part 4

692 36 6
                                    

گھر میں داخل ہوتے ہی مھر نے اپنی امی کو سلام کیا اوران کے پوچھنے پر بتایا کہ رمشا کے ساتھ آںٔی ہے اور فوراً اپنے کمرے میں گھس گئی مھر نے شکر کیا کہ رباب اسکول کی چھٹی ہونے کو وجہ سے دوسرے کمرے میں سو رہی تھی ورنہ وہ سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتی ۔اسکا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی پسلیاں ٹوڑ کے باہر آجاۓگا فارس کی بولتی نظریں مسلسل مھر کو کنفیوز کر رہی تھیں ۔وہ ناچاہتے ہوۓبھی اسے سوچنے لگ گئی تھی اور اپنی چوٹ کو بھی بلکل فراموش کر گئی تھی شاید یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جس میں چاہے جانے کی تمنا بڑھ جاتی ہے لیکن مھر کو خیال تھا کہ محرم اور نامحرم کے درمیان کا وہ نہیں چاہتی تھی اسے سوچنا لیکن اسکی سوچیں بلکل بے اختیار ہورہی تھیں۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
مھر کوگھر چھوڑنے کے بعد فارس سارے رستے خاموشی سےڈراںٔیو کرتا رہا ۔رمشا نے بھی ابھی بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔گھر پہنچ کر وہ جلد ازجلد اپنے کمرے میں جانا چاہتا تھا لیکن دانیہ کی آواز نے اسکے بڑھتے قدم سیڑھیوں پر ہی روک لیے۔۔۔
ہاۓفارس کیسے ہو ؟ ( دوپٹے سے بے نیاز دانیہ نے پوچھا)
ٹھیک ہو ( فارس نے روکھا سا جواب دیا ۔وہ دانیہ کا اپنی طرف جھکاؤ سمجھتا تھا لیکن شروع سے ہی وہ اسے ایک لاںٔف پارٹنر کی حیثیت سے پسند نہ تھی بولڈ نس تو فارس کو شروع سے ہی اٹریکٹ نہیں کرتی تھی اور دانیہ اچھی خاصی بولڈ تھی جسے وہ اپنی زبان میں کونفیڈنٹ کہتی تھی )
آؤ نا مل کر لنچ کرتے ہیں میں نے ٹیبل بھی سیٹ کر لیا ہے ( دانیہ اسکا رویہ نظر انداز کرتی ہوئی بولی)
نہیں شکریہ میرے سر میں درد ہے تھوڑا ریسٹ کرونگا ۔۔۔۔۔
یہ بول کر بغیر اسکا جواب سنے وہ اپنے کمرے میں چلاگیا اور دانیہ اسکے انداز کے بارے میں سوچتی رہ گئی کیونکہ بھلے وہ اسے پسند نہ تھی لیکن وہ اتنا روڈ وہ کسی سے نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
رات کو ڈنر کے بعد رمشا نے فارس سے بات کرنے کا سوچا اور کوفی بنا کر اسکے روم میں چلی گئی۔۔۔
دروازہ نوک کر کے اجازت ملنے پر اندر گںٔی تو فارس اسے کسی کتاب کے مطالعے میں مشغول دیکھاںٔی دیا ۔۔
ڈسڑب تو نہیں کردیا نہ بھائی ( رمشا نے پوچھا)
نہیں گڑیا آؤ بیٹھو ( فارس کتاب بند کرتے ہوئے بولا)
میں نے سوچا آج اپنے بھائی کے ساتھ کوفی پی لی جاۓ جب سے اپنے ہاسپٹل جواںٔن کیا ہے ہم نے ساتھ بیٹھ کر باتیں نہیں کیں ( رمشا اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھتی ہوںٔی بولی)
سوری گڑیا اپنی مصروفیت میں مجھے احساس ہی نہیں ہوا ( فارس شرمندہ سا بولا )
کوںٔی بست نہیں اب تو ہوگیا نہ ( رمشا اسے شرمندہ دیکھ کر بولی)
ہاں پھر کرو باتیں جتنا دل کرے ( فارس مسکرا کر بولا)
ہممممم بات تو کرنی ہے چلیں پہلے وعدہ کریں کہ جو پوچھو گی سچ بتا ںٔیں گے اور بچی کہہ کر ٹالیں گے نہیں ( رمشا نے پہلے وعدہ لینا ضروری سمجھا کیونکہ فارس کا کوئی بھروسہ نہیں تھا)
ہاہا ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔حوالدارنی صاحبہ لگتا ہے بات کافی سنجیدہ نوعیت کی ہے اسی لیے اتنی احتیاط ہورہی ہے ( فارس نے قہقہہ لگا کر بولا)
وہ سب چھوڑیں نہ بس وعدہ دیں ۔۔۔( رمشا نے ہاتھ بڑھا کر بولا )
اچھا جی پھر وعدہ ( فارس نے مسکراکر اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے بولا)
اپکو مھر کیسی لگتی ہے؟
رمشا کے سوال پر فارس کی مسکراہٹ ایکدم غاںٔب ہوگںٔی پھر سنبھل کر بولا:......
مھر کون تمھاری دوست مجھے کیا پتا کیسی لگتی ہے اچھی ہی ہوگی ۔۔۔۔
وعدہ کیا ہے اپنے بھائی جھوٹ نہیں بول سکتے آپ ۔۔۔۔اور ویسے بھی آپکی آنکھیں اپکی بات کا ساتھ نہیں دے رہیں۔۔۔۔( رمشا بولی)
ہاہاہاہا۔۔۔۔توبہ لڑکی تم کب سے آنکھیں پڑھنے لگ گئیں ۔۔۔۔( فارس بات کو مزاح کا رنگ دیتا ہوا بولا )
تب سے جب سے آپ مسلسل گاڑی میں صرف مھر کو ہی دیکھ رہے تھے۔
رمشا کی بات پر فارس چپ ہوگیا پھر ایک گہرا سانس کے کر سب بتانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔
تمھاری دوست کے معاملے میں۔۔میں بلکل بے اختیار ہوں۔ شروع میں ۔میں نے اسے اٹریکشن سمجھ کر بھولنا چاہا لیکن نہیں ہو پایا اج گاڑی میں بھی میری وجہ سے اسے تکلیف پہنچی جو انجانے میں ہوگیا اور پھر فارس اسے سب بتاتا چلا گیا۔۔۔۔۔
رمشا سن کر مسکراںٔی پھر بولی: تو بھائی اس میں اتنی پریشان ہونے والی کیا بات ہے وہ بھی کیا اپکو پسند کرتی ہے ....
نہیں گڑیا اسے تو پتہ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt