مھر کی صبح آنکھ کھلی تو اسکو اپنی طبیعت بہت بہتر لگی ۔ رات کی کوںٔی بات اسے یاد نہیں تھی۔ اٹھ کر یونی کے لیے تیار ہوںٔی اور باہر آگںٔی جہاں سب بیٹھے ناشتہ کر ریے تھے ۔ مھر کو آتا دیکھ اسکی پھپو نے اسے اپنے پاس ہی بٹھا لیا ۔
کیسی طبعیت ہے میری پچی کی اب ؟( روبینہ بیگم پیار سے بولیں )
ٹھیک ہوں پھپو ( اسنے مسکرا کے جواب دیا)
بیٹا آج یونی مت جانا تمھاری ساس کا فون آیا تھا آج تمھارا عروسی جوڑا لینے جاںٔیں گی وہ تم بھی ساتھ ہی جانا ۔۔( سارہ بیگم ناشتے کے دوران ہی بولیں )
ہاں بیٹا ملیحہ نے بھی کچھ شوپنگ کرنی ہے اسے بھی ساتھ ہی لے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رقیہ بیگم ( اسفند ملک کی بیوی) نے مسکرا کر کہا)
جی تاںٔی جان ( مھر نے کوںٔی بحث نہ کی کیونکہ کل وہ اپنی ماں کی نہ سن کر بہت نقصان اٹھا چکی تھی)
ناشتے کے بعد سب سے پہلے مہر نے رانیہ کو کال کرکے آج نہ آنے کا بتایا پھر سب ایک ساتھ ہی بیٹھ گںٔے. مھر بھی ان کے درمیان میں ہی بیٹھی تھی لیکن وہ وہاں موجود ہو کر بھی نہیں تھی ۔اسکے دماغ میں ایک ہی ڈر تھا ایک ہی جھکڑ چل رہا تھا کہ کب اسکی رسواںٔی ہوجاۓ گی ۔
السلام علیکم!!!(اسی وقت عاںٔشہ بیگم اندر آتے ہوۓ بولیں ساتھ میں تیمور بھی تھا)
مھر نے ان کی آواز پر چونک کر دیکھا۔ وہ اتنا اپنی سوچ میں غرق تھی کہ اسے ان کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم آنٹی( مھر فوراً آگے ہوکر ان سے ملی)
واعلیکم السلام میری بیٹی ( عاںٔشہ بیگم اسکی پیشانی چوم کر بولیں)
سب ساتھ ہی بیٹھ گںٔے کچھ باتوں کے بعد عاںٔشہ بیگم بولیں.....
آج میں اپنی بہو کا شادی کا جوڑا لینے آںٔی ہوں پھر میں نے سوچا کہ پہننا مھر نے ہے تو کیوں نہ یہ تیمور اور مھر ہی نہ چلیں جاںٔیں ؟ ( عاںٔشہ بیگم مسکرا کے بولیں )
ان کی بات پر سارہ بیگم نے واجد صاحب کی طرف دیکھا ۔ ان دونوں کی خاموشی محسوس کر کے عاںٔشہ بیگم پھر بولیں۔۔۔۔
اگر اپکو مناسب نہ لگے بھاںٔی صاحب تو پھر رہنے دیتے ہیں ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں بہن ایسی بات نہیں ہے تیمور اپنا ہی تو بچہ ہے تو برا کیوں لگے گا اور خوشی بھی بچوں کی ہی ہے تو ٹھیک ہے ( واجد صاحب مسکرا کر بولے کہ کہیں انھیں برے نہ لگ جاۓ)
واجد صاحب کی بات پر مھر نے حیران ہو کر انھیں دیکھا کہ وہ کیسے کسی انجان کے ساتھ اسے بھیجنے کو تیار ہوگںٔے تھے اور دوسری طرف رقیہ بیگم کا بھی منہ بن گیا مھر انھیں کچھ خاص پسند نہیں تھی۔ اسکی خوشی میں بھی وہ اپنے شوہر کی وجہ سے شریک تھیں ۔
تیمور کی خوشی کا تو کوںٔی ٹھکانہ ہی نہ تھا وہ مھر کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا اسی لیے عاںٔشہ بیگم کو اس بات کے لیے اسنے ہی راضی کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا پھر آپ دونوں نکل جاؤ دوپہر کے کھانے تک آجانا ( سارہ بیگم بولیں)
جاؤ مھر بیٹے تیار ہوجاؤ۔۔۔۔۔سارہ بیگم کے کہنے پر مھر اٹھ کے کمرے میں چلی گںٔی۔ اسے بلکل اچھا نہیں لگ ریا تھا یوں شادی سے پہلے تیمور کے ساتھ اکیلے جانا ۔ اس دن ولیمے سے واپسی پر بھی وہ مجبوری میں آگںٔی تھی ورنہ اسے تیمور کی نظریں ہمیشہ ہی کنفیوز کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
مھر کالی چادر پر گرم شال اوڑھ کر باہر آںٔی تو تیمور گاڑی کے پاس اسکا ہی ویٹ کرہا تھا ۔ بلیک پینٹ پر گرے شرٹ اور اوپر جینس کے جیکٹ پہنے وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ اسکے چہرے پر فرینچ داڑھی اسے بہت سوٹ کرتی تھی......
مھر کو دیکھ کر اسنے مسکرا کر اسکے لیے فرنٹ ڈور اوپن کیا ۔ مھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر بیٹھ گںٔی اور بیٹھتے ہی اسنے اپنی شال میں اپنا ہاتھ چھپا لیا جس میں انگوٹھی ہونی چاہیے تھی کیونکہ وہ اب کسی سوال کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی گھر میں بھی وہ سب سے یہی ہاتھ چھپاتی پھرتی تھی اور شادی کی تیاریوں میں کسی کی توجہ بھی ادھر نہ گںٔی ۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
یار بھاںٔی تمھیں شرٹ پسند کیوں نہیں آرہی کوںٔی اتنی اچھی تو ہے یہ والی ۔۔۔جلدی کرو نا مجھے پیکنگ بھی کرنی ہے ( عباس اکتا کر بولا)
چپ کر کے کھڑے رہو اپنی شوپنگ تو تمھاری ہوگںٔی ہے وہ بھی میری جیب سے اسی لیے تمھیں اب مسلہ ہورہا ہے نا( فارس اسے آنکھے دیکھاتا ہوا بولا)
ہاں بلکل صحیح کہہ رہے ہو ( عباس بھی ڈھٹاںٔی سے دانت نکالتا ہوا بولا )
آج شام عباس اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان ٹور پر جارہا تھا شادی کے ہنگاموں میں اسے وقت نہیں ملا اور فارس کا آج ہفتہ ہونے کی وجہ سے آف تھا تو اسی لیے اسے ساتھ شاپنگ کے لیے لے آیا تھا ۔۔۔۔۔
بڑے ہی کوںٔی بے شرم اور ڈھیٹ ہوگںٔے ہو ( فارس اسکے ڈھیٹوں کی طرح ہنسنے پہ بولا )
ہاں میں نے بھی یہی سوچا ۔۔۔ہاں اب پتا چلی وجہ میرے ڈھیٹ ہونے کی( عباس چٹکی بجاتے ہوۓ بولا)
کیا ( فارس شرٹ دیکھ رہا تھا عباس کی بات پر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا)
رمشا آپی کی دوست ہے نہ رانیہ اس بار اسکے ساتھ ہی رہ کر میں زیادہ ڈھیٹ ہوگیا ہوں وہ بھی ایسی ہی ڈھیٹ ہے بندہ کچھ بھی بول لے لیکن شرم اور غیرت بھول کے بھی اسے نہیں آتی( عباس شرارت سے اسے بولا )
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔کمینے ( فارس نے ہنس کے اسکی کمر پر دھپ لگاںٔی)
اسی وقت شاپ کے باہر سے دو لوگ گزرے جسکا فارس کو گمان ہوا کہ جیسے وہ مھر تھی۔ اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے وہ عباس سے بولا...
عابی تم یہ والی شرٹ فاںٔنل کرواؤ میں بس آبھی آیا ( فارس جلدی جلدی اسکے ہاتھ میں ایک شرٹ تھماتا ہوا بولا اور اسکے کچھ بھی کہنے سے پہلے شاپ سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔
باہر آکر فارس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑاںٔی تو سامنے ہی وہ شال والی لڑکی دکھی ساتھ میں کوںٔی مرد بھی تھا ۔ وہ لوگ کسی لیڈیز شاپ میں جارہے تھے ۔فارس بھی انھی کے پیچھے چل دیا ۔ لیکن شاپ کے باہر ہی شیشے سے اندر کا سارا منظر صاف دکھاںٔی دے گیا۔ وہ مھر ہی تھی اور ساتھ میں تیمور تھا جو ایک کے بعد ایک براںٔیڈل ڈریس نکلوا رہا تھا ۔۔۔
یہ سب دیکھ کر فارس کی دماغ کی رگیں اتن گںٔیں غصے کو قابو کرنے کے لیے اسنے زور سے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچ کر خود کو رلیکس کرنا چاہا ورنہ کوںٔی بعید نہیں تھی کہ جا کر تیمور کو تو مارتا ساتھ میں مھر کو بھی ایک لگاتا جو اسکے نکاح میں ہونے کے باوجود اپنی ہی شادی کے جوڑے لے رہی تھی ۔۔۔۔۔
مطلب کہ میرے نکاح میں آکر بھی تم اسی کو دل میں بساۓ بیٹھی ہو مھر فارس ۔۔۔۔اب میں وہ کروں گا جو تم یاد رکھو گی ہمیشہ ( یہ سوچتے ہی فارس غصے میں واپس مڑ گیا )
سامنے سے ہی عباس آرہا تھا اسے ڈھونڈتے ہوئے فارس کو دیکھ کر دوڑ کر اسکی طرف آیا ۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے بھاںٔی کہاں چلے گںٔے تھے مجھے دیر ہورہی ہے دوستوں کا کب سے فون آرہا ہے ( عباس پریشان ہوتا ہوا بولا )
سوری ۔۔۔چلو اب ( فارس یہ بول کر آگے بڑھ گیا )
عباس کو وہ ٹھیک نہ لگا ۔ گاڑی میں بھی سارے رستے وہ اس سے پوچھتا رہا لیکن وہ کوںٔی بوت نہیں ہے کہہ کے ٹال رہا تھا ۔ گھر پہنچ کر عباس اپنے کمرے میں چلا گیا تھا کیونکہ اسے کچھ دیر میں نکلنا تھا اور فارس غصے میں کھولتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ مسلسل وہ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا لیکن اسکا غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
آآآآااااا۔۔۔۔۔مھررررر ( فارس نے زور سے چیخ کر ساںٔیڈ ٹیبل پر پڑا جگ اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ اس وقت اسکے دماغ کی نیلی نسیں ابھر کر بہت واضح ہورہی تھیں ۔جبڑے اسنے ضبط سے بھینچے ہوئے تھے ۔ بلاآخر ایک فیصلے پر پہنچ کر اسنے اپنی گاڑی کا چابیاں اٹھاںٔیں اور باہر کی طرف بڑھ گیا ۔اس وقت وہ صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
ملیحہ بیٹے زرا یہ کڑاںٔی دیکھنا میں دروازے پر دیکھ آؤں کہ کون ہے ؟( سارہ بیگم درازہ بجںے کی آواز پر ملیحہ سے بولیں جو ان کے ساتھ ہی مدد کروارہی تھی )
جی چچی ( ملیحہ فوراً آگے ہوگںٔی)
سارہ بیگم نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے کسی لمبے چوڑے خوبصورت مرد کو کھڑے دیکھا۔۔۔۔
السلام علیکم آنٹی( فارس نے سنجیدگی سے سلام کیا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ مھر کی والدہ ہیں کیونکہ انکی کافی مشابہت مھر جیسی تھی)
واعلیکم السلام بیٹا آپ کون میں نے پہچانا نہیں ( سارہ بیگم نے جواب دے کر پوچھا)
آنٹی آپ مجھے نہیں جانتی کیا میں واجد صاحب سے مل سکتا ہوں ؟( فارس اپنے گلاسز اتارتے ہوۓ بولا)
ہاں وہ گھر پر ہی ہیں آؤ ( سارہ بیگم نے اسے اندر آنا کا رستہ دیا)
فارس اندر آیا تو سارہ بیگم اسے ڈراںٔنگ روم میں بٹھا کر خود واجد صاحب کو بلانے چلی گںٔیں تھیں جو کمرے میں اسفند صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم بیٹا ( واجد صاحب اندر آتے ہوۓ بولے ان کے ساتھ اسفند ملک بھی تھے )
واعلیکم السلام ( فارس نے فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کر ان سے اور اسفند ملک سےمصافحہ کیا)
بیٹھو ( واجد صاحب کو یہ لڑکا حلیے سے ہی کسی اچھے گھر کا لگا تھا)
جی بولیے ( واجد صاحب نے بات کا آغاز کیا)
آنکل میرا نام فارس شاہنواز ہے اور۔۔۔۔۔( فارس یہ بول کر تھوڑا رکا)
بولو بیٹا ( واجد صاحب اسے رکتا دیکھ کر بولے)
اور میں اپکی بیٹی کی دوست رمشا کا بھائی ہوں ( فارس یہ کہہ کر چپ ہوگیا)
اچھا اچھا ۔۔۔۔رمشا کے بھائی ہو وہ تو بڑی پیاری بچی ہے خیر سے اسکی ابھی شادی ہوںٔی ہے اللّٰہ تعالیٰ اسے خوش رکھے ( واجد صاحب اسکے تعارف پر مسکراتے ہوۓ بولے لیکن فارس مسکرا بھی نہ سکا)
لیکن انکل میرا تعارف یہاں پورا نہیں ہوا مجھے اور بھی بہت کچھ بتانا ہے اپکو ۔۔۔۔۔آپ میری بات دھیان سے سنیے گا ( فارس کی بات پر واجد صاحب نے خاموش ہو کر اسفند ملک کی طرف دیکھا پھر بولے)
کہو بیٹا میں سن رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل میں آپکی بیٹی مھر واجد ملک کا شوہر ہوں ہم دونوں نے دو دن پہلے نکاح کیا ہے ( فارس کے انکشاف پر واجد صاحب نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا انکو یہ سن کر اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا ۔۔۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو تم ؟( یہ اسفند ملک تھے جن کا یہ سن کر دماغ ہی گھوم گیا تھا)
میں بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں انکل میں مھر ایک دوسرے سے نکاح۔۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی اب ایک لفظ مت نکالنا اپنے منہ سے ( اسفند ملک نے غصے میں اسکا گریبان پکڑلیا واجد صاحب صدمے اور بے یقینی سے سب دیکھ رہے تھے انھیں اپنی جسم میں اس وقت جان بھی محسوس نہیں ہورہی تھی)
شور کی آواز سن کر اندر سے ساری خواتین اور رباب اور ملیحہ بھی آگںٔیں ۔ عاںٔشہ بیگم بھی یہیں تھیں جنہیں دوپہر کے کھانے کے بعد تیمور کے ساتھ جانا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے گریبان میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے آگر آپ اپنی بیٹی سے پوچھ لینگے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ( اپنے گریبان سے ان کے ہاتھ ہٹاتے ہوۓ فارس سنجیدگی سے بولا )
کیا بات ہے بھائی صاحب کون ہے یہ لڑکا اور مھر کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے ( یہ عاںٔشہ بیگم تھیں جو مھر کا نام سن کر فوراً بولیں )
میں آپ سب کو صرف یہی بتانے آیا تھا اب شرافت سے یہ شادی رکوادیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا کیونکہ میں مھر کو نہیں چھوڑنے والا ( فارس یہ بول کر سب پر ایک نظر ڈالتا باہر کی طرف بڑھ گیا ) ۔۔۔۔۔۔۔
باہر نکل کر فارس جیسے ہی اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا سامنے سے تیمور کی گاڑی آتے ہوۓ نظر آںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کو دیکھ کر مھر وہیں ساکت ہوگںٔی ۔فارس کا اسکے گھر سے نکلنا اسے بہت کچھ چیخ چیخ کے بتا رہا تھا ۔مھر کو لگا کہ وہ اب دوسرا سانس نہیں لے پاۓگی۔
چلیں مھر ( تیمور کی آواز پر مھر نے چونک کر اسے دیکھا )
مھر کیا آپ ٹھیک ہیں ؟( مھر کی دمکتی رنگت اس وقت بلکل پیلی پڑ گںٔی تھی جسے دیکھ کر تیمور نے تشویش سے پوچھا)
ب۔۔۔۔بابا۔۔۔۔ا۔۔امی۔۔۔۔۔ ( مھر بے ربط ساجملہ بول کر فوراً گاڑی کا دروازہ کھولتی باہر نکل گںٔی تب تک فارس جا چکا تھا)
مھر۔۔۔مھر ( تیمور کو وہ بلکل بھی ٹھیک نہ لگی اسی لیے پریشانی سے اسکے پیچھے بڑھ گیا)
مھر جب گھر میں آںٔی تو تب تک ایک طوفان اسکے آنے سے پہلے آیا اور اسکا سب کچھ بہا کر لے گیا اور وہ تہہ دامن رہ گںٔی تھی اور اب قیامت شدت سے اسکی منتظر تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر ڈراںٔنگ روم کی طرف آںٔی جہاں اندر سے شور کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔۔۔۔۔
بس کریں بہن اور کتنی پردہ داری کریں گی اپنی اس پاک صاف بیٹی کی ( یہ آواز عاںٔشہ بیگم کی تھی )
اپنے بارے میں ایسے الفاظ سن کر مھر نے کرب سے آنکھیں بھینچ لیں اور ایک آنسو اسکی خوبصورت آنکھوں سے نکل کر بے مول ہوگیا۔۔۔۔
کیا بات ہے مھر آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں اور اتنا شور کوں ہے ( تیمور کی آواز پر مھر نے اسکی طرف دیکھا اور خاموشی سے اندر بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔
لیں۔۔ آگںٔی اپکی باکردار بیٹی (مہر کو آتا دیکھ عاںٔشہ بیگم اسکی طرف مڑیں)
ماما کیا بات ہے آپ اس طرح کیوں بول رہیں ہیں( تیمور بھی اندر آتے ہی بولا)
بیٹا شکر کرو بچ گںٔے ہو ایسی بدچلن لڑکی سے ۔نکاح کر کے بیٹھیں ہے اپنے عاشق سے ( عاںٔشہ بیگم کی بات پہ تیمور کے ہاتھوں میں موجود شادی کا جوڑا ادھر ہی گر گیا)
کیا کہا اپنے؟( اسنے پھر پوچھا کیونکہ اسے بھی اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا)
ہاں بیٹا یہ لڑکی اپنے من پسند انسان سے شادی کر آںٔی ہے خاک مل کے آگںٔی ہے سب کے سروں میں ( عاںٔشہ بیگم کا یہ کہنا تھا کہ مھر نے وہیں کھڑے کھڑے دیوار کا سہارہ لے کر خود کو کھڑے رہنے میں مدد دی اسنے آنسو سے بھری نظروں سے سب کو دیکھا ۔ سارہ بیگم ، روبینہ بیگم اور رباب کھڑی رورہیں تھیں ۔ واجد صاحب سر جھکاۓ صوفے پر بیٹھے تھے اسفند ملک بھی پاس ہی کھڑے اسے غصے سے گھور رہے تھے۔ تیمور ضبط سے کھا جانے والی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا اور رقیہ بیگم چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لیے ملیحہ کے ساتھ بیٹھی تھیں جو خود بھی بے یقینی سے مہر کو ہی دیکھ رہی تھی. اچانک سارہ بیگم آگے بڑھیں اور ایک زور دار تھپڑ مہر کے پھول سے گالوں پر مارا ۔
بول کیا کہہ کر گیا ہے وہ لڑکا ۔۔...ہاں بولتی کیوں نہیں ہے ارے تجھے پیدا کرتے ہی ہم نے مار کیوں نہ دیا مہر ہمارے سروں میں اس عمر میں خاک ڈال آںٔی ۔۔۔کیوں کیا تونے ایسا ۔۔بول مہر ( سارہ بیگم اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑ کے پوچھ رہیں تھیں)
لیکن مہر چپ چاپ چہرہ جھکاۓ آنسو بہارہی تھی ۔اسکے کچھ نہ بولنے پر انھوں نے ایک اور تھپڑ اسکے گال پر دے مارا جس سے مہر لڑکھڑا کر دیوار سے جا لگی ۔۔۔۔۔۔۔
رک جاںٔیں سارہ ( واجد صاحب کی آواز پر وہ روتے ہوۓ وہیں رک گںٔیں ۔اس پورے عرصے میں وہ اب بولے تھے لیکن ان کی آواز میں اب دکھ تھا پچھتاوا تھا جس کو محسوس کر کے مہر اور زمین میں گڑھتی چلی گںٔیں۔ واجد صاحب اٹھ کر اسکے سامنے آۓ۔۔۔۔۔۔
کیا یہ سب سچ ہے مہر؟( واجد صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا)
بھاںٔی صاحب اب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بات کر رہا ہوں بہن ( عاںٔشہ بیگم کی بات بیچ مجں ہی کاٹ کر وہ بولے)
یہ سب سچ ہے مہر؟( واجد صاحب پھر بولے)
ب۔۔۔۔با۔۔۔بابا ایک بار میری بات.......
میں نے پوچھا کیا تم اور اس لڑکے نے نکاح کیا ہوا ہے؟( اس بار واجد صاحب تھوڑا اونچی آواز میں بولے )
ان کے اس طرح بولنے پر مھر نے سختی سے آنکھیں بھینچ لیں اس وقت اسنے شدت سے خود کے لیے بد دعا کی کہ زمین پھٹ جاۓ اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔۔۔۔
ج۔۔۔۔۔۔ج۔۔۔۔جی ب۔۔بابا ۔۔۔سس۔۔سچ ہے ۔۔یہ( مہر ہچکیوں کے درمیان میں بامشکل بولی)
اور بس اسی وقت واجد صاحب کے قدم لڑکھڑاۓ اور وہ دل پر ہاتھ رکھ کر گرنے ہی والے تھے کہ اسفند ملک نے آگے بڑھ کر انھیں تھام لیا۔۔۔۔
بھائی صاحب۔۔۔کیا ہوا آپ کو ۔۔بھاںٔی سنبھالیں خود کو۔۔۔۔۔( اسفند ملک پریشان ہوتے ہوۓ بولے)
ب۔۔۔بابا ۔۔۔آن۔۔۔انکھیں کھولیں ( مہر دوڑ کر انکے پاس بیٹھتی ہوںٔی بولی)
سب لوگ فوراً ان کے پاس جمع ہوگںٔے ۔۔۔۔
واجد آنکھیں کھولیں ( سارہ بیگم روتے ہوۓ بولیں )
بس شروع ان لوگوں کی ڈرامے بازی پہلے عزت کا چولا چڑ ھاتے ہیں خود پر پھر جب بیٹیاں سروں میں خاک ڈال آتی ہیں تو یہ ڈرامے کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چلو تیمور یہاں سے ( عاںٔشہ بیگم زہر اگلتی تیمور سے بولیں جو مہر کو ایسے دیکھ رہا تھا کہ ابھی اسکا قتل کردے گا ۔ عاںٔشہ بیگم اسے زبردستی ساتھ کھینچتی ہوںٔی لے گںٔیں)
بھابی مجھے لگتا ہے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوگا ( اسفند ملک بولے)
چلیں پھر ( سارہ بیگم روتے ہوۓ بولیں)
ب۔۔۔با با ( مھر کے رونے میں اور بھی شدت آگںٔی)
میں ایمبولینس کو کال کرتا ہوں ( یہ بول کر اسفند ملک کال کرنے چلے گںٔے)
دور رہو ان سے اپنے باپ کو اب تو بخش دو( رقیہ بیگم اسے دیکھتی حقارت سے بولیں)
روبینہ بیگم نے اٹھ کر اسے ساتھ لگایا اور کسی کا سہارا پاکر مہر اور بکھرتی چلی گںٔی......
اسی وقت ایمبولینس آںٔی اور واجد صاحب کو ہسپٹل لے گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
اسکے گھر سے نکل کر وہ مسلسل تین گھنٹے سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑاتا رہا ۔ وہ جانتا تھا کہ اسکے جانے کے بعد وہاں قیامت آںٔی ہوگی جسکا اب اسے رہ رہ کہ افسوس بھی ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میں نے بلکل صحیح کیا ہے اسے کوںٔی حق نہیں پہنچتا میرے نکاح میں ہو کر یہ سب کرنے کا (لیکن وہ بھی اپنے دماغ کو دلیلیں دے کر خود کو صحیح ثابت کر کے مطمئن ہوجاتا کیونکہ دل کی وہ سننا ہی نہیں چاہتا تھا جو صرف اسے ہر جگہ سے قصوروار بنارہا تھآ)
ان ہی سب سوچوں کے دوران ہی جب وہ گھر پہنچا تو عباس جانے کے لیے تیار کھڑا تھا فارس کو دیکھتے ہی اس سے ملا اور اپنے دوستوں کے ساتھ نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے فارس پریشان ہو؟ ( دانیہ جو مسلسل اسے سوچوں میں غرق دیکھ رہی تھی اس سے رہا نہ گیا تو پوچھ لیا)
نہیں ٹھیک ہوں میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں ( فارس سنجیدگی سے بولا)
کیا ہوا میری جان کو ؟ ( اماں جی نے اسے دیکھ کر پوچھا )
کچھ نہیں اماں جی سر میں بہت درد ہے ۔۔۔۔۔۔
سرد لگ گںٔی ہوگی میں دبا دوں اپنے بچے کا سر( اماں جی محبت سے بولیں)
نہیں اماں جی تھوڑا آرام کروں گا تو ٹھیک ہو جاؤ گا ( فارس انکے ہاتھ چومتا ہوا بولا)
چل جا تو کمرے میں اوپر میں تیرے لیے گرم گرم کافی بھجواتی ہوں ( اماں کی کے کہنے پر وہ مسکرا کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا)
کمرے میں آتے ہی اسکی ساری مسکراہٹ غاںٔب ہوگںٔی ۔ مہر کے ساتھ کیا ہوا ہوگا یہی سوچ اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
مہر ۔۔۔۔مہر کیوں کرتی ہو تم ایسا کہ مجھے انتہائی قدم اٹھانا پڑجاتا ہے ( فارس اپنے سر کو انگلی کے پوروں سے دباتا ہوا مہر سے مخاطب تھا ۔انا اتنی تھی کہ خود کو قصوروار ماننے کو وہ تیار ہی نہیں تھا۔وہ انھیں سوچوں میں غرق بیڈ پر جوتوں سمیت ہی لیٹ گیا۔۔۔۔
لیکن میں تمھیں چھوڑ بھی نہیں سکتا جانِ فارس۔۔۔میری نس نس میں بستی ہو تم میری ہر ایک سانس میں آتی جاتی ہو تم ۔۔۔۔۔مجھے جلد سے جلد تمھیں اپنے پاس لانا ہوگا۔۔۔ہاں میں آج ہی ڈیڈ سے بات کروں گا تم اکیلے کچھ برداشت نہیں کروگی۔۔۔۔۔
ایک فیصلے پر پہنچ کر اسنے آنکھیں موند لیں....
🔥🔥
ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں میرے بھاںٔی ؟ ( ڈاکٹر کے آتے ہی اسفند ملک نے بے صبری سے ان سے پوچھا)
اس وقت وہ سب ویٹنگ روم میں بیٹھے واجد صاحب کی زندگی کے کیے دعاںٔیں مانگ رہے تھے ۔مہر تو کسی سے نظریں ہی نہیں ملا پارہی تھی سب کی نظروں میں اسکے لیے صرف حقارت، غصہ ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں شاک لگنے کی وجہ سے ہرٹ اٹیک ہوا ہے آپ کے بروقت ہسپٹل لانے سے ان کی جان بچ گںٔی ہے ورنہ بہت مشکل ہو جاتا ہمارے لیے انکو بچانا ابھی وہ ںے ہوش ہیں پر کچھ دیر میں ہوش آجاۓ گا توکچھ دیر میں آپ ان سے مل لیجیے گا ( ڈاکٹر پروفیشنل اسٹاںٔل میں بول کر آگے بڑھ گںٔے)
ہہہہہ۔۔۔۔باپ کو بھی نہیں چھوڑا اس منحوس نے اگر اتنا ہی پیار تھا اپنے اس عاشق سے تو شادی والا ڈرامہ ہی کیوں کیا گھر پہ ( رقیہ بیگم اب بھی زہر اگلنے سے بعض نہ آںٔیں).......
بس کردو رقیہ جگہ اور موقع دیکھ لیا کرو سب پہلے ہی بہت پریشان ہیں ( اسفند ملک نے انھیں ڈانٹ کے چپ کروانا چاہا)
کیا بس کردوں میں بتا رہی ہوں آپ کو کل کے ٹکٹ کرواںٔیں ہماری واپسی کے میں جلد سے جلد واپس جاؤ نگی ( رقیہ بیگم انکی بات کو نظر انداز کرتی ہوںٔی بولیں)
رقیہ.....( اسفند ملک دبے دبے غصے میں چیخے)
معاف کرنا بہن ۔۔۔۔ہم اور نہیں رک سکتے میں نہیں چاہتی کہ اپکی اس بدچلن بیٹی کا سایہ میری بیٹی پر پڑے ( رقیہ بیگم بغیر لحاظ کے سارہ بیگم سے بولیں)
جو ان کی بات پر دوپٹے میں منہ دے کر رونے لگیں ۔وہ آج اپنی بیٹی کا دفاع نہیں کر سکتیں تھیں اور کرتی بھی کیسے انکی بیٹی نےانھیں اس لاںٔق ہی نہیں چھوڑا تھا ۔ رباب ساتھ کھڑی انکو تسلی دے کر چپ کروارہی تھی۔اپنی ماں کو یوں بلک بلک کے روتا دیکھ مہر اور زمین کے اندر گڑھتی چلی گںٔی ۔۔۔۔۔۔
خدا کرے فارس آپ مر جاںٔیں یا میں مر جاؤ پھر کسی ایک کی زندگی میں سکون ہوجاۓگا ( مہر نے یہ سب دیکھ کر دل میں فارس اور اپنے لیے شدت سے بد دعا کی)
♥️♥️♥️♥️
رات میں سب کھانے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے کوفی پی رہے تھے ۔ شاہنواز صاحب اور قمر صاحب آفس کا کچھ کام ڈسکس کر رہے تھے اور دانیہ آمنہ بیگم کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی کیونکہ وہ کسی طرح بھی فارس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی ۔ایسے میں فارس کوفی کا بھاپ اڑاتا کپ لیے سوچوں میں گم بیٹھا تھا وہ جانتا تھا کہ جو بات وہ کرنے جارہا ہے وہ کسی طور بھی معمولی نہیں تھی اور شاہنواز صاحب کا ریکشن کیسا ہوگا ۔اماں جی تو اس سے بہت ناراض ہونگی کیونکہ مہر سے انکی محبت وہ جانتا تھا اور آمنہ بیگم نے بھی بہت غصہ کرنا تھا لیکن بات کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ جب یہ انتہائی قدم اٹھا ہی لیا تھا تو اب ڈر کر کیا فاںٔدہ اسکے نتاںٔیج کتنے بھیانک ہونگے یہ سوچنا اب بلکل بے کار تھا ۔بلاآخر کوفی کا کپ ساںٔڈ ٹیبل پر رکھ کر فارس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو بات کرنے کے لیے تیا ر کیا اور شاہنواز صاحب کو مخاطب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈ ۔۔۔۔۔۔۔( فارس کے پکارنے پر شاہنواز صاحب سمیت سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ)
جی بیٹے (شاہنواز صاحب بولے)
مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ( فارس نظریں جھکاۓ ہوۓ بولا)
ہاں کرو میں سن رہا ہوں ( شاہنواز صاحب کو اسکا انداز ہی بتا رہا تھا کہ بات کچھ معمولی نہیں ہے ورنہ فارس اتنا کبھی نہیں جھجھکتا)
ڈیڈ میں آپ سب کو کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
میں شادی کرنا چاہتا ہوں ( فارس کی بات پر وہاں بیٹھے سب لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آگںٔی۔۔۔۔
ارے برخودار یہ تو بہت اچھی خبر ہے کہ آپ زندگی کے ساتھ اس معاملے پر بھی سیریس ہوۓ ہیں میں اور قمر کچھ ہی دنوں میں تم سے اسی بارے میں بات کرنا چاہ رہے تھے (شاہنواز صاحب اسکی فرماںٔش پر مسکراتے ہوئے بولے)
مطلب ( فارس کو سمجھ نہ آںٔی انکی بات )
مطلب یہ کہ ہم سبکی خواںٔش ہے کہ تمھاری شادی دانیہ سے ہو ( بات تھی یا کوںٔی دھماکہ جو فارس کے سر پر شاہنواز صاحب نے کیا تھا اسنے نظر گھما کر دانیہ کی طرف دیکھا جو آمنہ بیگم کے پہلو میں شرماںٔی ہوںٔی سی بیٹھی تھی ۔فارس کو اب حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا کہ اب کیا ہوگا)
نہیں ڈیڈ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں ( فارس نے ہمت کر کے کہا)
اسکی بات پر وہاں بیٹھے سب لوگوں کے چہرے کی مسکراہٹیں لمحوں میں غاںٔب ہوںٔیں تھیں )
کیا مطلب کسے پسند کرتے ہو؟ ( شاہنواز صاحب نے سنجیدگی سے پوچھا)
دانیہ تو بس سانس روکے اسے ہی سن رہی تھی دل بس یہی دعا کر رہا تھا کہ جو وہ سمجھ رہی ہے وہ نہ ہو۔۔۔۔
مہر ۔۔۔۔مہر نام ہے اسکا ( فارس کے کہتے ہی دانیہ نے اپنی آنکھیں ایسے بند کرلیں کہ جیسے یہ کرنے سے حقیقت بدل جاۓگی ۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بات پر اماں جی اور آمنہ بیگم نے حیرت انگیز نظروں سے اسے دیکھا ۔جب کے مسرت بیگم کو کوںٔی حیرت نہ ہوںٔی تھی کیونکہ انھیں کافی حد تک اندازہ تھا کہ فارس اسے دل سے نہیں نکال پایا........
اگر رمشا کی سہیلی مہر کے بارے میں بات کررہے ہوتو میرے خیال سے وہ منگنی شدہ ہے ( شاہنواز صاحب اسی سنجیدگی سے بولے)
جی ڈیڈ اسی کے بارے میں بات کررہا ہوں لیکن وہ اب منگنی شدہ نہیں ہے اسکی منگنی ٹوٹ گںٔی ہے ( فارس اب کیا بتاتا کہ منگنی نہیں شادی شدہ ہوگںٔی )
کیا وجہ تھی ٹوٹنے کی؟( شاہنواز صاحب نے پوچھا)
وہ۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا ( فارس جھوٹ کا سہارا لیتا ہوا بولا)
چلیں جو بھی وجہ ہے اسکی منگنی ٹوٹنے کی لیکن ہم قمر کو زبان دے چکے ہیں اور آپکی شادی دانیہ سے ہی ہوگی ( شاہنواز صاحب حتمی انداز میں بولے)
نہیں ڈیڈ میں دانیہ سے شادی نہیں کرسکتا ( فارس جھٹکے سے صوفے سے اٹھتے ہوۓ بولا )
کیا بدتمیزی ہے یہ فارس اب کیا تم بڑوں کے فیصلوں سے بھی اختلاف کروگے ؟( شاہنواز صاحب تھوڑا غصے میں بولے)
سوری ڈیڈ لیکن یہ اب بلکل ممکن نہیں ہے ( فارس ہنوز اسی انداز میں بولا)
سب باپ بیٹے کی تکرار چپ چاپ دیکھ رہے تھے دانیہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ مہر کو دنیا سے ہی غاںٔب کردے ۔ اماں جی کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ انکی خواہش اس طرح پوری ہوگی....
کیوں اب کیوں ممکن نہیں ہے ۔۔۔۔ایسا بھی کیا ہوگیا ہے پسند ہی ہے اور پسند بدل سکتی ہے؟ ( شاہنواز صاحب نے پوچھا)
میں ۔۔۔میں مہر سے نکاح کرچکا ہوں ( فارس کے اس انکشاف کو سنتے ہی لاؤنج میں بیٹھے سب لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔ فارس یہ بات کرے گا کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا ۔ سب سے پہلے شاہنواز صاحب کو ہوش آیا ۔۔۔۔۔
فارس کیا بکواس کررہے ہو تم یہ؟ ( شاہنواز صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے دھاڑ کر بولے)
دانیہ کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان پھٹا اور اس کے اوپر آگرا ہے جب سب برداشت سے بڑھ گیا تو وہ جھٹکے سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی ،آمنہ بیگم اور مسرت بیگم تینوں شاکڈ تھیں انھیں فارس سے اس بات کی امید بلکل بھی نہیں تھی۔قمر صاحب بھی حیرت سے یہ سب دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ڈیڈ میں مہر سے نکاح کرچکا ہوں اور یہ بھی سچ ہے کہ اس میں اسکی مرضی بلکل نہیں تھی ۔۔۔( فارس کے یہ کہتے ہی آمنہ بیگم اپنی جگہ سے اٹھیں اور ایک زور دار تھپڑ فارس کے منہ پر مارا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تربیت کی تھی میں نے تمھاری جو تم دوسروں کی عزت کو یوں اچھالتے پھرو ۔۔ہاں بولو( آمنہ بیگم روتے ہوۓ چلا کر بولیں)
مجھے معاف کردیں موم لیکن میرے پاس اور کوںٔی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا ( فارس نظریں جھکاۓ بولا)
بس کردو فارس بس کردو ۔۔۔۔اس بچی کو تم نے کہیں منہ دکھانے لاںٔق نہیں چھوڑا ہمیں تم سے اتنی گری ہوںٔی حرکت کی امید نہیں تھی ( اماں جی کی صدمے بھری آواز لاؤنج میں گونجی)
میرا یقین کریں اماں جی میرا مقصد صرف اسے پانا تھا مجھے اور کوںٔی دوسرا رستہ نظر نہ آیا اسی لیے میں۔۔۔۔۔۔۔
اسکا مطلب اسکی منگنی بھی تمھاری وجہ سے ٹوٹی ہوگی کیا اسکے گھر میں بھی پتا کے یہ سب؟ ( شاہنواز صاحب اسکی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بولے)
جی ڈیڈ ۔۔۔۔۔
یا میرے اللّٰہ۔۔۔ فارس یہ تونے کیا کیا اس ظالم دنیا میں تونے اسکو ذلیل ورسوا کردیا( اماں جی یہ سنتے ہی اپنا سر تھام کے بیٹھ گںٔیں۔قمر صاحب بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گںٔے اور مسرت بیگم نفرت سے سب پر ایک نظر ڈالتیں دانیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گںٔیں ۔۔۔۔۔۔
اماں جی میں جانتا ہوں میرا طریقہ غلط تھا لیکن میری نیت بری نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔( فارس اماں جی کے قدموں میں بیٹھتا ہوا بولا)
ہہ۔۔۔۔دنیا تمہارا عمل دیکھتی ہے فارس تمہاری نیت نہیں ۔۔۔ رمشا کو جب پتا چلے گا کہ تم کیا کر چکے ہو تو سوچا ہے اس پہ کیا گزرے گی اور عباس اس پر تمہاری اس حرکت کا کیا اثر پڑے گا آج تم نے ہمارے کندھے جھکا دیۓ فارس مجھے تمھیں اپنا بیٹا کہتے ہوۓ بھی شرم آتی ہے ( شاہنواز صاحب افسوس سے بولے)
ایسے مت بولیں ڈیڈ میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے لیکن میں اسے چھوڑوں گا نہیں بلکہ لے کر آؤنگا عزت سے ( فارس تڑپ کر فوراً شاہنواز صاحب کے سامنے کھڑا ہوتا ہوا بولا )
فارس شاہنواز اسکو رسوا کر کے تم اسے غلطی کہتے ہو اور کونسی عزت کی بات کر رہے ہو ۔۔۔؟؟عزت تو تم اسکی کب کی تار تار کرچکے ہو ۔۔۔تم نے ہمیں اس بچی کے سامنے نظر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا فارس ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے ( شاہنواز صاحب دکھ سے بول کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔے)
اماں جی آپ تو مجھے سمجھنے کی کوشش کریں میں اسے بہت چاہتا ہوں ( فارس اماں جی کے ہاتھ تھامتا ہوا بولا)
چاہتی تو میں بھی تھی کہ وہ بچی تیری ہوتی لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میرا چاہنا ایسے پورا ہوگا ہم سب اس بچی کے گنہگار ہیں ۔۔۔۔آمنہ مجھے میرے کمرے میں چھوڑ آؤ ۔۔۔۔۔( اماں جی فارس سے اپنا ہاتھ چھوڑواتیں اس پر ایک افسوس بھری نگاہ ڈال کر آمنہ بیگم کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گںٔیں اور فارس انھیں جاتا دیکھتا رہ گیا)...............
♥️♥️♥️♥️Assalamualaikum reader's...... typing ma agr koi ghlti ho tw please nazarandaz krdijiye ga .....
Apki Writer Mehrmah shah 🌹
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔