گاڑی شہر کے بہت بڑے شاپنگ مال کے آگے رکی ۔ پارکنگ میں گاڑی کھری کرنے کے بعد دونوں مال کی طرف بڑھ گںٔے۔ فارس کے ساتھ چلتے ہوۓ مہر کو عجیب سا احساس ہورہا تھا۔ وہ فارس کے کندھوں سے بھی زرا نیچے تک آتی تھی لیکن ابھی اچھے خاصے موٹے سادہ سے خوبصورت جوتے پہنے وہ اسکے کندھوں تک آرہی تھی۔ خوبصورتی میں تو وہ تھی ہی لاجواب پھر فارس بھی بھرپور خوبصورت مردوں میں سے تھا مہر کے ساتھ اسکی جوڑی لاجواب لگتی تھی ۔ ہر آتے جاتے کی آنکھوں میں اپنے اور مہر کے لیے ستاںٔش ابھرتی دیکھ وہ کچھ اور بھی مغرور ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس اسے ایک مشہور کپڑوں کی بوتیک میں لے آیا۔ وہ مہر کے لیے خود سے ہی شاپنگ کر رہا تھا کیونکہ اسے پتا تھا اسکی بیوی گونگے کا گڑ کھا کر آںٔی ہے ۔ منتخب کردہ جوڑوں میں زیادہ تر سفید اور کالے رنگ کے جوڑے تھے ۔ یوں تو مہر پر ہر رنگ جچتا تھا لیکن سفید اور کالے رنگ میں وہ فارس شاہنواز کے ہوش اڑاتی تھی۔ مہر چپ چاپ ساتھ چلتی کپڑوں کے رنگ نوٹ کر رہی تھی لیکن کچھ بولنا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کپڑوں کی شاپنگ کے بعد وہ اسے جوتوں کی شاپ پر لے گیا ۔ ڈسپلے پر نظر دوڑاتے اسکو ایک پلین کالے رنگ کے سٹیپ والےجوتے بہت پسند آئے ۔ ان پر سفید اور کالے رنگ کی ہی نگوں کی تین لڑیاں تھیں ۔ سیلز مین سے کہہ کر اسنے انھیں نکلوایا ۔ سیلز مین نے مہر کو بیٹھنے کے لیے کہا تو وہ چپ چاپ لاںٔن سے لگے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گںٔی ۔۔۔۔۔۔۔
میم اپنا پیر اگے کریں پلیز( سیلز مین پروفیشنل انداز میں مہر سے بولا )
اسکے کہنے پر مہر نے اپنا نازک دودھیا پیر آگے کردیا ابھی وہ جھک کر اسکے پیروں میں جوتا ڈالنے ہی والا تھا کہ فارس کی آواز نے اسکے ہاتھ وہیں روک دںٔیے ۔۔۔۔۔۔۔
آپ رہنے دیں وہ خود ہی پہن لیں گی ( فارس کے کہنے پر مہر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو چہرے پر سنجیدگی لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ مہر نے سیلز مین کے ہاتھ سے جوتا لے کر خود ہی پہن لیا ۔ مہر کے نازک سے پیروں میں ان خوبصورت جوتوں کی شان کچھ اور بھی بڑھ گںٔی تھی جسے دیکھ کر فارس کی آنکھوں میں بھی اسکے لیے ستاںٔش ابھری ۔سیلز مین کو اسنے جان کر منع کیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مہر کو اسکے سوا کونٔی دوسرا ہاتھ بھی لگاۓ۔۔۔۔۔۔
پھر تین چار جوڑے اور لینے کے بعد اسنے مہر کو کچھ اور ضرورت کی چیزیں دلاںٔیں اور پھر بک شاپ سے اسکی کتابیں لینے کے بعد وہ دونوں پارکنگ میں آگںٔے ۔ ان سب کے دوران مہر نے اپنے لبوں پر چپ کا قفل لگایا ہوا تھا اور فارس نے بھی اسے مخاطب کرنا ضروری نا سمجھا .........
فارس نے گاڑی ایک بڑے سے ریسٹورنٹ کی طرف موڑ دی ۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ دیر نہیں ہوںٔی ہے ہم کھانا گھر میں کھا لینگے ( مہر اسے رکتا دیکھ کر بولی)
لیکن میرا باہر کھانے کا موڈ ہے ( یہ بول کر وہ اپنی ساںٔڈ کا دروازہ کھولتا اتر گیا۔ تو ناچار مہر کو بھی اسکی پیروی کرنی پڑی )
ریسٹورنٹ میں وہ ایک پرسکون جگہ آکر بیٹھ گںٔے ۔ تین سال بعد اس طرح اکیلے ساتھ بیٹھنے سے انھیں بہت کچھ یاد آیا لیکن اس بار دونوں نے منہ پر چپ کے پہرے بٹھاۓ ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے ریسٹورنٹ میں ہر طرف زندگی کی چہل پہل تھی کوںٔی نیا جوڑا آیا ہوا تھا تو کوںٔی فیملی کے ساتھ تھا کوںٔی اکیلا تھا تو کوںٔی ساتھ ہو کر بھی اکیلے تھے جیسے کہ وہ دونوں جو خاموشی سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے ۔آرڈر کرنے کے بعد بھی دونوں ہی خاموش تھے ۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کب سے جواںٔن کرنی ہے ؟( اس غیر معمولی خاموشی کو فارس کی بھاری آواز نے توڑا)
سوچ رہی ہوں کل سے ہی کرلوں پہلے ہی بہت لاس ہوگیا ہے ( مہر جو کہ ارد گرد کی زندگیاں دیکھنے میں مگن تھی فارس کی آواز پر چونک کر اسکی سمت متوجہ ہوئی)
ڈراںٔیور تمھیں چھوڑ بھی آئے گا اور لے بھی آۓ گا اکیلے مت نکلنا ( فارس کی بات پر مہر نے بس ایک خاموش سی نظر اس پر ڈالی )
سمجھیں ...؟؟( اسے کچھ نا بولتا دیکھ وہ پھر سے بولا)
جی ( اتنا کہہ کر وہ دوبارہ ارد گرد دیکھنے میں مگن ہوگںٔی جو اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ اسے اور کوںٔی بات نہیں کرنی )
فارس نے بھی مزید کچھ نہ بولا۔ اب وہ بہت غور سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقوش کو تکتا انکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا ۔ نظر پہلے اسکی حسین آنکھوں پر گںٔی جن میں نشہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہو تھا پھر اسکی چھوٹی پتلی سی ناک پر گںٔی پھر وہاں سے ہوتے ہوۓ اسکے خوبصورت لبوں پر گںٔی جہاں سنگہار کے نام پر ہلکی پنک لپ سٹک لگی ہوںٔی تھی ۔ اپنے ہی دیھان میں وہ سامنے کھیلتے بچوں کی شرارتوں پر کبھی ہلکہ سا مسکرا دیتی تو اسکا ننھا سا ڈمپل بھی کبھی کھل جاتا۔ یہ چھوٹی سی حسین لڑکی فارس شاہنواز کی دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتی تھی اسکے جسم میں روح بن کر بسی ہوںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ اتنی بھی انجان نہ تھی جتنی بنی ہوںٔی تھی وہ اسکی بے باک نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی جس سے اسکے گال بھی تپ رہے تھے لیکن پھر بھی انجان بنی بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔
آرڈر آنے پر دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور پھر گھر کے لیے نکل گںٔے ۔ سفر کے دوران بھی دونوں میں خاموشی ہی تھی۔ گاڑی ایک سگنل پر جاکے رکی تو فارس کو کوفت سی ہونے لگی کیونکہ ٹریفک کچھ زیادہ تھا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر ریڈیو اون کردیا لیکن جو اس پر گانا لگا اسنے مہر کے چودہ طبق روشن کردںٔیے ۔۔۔۔۔۔۔
"یونہی برس برس کالی گھٹا برسے"
"ہم یار بھیگ جائیں اس چاہت کی بارش میں"
"تیری کھلی کھلی لٹوں کو سلجھاؤں"
میں اپنی انگلیوں سے میں تو ہوں اس خواہش میں"
۔۔۔۔۔۔سنگر صاحب تو بہت ترسے ہوۓ اپنی ہی دھن میں لگے ہوۓ تھے لیکن فارس کا دل کر رہا تھا وہ مہر کی حالت دیکھ کر زور زور سے قہقہے لگاۓ جو سردی میں بھی اپنے ماتھے پر آۓ پسینے کو صاف کر رہی تھی اور ادھر ادھر دیکھ کر خود کو بلکل لاتعلق ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی لیکن اگلی لاںٔن پر تو اسکی انکھوں کے آگے سہی ستارے گھومے تھے ۔۔۔۔۔
" سردی کی راتوں میں ہم سوۓہوۓ ایک چادر میں"
ہم دونوں تنہا ہوں نا کوںٔی بھی رہے اس گھر میں "
۔۔۔۔بالاخر مہر سے جب اس للچاۓ ہوۓ سنگر کی بے باکی اور برداشت نہ ہوںٔی تو اسنے جیسے ہی ہاتھ بڑھا کر ریڈیو اوف کرنا چاہا اسی لمحے فارس نے بھی اسکا ارادہ بھانپ کر فوراً اپنا ہاتھ بھی ریڈیو پر رکھ دیا اس اچانک کارروائی پر مہر کی انگلیاں جا کر فارس کے ہاتھ پر لگ گںٔیں ۔اسنے چونک کر اسے دیکھا جو انکھوں میں شرارت اور محبت لیے اب باقاںٔدہ اس گانے کے ساتھ خود بھی زور زور سے گنگنانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"""ذرا ذرا بیھکتا ہے بیھیکتا ہے آج تو
میرا تن بدن میں پیاسا ہوں مجھے بھر لے اپنی باہوں میں آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔""""
فارس کی اس قدر بے باکی پر مہر نے بوکھلا کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھوں پر سے ہٹاکر ایکدم پیچھے ہو ںٔی ۔سگنل کھل چکا تھا ۔پورے رستے فارس اسکی غیر ہوتی حالت کی پروا کیے بغیر پوری بے باکی سے یہ گانا گنگناتا رہا اور مہر چاہ کر بھی خود کو نارمل ظاہر نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔ تھے تو یہ محض ایک گانے کے بول لیکن جس طرح فارس اسے اپنی خوبصورت آواز میں سنگر کے ساتھ ساتھ گارہا تھا تو مہر کی جان مشکل میں پڑی ہوںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلآخر اللّٰہ اللّٰہ کر کے یہ سفر ختم ہوا ۔ پورچ میں گاڑی رکنے کے ساتھ ہی مہر نے ایک جھٹکے میں دروازہ کھولا اور باہر نکل گںٔی لیکن شاید قسمت بھی اسکو آزمانے کے در پہ تھی۔ جلدبازی میں اترنے کے چکر میں اسکا پیر جوتے موٹے ہونے کی وجہ سے موڑا اور وہ چیخ مارتی وہیں بیٹھ گںٔی ۔ فارس نے جب اسکی چیخ سنی تو ہڑبڑا کر فوراً اسکے پاس آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا مہر دیکھاؤ پیر مجھے ( مہر جو باقاعدہ اپنا پیر پکڑ کے رو رہی تھی فارس کے پوچھنے پر بولی)
لگتا ہے ٹوٹ گیا ہے میرا پیر آپکی وجہ سے ( مہر روتے ہوۓ سارا الزام اس پر ڈال گںٔی )
کیا میری وجہ سے وہ کیسے؟ ( فارس کو اسکی بات ذرا سمجھ نہ آںٔی )
وہ ۔۔وہ آپ۔۔۔چھوڑیں اب ( بولتے بولتے وہ وہیں رک گںٔی اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اسکی بے باکی کے سبب یہ سب ہوا)
حد کرتی ہو لڑکی دیکھ کر نہیں چل سکتیں اب دیکھاؤ پیر کیا ہوا ہے ادھر؟؟ ( فارس نے اسکا پیر پکڑنا چاہا تو مہر نے فوراً اس پر ہاتھ رکھ لیا فارس نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا پھر سمجھ گیا کہ وہ ہاتھ نہیں لگوانا چاہ رہی )
دیکھو یہ سب فضول ہے دیکھاؤ مجھے اپنا پیر ( وہ اسکے ہاتھ رکھنے پر بولا)
نہیں یہ ٹوٹ گیا ہے آپ پکڑیں گے تو اور درد کرے گا ( وہ اسی طرح روتے ہوۓبولی )
ڈاکٹر تم ہو یا میں ہوں ۔۔۔۔۔مہر مجھے دیکھنے دو ( بولتے ساتھ ہی اسنے اسکا ہاتھ پیر سے زبردستی ہٹا کر دیکھا تو وہاں پاؤں مڑنے کی وجہ سے موچ آگئی تھی )
اٹھو چلو اندر (فارس اسکے پاس سے کھڑا ہوتا ہوا بولا)
کیا ٹوٹ گیا ؟( مہر ہنوز اسی طرح بیٹھی ہوںٔی بولی یوں بچوں کی طرح روتی وہ اسی بہت معصوم لگی)
ہے ٹوٹ گیا ہے اب چلو اندر ۔۔۔۔۔۔۔
ٹوٹنے کا سن کر وہ اور روتی ہوںٔے اسنے اٹھنے کی کوشش کی لیکن درد کی ٹیس اٹھنے کی وجہ سے وہیں بیٹھ گںٔی )
م۔۔۔۔مجھ سے ہلا بھی نہیں جارہا ( اس کے انداز میں بے بسی ہی بے بسی تھی )
فارس نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا اور جھک کر بڑی احتیاط لیکن پھرتی سے اسے اپنے مضبوط بازوں میں اٹھا لیا......
ک۔۔۔۔کیا کر رہے ہیں ؟ اتاریں مجھے نیچے ( مہر تو اسکی اس قدر جرت پر حیران ہی رہ گںٔی )
رومینس کر رہا ہوں اگر تمھیں یہیں بیٹھنے دے دیتا تو صبح تک تم نے رو رو کے سیلاب لے آنا تھا ( فارس کے اس الٹے جواب پر وہ فوراً بوکھلا کر نظریں جھکا گںٔی)
فارس نے اسی وقت چوکیدار کو آواز دی اور گاڑی سے سارا سامان کمرے میں پہنچانے کے لیے بولا ۔ چوکیدار کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر مہر اور زیادہ شرمندہ ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔
چ۔۔۔چل بھی لیں ( مہر کے منت پر فارس اسے لیے آگے بڑھ گیا)
یہ سارا منظر کیچن میں کھڑی دانیہ غصے سے کھولتی دیکھ رہی تھی جو ان کی گاڑی کی آواز سن کر آںٔی تھی باقی سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گںٔے تھے ۔۔۔۔۔۔
دانیہ نے غصے میں سلپ پر رکھا کانچ کا گلاس ہاتھ مار کر توڑ دیا جو چھناکے کی آواز کے ساتھ کںٔیں ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ گلاس ٹوٹنے کی آواز پر ملازمہ ہانپتی کانپتی ہوئی کچن میں آںٔی ۔۔۔۔۔
کیا ہوا بی بی جی یہ ؟( ملازمہ نے گلاس کی طرف اشارہ کرکے پوچھا)
ہٹاؤ اس سب کو یہاں سے ( یہ بول کر دانیہ پیر پٹختی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
ملازمہ سامان رکھ کر چلی گںٔی تھی کمرے میں پہنچ کر فارس اسے بیڈ کے پاس لایا لیکن اتارا نہیں ۔۔۔۔۔
اتاریں اب ( مہر اسے یونہی کھڑا دیکھ کر بولی)
ویسے اس گانے کے بول بڑے زبردست تھے پھر کیا ارادہ ہے آج؟( فارس شرارتی انداز میں اسے تھوڑا قریب کرکے بولا)
ت۔۔۔توبہ کریں کیسی باتیں کر رہے ہیں میرا پیر ٹوٹ گیا اور آپ ( مہر اسکے چہرے سے دور ہوتی روہانسی ہو کر بولی)
مہر کے انداز پر فارس کا ایک قہقہہ بلند ہوا اور اسنے احتیاط سے اسے بیڈ پر بٹھا کر خود فرسٹ ایڈ بکس لینے چلا گیا ......
یہ بکس کیا کسی نے لیا تھا ؟( چیزوں کو آگے پیچھے دیکھ کر اسنے پوچھا)
جی وہ اماں جی کے سر میں درد تھا انکی ٹیبلیٹ لینے آںٔی تھی میں ( مہر اپنے پیر کو دیکھتے ہوۓ بولی)
اسکے جواب پر فارس کا مطلوبہ اناںٔٹمنٹ ڈھونڈتا ہوا ہاتھ وہیں رک گیا کیونکہ اسکے پلز کی اور نیند کی گولیوں بھی مہر نے ضرور دیکھی ہونگی ۔۔۔۔۔
پیر دکھاؤ ( فارس اسکے سامنے بیٹھتا ہوا بولا)
کب سے تو دیکھ ہی رہے ہیں کچھ کر ہی نہیں رہے ( مہر درد میں الٹا ہی بول گںٔی)
بہت جلدی نہیں ہے مجھ سے کچھ کروانے کی تمھیں ؟( فارس اسکے الٹی بات کا الٹا جواب دیتا ہوا بولا)
ن۔۔۔۔نہیں میرا مطلب کہ کوںٔی دوا نہیں لگا رہے ( مہر فوراً بوکھلا کر صفائی دیتے ہوۓبولی)
اسکی بوکھلاہٹ پر فارس نے مسکرا کر اسکے پیروں پر ہلکے ہاتھ سے لیپ کرنا شروع کیا .....
آآآآ۔۔۔۔جلن ہورہی ہے ( مہر نے فوراً درد سے بولا)
تھوڑی سی ہوگی پھر ٹھیک ہوجاۓ گا ( فارس نرمی سے بولتا ہوا لگا رہا تھا )
لیپ کرنے کے بعد وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
یہ کب ٹھیک ہوگا ( مہر نے سوں سوں کرتے ہوۓ پوچھا)
ہمممم۔۔۔۔آپریشن کرنا پڑے گا ہڈی ٹوٹ گںٔی ہے ( فارس ہنسی دبا کے بولا)
اللّٰہ جی یہ۔۔۔۔اب میں کیا کروں گی میرا پیر ۔۔۔۔صحیحی کہتی تھی رباب کہ مہر مت پہن ایسے جوتے پڑی وی ہوگی کہیں روڈ پر پاؤں توڑ کے لیکن میں نے اسکی ایک نہ سنی ( وہ روتے ہوۓاپنی پرانی ٹون میں واپس آگںٔی تھی )
اسکی بات پر فارس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگںٔی )
اچھا سنیں ( مہر نے آنسو صاف کر کے بولی)
سنا دیں ( فارس اسکے اس طرزِ مخاطب پر جانثار انداز میں بولا)
میرا آپریشن آپ کرںٔیے گا۔۔۔۔۔۔
وہ کیوں ؟( اسکی بات پر اسنے دلچسپی سے پوچھا)
پتا نہیں باقی ڈاکٹر کیا کرینگے پیر ہی نہ کاٹ دیں آپ مجھے زرا قابل ڈاکٹر لگتے ہیں اسی لیے اور آپ تو مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے ( مہر اپنی ہی لے میں بولتے ہوۓ نہیں سوچ رہی تھی )
اسکی اس قدر یقین پر فارس حیران رہ گیا مطلب آج بھی گنجاںٔش تھی اسکے دل میں فارس کے لیے۔۔۔۔۔۔۔فارس ایک جھٹکے میں اسکے قریب ہوا اور اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر بولا....
اتنا یقین کرتی ہو مجھ پر ؟ ( فارس کی اس اچانک کارروائی پر مہر حیران رہ گںٔی لیکن کچھ بولی نہ)
کہو نہ مہر اب بھی یقین کرتی ہو مجھ پر ؟( اسے چپ دیکھ کر وہ پھر بولا)
پ۔۔۔پیچھے ہٹیں فارس( مہر نے اسے پیچھے کرنا چاہا لیکن اسے رتی برابر فرق نہ پڑا )
فارس کی بات کا جواب وہ نہیں دینا چاہتی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی کمزوری اس پر کھلے یا وہ ایک بار پھر سے اسے توڑ پھوڑ کے چلا جاۓ کیونکہ وہ جانتی تھی آج نہیں تو کل اسے دانیہ کے پاس جانا تھا . جب کچھ نہ کرسکی تو رونے لگی۔ اسکی حسین نشیلی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھرا دیکھ فارس نے ایک ہی لمحے میں ان پر اپنے تشنہ لب رکھ دںٔیے . مہر کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کچھ ایسا کرے گا اسنے فوراً گھبرا کر اسکے بازو کو سختی سے پکڑ لیا ۔ باری باری اسکی دونوں آنکھوں کو چومنے کے بعد وہ پیچھے ہوکر اسکے بند حسین انکھوں کو دیکھنے لگا .......
اور اسی لمحے مہر پر یہ حقیقت اشکار ہوںٔی کہ اسکا بے ایمان دل آج بھی اسی بے وفا کے نام کی مالا جپتا ہے اسی کے لیے دھڑکتا ہے ۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اسے محبت کا مطلب سکھایا تھا یہ وہ شخص تھا جس نے اسکے کم سن دل میں اپنی محبت کی کلی کو لگایا تھا ۔۔۔۔۔جسنے اسے جینا سکھایا تھا اور یہ ہی وہ شخص تھا جس نے اسکے وجود کو ہزاروں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا تھا جس نے اسے جتنی محبت دی تھی اس سے کہی زیادہ نفرت دی تھی ۔ یہ وہی شخص تھا جسنے اسکے عزیز وجان باپ، ماں اور بہن کو اس سے دور کردیا تھا ۔۔۔۔لیکن پھر بھی وہ اس سے نفرت نہیں کرسکی تھی کیوں ۔۔۔؟....اس کیوں کا جواب تو مہر کے پاس بھی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔
اسی وقت مہر نے اسے دھکا دے کر دور کیا تھا ۔ فارس اسکے اس اچانک حملے پر فوراً پیچھے کو ہوا تھا ۔
نہیں۔۔۔۔نہیں کرتی میں یقین آپ پر اور یہ سب مت کیا کریں یہ سب بھی ضرور آپکے بدلے کا حصہ ہوگا؟ ( مہر نے غصے سے پوچھا )
فارس جو اسکے اس اچانک حملے پر سنمبھل نہیں سکا تھا اسکی بات سن کر دماغ کچھ اور بھی گھوم گیا وہ تو یہ سوچ کر اسکے قریب آیا تھا کہ وہ اس سے معافی مانگ کر سب غلط فہمیاں دور کردے گا لیکن اسکے ردعمل پر اس سے برداشت نہ ہوا اور اسکے بال مٹھی میں پکڑ کر بولا........
ہاں صحیح کہا یہ میرے بدلے کا ہی حصہ ہے اور ایسے اور بہت سے حصوں کے لیے خود کو تیار کرلو ویسے بھی تم محبوبہ تھوڑی نہ ہو بیوی ہو اور بیوی سے محبت نہیں وقت گزاری تو کرسکتے ہیں نا
( فارس کی ذومعنی بات پر مہر کا دل ہلق میں آگیا لیکن اسی وقت مہر کے موبائل رنگ کرنے لگا ۔ فارس اسے چھوڑ کر فوراً پیچھے ہوا۔۔۔۔۔
مہر نے آنسو صاف کر کر فون اٹھا کر دیکھا تو وہی انجان نمبر تھا جو اسے پہلے بھی کال کرچکا تھا ۔ اسنے کال اٹھا کر کان سے لگاںٔی......
ہیلو ( اسکے بولنے پر آگے خاموشی رہی )
ہیلو ۔۔۔۔( ہنوز خاموشی)
ادھر دکھاؤ ( فارس نے اسکے ہاتھ سے فون لیا )
ہیلو کون بات کر رہا ہے ( فارس نے اپنی بھاری آواز میں کچھ سختی سے پوچھا لیکن آگے مکمل خاموشی تھی اسی طرح دو تین بار اور پوچھنے پر جب کوںٔی جواب موصول نہ ہوا تو اسنے فون کاٹ کر نمبر بلاک کردیا اور مہر کو فون پکڑا کر واشروم میں گھس گیا . اسکے جانے کے بعد مہر بھی خاموشی سے آنسو پیتی اپنی جگہ لیٹ گںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
صبح جب اماں جی کو مہر کی موچ کا پتا چلا تو سارے ملازم اسکی خدمت میں لگا دںٔیے ۔ مہر انھیں اپنے ٹھیک ہونے کا یقین دلاتی رہ گںٔی لیکن انھوں نے اسکی ایک نہ سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ٹھیک ہونے میں دو دن لگے تھے جب چلنے کے قابل ہوںٔی یونیورسٹی جانا شروع کردیا ۔ رانیہ اسے اتنے عرصے بعد دیکھ کر بہت خوش ہوںٔی تھی ۔اسکا دل بھی رانیہ کے ساتھ مل کر کچھ بہل جاتا ۔ یونیورسٹی سے وہ ڈراںٔیور کے ساتھ آتی بھی تھی اور جاتی بھی تھی۔۔۔۔۔۔
اس مختصر سے ایک ہفتے کے وقت میی فارس بھی بہت زیادہ مصروف ہوگیا تھا وہ اپنا ہسپٹل بنانا چاہ رہا تھا اسی سلسلے میں وہ سارا سارا وقت باہر ہی ہوتا ۔ مہر اور اسکی بات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی اور اگر ہو بھی جاتی تو تلخ کلامی سے ہی اختتام پذیر ہوتی۔ ادھر دانیہ کی فارس سے بے تکلفی بھی کچھ بڑھ گںٔی تھی کںٔی دفعہ اسکے ساتھ ہی اپنی کسی فرینڈ کے ہاں چلی جاتی یا کھانے کی دوران بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ جاتی ۔ مہر سب دیکھ کر بھی انجان بنی ہوںٔی تھی کیونکہ وہ اپنا مقام جانتی تھی
دوسری طرف چند دنوں میں ہی دانیہ اور تیمور کی دوستی کافی اچھی ہوگںٔی تھی ۔ وہ اسے ایک دو بار اپنے ساتھ بار وغیرہ بھی لے گںٔی ۔ ساتھ ساتھ وہ دونوں آگے کا بھی پلین کرتے رہتے لیکن بدقسمتی سے کوںٔی موقع انکے ہاتھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
انھیں دنوں رمشا کی کال بھی مہر کے پاس آگںٔی تھی جس میں اسنے مہر کی شادی کے سلسلے میں دو دن بعد واپسی کا بول دیا تھا ۔ یہ سن کر مہر کو نںٔے سرے سے ٹینشن نے آگھیرا تھا ۔ اسنے فارس سے اس بارے میں بات کرنے کا سوچا لیکن وہ کم کم ہی میسر ہوتا تھا رات دیر سے گھر آتا تب تک مہر سوجاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اس دن بھی سب کھانے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے کوفی سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ شاہنواز صاحب کی آواز پر سب انکی طرف متوجہ ہوگںٔے جو فارس سے مخاطب تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہے ( شاہنواز صاحب کی بات پر فارس انکی طرف متوجہ ہوا ورنہ تو کب سے نظر اس پری پیکر پر تھی جو اماں جی اور آمنہ بیگم کے ساتھ لگی بیٹھی تھی ).
جی ڈیڈ کہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل رمشا کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ پرسو واپس آرہی ہے اسکی عزیز سہیلی کی شادی ہے ( شاہنواز صاحب کی بات میں طنز کا عنصر بھی شامل تھا جسکو محسوس کرکے بھی فارس ڈھیٹ بنا رہا )
ایک نا ایک دن تو اسے آنا ہی تھا ڈیڈ میں تیار ہو ہر چیز فیس کرنے کے لیے ( فارس اسے دیکھ کر بولا جو سانس روکے شاہنواز صاحب اور اسکی بات سن رہی تھی )
ٹھیک ہے رمشا کو تم ہی سنبھالو گے لیکن اسکے بعد ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم تمھارا ولیمہ کردیں گے تاکہ مہر کو خاندان میں تمھاری بیوی کی حیثیت سے متعارف کرواسکیں ہم کب تک یہ سب چھپا کر رکھیں گے اس سے پہلے کسی کو خود سے پتا چلے اور لوگ باتیں بناںٔیں ہم خود ہی یہ سب بتانا چاہتے ہیں ( شاہنواز صاحب کی بات پر تو مہر نے حیرت سے فارس کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا لیکن اسکے انداز میں صرف اطمینان ہی شامل تھا ۔ دانیہ کو تو گویا پتنگے لگ گںٔے اس بات پر۔۔۔۔۔۔
ل۔۔۔۔لیکن انکل میں بابا کے بغیر کیسے ۔۔؟( مہر نے کمزور سی آواز میں کہا)
تم کیوں فکر کرتی ہو بیٹے تمھارے بابا سے فارس معافی مانگے گا لیکن پہلے رمشا آجاۓ پھر عباس کو بھی بلوا لونگا۔ اسکے بعد ولیمے ہوگا ( شاہنواز صاحب اسے تسلی دے کر بولا)
معافی نام پر فارس نے لب بھینچ لیے اسنے آج تک کسی سے معافی نہیں مانگی تھی اور نہ اب مانگنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ مشکل امر بھی سر کرنا تھا۔۔۔۔۔۔
تم سن رہے ہو نا فارس ہم نے کیا کہا ہے ؟ ( شاہنواز صاحب نے اسے مخاطب کیا ۔ مہر نے بھی اسکی طرف دیکھا جو لب بھینچے کوفی کے کپ کو تک رہا تھا ۔۔۔۔)
جی ڈیڈ....( اسکے جواب پر دانیہ نے بھی اسکی طرف دیکھا )
پھر اسکے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گںٔے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنیں ( کمرے میں آکر مہر نے فارس کو مخاطب کیا جو خود کو کسی کتاب میں مصروف ظاہر کر رہا تھا)
سنا دو ( فارس بھی اسی کے انداز میں بولا)
وہ ۔۔۔رمشا کے آنے کے بعد آپ بابا سے معافی مانگے گے نا؟( مہر اسکے سامنے کھڑی ہوتی امید بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ اپنا خدشہ ظاہر کرکے پوچھا )
اور تمھیں کیوں لگتا ہے ایسا کہ میں معافی مانگو گا ؟( فارس نے سوال پے سوال کیا )
آپ نے کہا تھا کہ .....
ہاں میں نے کہا تھا کہ میں مانگو گا لیکن صرف اس وقت جب اس بات کہ ضرورت تھی لیکن اب میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا ( فارس بڑے ہی پرسکون انداز میں میں بولتا ہوا سونے کے لیے لیٹ گیا تھا)
ف۔۔۔۔فارس .....( اسے یوں بات سے مکرتا دیکھ مہر نے روہانسی ہوکر اسے پکارا )
اسکے یوں پکارنے پر فارس کا دل لمحوں میں پگھل گیا لیکن پھر بھی انا کا خول چڑھاۓ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا)
جب آپ مجھے چھوڑ دیں گے تو پھر میں کہاں جاؤنگی ؟
مہر کی بات پر فارس نے حیرت سے اسے دیکھا ......
کیا مطلب ؟؟؟؟؟.........
آ۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ جب آپکا بدلہ پورا ہوجاۓ گا ت۔۔۔تو مجھے چھوڑ دیں گے پھر میں بابا کے گھر بھی نہیں جاسکوں گی تو کہاں جاؤنگی؟ ( وہ روتے ہوۓ بولی اس وقت وہ خود کو اس انا پرست شہزادے کے آگے بہت بے بس محسوس کر رہی تھی)
اتنی بھی کیا جلدی ہے مجھ سے دور جانے کی ابھی تو کچھ ہی دن ہوۓ ہیں ؟ ( فارس اب اٹھ کے بیٹھ چکا تھا)
ہے جلدی مجھے جانے کی اس جھوٹے رشتے میں اور نہیں رہ سکتی میں۔۔۔دم گھٹتا ہے میرا یہاں مجھے بابا کے پاس جانا ہے اب ( مہر چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ رو رہی تھی)
مجھے ایک بار پھر سے چھوڑ کر چلی جاو گی مہر ؟ ( فارس نے اسے ترسی ہوںٔی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا )
اسکے اس انداز پر مہر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن اسی وقت مہر کا موباںٔل بجنے لگ گیا ۔ انجان نمبر کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گںٔی کہ کون اسے کال کرتا ہے اسے یوں سوچتا دیکھ فارس فوراً اٹھا اور اسکے ہاتھوں سے فون لے کر کان سے لگا لیا........
ہیلو ( فارس نے سختی سے پوچھا )
لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی خاموشی رہی )
فارس نے اسی وقت کال کاٹ کر اس نمبر کو بھی بلاک کردیا ۔۔۔۔۔۔
کون کال کرتا ہے تمھیں انجان نمبروں سے ؟ ( فارس نے مہر سے سنجیدگی سے پوچھا)
م۔۔۔۔مجھے نہیں پتا کہ کون کال کرتا ہے ( مہر نے فوراً جواب دیا )
فارس نے اسے خاموشی سے دیکھا اور اسکا موباںٔل اسکے ہاتھوں میں رکھتا سامنے سے ہٹ گیا .......
اب کھڑی کیوں ہو سوجاؤ آکر ( فارس اپنی جگہ پر لیٹتے ہوۓ بولا)
مجھے نیند نہیں آرہی ( یہ بول کر وہ سامنے صوفے پر بیٹھ گںٔی )
فارس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو ریلیکس کرتا اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑنا چاہتی ہو مجھے؟ ( فارس کے سوال پر مہر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن بولی کچھ بھی نہیں)
ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا تمھیں پہلے ادھر آؤ ( فارس کے اس حکم پر مہر نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا)
ک۔۔۔۔کیوں ؟؟؟؟؟
آج بدلہ پورا ہو ہی جاۓ ۔۔۔رمشا کے آنے کے بعد میں تمھیں پھر چھوڑ دوں گا ( بولتے ساتھ ہی فارس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا)
ت۔۔۔تھپڑ ماریں گے جیسے میں نے مارا تھا ؟ ( مہر نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا )
تم آؤ تو ( فارس اسی طرح بولا)
ن۔۔۔نہیں ( اسکے مردانا ہاتھ منہ پر لگنے کا سوچ کر ہی مہر کی جان ہوا ہو رہی تھی )
ٹھیک ہے پھر نہ ہی تمھارے بابا سے معافی مانگو گا نا ہی ولیمہ منع ہوگا ( فارس بولتے ہوںٔے لیٹنے ہی لگا تھا کہ مہر کی آواز پر رک گیا)
ٹھیک ہے آپ مارلیں میں تیار ہو ( بولتے ساتھ ہی مہر اسکے سامنے آکر بیٹھ گںٔی اور خوف سے آنکھیں میچ کر اپنا پھول سا نازک گال آگے کردیا )
اسکے اس انداز پر فارس کو بیک وقت پیار بھی آیا اور غصہ بھی کیونکہ وہ سب کچھ اس سے دور جانے کے لیے کر رہی تھی۔ اسنے نرمی سے اسکے دونوں گالوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر ان پر اپنے تشنہ لب رکھ دںٔیے .۔۔۔۔۔۔۔
فارس کی اس حرکت پر مہر جھٹکے سے پیچھے ہوںٔی ......
کیا کر رہیں ہیں آپ ؟ ( اسنے حیرت اور غصے سے پوچھا )
کیوں کیا ہوا میرا بدلہ تو ایسے ہی پورا ہوگا ( فارس اسی طرح پرسکون انداز میں بولا)
کیا مطلب؟ ۔۔۔۔۔
مطلب میرا مجھ سے دور جانے کی قیمت تمہاری قربت ہے مہر ( فارس کی بات پر مہر نے اسے حیرت سے دیکھا اور ہوش آتے ہی جھٹکے سے اٹھ گںٔی)
آپ جیسے گھٹیا شخص سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے محبت دانیہ سے اور ۔۔۔۔۔۔( بولتے بولتے مہر نے اپنا سر نفرت سےجھٹکا )
تمھیں کسنے کہا کہ میں دانیہ سے محبت کرتا ہوں ؟( اسکی بات پر فارس نے ضبط سے پوچھا)
ہہہہہ۔۔۔۔جیسے میں نے تو کچھ دیکھا ہی نہیں تھا ( مہر تمسخر اڑانے والے انداز میں بولی)
آنکھوں دیکھا جھوٹ بھی ہوسکتا ہے مہر ( فارس کچھ تیز آواز میں بولا)
نہیں فارس کانوں سنا جھوٹ ہوسکتا ہے لیکن آنکھوں دیکھا کبھی جھوٹ نہیں ہوسکتا لیکن یہاں دونوں ہی سچ تھے ( مہر کو تین سال پہلے دانیہ کی کی گںٔی باتیں یاد آگںٔی)
کیا مطلب؟ ( فارس کو اسکی بات سمجھ نہ آںٔی)
رہنیں دیں ماضی کی تلخ باتوں کو یاد کرکے صرف تکلیف ہی ہوتی ہے (یہ کہہ کر مہر سامنے سے ہٹ گںٔی)
تم نے مجھ سے ایک بار صفاںٔی بھی نہیں مانگی تھی مہر ؟ ( فارس نا جانے آج خود کو کیوں بے بس محسوس کررہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ سب پا کر بھی خالی ہاتھ رہ گیا ہو)
مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں پیش آںٔی تھی ( یہ کہہ کر مہر ڈریسنگ روم میں گھس گںٔی اور پیچھے فارس بس صرف بند دروازے کو دیکھتا رہ گیا)
♥️♥️♥️♥️
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔