بابا چلیں بھی دیر ہورہی ہے( مھر کمرے سے تیار ہوکر واجد صاحب کو آوازیں دیتی ہوںٔی باہر آںٔی)
بیٹا تمھارے بابا تو اسفند بھائی کو لینے اںٔرپورٹ گںٔے ہیں رات میں لیٹ فون آیا تھا انکا کہ وہ آرہے ہیں تمھاری شادی کے سلسلے میں ( سارہ بیگم ناشتے کے برتن لگاتی ہوںٔی بولیں)
ارے واہ اچانک ہی آرہے ہیں پہلے بتاتے تو میں یونی سے اوف کرلیتی ۔۔۔خیر آکر ملاقات ہوگی میں جارہی ہوں امی ( مھر اپنی شال اوڑھتی ہوںٔی بولی)۔۔۔۔
لڑکی کیا ہر وقت ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہو ناشتہ کر کے جاؤ اور یونیورسٹی کو رہنے دو آج مہمان آرہے ہیں رباب بھی میرے منع کرنے باوجود چلی گںٔی ہے (سارہ بیگم بولیں )
تو اچھا ہے نہ اسکے پیپرز ہو ے والے ہیں اور امی ناشتے کا بلکل وقت نہیں ہے کینٹین سے کچھ کھالونگی اور آج جانا ضروری ہے ورنہ خود ہی رک جاتی ( مھر یہ بول کر ان کو خدا حافظ کرتی ہوںٔی نکل گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
مھر اسٹاپ پر ابھی آکر کھڑی ہی ہوںٔی تھی کہ ایک رکشہ فوراً آکر اسکے آگے کھڑا ہوگیا۔اسے پہلے ہی دیر ہورہی تھی اسی لیے شکر کا کلمہ پڑھتی اس میں بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ رکشہ کسی انجان گلی میں انٹر ہوا ۔جہاں تک مھر جانتی تھی اسکی یونی کسی بھی ایسے رستے سے نہیں آتی تھی........
بھاںٔی یہ کون سا رستہ ہے ؟( مھر نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا ہر طرف سناٹا ہی تھا تقریباً)
لیکن آگے سے کوںٔی جواب نہ ملا ۔مھر کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا ۔۔۔۔
بھاںٔی روکیں رکشہ مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ ( مھر پریشانی سے ادھر ادھر دیکھتی ہوںٔی بولی لیکن رکشہ پھر بھی نہ رکا)
بھائی آپ روک رہے ہیں یا میں کود جاؤ اسی میں سے ( اس بار مھر کی بات پر رکشہ روک دیا گیا تھا ۔مھر شکر کرتی ہوںٔی جیسے ہی اترنے لگی اسی رکشے والے نے کمال پھرتی سے آگے بڑھ کر اسکے ناک پر رومال رکھ دیا جس سے مھر کچھ ہی سیکنڈ میں ہوش و خرد سے مکمل طور پر بیگانہ ہوگںٔی).......
♥️♥️♥️♥️
اس وقت اسکے سر میں درد سے ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں ۔اسنے نیم بےحوشی میں ہی اپنےسر کو دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔آہستہ آہستہ اسکے حواس بحال ہونا شروع ہوۓ تو تمام واقعہ کسی فلم کی طرح دماغ کی اسکرین پر چل گیا اور وہ فوراً ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ مھر نے اپنے آپ کو کسی انجان کمرے میں پایا ۔کمرہ زیادہ بڑا تو نہیں لیکن بہت خوبصورت تھا ۔اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر مھر نے اس طرف دیکھا تو پلک جھپکانا بھول گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس۔۔۔۔۔۔۔۔۔( مھر کے منہ سے یہ نام بےیقینی سے نکلا)
اٹھ گںٔیں تم شکر ہےچوتھا چکر لگارہا ہوں تمھارے پاس لیکن تم تو نیندیں پوری کرنے ہی بیٹھ گںٔی ( فارس بولتا ہوا کمرہ بند کر کے اپنی کوٹ کمرے میں موجود صوفہ پر رکھ کر اسکے سامنے ہی کھڑے ہوکر اپنی شرٹ کی سلیوز فولڈ کرنے لگا ۔اس وقت وہ بلیک ڈریس پینٹ پر گرے ڈریس شرٹ پہنے آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیے بہت وجہیہ لگ رہا تھا)
ک۔۔۔۔کیوں لاۓ ہیں آپ مجھے ؟ ( مھر اٹک اٹک کر بولی اسکو بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا)
تمھارے ساتھ تھوڑا وقت گزاروں گا یار بڑی مشکلوں سے تو ہاتھ لگی ہو روز وہ بیچارہ رکشہ والا ویٹ کرتا تھا شکر ہے مل گیا موقع ورنہ کچھ اور سوچنا پڑتا ( مھر کے پوچھنے پر فارس تھوڑا اسکے قریب ہوتا ہوا نورمل سے انداز میں بولا جس سے مھر بے اختیار ہی پیچھے کو ہوںٔی)
اسکے اسطرح گھبرانے پر فارس مسکراتا ہوا پیچھے ہوا پھر مزید بولا۔۔۔۔
کسی نے کہا تھا کہ وہ میری سوکولڈ دھمکیوں سے بلکل نہیں ڈرتا نہ ہی شادی سے انکار ہوگا تو بس اسی لیے آزمانے لے آیا ( فارس اسے اسکی ہی کہی بات یاد دلاتا ہوا بولا)
کیا مطلب؟ ( مھر ناسمجھی سے بولی)
مطلب یہ کہ ڈںٔیر مھر واجد میں تمھیں یہاں اپنا بنانے کے لیے لایا ہوں یعنی تم سے نکاح کرنے کے لیے( فارس کی بات پر مھر کو لگا کہ اسنے سننے میں غلطی کی ہے ۔۔۔۔)
کیا کہا اپنے ؟؟؟
تم نے بلکل ٹھیک سنا ہے مھر واجد۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا آپ یہ نہیں کرسکتے پندرہ دن بعد میری شادی ہے ( مھر زور سے چلا کر اسکی نفی کرنے لگی)
چپ کرو لڑکی ۔۔۔باہر لوگ بیٹھے ہیں زیادہ شور کرنے کے ضرورت نہیں ہے ( فارس سنجیدہ ہو کر بولا)
ک۔۔۔کیا مطلب لوگ بیٹھے ہیں ؟ (مھر رونے کے درمیان میں بولی)
گواہ ہوتے ہیں نکاح میں تو بس وہ گواہ ہی ہیں ہم
دونوں کی نفرت کے ۔۔۔۔بس کرو اب یہ
ڈرامے مولوی صاحب آتے ہی ہونگے اٹھو ( فارس کی بات پر مھر نے اسے ایسے دیکھا جیسے دنیا کا کوںٔی آٹھواں عجوبہ ہو)
یہ کیا بول رہے ہیں آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں میرے ساتھ میری شادی ہے پندرہ دن بعد ۔۔خدا کے لیے فارس مجھے جانے دیں میرے ماں باپ جیتے جی مر جاںٔیں گے ( مھر روتے ہوۓ اسکے آگے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولی)
خاموش۔۔۔۔بلکل خاموش اب نام لیا اپنی شادی کا تو مھر واجد میں تمھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا ( فارس کی دھاڑ پر مھر سہم کے چپ ہوگںٔی لیکن پھر بولی)
مار دیں آپ مجھے لیکن میں آپ سے نکاح نہیں کرونگی کبھی نہیں ( مھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ حتمی انداز میں بولی)
فارس نے ایک گہرا سانس لے کے خود کو ریلیکس کیا یہ لڑکی صرف اور صرف اسکا ضبط آزماتی تھی۔۔۔۔۔۔
اوکے بہت شوق ہے تمہیں مرنے کا ۔۔۔لیکن میں تمھیں ایک ہی بار نہیں پل پل ماروں گا ۔۔۔۔کیا نام ہے تمھاری بہن کا ۔۔۔۔ہاں رباب کافی خوبصورت ہے وہ بھی کالج میں ہوگی نہ ( فارس ایسے بول رہا تھا جیسے کوںٔی عام بات کر رہا ہو وہ مھر کو اس وقت ساںٔیکو پیشنٹ لگا پھر جب وہ بولی تو آواز میں صرف اور صرف بے یقینی تھی)
آپ اس حد تک گرجاںٔیں گے مجھے نہیں پتہ تھا دھوکے باز گھٹیا انسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔فارس نے غصے سیاںٔیڈ ٹیبل پر رکھا گلدان ایک جھٹکے میں اٹھا کر دور پھینک دیا جو سامنے قالین پر گر گیا جس سے مھر کی زبان تالو سے جالگی ۔۔۔۔۔
میں دھوکے باز ہوں ۔۔۔۔ہاں میں گھٹیا انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تمھیں ثبوت دیتا ہوں کہ کتنا گھٹیا ہوں میں جب تمھارے منہ کے سامنے تمھاری بہن ہوگی تب تمھیں پتہ لگے گا پھر میں بتاؤنگا تمھیں کہ میں کیا کیا گھٹیا پن کرسکتا ہوں ( بولنے کے ساتھ ہی فارس نے اپنی جیب سے موباںٔل نکالا اور کسی کا نمبر ڈائل کرتے ہوۓ دروازے کی طرف بڑھ گیا)
مھر کو جب ہوش آیا کہ اب جو ہوگا وہ بہت بدترین ہوگا ۔اسے اسکی بہن بہت عزیز تھی اور سامنے کھڑے شخص سے کوںٔی بعید نہیں تھی صرف سیکنڈ لگا تھا اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور فارس کے رستے میں دیوار بن کر حاںٔل ہوگںٔی ۔۔۔
نہیں پلیز نہیں کریں یہ ظلم ۔۔۔۔م۔۔۔۔میں آپ سے نکاح کے لیے راضی ہوں ۔۔میری بہن اور ماں باپ کو آپ کچھ نہیں کریں گے ۔۔۔( مھر روتے ہوۓ بولی)
اور بس یہ سن کر فارس کو ایسا لگا کہ وہ تین سال بعد پھر سے جی اٹھا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ نازک سی لڑکی اپنے رشتوں کے لیے کتنی حساس ہے اسی لیے اُسنے اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا مقصد صرف اور صرف اسے راضی کرنا تھا ورنہ تو فارس شاہنواز مر سکتا تھا لیکن اپنی مھر کے بغیر کسی اور کا نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاباش کافی سمجھدار ہو ۔۔۔جاؤ شال ٹھیک کرکے بیٹھو میں آتا ہوں دس منٹ میں ( یہ کہہ کر فارس باہر چلا گیا)
اور کچھ ہی دیر میں وہ مھر واجد سے مھر فارس ہوگںٔی ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ فیصلہ اسکا ٹھیک ہے یا غلط لیکن اپنی بہن اور ماں باپ کی عزت کی خاطر وہ کڑوا گھونٹ پی گںٔی۔آج اسے فارس شاہنواز سے تین سال پہلے سے زیادہ نفرت محسوس ہورہی تھی۔ کاش کہ وہ اس شخص سے کبھی نہ ملتی۔۔۔۔
میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرونگی فارس کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔
مھر انھی سوچوں میں غرق بیٹھی تھی کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے سامنے دیکھا ۔۔۔
مہمانوں اور دوستوں کو رخصت کر کے فارس جیسے ہی کمرے میں آیا تو وہ پری پیکر گرم شال میں خود کو اچھے سے ڈھکے رونے میں مشغول تھی ۔فارس کے آنے پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو اسکی نشیلی آنکھوں میں صرف آنسوؤں اور شکووں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا فارس کو اپنی اس روٹھی روٹھی سی بیوی پر بے اختیار ہی پیار آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے گھر چھوڑ دیں میرے ( مھر اسے دیکھ کر کھڑی ہوتی ہوںٔی بولی)
میں نے کہا مجھے گھر چھوڑ دیں میرے ( جواب نہ ملنے پر مھر دوبارہ بولی اور ساںٔڈ سے نکلنے ہی لگی تھی کہ فارس نے اسکا بازو پکڑ کر جھٹکے سے اپنے سامنے کیا تھا ۔۔۔۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں میرا بازو ( مھر اپنا بازو اسکی مظبوط گرفت سے آزاد کرواتی ہوںٔی بولی)
لیکن فارس تو بس اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ف۔۔۔۔فارس ( مھر فوراً گھبرا کر بولی)
شششش!!!!....فارس اپنے لبوں پہ انگلی رکھ کر اسے چپ کرواتے ہوئے بولا)
مھر کی جان اب سہی معنوں میں ہوا ہوںٔی تھی۔۔۔۔
چ۔۔۔چھوڑیں بازو میرا ۔۔۔۔۔
اب نہیں چھڑوا سکتیں یہ میرا جاںٔز حق ہے ( فارس بہت کچھ جتاتے ہوۓ بولا)
کوںٔی حق نہیں ہے میں نہیں مانتی اس زبردستی کے نکاح کو ( مھر بھی غصے میں بولی)
مت مانو تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت تو نہیں بدل جاۓ گی ( فارس اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا)
کیا مل گیا آپ کو یہ سب کر کے ۔۔۔اس طرح آپ خود کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے میں اچھے سے جانتی ہوں کہ آپ دانیہ قمر کی زلفوں کے اس۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے مھر کی بات پوری ہوتی فارس نے اسکا بازو جھٹکے سے چھوڑ کر اسے بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔
خبردار۔۔۔۔۔جو ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو وہ حال کرونگا کہ خود کا یہ حسین چہرہ بھی پہچان نہیں سکو گی۔۔۔۔۔سمجھیں۔۔۔۔ اور صرف دو دن ہیں تمھارے پاس مھر فارس اپنے گھر سے یہ شادی والا ڈرامہ بند کرواؤ ورنہ جو میں نکاح کرسکتا ہوں زبردستی تو رخصت بھی کرواسکتا ہوں ( فارس غصے سے انگلی دیکھاتا ہوا وارن کر کے بولا )
اسکے اس ردِعمل پر مھر آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھنے لگی ۔۔۔۔
اٹھو اب ۔۔۔( یہ بول کر فارس دروازے کی طرف بڑھ گیا لیکن مھر ہنوز اسی پوزیشن میں رہی)
چلو اب یا یہیں رات گزارنی ہے ۔۔؟( فارس کا تھوڑا اونچی آواز میں کہنے سے وہ فوراً ہوش میں آںٔی
اور شال درست کرتی چھوٹے چھوٹے مردہ قدم اٹھاتی اسکے پیچھے ہی چل دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
گھر پہنچ کر مھر کو معمول سے ہٹ کر شور محسوس ہوا پھر اسے یاد آیا کہ آج اسکے تایا نے آنا تھا۔مھر ڈراںٔنگ روم میں داخل ہوکر سب کو ایک ساتھ سلام کیا اور باری باری سب سے ملی ۔وہ اپنی پھپو کو دیکھ کر بہت خوش ہوںٔی تھی اور ان کے ہی برابر میں جاکر بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔۔
پھپو آپ اتنی دیر سے کیوں آںٔی ہیں؟ ( مھر ان کے ساتھ لگ کے بولی)
میری جان آپ تو جانتی ہو نہ کہ آپکے انکل کہ پوسٹنگ کا مسلہ ہوتا ہے دیکھو وہ اب بھی نہیں آئے کہہ رہے تھے شادی والے دن آںٔیں گے ( روبینہ ملک اس کے ہاتھ چومتی ہوںٔی بولیں ۔ ان کے شوہر فوج فوج میں تھے اسی لیے نہیں آ پاۓ تھے)
ان کی بات پر مھر مسکرا کے سب سے باتوں میں مشغول ہوگںٔی ۔کچھ باتوں کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا ۔چونکہ سب لمبے سفر سے آۓ تھے اس لیے آرام کی غرض سے کمروں میں چلے گںٔے۔
مھر جیسے ہی اپنے کمرے میں آ ںٔی اسکی ساری خوشی ساری مسکراہٹ لمحوں میں غاںٔب ہوگںٔی ۔ یہ سب تو انجان تھے تو خوش ہوسکتے تھے لیکن وہ کیسے خوش ہو تی جب کہ وہ تو جانتی تھی کہ جو طوفان آۓ گا وہ صرف اسکا نہیں بلکہ اسکے ماں باپ کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان کرجاۓگا ۔اور یہ سب لوگ صرف تماشاںٔی ہونگے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی سوچوں میں گم وہ زمین پر ہی بیٹھ گںٔی۔۔۔۔
بہت خوب بدلہ لیا فارس شاہنواز بہت خوب ۔۔۔۔۔لیکن کس چیز کا ہاں ۔۔۔کس چیز کا بدلہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟
روتے روتے وہ وہیں سوگںٔی۔۔۔۔
دزوازہ بجنے کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی تو کمرے کی کھڑکی سے اندھیرا اور سرد ہوا اندر آریے تھے ۔اچانک ہی اسکو شدید سردی اور جسم میں درد کا احساس ہوا ۔وہ فوراً اٹھی۔ بیڈ سے اپنی شال اٹھا کر اپنے گرد اچھے سے اوڑھی اور اپنے ہاتھوں سے چہرہ صاف کر کے دروازہ کھول لیا تو سامنے سارہ بیگم تھیں انھیں اندر آنے کا رستہ دے کر خود بیڈ پر جا کے بیٹھ گںٔی۔
کیا ہوا بیٹا میں کب سے دروازہ بجا رہی ہوں طبیعیت تو تھیک ہے نا تمھاری؟( سارہ بیگم پریشانی سے اسکے پاس بیٹھتی ہوںٔی بولیں)
جی امی بس ذرا سر میں درد تھا ( مھر انکی گود میں سر رکھ کے لیٹ گئی۔اس وقت ماں کی گرم آغوش پاکر اسکا دل ایک بار پھر چیخ چیخ کے رونے کا کرنے لگا )
نہیں جان تم ٹھیک نہیں ہو آنکھیں بھی تمھاری سوجی ہوںٔیں ہیں دوپہر میں بھی تم جب آںٔیں تھیں تب بھی مجھے ایسا لگا (سارہ بیگم اسکا سر دباتی ہوںٔی بولیں )
دیکھا بخار ہے نہ تمھیں چلو اٹھو شاباش کھانا کھاؤ پھر دوا دونگی سکون کی وہ کھا کے سوجانا ( سارہ بیگم اسکی چمکتی پیشانی چومتی ہوںٔیں بولیں)
انکی فکر اور محبت پر مھر کا دل کیا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے اور بتا دے انھیں کہ اٌس ظالم نے اسکے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔اسے اتنی بے دردی سے وہ توڑ کے چلا گیا تھا کہ اگر اپنی کرچیاں بھی سمیٹنا چاہے گی تو خود کے ہاتھ ہی زخمی ہوجاںٔیں گےلیکن اسے خود پہ بندھ باندھنا ضروری تھا اسی لیے فوراً اٹھ گںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا سب نے بہت خوشگوار ماحول میں کھایا۔مھر بھی بڑی مشکل سے خود کو نارمل کیے بیٹھی تھی۔ملیحہ اس سے وقفے وقفے سے کوںٔی بات کرتی جسکا وہ جواب دے دیتی ۔باقی حارث نہیں آیا تھا۔وہ وہیں آفس کا کام سنمبھال رہا تھا اور اسے شادی سے ایک دن پہلے آنا تھا۔ سب نے اسکی خاموشی کا سبب پوچھا تو سارہ بیگم نے سب کو اسکی طبعیت خرابی کا بول دیا۔کھانے کے بعد سب نے مل کر چاۓ پی لیکن مھر سب سے معزرت کر کے آرام کی غرض سے کمرے میں آگئی۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد سارہ بیگم بھی اسکے کمرے میں آںٔیں اور اسے دودھ کے ساتھ بخار کی دوا دےکر آرام کرنے کا بول کے چلی گںٔیں۔ مھر نے وہ دوا لی اور اپنے پاس سے ایک نیند کی گولی بھی لے لی جو اسنے واجد صاحب کے پاس سے چھپا کر انکی دواںٔیوں میں سے ایک لی تھی ۔ یہ سب کھا کے وہ کمبل میں گھس کے لیٹ گںٔی۔موسم بھی کافی سرد ہوگیا تھا کچھ اسے بھی بخار میں زیادہ ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب اسکی آنکھ موباںٔل کے بجنے پہ کھلی جو پتا نہیں کب سے بج رہا تھا ۔ دواںٔیوں کے زیرِ اثر اسنے بغیر دیکھے فون اوکے کر لیا۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ( نیند کے خمار سے بوجھل ہوںٔی آواز میں وہ بولی جو مقابل کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ثابت ہوںٔی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس مھر کو چھوڑنے کے بعد ہسپٹل چلا گیا تھا ۔وہاں اسکی مصروفیت اتنی بڑھی کہ وہ سب کچھ تھوڑی دیر کے لیے بلکل فراموش کرگیا تھا۔ گھر آکر وہ کھانے کے بعد سب کے ساتھ کوفی پی کر اپنے کمرے میں ہی آگیا۔ کمرے میں آتے ہی مھر کی یاد ہوا کا خوبصورت جھونکا بن کر اسکے پاس آںٔی۔ اسے کو یاد کر تے ہی اسکے چہرے پہ بہت خوبصورت اور گہری مسکراہٹ آگںٔی۔ کچھ کام کے بعد اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا مقصد صرف اسے تنگ کرنا تھا ۔کںٔی کالز کے بعد کال اٹھا لی گںٔی تھی لیکن مقابل کی خمار آلود آواز سن کر اسکے دل کی دنیا درہم برہم ہوگںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مھر ۔۔۔( فارس نے بے خود ہوکر اسے پکارا)
جی۔۔۔ ( مھر کا دماغ دواؤں کی وجہ سے بیدار نہیں ہوا تھا )
کیا ہوا تمھیں۔۔۔؟؟( فارس کو وہ ٹھیک نہ لگی ورنہ کبھی ایسے جواب نہ دیتی )
بخار ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں ؟؟( فارس نے فوراً بے چین ہو کر پوچھا)
شاید زمین پر سونے کی وجہ سے ( مھر کی بات پر فارس کو بے اختیار ہی اس پر ترس ، پیار ، اور غصہ تینوں آیا وہ فوراً سمجھ گیا کہ وہ دواؤں کے زیرِ اثر ہے)۔۔۔۔۔۔
آرام کرو تم ۔۔۔( فارس یہ کہہ کر کال رکھنے ہی والا تھا کہ مھر کی آواز نے اسکے ہاتھ وہیں روک دںٔیے)......
فارس ( مھر کے یوں پکارنے پر فارس کے دل نے ایک بیٹ مس کی)
جی جانِ فارس ( فارس محبت سے بھرپور لہجے میں بولا اس وقت اسکے لہجے میں صرف اور صرف تین سال پہلے والا فارس تھا)
آپ بہت برے ہیں ۔۔۔( مھر کی اگلی بات پر اسکی گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر ایکدم ہی مسکراہٹ آگںٔی)
سوجاؤ تم ہم صبح بات کریں گے ( یہ کہہ کر اسنے فوراً کال کٹ کردی ورنہ کوںٔی بعید نہیں تھی کہ وہ
اسکے پاس ہی پہنچ جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پاگل لڑکی نے تو میرے جذبات جگانے میں کوںٔی کسر نہیں چھوڑی دور ہے تو یہ حال ہے پاس ہوگی تو کیا کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاۓ لڑکی بہت ستاتی ہو۔۔( خود سے بڑبڑاتے ہوۓ فارس مسکرا کر بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا)
♥️♥️♥️♥️Assalamualaikum reader's....umeed ha k ap sab kheriyat se hongy or jinhe koi b pareshani h Allah apne fazlo karam sy use khtm farmaye.....Ap sb ki muhabbat se hi m ye novel likhti ho please vote follow or comments kiya kren ta k ma apke khyalat jan sko....Duaao ma yad rakhye ga ....🌺🌺🌺
Or hn Bakra eid Mubarak...Allah sb ki qurbaniyan qabool farmaye..Ameen sumAmeen ♥️♥️♥️
Apki Writer ( Mehrmah shah)🌹
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔