے آغا جانی میں ہی جھکوں گی۔ سبکی خواہش میں ہی پوری کروں گی۔ میری اپنی ذات کہاں ہے مجھے نہیں معلوم! بچپن سے مجھے کونسے سکول میں پڑھنا ہے، کونسے مضمون پڑھنے ہیں، کونسی چیزیں لینی ہیں، سب دوسروں نے کیا۔ کونسی یونی جانا ہے، یہ ارحان نے طے کیا۔ آپ نے طے کیا کہ میری یونی کے رزلٹ وغیرہ اور باقی تمام معاملات میرے ابو نہیں ارحان دیکھے گا۔ میں کہاں ہوں اس سب میں؟ سب مجھے ہی کیوں نہیں سمجھنا چاہتے؟" حائمہ کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
" حائمہ میں نے یہ تو نہیں سکھایا تمہیں کہ اپنے غموں کے اشتہار لگائیں جائیں۔ میری پوتی بہت مضبوط ہے۔ میرا فخر ہے۔ میرا مان رکھتی ہے۔ تم مجھے ہنستی مسکراتی چاہیے ہو۔ جب تک میں زندہ ہوں رونا نہیں۔" آغا جانی نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ دیر انھیں دیکھتی رہی اور پھر دوسری طرف منہ کر کے آنسو صاف کر کے انکی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی "حائمہ کو کوئی غم نہیں توڑ سکتا ہاں؟ چلے چھوڑیں مجھے کوئی حق نہیں کچھ کہنے کا اور میں آپکو خوش نظر آؤں گی لیکن آپ اپنی زندگی کی بات مت کیا کریں۔ کیا پتہ کل کو آپکو اپنی حائمہ دیکھنے کو نہ ملے۔" حائمہ نے کہا آنسو خودبخود اسکے رخسار بھگو رہے تھے۔
"حائمہ ایسی باتیں نہ کیا کرو برداشت نہیں ہوتیں۔" آغا جانی نے اسے گلے لگایا تھا اور کھل کے رونے دیا تھا آنکھیں تو انکی بھی اپنی لاڈلی کو دیکھ کر نم ہو گئی تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"ارحان یہ کیا بد تمیزی ہے جانتے ہو اکرم کا بی پی شوٹ کر کے گیا ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے بہت بڑا ذہنی دھچکا لگا ہے۔ تمھیں ذرا شرم نہ آئی اپنے چچا کا مان توڑتے ہوئے۔ جا کر دیکھو بے ہوش ہے تمہارا اکلوتا چچا تمہاری وجہ سے. ختم کرو یہ تماشہ!" عباس صاحب سخت غصے میں ارحان سے بولے
صوفیہ بیگم اور عون بھی صوفے پر بیٹھے اسے ملامتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
" ختم ہی تو کر رہا ہوں بابا بس طلاق...." ارحان کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے تھے کیونکہ عباس صاحب کا تھپڑ اسکا گال سرخ کر چکا تھا۔
" تم تم اپنے باپ کی بھی نہیں سنو گے۔ یہ تربیت کی ہے تمہاری ہم نے؟" عباس صاحب اب باقاعدہ اس پر چیخ رہے تھے۔
"چھوڑیں بابا انھیں کسی کا احساس نہیں۔ کسی معصوم کی زندگی تباہ کر کے، دوسروں کا مان توڑ کے انھیں خوشی ملتی ہے۔" عون نے عباس صاحب کو سہارا دے کر بٹھایا
" میں غلط ہوں بچپن سے ہر ایک حائمہ حائمہ حائمہ کرتا پھر رہا ہے اور اب بھی میں غلط ہوں۔" ارحان نے اسے کہا۔
بھائی رہنے دیں حائمہ ہی تھی جو میرے لئے مہوش کیلئے سکول میں سب سے لڑتی تھی۔ آغا جانی کی دوا کا خیال وہی رکھتی ہے۔ انکی ساری چیزیں دیکھتی ہے بابا اور چاچو کا بھی کام کرتی ہے۔ کچن کا کام نہیں کرتی لیکن سارے گھر کا کام کر دیتی ہے۔ پھپھو کا خیال بھی کرتی ہے۔ اور آپ نے کیا ہی کیا ہے صرف کتابیں پڑھتے تھے اور کمرہ میں بند رہتے تھے۔ کبھی سوچا چھوٹا بھائی ہے آپکا؟ ماں باپ کے پاس بیٹھوں؟" عون نے اسے جھنجھوڑا۔
" تم مجھے بگ بی کہو! بھائی کیوں کہہ رہے ہو؟ اور اسکی حمایت میں مت بولو۔" ارحان نے الفاظ پر زور دیا تھا۔
" نہیں ہیں آپ میرے بگ بی اور اسکی حمایت میں کیا کروں گا میں تو شرمندہ ہوں اس سے کہ بہن بولا۔ لیکن بہن کو ایک ظالم شخص سے نہیں بچایا۔" عون نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
" ماما دیکھ رہی ہیں آپ کیسے بد تمیزی کر رہا ہے بڑے بھائی سے۔" ارحان صوفیہ بیگم کی طرف مڑا۔
ا"رحان تم شکل گم کرو یہاں سے اپنی۔"صوفیہ بیگم نے اسے کہا جس پر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
"آج کی صبح آفندی ہاؤس میں بلکل خاموشی تھی۔ شمائلہ آفندی اپنے بچوں علی اور مہوش کے ساتھ سب سن کر آفندی ہاؤس آ گئی تھیں۔
"امی ابو نہیں آئے ناشتے پہ؟" حائمہ نے شازیہ اکرم سے پوچھا۔
سب اسے دیکھ کر حیران ہوئے تھے اور ناشتہ کرتا ارحان ایک لمحے کو رک گیا تھا۔
سنجیدہ اور تاثرات سے مبرا چہرہ جس سے کچھ بھی اندازہ لگانا مشکل تھا۔
"بیٹا انکی طبیعت ٹھیک نہیں اور ویسے بھی وہ اب دوسروں کے ساتھ ناشتہ نہیں کرنا چاہتے۔" شازیہ اکرم نے ارحان پر چوٹ کی۔
"اچھا میں انکے پاس جا رہی ہوں۔" حائمہ یہ کہہ کر واپس مڑ گئی۔
"حائمہ جو کام میں نے کہا تھا وہ یاد ہے؟" آغا جانی نے پیچھے سے پوچھا۔
"جی آغا جانی وہ کام میں کر دونگی۔" حائمہ نے مڑ کر کہا ایک نظر اس سنگدل شخص پر بھی ڈالی تھی۔
ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملیں تھیں لیکن پھر ارحان چہرہ موڑ گیا اور وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ دیکر چلی گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
" یہ کیا ہو رہا ہے عون؟" مہوش نے اس سے پوچھا
"مجھے نہیں پتہ بھائی کا دماغ خراب ہے بس!" عون نے منہ بنا کر کہا۔
"بھائی؟ بگ بی کیوں نہیں کہا؟" مہوش نے سوال داغا۔
"بگ بی میرے آئیڈیل تھے مگر اب نہیں رہے اسلئے وہ میرے بگ بی نہیں ہیں۔" عون نے لب بھینچے تھے۔
"حائمہ بہت محبت کرنے لگی ہے ارحان بھائی سے اسکے خود بتایا تھا۔ مجھے وہ برداشت نہیں کر پائے گی۔" مہوش نے کہا تو عون حیران رہ گیا اسے یہ تو معلوم تھا کہ حائمہ رشتہ نبھانا چاہتی ہے لیکن محبت کے بارے میں اسنے نہیں سوچا تھا۔
" یہ حائمہ نے کیا کر لیا ہے اپنے ساتھ؟" عون پریشان ہوا تھا۔
"عون اب سب حالات پر چھوڑ دو اگر ارحان بھیا اسے خوش نہیں رکھ سکتے، تو انکا چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔" مہوش نے کہا لیکن عون نفی میں سر ہلا رہا تھا وہ بہت پریشان تھا اب حائمہ اسکی بچپن کی دوست اور بہنوں جیسی کزن تھی۔ اسکو ایسے دیکھنا اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
" ابو ایسے کیوں لیٹے ہیں اٹھیں بیٹی آئی ہے آپ کی۔" حائمہ نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے اکرم صاحب سے کہا اور انکے پاس بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی ۔
"میں بہت برا باپ ہوں نا؟ اپنی گڑیا کو خوش نہیں رکھ سکا۔" آج انکا لہجہ شکست خوردہ تھا۔
"نہیں ابو بیٹیوں کا نصیب خود تو نہیں لکھا جا سکتا نا اور آپ اس دنیا کے سب سے اچھے انسان ہیں۔ سب سے اچھے باپ ہیں۔" حائمہ نے نرمی سے کہا۔
"میری بیٹی بہت بہادر ہے مگر میں بہت بزدل ہوں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔" اکرم صاحب نے بولا تو وہ انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی
" آپ تو خلع لینے کا کہہ رہے تھے اچھا ہے آسانی سے جان چھوٹی ورنہ وکیل کی فیس دینی پڑتی اور ابو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا زندگی میں اتار چڑھاؤ تو آتے رہتے ہیں۔" حائمہ نے انھیں سمجھایا ۔
" کاش میری بیٹی میں تمہارا نصیب خود لکھ سکتا۔" انھوں نے حائمہ کا ماتھا چوما اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔
" ارے سارا پیار کیا آج ہی کرنا چلیں ناشتہ کریں۔" شازیہ اکرم اندر ناشتہ لاتی ہوئی بولیں۔
" ابو آپ کی بیگم جیلس ہو رہی ہیں!" حائمہ نے کہا اور وہ لوگ ہنس دئے
ناشتہ کے بعد حائمہ اپنے کمرے میں آ کر وضو کر کے مصلے پہ بیٹھ گئی اور نفل پڑھنے لگی وہ ہمیشہ نماز پڑھنے کا بعد دعا بہت مختصر مانگتی تھی۔ مگر آج اسنے بہت لمبی دعا مانگی تھی نوافل پڑھنے کے بعد آج اللہ سے رو رو کے اسنے یا صبر مانگا تھا یا اس شخص کا ساتھ!
رونے کی وجہ سے اسکا سر بھاری ہو رہا تھا لیکن وہ تیار ہوئی اور ارحان کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"ارحان آپ میرے ساتھ چلو گے؟" حائمہ نے اسے کہا۔
ارحان نے اسے دیکھا جسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے بولا "تم کیا چیز ہو یار؟"
"جب الگ ہونا ہی ہے تو غم کیوں منائیں؟ اس جدائی کو یادگار بناتے ہیں۔ چلیں؟" حائمہ نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا ۔
وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے ساتھ چل دیا۔
انھوں نے سارا دن مختلف جگہیں گھومیں۔
- - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - -
" آج اس کا قصہ ختم کر دو۔" فون پر کہا گیا۔
زمین کے معاملے والا شخص بولا "رقم کب ملے گی؟ "
" کام کے بعد!" کہا گیا تھا۔
"حائمہ سے دشمنی کیا ہے؟" اس آدمی نے پوچھا "وہ میری کہانی کی ولن ہے۔" فون کاٹ دیا گیا تھا۔
وہ شخص بندوق لے کر نکلا۔
- - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - -
وہ لوگ پارک میں ٹریک پر چل رہے تھے۔
" مجھے خوشی ہے کہ ہم نے ایک اچھے موڑ پر اس سفر کا اختتام کیا۔ مجھے کوئی شکایت نہیں آپ سے۔" حائمہ نے اسے کہا۔
وہ حیران رہ گیا تھا یہ لڑکی کیا تھی؟
تین..........
"تم بہت اچھی ہو کوئی بھی مل جائے گا تمھیں مگر میں نہیں۔" ارحان نے رک کر کہا۔
دو.........
"مجھے کوئی شکایت نہیں اسلئے صفائی مت دیں آپ!" حائمہ کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ تھی۔
ایک.......
اور تین گولیاں چلیں تھیں دو حائمہ کے بازو پر اور ایک سر پر لگی تھی۔
حائمہ نیچے گری تھی ارحان بوکھلایا تھا۔
حائمہ کا سر اسکی گود میں تھا۔ خون تیزی سے بہ رہا تھا اور حائمہ کا جسم ٹھنڈا پڑ رہا تھا۔
ارحان فوراً اسے لے کر گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔
اسکی نبض صحیح نہیں چل رہی تھی۔
"حائمہ ہاسپٹل پاس ہی ہے ہوش کرو آنکھیں بند مت کرنا۔" وہ اسے کہہ رہا تھا لیکن حائمہ کی آنکھیں بند ہو رہیں تھیں۔
- - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!!

Stay tuned!!!!

عیدِ زندگی (مکمل) Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz