part 10

609 36 5
                                    

فارس کی صبح جب انکھ کھلی تو 11 بج رہے تھے رات کو دیر سے سونے کی وجہ سے جلدی اٹھ ہی نہیں پایا ۔ فریش ہوکر جب باہر آیا تو اماں جی نیچے لاؤنج میں بیٹھی تسبیح پڑھتی ہوںٔی نظر آںٔیں فارس بھی انھی کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
السلام علیکم اماں جی۔۔۔۔!!!!
واعلیکم السلام!!! میرا بچہ لگتا ہے کل بہت تھک گیا تھا اسی لیے ابھی اٹھا ہے ( اماں جی فارس کو محبت بھری نظروں سے دیکھ کر پوچھنے لگیں)
جی اماں جی بہت تھک گیا تھا رات میں بھی دیر سے ہی سویا تھا ( فارس بولتے ہوۓ ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا)
اماں جی اتنی خاموشی کیوں ہے کیا سارے مہمان چلے گںٔے؟ ( فارس نے مھر کے بارے میں پوچھنا چاہا )
نہیں جان سب اپنے کمروں میں ہی ہیں آمنہ اور عباس ذرا مارکیٹ تک گںٔے ہیں ۔ بس صبح رمشا کی سہیلیاں چلی گںٔیں ان کے باپ بھاںٔی لینے آئے تھے میں نے روکا لیکن کل ولیمے میں آنے کا کہہ کر چلی گئیں ( اماں جی اسے تفصیل بتاتے ہوۓ بولیں )
مھر کے ذکر پر فارس کی نظروں کے سامنے کل رات کا منظر گھوم گیا ۔رات میں اسنے کچھ زیادہ ہی اسے ڈرا دیا تھا وہ ایسا چاہتا تو نہیں تھا لیکن جب جب اسے دیکھتا اسے یہ یاد آتا تھا کہ وہ کسی اور سے منصوب ہوگںٔی ہے اور پھر وہ خود پہ قابو نہیں رکھ پاتا تھا کچھ وہ اپنی محبت چھپانے کے لیے بھی اس پر غصہ کرجاتا تھا ۔۔۔۔۔
ایک بات بتاںٔیں اماں جی کیا آپ میرا ہر معاملے میں ساتھ دینگی ؟ ( فارس کچھ سوچتے ہوۓ بولا )
میں کیوں نہیں دونگی اپنے بچے کا ساتھ ویسے کیوں پوچھ رہا ہے کوںٔی بات ہے کیا؟ ( اماں جی اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوںٔیں بولیں )
نہیں کچھ نہیں ایسے ہی بس پوچھ لیا ( فارس انکا ہاتھ تھام کے اپنے سینے پر رکھتا ہوا بولا )
اچھا چل ناشتہ بنواؤ اپنے بچے کے لیے ؟ ( اماں جی نے پوچھا)
نہیں اماں جی کچھ کام ہے ذرا ولیمے کے بعد ہوسپٹل بھی جواںٔن کرنا ہے تو بس اسی سلسلے میں جاریا ہو باہر سے ہی کچھ کھا لونگا ۔۔۔۔۔۔۔
چل خیر سے جا ( اماں جی نے اسکی پیشانی چوم کے دعاںٔیں دیں ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
آج رمشا کا ولیمہ تھا ۔مھر کا بلکل دل نہیں تھا کہ وہ وہاں جاۓ لیکن رمشا جیسی دوست کی ناراضگی بھی مول نہیں لے سکتی تھی اسی لیے تیار ہوگںٔی ۔تیار ہوکر اسنے رانیہ کو کال کی پھر وہ دونوں واجد صاحب کے ساتھ ہی چلی گںٔیں ۔۔۔۔۔
ولیمہ بھی بارات کی طرح ہی بہت بڑے ہوٹل میں رکھا گیا تھا لیکن مھر کو یہ سب دیکھ کر ہی وحشت سی ہونے لگی ۔ اندر اس شخص سے اسکا سامنا ہوگا یہ سوچ ہی اسکو غصے اور کوفت میں مبتلا کرنے لگی ۔
یار رمشا کی تو نکل پڑی ہوٹل بھی کتنا شاندار ہے اور کھانا تو واہ واہ ہوگا ہے نہ ( رانیہ ہوٹل کو دیکھ کر شرارت سے بولی)
رانیہ کی بات پر مھر کے لبوں پہ خوبصورت سی مسکراہٹ آگںٔی۔ اسنے مصنوعی گھوری سے نواز کے اسکو چپ کروانے کی ناکام کوشش کی جو بلکل بے کار گںٔی ۔۔
آج تو میں بھی ایک سونٹا جا مونڈا لب کے ہی جاؤنگی ( اس بار رانیہ کی بات پر مھر کھکھلا کر ہنسی اور ایک دھپ رانیہ کی کمر پہ رسید کی )
یہ خوبصورت منظر سامنے کال پہ مصروف فارس نے باغور دیکھا تھا ۔مھر نے خوبصورت سی سفید رنگ کی کلیوں والی فراک پہنی ہوںٔی تھی جس پہ ہلکا ہلکا سا لیکن نفیس سا گولڈن اور سلور کام ہوا تھا ۔لاںٔٹ سے میک اپ میں بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا ۔اپنےگرد ٹی پنک گرم شال کو اچھے سے لپیٹے فارس کو کوںٔی حور ہی لگ رہی تھی ۔ اسے یوں کھکھلا کے مسکراتا دیکھ فارس کے دل نے ایک بیٹ مس کی ۔۔۔۔
رانیہ نے آج لاںٔٹ بلو کلر کہ خوبصورت سی کرتی پہنی تھی جس پہ ڈل گولڈن سا کام ہوا تھا وہ بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
مھر کی نظر مسکراتے ہوۓ جیسے ہی سامنے خود کو دیکھتے فارس پر پڑی تو فوراً ہی اسنے سنجیدہ ہو کر چہرا جھکا لیا ۔ اسکی اس ادا پر فارس کو جی بھر کے غصہ آیا ۔۔۔۔۔
مھر اور رانیہ رمشا کے گھر والوں سے مل کر اسٹیج
پر چلی گئیں جہاں رمشا لاںٔٹ گرین ،پرپل امتزاج کی میکسی پہنے بیٹھی تھی جس پہ بہت خوبصورت گولڈن کام ہوا تھا ۔ وہ بہت حسین لگ رہی تھی ۔خوشی اسکے آنگ آنگ سے پھوٹ رہی تھی ۔ پسندیدہ ہمسفر کو پالینے کی کیا خوشی ہوتی ہے اسکا اندازہ رمشا کو دیکھ کے باآسانی لگایا جاسکتا تھا۔مھر اور رانیہ کو آتا دیکھ کر وہ خوشی سے اٹھ کر ان کے گلے لگ کے ملی ۔۔۔۔۔۔
عمار بھائی کو تو نے کہاں بھگا دیا؟ ( رانیہ عمار کو اسٹیج پر نا پاکر بولی)
بھگایا نہیں ہے ڈیڈ کسی دوستوں سے ملوانے لے گںٔے ہیں ( رمشا مسکرا کر بولی)
مھر اسکے سامنے ہی کھڑی ہوںٔی تھی ۔۔۔۔
اچھااااا۔۔۔۔ اور تو بڑی حسین ہوگںٔی ہے ایک ہی رات میں ( رانیہ اسے چھیڑنے سے باز نہ آںٔی )
ہاں تو ۔۔تو بھی کرلے شادی اور ہوجا حسین میں نے کیا منع کیا ہے ( رمشا بھی اپنے دلہن ہونے کا خیال کیے بغیر ڈھٹائی سے بولی)
توبہ توبہ کیسے منہ پھاڑ کے ایسے مشورے دے رہی ہے ویسے اب حسین ہونے کی باری مھر کی ہے تیمور بھائی اگلے مہینے کی 1 تاریخ کو اسے لینے آرہے ہیں ہمیشہ کے لیے ( رانیہ کی یہ بات اسٹیج پر آتے فارس نے باغور سنی تھی ۔)
السلام علیکم فارس بھائی کیسے ہیں آپ ؟ ( رانیہ نے فارس کو دیکھ کر پوچھا ) ۔۔۔۔۔
رانیہ کی بات پر مھر نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا کیونکہ فارس لب بھینچے پیچھے ہی کھڑا تھا ۔مھر نہیں چاہتی تھی کہ فارس کو اس بارے میں کچھ بھی پتا لگے ۔۔۔۔۔۔
واعلیکم السلام۔۔۔رانیہ میں بلکل ٹھیک آپ کیسی ہیں؟ ( فارس نے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر جواب دیا ۔اسنے آج بلیک پینٹ کوٹ پہن رکھی تھی ۔بالوں کی جیل سے سیٹ کیے ہوۓ اسکی شخصیت کچھ اور بھی رعب دار لگ رہی تھی )
ہم تو فرسٹ کلاس ہیں ۔۔۔۔
اسی وقت سامنے سے دانیہ بھی آتی ہوںٔی نظر آںٔی جسنے لاںٔٹ پرپل کلر کا خوبصورت گولڈن کام والا لہنگا پہنا ہوا تھا ۔ اس دن فارس کی ناگواری محسوس کر کے دوپٹہ بھی لیا ہوا تھا وہ بھی کافی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ رانیہ کو فارس سے بات کرتا دیکھ اسنے کھاجانے والی نظروں سے رانیہ کو گھورا جس کا اسنے کمال ڈھٹائی دکھا کر کوںٔی نوٹس نہ لیا ۔۔۔۔۔
اور فارس بھاںٔی آپ کب شادی کر رہے ہیں ؟( رانیہ کی بات پر مھر نے اسے گھور کے چپ کروانا چاہا۔رانیہ مھر اور فارس کے بارے میں سب جانتی تھی لیکن عادت سے مجبور تھی😉 )
رمشا مسکراتے ہوۓ یہ سب دیکھ رہی تھی ۔رانیہ کو چپ نہ ہوتا دیکھ کر مھر ایکسکیوز کر کے جانے ہی لگی تھی کہ فارس کی بات نے اسکے قدم وہیں روک دںٔیے۔۔۔۔۔
بہت جلد ماںٔی ڈںٔیر سسڑر ۔۔۔میں نے آپ کی بھابھی دیکھ لی ہے اور سرپراںٔز ہے آپ سب کے لیے وہ ۔۔۔
فارس نے یہ بول کر مسکرا کر دانیہ کی طرف دیکھا اور دانیہ مفتے میں ہی خوش فہمی کا شکار ہوگںٔی۔۔۔۔۔۔۔
کیا بھائی آپ نے مجھے بھی نہیں بتایا کہیں کوںٔی گوری امریکہ میں تو نہیں دیکھ آۓ؟ ( رمشا خفگی سے بولی )
میری گڑیا آپ اپنی شادی میں مصروف تھیں اور ویسے میں یہ تو نہیں بتاؤنگا کہ وہ ہے کہاں۔۔۔۔۔۔
فارس کی بات پر رمشا نے مھر کی طرف دیکھا جو اسٹیج سے اتر کر سامنے ہی اماں جی کے پاس بیٹھی ہوںٔی تھی ۔اسکی دلی خواہش تھی کہ یہ چاند سی لڑکی اسکے بھاںٔی کی ہوتی لیکن تقدیروں سے کون لڑسکا ہے کل ایک دوسرے سے اتنی محبت کرنے والے آج ایک دوسری کی شکل بھی دیکھتے تھے تو اپنی اپنی انا کے خول میں بند ہو کر اکڑ کے نکل جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ دکھی بھی تھی تو دوسری طرف خوش بھی کہ اسکا عزیزوجان بھاںٔی سب کچھ بھلا چکا ہے اور اپنی نںٔی زندگی شروع کرنا چاہتا ہے اور بہتر بھی یہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریٹ فارس بھاںٔی ہمیں ضرور بلاںٔیے گا ( رانیہ مسکراتے ہوئے بولی)
کیوں نہیں ( فارس بھی مسکرا کے بولا)
چل رمشا کھانا لگ رہا ہے میں تو جارہی ہو اور دلہا بھاںٔی بھی آرہے ہیں ( رانیہ سامنے سے آتے عمار کو دیکھ کر بولی جس بلیک ڈنر سوٹ میں بہت شاندار لگ رہا تھا اور ساتھ ہی اپنا سدا کا بھکڑ پن دیکھانا تو بلکل نہیں بھولی تھی)
اسکی بات سن کر سب مسکرا دںٔیے اور باری باری اسٹیج سے اتر گںٔے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل بس کردے رانیہ دیر ہوگںٔی ہےپہلے ہی میں بابا کو کال کرتی ہوں ( مھر کھانے کے بعد بولی)
ایسا کر تو اپنے بابا کو بلالے مجھے تنویر بھاںٔی لینے آںٔیں گے میسج آیا تھا ان کا ( رانیہ منہ میں گلاب جامن رکھتی ہوںٔی بولی)
اچھااا۔۔۔۔چل سہی ہے پھر میں چلتی ہوں ( مھر نے پہلے واجد صاحب کو کال کی۔ رانیہ سے مل کر پھر اسٹیج پر رمشا سے ملنے چلی گںٔی اسکے بعد اماں جی اور باقی گھر والوں سے مل کر اپنی شال اوڑھتی جیسے ہی باہر آںٔی تو سامنے گاڑی سے ٹیک لگائے تیمور کو دیکھ کر کافی حیران ہوگںٔی۔۔۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔آپ ؟؟ ( مھر کو سمجھ نہ آںٔی کہ کیا کہے)
جی میں السلام علیکم کیسی ہیں آپ ؟( تیمور اسے دیکھ کر مسکراتا ہوا پاس چلا آیا ۔مھر کو یوں تیار دیکھ کر اسکی نظروں میں پسندیدگی صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
واعلیکم السلام۔۔۔میں ٹھیک ہوں ( تیمور کی نظریں خود پر محسوس کرتی مھر گھبرا کے بولی)
میں آج ہی آیا ہوں آپکے گھر ملنے گیا تو پتا چلا کہ آپ یہاں آںٔی ہوںٔیں ہیں تو میں واجد انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں اپکو لینے کے لیے ( تیمور نے اسکی جھجھک محسوس کر کے بتانا ضروری سمجھا ۔ ابھی وہ یہی بات کر رہے تھے کہ فارس جو سیگریٹ پینے کی غرض سے باہر آیا تھا ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا دیکھ کر اسکے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا بابا نے بھیجا ہے چلیں پھر ( مھر واجد صاحب کا سن کر حیران بھی ہوںٔی کہ رات کے وقت ایک اجنبی کو کیسے بھیج دیا بھلے وہ منگیتر تھا اسکا لیکن تھا تو نامحرم ہی)
مھر کو تیمور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتا دیکھ فارس نے سلگایا ہوا سیگریٹ غصے میں پھینک کر پیروں کے نیچے ایسے مسلا جیسے وہ سیگریٹ نہیں بلکہ خود تیمور ہو ...........
آپکی یونیورسٹی کیسی جارہی ہے؟ ( گاڑی میں خاموشی محسوس کر تے ہوۓ تیمور بولا)
جی اچھی جارہی ہے کل دوبارہ جواںٔن کرونگی شادی کے لیے چھٹیاں لی ہوںٔی تھیں (مھر نے سامنے دیکھتے ہوۓ بتایا )..
اسی وقت تیمور کی نظر اسکے شال درست کرتے ہوۓ ہاتھ پر گںٔی۔۔۔۔
آپ نے انگوٹھی کیوں نہیں پہنی؟( تیمور کے اس اچانک سوال پہ مھر نے فوراً گھبرا کے ہاتھ شال کے نیچے چھپالیا اگر تیمور کا دھیان ڈراںٔیونگ پر نا ہوتا تو اسے ضرور عجیب لگتا )....
ج۔۔۔۔جی وہ کل ہی کپڑے دھوتے ہوۓ اتاری تھی کہ کہیں خراب نہ ہوجاۓ ( مھر نے جھوٹ بول کر دل میں ہی فارس کو برا بھلا کہا)
اووو۔۔ اچھا یہ بات ہے تو پھر پہن لیجیے گا آپ کو اور مجھے جوڑے رکھنے والی ایک ہی تو چیز ہے ۔۔۔
جی۔۔۔۔( مھر کی اس قدر فرمانبرداری پر تیمور مسکرا کر دوبارہ ڈراںٔیونگ میں مصروف ہوگیا) ۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
رات کے ڈھاںٔی بجے اس وقت سردی بڑھ جاتی تھی ایسے میں وہ اپنے ٹیرس پہ کھڑا سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا۔ اسکے دماغ میں جو جنگ چل رہی تھی اس کے آگے اسے ان سرد ہواؤں کا بھی احساس نہیں ہورہا تھا۔ آج تیمور اورمھر کو ایک ساتھ دیکھ کر اسکو اپنا ہوش بھی نہ رہا تھا پھر وہ زیادہ دیر وہاں نہ ٹھہر سکا اور بغیر کسی کو بتاۓ ریش ڈراںٔیونگ کرتے ہوۓ گھر آگیا ۔ سیگریٹ پیتے ہوۓ اسکی نظر اچانک ہی اپنے ہاتھ پر گںٔی جہاں آج بھی اس چوٹ کا نشان تھا جو مھر کے جانے کے بعد اسنے شیشہ کے اوپر اپنا غصہ نکالا تھا ۔نشان پہ نظر پڑتے ہی اسکے گھنی مونچھوں تلے ایک زخمی سی مسکراہٹ ابھر کے فوراً غاںٔب ہوگںٔی ۔ اسنے سیگریٹ کو ایش ٹرے میں رکھ کر ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا ۔ دل بہت کچھ کرنے پہ اکسا رہا تھا لیکن دماغ ان کے ہولناک نتائج بھی فوراً آگے کر کے اسے کچھ بھی کرنے سے بعض رکھتا ۔لیکن دل کی سننے کے بنا اور کوںٔی راستہ بھی نہیں تھا ۔بلاآخر دل کی ایک سدا پر لبیک کہتے ہوۓ اسنے اپنا فون اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون بجنے کی آواز پر مھر کی گہری نیند ٹوٹی تھی ۔ ساںٔیڈ ٹیبل پہ ہاتھ مار کہ بامشکل نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کو کھول کے فون اٹھایا تو کسی انجان نمبر کو دیکھ کر فوراً کال کاٹ کر دوبارہ کروٹ بدل کے لیٹ گںٔی ۔لیکن کال کرنے والا بھی ڈھیٹ ثابت ہوا آخر کار تنگ آکر مھر نے کال
اوکے کر کےکانوں سے لگالی۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔( مھر نے آنکھیں بند کر کے ہی کال اٹھاںٔی تھی )
تیرے دل میں میری سانسوں کو پناہ مل جاۓ
تیرے عشق میں میری جان فنا ہوجاۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔( اسپیکر سے فارس کی گمبھیر آواز سن کے تو مھر کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گںٔیں اور فوراً اٹھ کے بیٹھ گںٔی نیند تو ایسا لگتا تھا کہ کبھی اسکی آنکھوں میں تھی ہی نہیں)
ف۔۔۔۔فارس ( مھر فوراً گھبرا کے بولی)
زہے نصیب ۔۔۔لگتا ہےتین سال پہلے والی میری آواز کے سحر سے اب تک باہر نہیں آںٔیں تم جو آج بھی پہچان لیا ( فارس اسکی گھبراہٹ محسوس کر کے محظوظ ہوتا ہوا بولا)
ک۔۔۔کیوں کیا ہے اس وقت فون ؟ ( مھر بامشکل اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتی ہوںٔی بولی)
میں نے سوچا تم تو مزے سے سو رہی ہوگی اور میں یہاں تمہاری نفرت میں جاگ رہا ہوں ۔۔۔ویسے کتنی عجیب بات ہے نا کہ اس وقت لوگ اپنے محبوب کی یادوں اور محبت میں جاگتے ہیں اور میں اپنے محبوب۔۔۔۔اووو سوری ۔۔۔سابقہ محبوب کی شدید نفرت میں جاگ رہا ہوں ( فارس اپنی بھاری آواز میں بولتا ہوا آخر میں سنجیدگی سے بولا)
آپ یہ سب بول کر اپنی تین سال پہلے والی غلطی نہیں چھپا سکتے( مھر اپنے پہ قابو پاتے ہوۓ بولی)
ہاۓ میری جان آج بھی ویسی ہی معصوم ہو جیسی تین سال پہلے تھیں چلو خیر اس بات کو بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ابھی ہم اپنے آج کی بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
کیا مطلب ؟( مھر ناسمجھی سے بولی)
مطلب یہ کہ تیمور اسد کو اپنی زندگی سے تم فارغ کروگی یا میں اٹھا کر باہر پھینکو اس انگوٹھی کی طرح؟( فارس کی اس بات پر مھر کو غصہ آگیا) ۔۔۔۔۔
میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی ہوں اور بہتر ہوگا کہ آپ بھی میری جان چھوڑ دیں میں آپ جیسے دوغلے شخص کے ساتھ نہ کوںٔی رابطہ رکھنا چاہتی ہوں اور نہ ہی کبھی اپکی شکل ۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ ۔۔۔جسٹ شٹ !!!( مھر غصے میں بولنے لگی تو بولتی ہی چلی گںٔی زبان کو بریک فارس کی دھاڑ نے لگوائی)
مجھ جیسا شخص ہر وقت ایک ہی رٹ کہ مجھ جیسا شخص ۔۔۔۔مجر واجد بڑے افسوس سے کہنا پڑ رھا ہے کہ تمھیں مجھ جیسے شخص کو ہی برداشت کرنا ہوگا اس کے علاوہ میں تمھارے لیے اور کوںٔی اپشن ہی نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔اپنے باپ کو شرافت سے منع کردو ورنہ ۔۔۔۔۔اس ورنہ کے آگے جو ہوگا یقیناً تمھیں پسند نہیں آۓ گا ۔۔۔۔۔
دماغ تو نہیں خراب ہوگیا اپکا میں کیوں کروں گی منع انھیں ۔ میں اب آپکی ان سو کولڈ دھمکیوں سے نہیں ڈرنےوالی نہ ہی اپنی ماں باپ کی عزت کا جنازہ اٹھنے دونگی چاہے اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے ( مھر بھی حتمی انداز میں بولی )
اسکی بات سن کر فارس کا ایک جاندار قہقہہ بلند ہوا پھر مزید بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔
انڑسٹنگ ۔۔۔۔۔۔ویری انڑسٹنگ یہی بہادری مجھے پسند ہے ہر خطرے کے آگے ڈٹ کے کھڑے ہوجا نے والی بہت مزہ آنے والا ہے میری بہادر چڑیا ۔۔۔۔سی یو سون مھر فارس ( یہ کہہ کر فارس نے کال کٹ کردی اور مھر تو بس اسکی آخری بات پر ہی اٹک گںٔی ۔۔۔مھر فارس....)
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
اگلے دن مھر کی آنکھ دیر سے کھلی تھی ۔ فارس کی رات والی باتوں کو بھاڑ میں ڈالتی جلدی جلدی میں ریڈی ہوںٔی اور سارہ بیگم کی ہزار منتوں کے باوجود بغیر ہی ناشتے کے نکل گںٔی ۔ زندگی واپس اسی روٹین پر آگںٔی ۔ رمشا عمار کے ساتھ ہنی مون کے لیے سوںٔٹزر لینڈ چلی گںٔی ۔رانیہ کا بھی رشتہ آیا ہوا تھا اسکی پھپو کے ہاں سے اور اسکے گھر والے ہاں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مھر کے بھی اپنے گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگںٔیں تھیں ہر آۓدن شوپنگ پہ ساتھ رباب یا کبھی سارہ بیگم زبردستی اسے بھی کھینچ کے لے جاتیں ۔ان سب مصروفیات میں وہ فارس کو بلکل فراموش کر گںٔی تھی ۔وہ خوش تھی اور اس سے زیادہ مطمئن کیونکہ تیمور اسکے ماں باپ کی پسند تھا ۔لیکن انسان تو بہت کچھ سوچتا ہے اور مقدروں میں کیا ہوتا ہے یہ صرف وہ رب العزت ہی جانتا ہے اور مقدر لکھنے والا کبھی غلط نہیں لکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Onde histórias criam vida. Descubra agora