part 9

639 46 11
                                    

مھر آپیا کیا آپ دو منٹ مجھے اپنا فون دے سکتی ہیں ؟...میرا فون چارج نہیں ہے تو اسی لیے آف ہوگیا ہے ( عباس صوفے پر دھپ سے بیٹھتے ہوۓ مھر سے بولا جو لاؤنج میں باقی لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی رمشا کا سامان پیک کر رہی تھی )
ہاں کیون نہیں یہ لو ( مھر نے مسکراتے ہوئے اسے اپنا فون پکڑوایا)
تھینک یو ( عباس فون لے کر جانے والا تھا کہ رانیہ کی بات نے اسکے قدم روک دںٔیے)
اوۓ لنگور اپنی جیسی لنگورن گرل فرینڈ سے بات کروگے نہ( چپسوں کے پیکٹ سے بھرپور انصاف کرتی ہوںٔی رانیہ کی زبان میں کھجلی ہوںٔی) ۔۔۔۔۔
ہاں تو کرونگا نہ بھلے ہی لنگورن سہی لیکن تم جیسی پیٹو اور موٹی تو نہیں ہے نہ ( عباس اسکے چپسوں پر چوٹ کر کے بھاگ گیا)
اور پیچھے ساری لڑکیاں اسکی بات پر جہاں ہنسنے لگی وہیں رانیہ بیچاری تپ کے رہ گںٔی).......
🔥🔥
اتنی دیر کیوں لگادی تم نے ( فارس بے صبری سے ٹھل رہا تھا اسی وقت عباس کے آنے پے بولا)
بس کیا کروں بھاںٔیو !!!!!اپکے بھائی کو لڑکیاں گھیر کر بیٹھ گںٔی چھوڑ ہی نہیں رہیں تھیں ( عباس نے اپنا فرضی کالر جھاڑتے ہوۓ چٹکلا چھوڑا)
چپ کر مسخرے جس کام کے لیے بھیجا تھا وہ کیا یا یہ ایسے ہی آگیا؟؟( فارس نے اپنی ہنسی دبا کر اس سے پوچھا)
کیا۔۔کیوں نہیں کیا لیکن پہلے بتاؤ مھر اپیا کا فون کیوں چاہیے تھا( عباس نے حوالداروں کی طرح پوچھا)
تاکہ اسے تیری بھابی بنا سکوں ( فارس سکون سے بولا)
کیااااااا۔۔۔۔۔سچ لیکن انکی تو منگنی ہوگںٔی ہے ( عباس ایک لمحے خوش جبکہ دوسرے لمحے ہی اداس ہوکر بولا)
ہاں تو ہونے دے دیکھ لیں گے اسے بھی چل دے فون اب ( فارس کے کہنے پر عباس نے اسے گھور کر فون پکڑا دیا)
بھاںٔی تم کچھ ٹھیک نہیں کر رہے ہو ( فارس کو فون دے کر وہ مشکوک ہو کے بولا)
اس کے علاؤہ میں کچھ کر بھی نہیں سکتا ( فارس فون میں مصروف بولا)
تم کیا پسند کرتے ہو مھر آپیا کو؟( عباس نے جانجتی نظروں سے پوچھا)
شاید...اور اب کوںٔی سوال نہیں دو جاکر اسے فون ( فارس سے فون دیتا بولا اور عباس منہ بسور کر چلا گیا)
فون سے اسنے تیمور کا نمبر لیا تھا۔۔۔۔ اس وقت وہ کیا سوچ رہا تھا کوںٔی نہیں جانتا تھا ).......
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
اگلا دن چڑھتے ہی گھر میں الگ ہی رونق اور چہل پہل لگ گںٔی تھی آج رمشا کی بارات تھی اور آج کا فنکشن گزار کر مھر اور رانیہ نے صبح اپنے گھر چلے جانا تھا۔۔۔۔۔۔
مھر اور رانیہ رمشا کو لے کر پارلر گںٔیں ہوںٔیں تھیں ۔باقی کی سب خواتین اپنے اپنے کام نپٹا رہیں تھی ۔دانیہ بھی رمشا سے پہلے پارلر پہنچ گںٔی تھی۔۔۔۔۔
بارات شھر کے بہت بڑے ہوٹل میں رکھی گںٔی ۔ساری ینگ پارٹی کو اماں جی کی ڈانٹ نے ہی کمروں سے نکالا تھا ورنہ تو انکا کوںٔی ارادہ نہیں تھا ۔پھر سب باری باری گاڑیاں بھر کے ہوٹل کے لیے نکل گںٔیں۔ رات 10 بجے کے قریب بارات آگںٔی تھی ۔بارات کا استقبال بہت شاندار طریقے سے کیا گیا۔شاہنواز صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی پر دل کھول کے پیسہ لگایا تھا سارے انتظامات ہی بہت لاجواب تھے۔گولڈن کلر کی خوبصورت شیروانی میں عمار بہت وجہیہ لگ رہا تھا ۔ بارات کے آتے ہی تمام لوگ اسی طرف بڑھ گںٔے۔ لیکن ان سب میں ایک وہ بھی تھی جس کی نظریں فارس شاہنواز کے چہرے سے ہٹنے پر رضامند نہ تھیں۔فارس کالی شلوار قمیض اور اوپر بلیک ہی واس کوٹ پہنے استینوں کو بازو تک فولڈ کیےنظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا ۔اسکے چہرے پر موجود سنجیدگی ہی اسے سب سے منفرد بنا رہی تھی اور یہی دانیہ کو اسکی طرف کھینچ رہی تھی۔ دانیہ فارس والی گاڑی میں ہی آںٔی تھی لیکن فارس نے اس پر ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی ضروری نہ سمجھا۔ دانیہ دل کے ہاتھوں مجبور مغرورانہ چال چلتی فارس کی طرف قدم بڑھا چکی تھی۔۔۔۔
ہاۓ فارس کیسے ہو ؟ ( دانیہ نے ایک ادا سے چہک کے پوچھا )
دانیہ کی آواز پر فارس جو کہ باراتیوں سے ملنے جارہا تھا وہیں رک گیالیکن ایکدم ہی چہرے پر ناگواری اتر آںٔی جو دانیہ کو دوپٹےکے بغیر دیکھ کر تھی دانیہ نے پنک کلر کی قیمتی ٹاںٔٹ سی میکسی پہنی ہوںٔی تھی جس پر دوپٹہ لینے کی زحمت نہیں کی گںٔی تھی ۔ سردی میں بھی اسکا فیشن پوری طرح قاںٔم تھا ۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہوں ۔۔( فارس نے فوراً نظروں کا زاویہ بدل کر جواب دیا)
اچھا بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں آج؟؟ ( دانیہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کے بولی)
ٹھیک لگ رہی ہو ( فارس اسے دیکھے بغیر بولا)
ابھی دانیہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ
فارس فوراً آگے بڑھ کر بارات کے استقبال کے لئےچلا گیا ۔دانیہ اپنی بے عزتی پر اسے صرف دیکھ کے رہ گںٔی۔۔۔۔
کچھ دیر میں دلہن آنے کا شور اٹھا . رمشا لال اور گولڈن کے امتزاج کے لہنگے میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔ اس پر بہت روپ آیا تھا۔ اسکے باںٔیں طرف رانیہ تھی جس نے گولڈن اور مھرون ویلوٹ کا کام دار جوڑا پہنا تھا وہ بھی بے حد پیاری لگ رہی تھی ۔ رمشا کے داںٔیں طرف مھر تھی ۔اسنے ڈیپ ریڈ اور ڈل گولڈن کے امتزاج کا جوڑا پہنا تھا جس پر خوبصورت ڈل گولڈن ہی نفیس سا کام تھا ۔ فارس کی نظر مھر پہ گںٔی تو وہ پلک جھپکانا ہی بھول گیا اور یہ بات سامنے کھڑی دانیہ نے شدت سے نوٹ کی تھی ۔ رانیہ اور مھر رمشا کو پکڑ کر لا رہی تھی ۔ مھر نے ایک ساںٔڈ سے رمشا کا شرارہ پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے بالوں کو بار بار کانوں کے پیچھے کرتی جو لہنگا ٹھیک کرنے کی وجہ سے جھکنے سےآگے آجاتے۔ اسکی حسین نشیلی آنکھوں پہ ڈارک میک اپ انھیں اور قاتلانہ بنا رہا تھا۔ جو کہ فارس شاہنواز کو پاگل کیے جارہی تھی۔ رمشا کو اسٹیج پر عمار کے ساتھ بٹھا کر مھر جیسے ہی پلٹی تو سیدھا اپنے عین پیچھے کھڑے  فارس کے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے بچ گںٔی ۔ اس اچانک افتاد پر دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ملیں ۔۔۔کیا کچھ نہ تھا فارس کی آنکھوں میں محبت ،غصہ، ضد، اور سب سے بڑھ کر اسکے حسن کا خمار لیکن مھر کسی بھی چیز کو سمجھے بغیر اپنا دوپٹہ سنبھالتی ایک ساںٔڈ سے نکل گںٔی ۔ اسکے بعد پوری تقریب میں مھر فارس کی نظروں کا مرکز بنی رہی ۔ اور دانیہ یہ دیکھ کر ہی پاگل ہوںٔی جارہی تھی۔ بلاآخر یہ تقریب خیر سے اختتام کو پہنچی اور رمشا بہت سی دعاؤں اور قرآن پاک کے ساںٔے میں اپنے گھر کی ہوگںٔی ۔ واپسی کا سفر سب کا خاموشی اور اداسی کی نظر ہوا ۔ گھر پہنچ کر سارے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گںٔے ۔ رانیہ اور مھر رمشا کے کمرے میں ہی تھیں ۔ واجد صاحب طبعیت خرابی کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے اسی لیے رانیہ مھر کے ساتھ ہی ایک رات اور رک گںٔی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
رات کا تیسرا پہر تھا جب مھر کی آنکھ ایک برے خواب سے کھلی جس میں وہ خود کو اپنے گھر والوں سے جدا دیکھتی ہے ۔ اس وقت پورے کمرے میں صرف ناںٔٹ بلب کی روشنی تھی ۔ شدید سردی میں بھی اسکا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ اسنے اپنے برابر میں دیکھاتو رانیہ دنیا جہاں سے بےغم سکون کی نیند سو رہی تھی۔ اسے ایکدم سے ہی اپنے عصابوں پہ بوجھ سا محسوس ہوا ۔ تکیے کے پاس سے اپنی شال اٹھاںٔی اور خود کے گرد اچھے سے لپیٹ کر کمرے سے باہر نکل گںٔی۔ اس وقت پورے گھر میں سناٹا تھا صرف اماں جی کے کمرے کی روشنی باہر آرہی تھی مھر سمجھ گںٔی تھی کہ وہ تہجد کے لیے اٹھی ہیں کیونکہ یہ انکی عادت تھی۔ پھرمھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اوپر چھت کی جانب بڑھ گںٔی۔ اسنے جیسے ہی چھت پہ قدم رکھا سرد ہوا کے جھونکے نے اسکا استقبال کیا مھر نے بے اختیار ایک گہرا سانس لے کے اس ٹھنڈک کو اپنے اندر اتارنا چاہا ۔وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور جاکر چاند کے سامنے کھڑی ہوگںٔی اسکا دل آج بہت
اداس تھا اسکی جان سے پیاری دوست رخصت ہوگئی تھی یا خواب کی وجہ سے یا کچھ اور وجہ تھی جسکا فیصلہ مشکل تھا ۔وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ دشمنِ جاں اسکے پیچھے کھڑا بڑی فرصت سے اسکے کھل بالوں کو دیکھ رہا تھا جو سرد ہوا کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
⁦🔥🔥
فارس اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کچھ کام کررہا تھا اسکے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن لاںٔٹ بند تھی جس کے باعث وہ باہر کا منظر باآسانی دیکھ سکتا تھا ۔ کام کرتے ہوںٔے اسے باہر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ۔ اٹھ کر دیکھنے پہ پتہ چلا ک مھر تھی جو کہ اوپر چھت پر جارہی تھی۔ فارس کو تعجب ہوا کہ وہ اس وقت کیوں جارہی ہے۔ اسے دیکھ کر وہ ہمیشہ کی طرح خود کو روک نہ پایا اور اسکے پیچھے ہی اوپر چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر اسکے قریب ہوا اب مھر کے ہوا سے اڑتے ہوئے بال فارس کے چہرے کو چھو کر جارہے تھے بے اختیار فارس نے آنکھیں بند کر کے انکی خوشبو اپنے اندر اتاری ۔ پھر تھوڑا اور پاس ہو کر مھر کے باںٔیں کان میں ہلکی سی سرگوشی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس چاند کی خوبصورتی تمھارے آگے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
فارس کی سرگوشی پر مھر فوراً گھبرا کر مڑی اور سیدھی اسکے چوڑے سینے کا حصہ بنی ۔ مھر کے ہاتھ اپنے سینے پہ دیکھ کر فارس کے لبوں پہ خوبصورت سی مسکراہٹ آگںٔی۔ حواس بھال ہونے پر مھر نے فوراً اپنے ہاتھ پیچھے کیے اور گھبرا کے پوچھا۔۔۔۔۔۔
آ۔۔۔۔۔آپ کیوں آۓ ہیں۔۔۔؟؟
لیکن فارس تو بس اسکا گھبرایا سا چہرہ دیکھ رہا تھا آنکھوں پہ مٹا مٹا سا میک اپ انھیں اور حسین بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔
کیوں اب اپنے گھر کی چھت پر بھی تم سے پوچھ کے آؤ نگا۔۔۔۔۔ ( مھر کے سوال پر فارس نے سنجیدہ ہو کر جواب دیا )
ن۔۔۔نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا ( مھر فوراً بول کر ساںٔڈ سے نکل کر جانے لگی تھی کہ فارس کی بات نے اسکے قدم وہیں روک دںٔیے۔۔۔۔۔۔۔
بہت حسین لگ رہی تھی آج تم ۔۔۔اتنی حسین کہ دل کر رہا تھا تمھیں خود سے قریب کر کے جان سے مار دوں تاکہ تم میری پناہوں میں ہی مرجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔
فارس کی بات پر مھر نے مڑ کر اسے دیکھا اسکی بات کا مطلب سمجھ کر مھر کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسناہٹ سی دوڑ گںٔی  اور ایکدم ہی چہرے پر ناگواری آگںٔی جو فارس نے با غور دیکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے اس قسم کی گفتگو کرنے والے؟؟ ۔۔۔۔۔حد میں رہیے اپنی میں آپ
سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر مھر جانے ہی لگی تھی کہ فارس نے آگے بڑھ کر انتہائی جارحیت کے ساتھ اسکا بازو پکڑ کر
اپنےمقابل کیا اور اسکی سہمی ہوںٔی نشیلی آنکھوں میں اپنی غصے سے بھرپور آنکھیں گاڑھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کون ہوتا ہوں مس مھر واجد یہ تو تمھیں جلد پتہ لگ جاۓگا اور پھر تم میری حدوں کی تو بات بھی نہیں کروگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کی ذومعنی بات کو نظر انداز کر کے وہ اپنا بازو اسکی مضبوط پکڑ سے چھوڑوانے لگی جو کہ ناممکن سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے میرا بازو چھوڑیے ۔۔۔۔( مھر دبے دبے سے غصے میں بولی)
چھڑوا سکتی ہو تو چھڑوا لو ( مھر کی بات پہ فارس نے اپنی گرفت اور بھی مضبوط کردی ۔۔۔۔
( اب فارس خاموشی سے اسکے چہرے کے ایک ایک  نقوش  کو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی اسکی مزحمت کو بھی جو اپنے بازو چھڑوانے کے لیے وہ کرہی  تھی لیکن جب اسں  چھ فٹ کے آدمی کے آگےوہ چھوٹی س لڑکی کچھ نہیں کرسکی تو رونے لگی )
ک۔۔۔۔کیا کرہے ہیں درد ہورہا ہے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔
لیکن تمھیں درد میں دیکھ کر مجھے بہت سکون مل رہا ہے اب بتاؤ یہ محبت تو نہیں ہوںٔی نہ ( فارس اسے نظروں کے حصار میں رکھتا ہوا بولا اس کا آج ترس کھانے کا کوںٔی ارادہ نہیں تھا )
کیوں کررہے ہیں آپ یہ سب چھوڑیں پلیز ( مھر کے رونے میں جب شدت آںٔی تو فارس کی پکڑ اسکے بازؤں پر خود بہ خود ڈھیلی پڑگںٔی جسکا فاںٔدہ اٹھا کر مھر اپنا بازو جھٹکے سے چھوڑا کر دو قدم دور ہو گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
اسے دیکھ کر فارس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور ایک گہرا سانس لیا جیسے خود کو رلیکس کرنا چاہ رہا ہو اور پھر بولا۔۔۔۔۔۔
کل اپنے گھر جارہی ہو تم اور جاکے اپنے رشتے کے لیے منع کروگی ۔۔۔۔۔
فارس کی بات پر مھر نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے عجیب نظروں سے دیکھا مھر کو اسکی ذہنی حالت پہ شبہ ہوا۔۔۔۔۔۔
اسکے برعکس فارس بہت پرسکون انداز میں سینے پر بازو باندھے اسکے تاثرات دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
کیا آپکا دماغ ٹھیک ہے میں کیوں منع کرونگی شادی سے اپنی؟؟۔۔۔۔( اسے پرسکون دیکھ کر مھر حیرت سے بولی)
کیونکہ اس میں تمھاری ہی بھلائی ہے مھر واجد تمھیں کیا لگا تم سکون سے اپنا گھر بسا لوگی تو یہ تمھاری بھول ہے ۔۔۔۔( فارس نے اسی اطمینان کے ساتھ جواب دیا)
میں سمجھی نہیں اب کیا چاہتے ہیں آپ؟؟ ( مھر ناسمجھی سے بولی)
چلو ابھی سمجھا دیتے ہیں ( بولنے کے ساتھ ہی فارس نے اپنے ٹروزار کی جیب سے اپنا فون نکالا اور ایک نمبر ڈائل کرکے اسے اسپیکر پہ لگا دیا اب بیل جا رہی تھی ( مھر یہ سب کاروائی سانس روکے دیکھ رہی تھی وہ یہ تو نہیں جانتی تھی کہ کون ہے لیکن یہ ضرور جانتی تھی کہ کچھ اچھا نہیں ہے )
اچانک ہی فون اٹھالیا گیا اور اسپیکر سے بھاری نیند میں ڈوبی ہوںٔی آواز گونجی ۔۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔ تیمور اسپیکنگ ۔۔۔۔
مھر کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تیمور کا نمبر ہوگا اس سے پہلے فارس کچھ بولتا مھر نے جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے جھپٹنے کے انداز میں فون لیا اور کال کٹ کردی اب وہ گہرے گہرے سانس لے کر اپنے آپ کو رلیکس کر رہی تھی ۔ آنسو لڑی کی صورت میں اسکے گولوں سے بہہ رہے تھے آگر ابھی فارس اسے کچھ بول دیتا تو کیا ہوتا یہ سوچ ہی اسے مارے جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔
ک۔۔۔کیا ملتا ہے اپکو یہ سب کرکے ابھی کچھ ہوجاتا تو ؟ ( مھر روتے ہوۓ آنسوؤں کے درمیان میں بولی)
فارس چلتا ہوا اسکے پاس آیا اور بولا....
سکون ۔۔۔۔سکون ملتا ہے مجھے تمھیں تکلیف میں دیکھ کر سمجھی۔۔۔۔مھر واجد جیسا کہا ہے بلکل ویسا کردو میں پل پل تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔
یہ کہہ کر فارس رکا نہیں بلکہ اسکے ہاتھوں سے اپنا فون لے کر ایک نظر اسکی آنسوؤں سے بھری نشیلی آنکھوں پر ڈال کر چلا گیا کیونکہ وہ اسے اس طرح روتا نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن وہ اسے اب دوبارہ کھونا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
صبح ہوتے ہی واجد صاحب مھر کو لینے آگئے تھے رانیہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے بھاںٔی کے ساتھ چلی گںٔی تھی ۔اماں جی  اور آمنہ بیگم نے دونوں کو بہت روکا کیونکہ پرسو ہی رمشا کا ولیمہ تھا لیکن وہ ولیمے میں آنے کا بول کر چلی گںٔی کیونکہ وہ اس گھر میں اب اور رکنا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Where stories live. Discover now