عصر کی نماز ادا کر کے وہ نیچے اماں جی کے پاس ہی چلی گںٔی تھی ۔ دانیہ اور آمنہ بیگم باہر انکے پاس لاؤنچ میں بیٹھے تھے ۔مہر کو آتا دیکھ سب نے اسے خوشی سے اپنے ساتھ بٹھایا پھر شام کی چاۓ بھی ساتھ ہی پی ۔ انکے ساتھ باتوں میں مہر کو وقت کا پتا ہی نہ لگا اور مغرب ہوگںٔی سب اپنے اپنے کمروں میں نماز کی غرض سے چلے گںٔے تو مہر کو بھی ناچار اٹھنا پڑا ۔ مغرب کی نماز ادا کر کے وہ ٹیرس پر جا کر کھڑی ہوگںٔی۔ ٹیرس بہت خوبصورت اور بڑا تھا ۔ باںٔیں جانب دو کرسیاں رکھی گںٔیں تھیں اور انکے بیچ میں ایک گول چھوٹی سی میز تھی جس پر خوبصورت چھوٹا سا گلدان رکھا ہوا تھا ۔ بلاشبہ اس کمرے کی ہر چیز اسکے رہنے والے کی بہترین ذوق کی عکاسی کرتی تھی ۔
جس طرح رات اپنےپَر ہر طرف پھیلاتی جارہی تھی اسی طرح سردی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ فضا میں پھیلی خاموشی میں ٹھنڈی سرد ہواںٔیں عجیب ہی آوازیں پیدا کر رپی تھی ۔۔۔۔۔
سردی کو محسوس کرتی اپنے گرد اچھے سے گرم شال کو کچھ اور بھی اچھے سے لپیٹ لیا ۔ بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی کو سوچتے ہوۓ اسکی حسین آنکھیں نمکین پانی سے بھر گںٔیں ۔ فارس سے ملنا اس سے محبت کرنا پھر بچھڑ جانا لیکن پھر مل کر نفرت کرنا ۔۔۔۔۔۔"نفرت"..... کیا اسے فارس سے نفرت ہوںٔی تھی کبھی ؟ کیا فارس اور خود کو موقع اسنے اماں جی کے کہنے پر دیا تھا یا اسکا دل خود اس بات کا متمنی تھا ؟
نہیں ۔۔۔۔میں نے صرف اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے یہ سب کیا ہے ( خود کی سوچ کی نفی کرتی وہ بولی)
لیکن کیا تم فارس سے نفرت کرتی ہو یا کبھی اس سے نفرت کی تھی ؟اپنے اندر سے آتی آواز کو اسنے فوراً دبا لیا اس بات کا جواب فلحال اسکے پاس نہیں تھا یا شاید وہ خود کو اس بات کا جواب دینا ہی نہیں چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر میں فارس کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے نظر آںٔی ۔ فارس نے گاڑی سے نکل کر غیر ارادںٔی طور پر جب اپنے کمرے کی جانب دیکھا تو وہیں ساکت ہوگیا۔ اس حسین رات کی تاریکی میں کھڑی وہ بلکل چاند کی مانند دمکتی ہوںٔی اسی رات کا حصہ لگ رہی تھی ۔ اسکے سنہری آبشار جیسے بالوں کی کچھ شرارتی لٹیں اسکے حسین چہرے سے اٹکھیلیاں کررہی تھیں اور اسکی بڑی اور حسین نشیلی آنکھیں سامنے فلک پر چاند کو بڑی حسرت سے تک رہی تھیں۔ فارس نے شاید ہی آج سے پہلے اتنا حسین اور مکمل منظر دیکھا ہوگا ۔ وہ بلکل مبہوت سا اسے ہی دیکھے جارہا تھا ۔اسکا دل کیا کہ اس پری پیکر کو اپنا دل چیر کے دنیا بھر سے چھپا کر اس میں قید کرلے ۔ اسکی ساری تھکن اسے دیکھ کر ہی اتر گںٔی تھی لیکن شاید وہ وہاں ہوکر بھی موجود نہیں تھی کیونکہ اسنے فارس کی گاڑی کے حورن پر بھی نیچے نہ دیکھا تھا ۔ ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتا ہوا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا .........
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسنے سامنے ٹیرس کی طرف دیکھا جہاں وہ ہنوز اسی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ زیادہ وہ شروع سے ہی نہیں بولتی تھی لیکن اسے اس طرح گم سم دیکھ کر فارس کو بہت دکھ ہوا لیکن وہ اپنے اس بے لگام دل کا کیا کرتا جو اس کی جھیل سی گہری نشیلی آنکھوں کے سحر سے آزاد ہونے کو تیار ہی نہیں تھا ۔ اسنے بھی اپنے قدم ٹیرس کی طرف بڑھا دںٔیے ۔۔۔۔۔
مہر ( فارس نے اسے نام سے پکارا دل تو کر رہا تھا کہ پیچھے جاکر اسے زور سے خود میں بھینچ لیں لیکن دل کی خواہش پر بندھ باندھتے ہوۓ صرف پکارنے پر ہی اکتفا کیا )
ج۔۔۔۔۔جی ( اپنے نام پر مہر چونک کر پلٹی لیکن فارس کو کھڑا پاکر فوراً غصے آگیا۔وہ ساںٔڈ سے نکلنے لگی تھی کہ اسکی مرمری کلاںٔی فارس کی پکڑ میں آگںٔی۔ اسکی پکڑ اتنی مضبوط تو نہ تھی لیکن اتنی کمزور بھی نہ تھی کہ وہ اپنا ہاتھ چھوڑوا پاتی ۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑیں میرا ( مہر غصے میں اسکی طرف پلٹ کر بولی)
اور اگر نہ چھوڑوں تو ؟( فارس بھی اسکی طرف مڑ کر چیلنجنگ انداز میں بولا)
تو ہاتھ توڑ دوں گی (مہر کی بات پر فارس کا ایک جاندار قہقہہ خاموش فضا میں گونجا جو مہر کی جان اندر تک جلا گیا)
فارس نے اسی وقت اسکی پکڑی ہوںٔی کلاںٔی کھینچی تو وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور سیدھا اسکے کسرتی بازو سے آلگی ۔۔۔۔۔۔
انٹرسٹنگ۔۔۔۔مہر جان اپنے آپ کو تو دیکھو دھان پان سی تو ہو اور باتیں ایسی کہ حشر برپا کردینے والی ( فارس اسکی آنکھوں میں دیکھتا مسکرا کے بولا)
ہا۔۔۔۔۔ہاتھ چھوڑیں میرا ورنہ میں توڑ بھی دونگی ( مہر بھی خود پر قابو پاتی اسکی مسکراتی آنکھوں میں دیکھ کر بولی)
توڑ دو جانِ فارس۔۔۔۔۔ویسے بھی یہ کام تم ہمیشہ سے با خوبی کرتی آںٔی ہو ( اسکے اس انداز پر فارس سنجیدہ ہو کر بولا)
اسکی بات کا مطلب سمجھ کر مہر کچھ پل کے لیے چپ ہوگںٔی لیکن پھر لہجہ مضبوط بنا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا پھر اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ ( اسکے حصار میں کھڑی اسکا یہ نڈر انداز اور بات فارس کو غصہ دلاگیا اس سے پہلے وہ کچھ سخت الفاظ بولتا دروازے کی دستک نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ مہر اس پر ایک نظر ڈالتی اندر کمرے کی جانب بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔
بی بی جی نیچے کھانے کی میز پر آپ دونوں کو بلوا رہے ہیں ( ملازمہ پیغام دیتی نیچے کی جانب بڑھ گںٔی)
فارس بھی اسکے پیچھے ہی کمرے میں آگیا تھا ملازمہ کی بات وہ سن چکا تھا اسی لیے مہر کو خود کو دیکھتا پاکر نظروں کا زاویہ بدل کر بولا۔۔۔۔۔۔۔
تم جاؤ میں چینج کر کے آتا ہوں ( اور اپنے واڈراب کی طرف بڑھ گیا مہر بھی کوںٔی بھی جواب دںٔیے بغیر باہر کی جانب بڑھ گںٔی)
♥️♥️♥️♥️
السلام علیکم۔۔۔۔۔مہر نے نیچے جا کر سب کو سلام کیا۔۔۔۔
واعلیکم السلام بیٹا فارس نہیں آیا کیا( شاہنواز صاحب نے اسکے سلام کا جواب دے کر پوچھا)
چینج کر کر آرہے ہیں ( مہر یہ بول اماں جی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی)
اچھا چلو شروع کرو آپ ( شاہنواز صاحب بولے)
کچھ دیر میں فارس بھی آگیا اور اماں جی کی بلکل سامنے والے کرسی پر بیٹھ گیا ساتھ ہی اسکے دانیہ بیٹھی تھی فارس کو خود کے ساتھ بیٹھتا پاکر خوشی سے سرشار ہوگںٔی ۔ فارس بھی مہر کو دیکھانے کے لیے اس سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہا تھا۔ باقی سب خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے . فارس کو اپنے سامنے بیٹھنے سے مہر سے کچھ کھایا نہیں جارہا تھا لیکن اسکو دانیہ کے ساتھ ہنستا اور باتیں کرتا دیکھ پتا نہیں کیوں اسے برا لگ رہا تھا جب کہ وہ تو ہر حقیقت سے واقف تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قمر میں نے تمھیں آفس میں ہی بتایا تھا کہ کل بہت ضروری میٹنگ ہے جس کے لیے تمھیں تین دن کے لیے اسلام آباد جانا ہے( شاہنواز صاحب کھانے کے دوران ہی قمر صاحب سے بولے)
جی بھاںٔی مجھے یاد ہے (قمر صاحب پلیٹ کی طرف ہی جھکے ہوۓ بولے)
دیکھو قمر تمھاری ناراضگی بجا ہے لیکن جو یہ سب ہوگیا ہے ہم اسے بدل نہیں سکتے غلطی ہماری بھی تھی کہ ہمیں یوں رشتے کے لیے پہلے حامی نہیں بھرنی چاہئے تھی ہوسکے تو ہم سب کو معاف کردو ( شاہنواز صاحب کے بولنے پر قمر صاحب فوراً بولے)
کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ بھاںٔی صاحب ایسا کچھ بھی نہیں ہے آپ معافی مت مانگے ۔۔۔۔۔
ہاں چاچو بابا بلکل صحیح کہہ رہے ہیں میں نے انجانے میں ہی لیکن آپکا چچی کا دل بری طرح توڑ دیا ہے آپ پلیز مجھے معاف کردیں میں یہ سب نہیں چاہتا تھا( فارس فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر قمر صاحب کے قدموں میں بیٹھتا ہوا بولا)
مہر یہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھی فارس کے اس طرح معافی مانگنے پر اسے اچھا لگا کہ اسے احساس ہے لیکن تین سال پہلے دانیہ اور اسکی محبت کا عملی مظاہرہ یاد آتے ہی اسے سب ڈرامہ لگا وہ پھر سے نظریں پلیٹ پر جما چکی تھی ۔۔۔۔۔۔
ارے برخودار اتنے بڑے ہوگںٔے ہو گھوڑے جتنا قد نکال لیا لیکن پچپنا نہیں گیا چلو اٹھو ہم سب نے تمھیں معاف کردیا بس اب مہر بیٹی کو کوںٔی تکلیف نہیں ہونی چاہیے ( قمر صاحب اسکو اس طرح قدموں میں بیٹھتا دیکھ کر بولے)
انکی بات پر سب نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا مسرت بیگم اور دانیہ کو بھی ناچار مسکرانا پڑا ۔ سواۓ مہر کے جو یوں بیٹھی تھی جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو.....
بہت اچھے قمر مجھے تم سے یہی امید تھی۔
انشاء اللّٰہ ہم دانیہ بیٹی کی شادی اس نالاںٔق سے بھی زیادہ اچھی جگہ کریں گے ( شاہنواز صاحب
اور بات پر فارس بھی مسکراتا ہوا اپنی جگہ بیٹھ گیا لیکن دانیہ اندر تک سلگ کے رہ گںٔی۔ مہر نے ان دونوں کے تاثرات دیکھے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہوگںٔے۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد سب نے لاؤنچ میں بیٹھ کر باتوں کے درمیاں کوفی پی ان سب میں وہ مسلسل اماں جی کے پہلو میں چپکی بیٹھی تھی بات کی جاتی خود سے تو ہاں نہ میں جواب دے دیتی ۔ فارس سامنے صوفے پر کوفی کا دھواں اڑاتا کپ لیے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھا بہت گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جب کہ وہ مسلسل اسے ایسے اگنور کیے بیٹھی تھی کہ وہاں وہ ہے ہی نہیں ۔ فارس بہت اچھے سے اسکا یہ گریز سمجھ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کمرے میں آنے سے ڈر رہی ہے اور اسکا یہ ڈرنا جھجکنا فارس کو بہت پسند تھا ۔۔۔۔۔۔
پھر سب آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گںٔے فارس بھی اس پر ایک خاموش نظر ڈالتا اوپر کی جانب بڑھ گیا ۔ جبکہ دانیہ وہیں بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ مہر بچے آرام کرو ( اماں جی نے اسے ساتھ چپکا دیکھ کر بولا)
دانیہ بہت غور سے یہ سب دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اسکی دوپہر والی باتیں اسنے دل پر لے لی ہیں اور اچھا بھی تھا کہ جتنا دور رہتے کام اور بھی آسان ہوتا۔۔۔
نہیں اماں جی مجھے نیند نہیں آںٔی ابھی ( مہر منمناںٔی)
دیکھو مہر جب ایک فیصلہ کر ہی لیا ہے میری جان تو پھر گھبرانا کیوں آخر تم نے اب یہیں زندگی گزارنی ہے نہ ( اماں جی اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں)
اماں جی اگر وہ نہیں جانا چاہتی تو ہمیں اسکے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہیے نا( دانیہ بھی بات میں حصہ لیتی ہوئی بولی)
تو چپ رہ پاگل ہوگںٔی ہے کیا ایسے کیسے چھوڑ دوں جو ہوگیا بہت برا ہوا لیکن بدلا تو نہیں جا سکتا نا اور تو الٹی سیدھی باتیں کرکے اسکا دماغ اور خراب نہ کر ( اماں جی دانیہ کو ڈپٹ کر بولیں تو دانیہ کڑھتی ہوںٔی چپ ہوگںٔی)
مہر اچھے سے سمجھ رہی تھی کہ دانیہ اور فارس ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اسی لیے وہ شاید بول رہی ہے لیکن اگر محبت ہی ہے تو وہ اسکے ساتھ اتنی اچھی کیوں ہے یہ بات مہر کی سمجھ سے باہر تھی ........
لیکن اماں جی......
بس مہر تو کیوں پریشان ہوتی ہے بچے جس اللّٰہ نے آزمائش میں ڈالا ہے وہی رستے بھی بناتا ہے تو بس ہمت کر انشاء اللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا ( اماں جی کے سمجھانے پر مہر صبر کے گھونٹ پیتی اٹھ گںٔی۔ اسے اٹھتا دیکھ دانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا پھر غصے کو دباتی نامحسوس طریقے سے سب کو شبِ خیر کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی )
مہر اماں جی کو کمرے میں چھوڑ کر خود بھی مردہ سے قدم اٹھاتی اوپر کی جانب بڑھ گںٔی......
🔥🔥
وہ مسلسل کمرے میں بے چینی اور شدید غصے کے عالم میں یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی لیکن یہ غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا۔ مہر کا کمرے میں جانا اور شاہنواز صاحب کا اسکی شادی کی بات کرنا اسے کسی طور حضم نہیں ہورہا تھا۔
ڈیم اٹ۔۔۔۔( اسنے زور سے ساںٔڈ ٹیبل پر موجود گلدان اٹھا کر سامنے پھینکا جو قالین ہونے کی وجہ سے آواز نہ کرسکا)
پھر اچانک ہی اسکی نظر اپنے فون ہر پڑی تو اسے دوپہر والا اپنا کام یاد آگیا ۔ فون ہاتھ میں پکڑ کر کچھ منٹ سوچا پھر گہرا سانس لیتی نمبر ملا چکی تھی ۔ بیپ جارہیں تھیں لیکن کال نہیں اٹھاںٔی جارہی تھی آخر کار دوسری بار فون کرنے پر کال اٹھالی گںٔی ......
ہیلو تیمور اسپیکنگ( ایک مردانا بھاری آواز اسپیکر میں گونجی)
ہیلو ( دانیہ نے بولا)
جی کون بات کررہی ہیں ( نسوانی آواز سن کر تیمور نے پوچھا)
آپ مجھے نہیں جانتے لیکن جان جاںٔیں گے میں دانیہ قمر بات کررہی ہوں فارس کی کزن ( دانیہ کے تعارف پر دوسری ساںٔڈ خاموشی چھا گںٔی پھر کچھ دیر بعد تیمور بولا تو آواز میں غصہ واضح تھا)
تو وہ ( گالی) تمھارا کزن ہے .....
نہ نہ مسٹر تمیز کے داںٔرے میں رہ کر بات کریں میں کوںٔی اپکی مہر واجد کی خیر خواہ نہیں ہوں ( دانیہ نے اسکے گالی کے جواب میں بولا)
تم نے مجھے کیوں کال کی ہے اور کہاں ہے وہ مہر ( تیمور اس بار خود پر قابو پاکر بولا)
ہممممم۔۔۔۔۔ مہر تو اس وقت فارس کے ساتھ اسکے روم میں ہے ( دانیہ نے جان کر اس طرح بولا تھا اور توقع کی عین مطابق مقابل بھڑک اٹھا)
کیا بکواس کررہی ہو تم ہاں؟
سچ کہہ رہی ہوں تیمور اسد تھوڑا کڑوا ضرور ہے لیکن ہے تو سچ نا ( دانیہ اسے اور بھڑکاتے ہوۓ بولی)
میں اس گندی بدذات لڑکی کو چھوڑوں گا نہیں میری عزت مٹی میں ملا کے اپنے عاشق سے نکاح کر کے آگںٔی( تیمور دھاڑ کر بولا)
گوڈ ......چھوڑنا بھی مت میں بھی یہی چاہتی ہوں اور اس کام میں میں تمھاری بھرپور مدد کر سکتی ہوں( دانیہ تیر نشانے پہ لگتا دیکھ کر بولی)
کیا مطلب محترمہ تم چاہتی کیا ہو ؟( تیمور اسکی عجیب باتوں کی وجہ سے پوچھے بغیر نا رہ سکا)
فارس شاہنواز۔۔۔۔۔میں صرف اور صرف فارس شاہنواز کو چاہتی ہوں تیمور اسد جسے تمہاری سوکولڈ منگیتر بھگا کے لے گںٔی ( دانیہ چبا چبا کے غصے سے بولی)
اووووو آںٔی سی۔۔۔۔۔۔تبھی تم نے مجھے کال کی ویسے میرا نمبر کہاں سے ملا ؟( تیمور محظوظ ہوتے ہوۓ بولا)
بلکل ۔۔۔اور کہاں سے ملا یہ چھوڑو بس مہر واجد کو میرے رستے سے ہٹانے میں مدد کرو ۔۔۔۔۔ بدلے میں،میں تمھاری مدد کروں گی( دانیہ کام بنتا دیکھ کر بولی)
ہمممممم۔۔۔۔۔بہت ٹھیک جگہ آںٔی ہو دانیہ قمر میں مہر کو چاہنے لگا تھا لیکن اسنے کیا کیا ۔۔۔میرا بس چلے تو میں ابھی اسے شوٹ کردوں ( تیمور ناگواری سے بولا)
جانتی تھی میں کہ تم سب کلوز فیملیز تھے اسی لیے تمھارے دل میں بھی آگ لگی ہوگی اسی لیے چلو پھر کچھ ڈساںٔڈ کرتے ہیں کہیں مل سکتے ہیں کیا ( دانیہ نے پوچھا)
شیور ۔۔۔۔( پھر تیمور نے نام اور جگہ بتا کر کل ملنے کا کہہ کے کال کاٹ دی۔۔۔۔۔۔۔
تیمور تو چاہتا ہی یہی تھا وہ بس موقع کی تلاش میں تھا جو دانیہ کی کال نے اسے فراہم کردیا ۔ دانیہ کی کال اسکے لیے کسی غیبی مدد سے کم نہیں تھی وہ اس پر اتنی آسانی سے اعتبار نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی باتوں نے اسے مجبور کردیا تھا ۔۔۔۔
اس دن مہر کے گھر سے آنے کے بعد بھی اسکا غصہ کم نہیں ہورہا تھا ۔ ذلت ، توہین اور ٹھکراۓ جانے کا احساس اسے کسی طور چین نہیں لینے دے رہا تھا ۔ عاںٔشہ بیگم نے تو وہاں بھی واجد صاحب اور سب کو بہت کھری کھری سناںٔیں تھیں اور گھر آکر اسد صاحب کو بھی سب بتا کر انکی شان میں مزید اضافہ کیا تھا جبکہ ان کے مقابلے میں اسد صاحب بھی واجد صاحب کی طرح بےیقینی کی کیفیت میں تھے انھیں تو یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔۔۔واجد صاحب کے ہرٹ اٹیک کا سن کر وہ جانا چاہ رہے تھے لیکن عاںٔشہ بیگم کی دھمکیاں اور تیمور کی حالت کے پیشِ نظر وہ نہیں جاسکے کونکہ وہ چپ چپ اور گھر میں بند رہنے لگا تھا لیکن اسد صاحب کو اس واقع کا صرف افسوس تھا اور کچھ نہیں جبکہ تیمور کو جتنا حوصلہ دیا جاتا اس کے اندر بدلے کی آگ اور بھڑک جاتی۔۔۔ اس میں کوںٔی کمی نہیں تھی لیکن پھر بھی ٹھکرایا گیا یہ بات اسکے لیے قابلِ برداشت نہیں تھی دوستوں کے ایک بڑے حلقے میں وہ بدنام ہوکر رہ گیا تھا اور اب فارس اور مہر کو زیرک کرنا کا موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
You just wait and watch Meher Faris ........
تیمور غصے سے بڑبڑایا اور ہاتھ میں موجود سیگریٹ کو ہاتھوں میں ہی مسل دیا ........
♥️♥️♥️♥️
مہر کمرے میں آںٔی تو سرد ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیا ۔ اسنے نظر گھما کر دیکھا تو ٹیرس کا دروازہ اب تک کھلا تھا اور ہوا سے پردے لہرا لہرا کر ٹھنڈ کا احساس پیدا کررہے تھے۔ مہر نے فوراً آگے بڑھ کر ٹیرس کا دروازہ بند کیا اور اسکے شیشے کے دروازے پر پردے گرا دںٔیے۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے بڑی تیاری ہورہی ہے پردے وغیرہ ڈال کر خیر تو ہے ؟( اسی وقت فارس کی آواز اسے اپنے پیچھے سے آںٔی جو ابھی واش روم سے نکلا تھا ۔ بلیک ٹروزار اور ساتھ گرے کلر کی گرم فل سلیوز کی شرٹ پہنے جس میں اسکا کسرتی بازو اور چوڑا سینہ واضح ہورہا تھا وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہا تھا۔ مسکراتی انکھوں میں شرارت لیے اپنی ذو معنی بات سے مہر کو گڑبڑانے پر مجبور کرگیا تھا )......
ا۔۔۔۔ایسی کوںٔی بات نہیں ہے وہ سرد ہوا آرہی تھی تو اسی لیے بس ( مہر سر جھکا کر کہتی بیڈ کے داںٔیں جانب سے تکیہ اٹھاتی کاؤچ پر آکر لیٹ گںٔی )۔
فارس خاموشی سے اسکی کاروائی دیکھ رہا تھا ۔ وہ خود بھی بیڈ ہر اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ سکڑ کر اپنی گرم شال خود پر ڈال کے کروٹ پر لیٹی ہوںٔی تھی ۔
صبح تک برف کا چھوٹا سا ٹکڑا بنی ہوںٔی ہوگی تم جس طرح سو رہی ہو ( فارس اسکی شال پر چوٹ کرتا ہوا بولا لیکن وہ ہنوز اسکی طرف سے کروٹ موڑ کر لیٹی رہی ۔ فارس کو اپنا یوں نظر انداز کیے جانا سخت ناگوار گزرا ۔وہ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھا اور اسکے سر پر جا کر کھڑا ہوگیا لیکن مہر کو احساس تک نہ ہوا۔ خود پر کسی کی گرفت محسوس کرکے وہ فوراً پیچھے مڑی لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی فارس اسے اپنے مضبوط بازوں میں اٹھا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ک۔۔۔کیا کررہے ہیں یہ آپ؟ ( مہر فوراً ہاتھ پاؤں مارتی ہوںٔی بولی لیکن فارس چپ چاپ اسے اپنے جہازی سائز بیڈ پر لٹا چکا تھا اور خود بھی اپنی ساںٔڈ جاکر بیٹھ گیا ۔مہرنے فوراً سے پہلے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اسکے دوپٹے کا پلو فارس کی گرفت میں آچکا تھا۔ دوپٹہ کھینچتا دیکھ مہر وہیں بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔۔
اگر ایک انچ بھی ہلی اس جگہ سے تو نقصان کی زمہ دار سراسر تم ہوگی ( فارس کے لہجے میں تنبیع محسوس کر کے وہ وہیں جمی رہی )
اور ہاں آںٔندہ مجھے یا میری بات کو اگنور کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ( فارس ہلکے ہلکے اسکا دوپٹہ اپنے ہاتھوں پر گھما کر بولا لیکن اس بار مہر خاموش نہ رہ سکی)
کیوں ۔۔۔۔کیوں نہ کروں اگنور جب نہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے اور نہ اپکے ساتھ رہنا ہے ( مہر اپنا ڈوپٹہ کھینچتے ہوۓبولی)
میرے ساتھ نہیں تو پھر کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو اس تیمور اسد کے ساتھ ہاں ؟( فارس زور سے اسکا بازو پکڑ کے بولا )
چ۔۔۔چھوڑیں ہاتھ اور ہاں رہ لونگی کسی کے ساتھ بھی لیکن آپ جیسے کم ضرف اور دھوکے باز انسان کے ساتھ نہیں جو دکھتا کچھ تھا اور نکلا کچھ ( مہر اپنا بازو چھڑوا کر سہلاتی ہوئی غصے میں بولی بغیر انجام کی پروا کیے)
اس کی بات پر فارس کا رہا سہا ضبط بھی جواب دے گیا اور وہ اٹھ کر اسکے سر پر جا کے کھڑا ہوگیا ۔ اپنے سامنے اتنے لمبے چوڑے مرد کو دیکھ کر مہر کا حلق خشک ہوگیا جسکو تر کرتی اسکے سامنے ڈٹ کے بیٹھی رہی .....
اچھااا۔۔۔۔کیا دھوکہ اور دوغلہ پن کیا ہے زرا روشنی ڈالیں اپنی بات پر مجھے کچھ یاد نہیں ؟( فارس سینے پر بازو باندھے اطمینان سے بولا)
فارس کی اس بات پر مہر نے اسے حیرت انگیز نظروں سے دیکھا جب کہ مقابل کے اطمینان میں ذرہ برابر کمی نہ آںٔی ۔۔۔۔۔
اچھااا۔۔۔۔ڈاکٹر ہو کر اتنی کمزور یاداشت ہے تو پہلے خود کا علاج کروادیں ( مہر ادھر ادھر دیکھ کر بولی)
یہاں وہاں کیا دیکھ رہی ہو میری آنکھوں میں دیکھ کر بتاؤ مہر فارس کے میں نے کونسا دھوکہ دیا تمھیں ؟( اب کی بار فارس تھوڑا سخت لہجے میں بولا جس سے مہر کی جان جاتی تھی لیکن اسکی اس قدر بے نیازی کہ خود کا کیا یاد ہی نہیں اسے غصہ دلا گیا)
اتنی جلدی کیوں بھول گںٔے ؟؟.....آپکی محبت میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی جب آپ اور دانیہ ایک دوسر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتی فارس نے جھٹکے سے اسکے بال پیچھے سے مٹھی میں لے کر اپنے مقابل کھڑا کیا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اسکا منہ دبوچ لیا جس سے مہر کی ایک خطرناک چیخ نکلی۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بولو کیا میں اور دانیہ ہاں ۔۔۔۔۔۔بولو مہر کیا دیکھا تھا تم نے اس دن؟( فارس پوری قوت سے دھاڑ کر بولا جس سے مہر کا ننھا سا دل بری طرح دھڑکنے لگ گیا اور وہ زارو قطار رونے لگی)
چ۔۔۔چھ۔۔۔۔چھوڑیں مجھے ( مہر بامشکل آنسوؤں کے درمیان میں بولی فارس کا مردانا بھاری ہاتھ اسے اپنے جبڑے میں پیوست ہوتے محسوس ہورہا تھا اور بال ایسا لگ رہا تھا کہ آج جڑ سے نکل آںٔیں گے)
کیوں چھوڑ دوں میں تمھیں تین سال پہلے ہاتھ لگانے پر پی تھپڑ مارا تھا نا۔۔۔ تو میں کونسا تمھاری عزت پر ہاتھ ڈال رہا تھا صرف روک ہی رہا تھا تمھیں لیکن۔۔۔۔ تیمور کے ساتھ تو فل عیاشی کی ہوگی ہاتھ بھی لگایا ہوگا نا ..( فارس کی تیر جیسی بات پر مہر نے تکلیف سے آنکھیں میچ لیں )
نہیں مہر فارس کھولو ان آنکھوں کو کبوتر کی طرح بند کرنے سے خطرہ نہیں ٹلے گا تم میری بیوی ہو فارس شاہنواز کی بیوی ہو تمہیں کیا لگتا ہے میں نے شادی تمھارے نام نہاد عشق میں کی تو بلکل غلط ہو میں نے تمھیں یہ شادی خون کے آنسو رولانے کے لیے کی ہے ۔۔۔تمھارے ماں باپ سے دور کرنے کے لیے کی ہے بلکل ویسے جیسے میں دور ہوگیا تھا ( فارس دھاڑ کے بولنے کے ساتھ ہی جھٹکے سے اسے بیڈ پر پھینک چکا تھا مہر ڈھیروں آنسو اور بے یقینی لیے اسے اسی پوزیشن میں میں تک رہی تھی)
اور ہاں میں دانیہ سے بہت محبت کرتا ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گا تمہیں میں چھوڑدوں گا لیکن جب میرا تم سے دل بھرے گا اور جب لگے گا کہ میرا بدلہ پورا ہوگیا سمجھیں ۔۔۔۔۔( بولتے ساتھ ہی وہ اہنی جگہ پر آکر لیٹ گیا .......
اسکے جاتے ہی مہر چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اسکا اس طرح رونا فارس کو تکلیف سے دو چار کر رہا تھا وہ اس پری پیکر کو روتا نہیں دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی یہ سخت اور تلخ الفاظ استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن مہر کے الفاظوں نے اسکا ضبط آزمایا تھا اسی لیے وہ خود پر قابو نہیں رکھ پایا ۔۔۔جب اس سے برداشت نہ ہوا تو بول پڑا۔۔۔۔۔۔
اگر مجھے اب تمھارے رونے کی آواز آںٔی تو مجھے چپ کروانے کے بہت سے طریقے آتے ہیں ....( فارس کی ذومعنی بات پر مہر نے اپنا ہاتھ لبوں پر رکھ کر اپنی سسکی روکی )
لاںٔٹ بند کرو اور اگر اس بیڈ سے اٹھیں تو انجام کی ذمہ دار صرف اور صرف تم ہوگی ( اسکی آواز میں وارننگ کو صاف محسوس کرتی وہ مردہ قدم اٹھتی لاںٔٹ اوف کرکے واپس اپنی جگہ پر آکر سکڑ کے کونے میں لیٹ گںٔی ۔ فارس نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا تو اسکا جسم رونے کی وجہ سے اب ہلکے ہلکے ہلکورے لے رہا تھا فارس کا دل کیا کہ اسے کھینچ کے خود میں بھینچ کر اسکے سارے درد اپنے اندر اتار لے لیکن وہ بس صرف سوچ ہی سکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
بابا ناشتہ کرلیں ( رباب کالج کے لیے تیار واجد صاحب کے کمرے میں ٹرے لاتے ہوۓ بولی)
بیٹا میرا دل نہیں کر رہا ( واجد صاحب کمزور سی آواز میں بولے)
دل کی سننے بیٹھ گںٔے تو نقصان آپکے ساتھ ہمارا بھی ہوگا چلیں اٹھیں اپنے دوا لینی ہے وقت پر پلیز اٹھ جاںٔیں ( رباب انکے پاس بیٹھتے ہوۓ منت بھرے لہجے میں بولی تو ناچار واجد صاحب کو اٹھنا پڑا )
رکیں میں مدد کرتی ہوں ( رباب بولتے ہوۓ اٹھ کر انکا تکیہ پیچھے درست کرنے لگی)
واجد صاحب کل ہی ہسپٹل سے سے آۓ تھے ڈاکٹر نے سختی سے انھیں ٹینشن والی باتوں سے دور رکھنے اور خوش رکھنے کی تاکید کی تھی .لیکن وہ ہر پل کسی سوچ میں پاۓ جاتے رباب اور سارہ بیگم لاکھ انکا دل بہلاتی رہتیں لیکن وہ نارمل نہیں ہو پارہے تھے ۔ زخم جب نیا ہو تو بہت تکلیف دیتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے تو اسکی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے لیکن شاید انکو ملنے والا زخم وہ تھا جس سے ساری عمر خون رسنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تک واجد صاحب خود کو اس طرح روگ لگا کے بیٹھیں گے ؟( سارہ بیگم کمرے میں آکر انکے پاس بیٹھتے ہوۓ دوا نکالتی ہوںٔی بولیں ۔رباب کالج جاچکی تھی۔)
جب تک یہ سانسیں چلتی رہیں گی ( واجد صاحب غیر مری نقطے پر نظریں جما کر بولے)
ایسے نہ کہیں آپ کے بغیر ہمارا ہے ہی کون میں جانتی ہوں میری بچی بے قصور ہے لیکن آپ فکر نہ کریں وقت ہر زخم کی دوا ہوتا ہے ( سارہ بیگم انکے ہاتھ پر دوا رکھتے ہوۓ ساتھ ساتھ انھیں سمجھا بھی رہیں تھیں )
نہیں سارہ وہ بے قصور نہیں بد بخت ہے جو ہماری عمر بھر کی محبت کا یہ صلہ دے گںٔی میں دنیا سے کیسے نظریں ملاؤں گا ( انکے انکھوں سے کںٔی اشک بہہ کر بے مول ہوگںٔے)
دنیا تو کسی حال میں خوش نہیں ہوتی واجد صاحب وہ تو نیا موضوع ڈھونڈتی ہے باتوں کے لیے غم نہ کریں جس رب نے ہم پر آزماںٔش ڈالی ہے وہی رب بھی ہمت اور حوصلہ بھی دے گا ہمیں بس اسکی آزمائش پر ثابت قدم رہنا ہے ( سارہ بیگم بہت مشکل سے خود پر ضبط کیے بیٹھی تھیں )۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اسے کبھی معاف نہیں کرونگا سارہ کبھی نہیں ( واجد صاحب دل برداشتہ ہوکر بولے لیکن جواب میں سارہ بیگم صرف خاموشی سے آنسو پیتی رہیں کیونکہ کچھ فیصلوں کو وقت پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے )....
🔥🔥
مہر کی جب صبح آنکھ کھلی تو فارس اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا اسنے گھڑی میں وقت دیکھا تو صبح کے 9 بج رہے تھے۔ رات کو ناجانے کس وقت اسکی روتے ہوۓ آنکھ لگ گںٔی تھی کہ صبح فجر کی نماز بھی قضا ہوگںٔی جسکا اسے افسوس بھی تھا۔ وہ فوراً اٹھ کر واش روم میں نہانے کی غرض سے چلی گںٔی ۔ گرم پانی سے غصل نے اسکے تھکے ہوۓ عصابوں کو کافی حد تک پرسکون کردیا تھا۔ 10 منٹ بعد باہر نکلی اور گرم شال اوڑھتی ہوںٔی نیچے ہی آگںٔی ۔اماں جی لاؤنج میں ہی تسبیح پڑھ رہیں تھیں ۔ باقی سب کچن میں اور دانیہ اپنے کمرے میں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم اماں جی ( مہر اماں جی کے پاس میں بیٹھتی ہوںٔی بولی)
واعلیکم السلام میری جان کیا بات ہے طبعیت خراب ہے فارس بتا ریا تھا کہ رات میں حرارت رہی ہے تمہیں اسی لیے نہیں اٹھایا ( اماں جی اسکے ستے ہوۓ چہرے کو دیکھتی ہوںٔی بولیں)
فارس کے منہ سے اپنی بیماری کا جھوٹا بہانا وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی کیونکہ رات دیر تک وہ روتی رہی اور وہ بھی جاگ رہا تھا )
بس کچھ حرارت محسوس ہورہی تھی میں اب ٹھیک ہوں دوا لے لی تھی ( مہر نے مسکرا کر جھوٹ قاںٔم رکھا )
نہیں بچے دیکھو تو آنکھیں اب بھی سوجی ہوںٔی ہیں چلو ناشتہ کرکے دوبارہ دوا لو تاکہ بلکل ٹھیک ہو جاؤ ( اماں جی کے بولنے پر وہ جی کہتی اٹھ کر ٹیبل پر چلی گںٔی ادھورا ادھورا سا ناشتہ کرتی جیسے ہی اٹھی تو داخلی دروازے پر نظر پڑتے ہی ساکت ہوگںٔی ۔۔۔۔۔
رانیہ ( مہر اپنی پریشانیوں میں اسے بلکل فراموش کر گںٔی تھی )
مہر ( رانیہ دوڑ کر اسکے گلے لگ گںٔی تھی )
کسی اپنے عزیز کا شانہ میسر ہوتے ہی مہر ایک بار پھر سے ٹوٹ گںٔی ۔ اماں جی بھی یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہیں تھیں ۔ آمنہ بیگم اور مسرت بیگم بھی باہر اگںٔی تھیں ۔مہر کو اس ظرح روتا دیکھ آمنہ بیگم کو کچھ اور شرمندگی نے گھیر لیا.
میری جان کیا ہوگیا یہ سب مجھے بتایا تک نہیں تو ٹھیک تو ہے نا ؟ ( دانیہ اسے خود سے الگ کرتی ایک ہی بار میں کںٔی سوالات کر گںٔی)
لیکن مہر بس چہرہ جھکاۓروۓ جارہی تھی ....
رانیہ بچے مہر کو اسکے کمرے میں لے چلے وہاں سکون سے بات کرنا ( اماں جی آواز پر دانیہ نے فوراً چونک کر انھیں سلام کیا جسکا انھوں نے مسکرا کر دعاؤں کے ساتھ جواب دیا اور اسے لے کر اوپر کی طرف بڑھ گںٔی)
آمنہ جاؤ بچی کے لیے کچھ کھانے کو بھجواو اوپر ( اماں جی کے حکم پر وہ جی کرتی اندر چلی گںٔیں جبکہ مسرت بیگم اس ڈرامے سے اکتا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔیں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر کے ساتھ کمرے میں آکر اسنے اسے بیڈ پر بٹھایا اور ساںٔڈ ٹیبل کی جگ سے پانی دیا جسکے اسنے صرف دو گھونٹ لے کر واپس کردیا .....
میں تیرے گھر گںٔی تھی آج دو دن سے تو یونی نہیں آرہی تھی میں سمجھی کہ شادی کی تیاری میں مصروف ہوگی لیکن پرسو تیرا نمبر بند جارہا تھا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگا تو آج تیرے گھر چلی گںٔی کہ وہیں سے دونوں یونی چلیں گے لیکن وہاں جو میں نے سنا مجھے یقین نہیں آیا تو پلیز مجھے سب شروع سے بتا ( رانیہ نے اسکے روتے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر کہا)
رانیہ کی بات پر مہر نے آہستہ آہستہ اسے رمشا کی شادی سے لے کر اب تک کا سب بتا دیا سواۓ کل رات والی بات کے ۔۔۔جسے سن کر رانیہ کتنی ہی دیر بے یقینی کی کیفیت میں اسکے چہرے کو تکتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔
او ماںٔی گاڈ مہر فارس بھاںٔی نے یہ سب ( رانیہ اب بھی یقین نہیں کرپارہی تھی )
اسی وقت ملازمہ کمرے میں دستک سے کر آںٔی اور کچھ لوازمات انکے سامنے رکھ جر چلی گںٔی......
ب۔۔۔۔بابا کیسے ہیں اور امی اور رباب؟ ( مہر نے خود پر قابو پاتے ہوۓ پوچھا)
انکل سے ملاقات نہیں ہوںٔی وہ دواںٔیوں کے زیرِ اثرآرام کر رہے تھی لیکن سارہ انٹی بتا رہیں تھیں کہ سخت ناراض اور بدگمان ہیں تجھ سے روتے بھی ہیں اور سارہ آنٹی بھی تجھ سے ناراض ہیں لیکن اتنی نہیں جتنا انکل ہیں جبکہ رباب کالج گںٔی ہوںٔی تھی ( رانیہ نے اسے تفصیل سے بتایا )
ر۔۔۔رانیہ فارس نے میرے ساتھ بہت برا کیا ہے وہ۔۔۔وہ شخص بہت برا ہے اسنے مجھے رسوا کردیا میرے ماں باپ کو کہیں کا نہیں چھوڑا ( مہر دونوں ہاتھوں میں چہرا چھپاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی رانیہ نے فوراً اسے اپنے گلے سے لگا کر اسے رونے دیا اسکی یہ حالت دیکھ کر وہ بھی آبدیدہ ہوگںٔی تھی)
بس میری جان رو مت اللّٰہ نے جب مشکل بھیجی ہے تو وہ ہی بہترین سبب نکالنے والا ہے تو ہلکان نہیں کر خود کو اس طرح ( رانیہ مسلسل اسے چپ کروا رہی تھی اسکے تسلی والے الفاظ سن کر مہر کے رونے میں کمی آگںٔی تب رانیہ نے اسے اور پانی پلایا )
فارس بھائی تو تجھ سے بہت محبت کرتے تھے مہر پ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں رانیہ اس شخص نے صرف مجھ سے کھیلا تھا وہ دانیہ سے محبت کرتے ہیں میں ہی پاگل تھی جو انکی محبت میں خود کو برباد کیا تھا ( مہر اسکی بات کاٹتی ہوںٔی اسکی نفی کرتے ہوۓ بولی)
اسکے جذبات میں کیے گںٔے انکشاف پر رانیہ نے اسے حیرت سے دیکھا لیکن ظاہر نہیں کیا کیونکہ مہر نے کبھی خود فارس سے محبت کا ذکر نہیں کیا تھا ..........
ایسا انھوں نے خود کہا ؟( رانیہ نے اس سے پوچھا تو مہر نے اثبات میں سر ہلا دیا )
رمشا جانتی ہے کیا یہ سب ؟
نہیں اسے نہیں بتایا میں اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی ( مہر نے آنسو صاف کرتے ہوۓبولا)
مہر میں نے فارس بھائی کی آنکھوں میں تیرے لیے چاہت اور دیوانگی دیکھی ہے ۔۔۔۔دیکھ جو ہوگیا اسے بدلہ نہیں جاسکتا میں جانتی ہوں تیرے لیے یہ سب ایکدم قبول کرنا بہت مشکل ہے لیکن تجھے خود کو ایک موقع دینا چاہیے ( رانیہ کی بات پر مہر نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں)
اچھااا ایسے تو مت دیکھ یونی کب آرہی ہے سمسٹر شروع ہونے والا ہے ( رانیہ نے موضوع گفتگو بدل لیا)
ہاں مجھے یاد ہی نہیں رہا میں آج ہی انکل سے بات کرتی ہوں ( مہر یاد آنے پر بولی)
تیرے رشتے کا کیا بنا رانیہ ؟( مہر اب کافی حد تک سنمبھل گںٔی تھی)
ارے ہاں وہ نا ۔۔۔۔۔ماما پاپا نے ہاں کردی ہے ( رانیہ شرما کر بولی تو مہر بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی )
مبارک ہو بہت بہت ۔۔۔کب ارادہ ہے پھر آگے کا؟
پاپا کہہ رہے تھی کہ اس سمسٹر کے بعد منگنی کردیں گے پھر ماسٹرز کے بعد ( اتنا بول کر رانیہ نے اپنی مسخری عادت سے مجبور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا جب کہ شرم جیسا لفظ تو اس سے کوسوں دور تھا جس پر مہر کھکھلا کر ہنس دی تو رانیہ نے بے اختیار ہی دل میں اسکے ہمیشہ اسی طرح مسکرانے کی دعا کی ۔ کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بات رانیہ واپس چلی گںٔی اماں جی نے اسے دوپہر کے کھانے کے لیے بہت روکا لیکن وہ سہولت سے انکار کرتی اگلی بار کا کہہ کر جا چکی تھی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
کیا بات ہے لڑکی اتنی خوش کیوں ہو آجکل اور یہ شاہی سواری کہاں کے لیے تیار ہے ( مسرت بیگم اسکے کمرے میں آتے ہوۓبولی )
دانیہ مسرور سی شیشے کے آگے گنگناتی ہوئی تیار ہورہی تھی)
کیوں موم کیا اب فارس کا روگ لگا کر خود کو اس کمرے میں بند کردوں اور میں سمیرا کے گھر جارہی ہوں ( دانیہ تیاری کرتے ہوئے ساتھ ساتھ بولی)
توبہ ہے لڑکی دو دن پہلے تو حشر برپا کیا ہوا تھا اور آج یوں مسکرا مسکرا کے گنگنا رہی ہو مجھ سے کیا چھپا رہی ہو تم( مسرت بیگم اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہوںٔی بولیں)
ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔او موم بس بھی کریں آپکی بیٹی بڑی ہوگںٔی ہے کسی ایک شخص کے پیچھے خود کو خوار نہیں کرسکتی میں ۔۔۔۔اچھا چلیں مجھے لیٹ ہورہا ہے ۔۔باۓ( رانیہ جلد از جلد وہاں سے نکل گںٔی ورنہ مسرت بیگم کی نظریں اسے کنفیوز کررہی تھیں ۔ جبکہ مسرت بیگم کو اب بھی اسکی بات پر یقین نہ آیا تھا وہ بس اسکے خوشی سے دمکتے چہرے کو ہی سوچتی رہ گںٔیں )۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥Assalamualaikum reader's....ma apki writer Mehrmah shah.....agr koi ghlti hogai ho typing ma tw please nazarandaz krdijiye ga....mera first novel h isi liye....or hn nae aane wale reader's vote , comments and follow krna mt bhooliye ga .....duaa m yad rakhye ga 💓💓
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔