یہ ایک ڈیفنس کے علاقے کیے ایک خوبصورت بنگلے کا منظر ہے جہاں خوشی کی خبر سن کر ہی چہل پہل لگ گئی ہےاور ہو بھی کیوں نہ آخر اس گھر کی لاڈلی اور شاہنواز صاحب کی اکلوتی بیٹی کی شادی ہے شاہنواز صاحب اور قمر صاحب دو بھائی ہیں باپ کے انتقال کے بعد سارا بزنس دونوں بھائیوں نے ہی مل کر آ گے بڑھایا تھا دونوں میں مثالی محبت تھی شاہنواز صاحب بڑے ھیں اور ان کی بیوی آمنہ بیگم ہیں جو ان کی خالہ زاد ہیں ان کے تین بچے ہیں بڑا بیٹا فارس شاہنواز ہے جو ڈاکٹر ہے اور اسپیشلایزیشن کے لیے امریکہ گیا تھا لیکن واپس نہ آیا بلکہ وہاں ہی جاب کرنے لگ گیا تھا پھر رمشا اور پھر عباس شاہنواز جو سیکنڈ ایئر کے امتحان دے کر فارغ ہوا تھا اور اپنی شوخ طبعیت کے باعث پورے گھر میں رونق لگا رکھی ہے۔ قمر صاحب کی اہلیہ مسرت بیگم جو قمر صاحب اپنی پسند سے لائے تھے خاندان کی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں آمنہ بیگم کے لیے تھوڑی حسد تھی ان کے دو بچے ہیں بڑا بیٹا حارث جو باپ کے ساتھ بزنس دیکھتا تھا اور دانیہ جو رمشا کی ہم عمر تھی اور کچھ خود پسند طبعیت کی مالک تھی جس میں مسرت بیگم کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔اور پھر آ تی ہیں اس گھر کی سب سے قابل ادب اماں جی جن کا حکم اس گھر میں پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے وہ اس گھر میں سب سے بے انتہا محبت کرتی ھیں اور سب سے زیادہ ان کی محبت کا فاںٔدہ فارس اٹھاتا ہے جو کہ ان کا سب سے عزیز اور لاڈلا پوتا ہے۔۔
♥️♥️♥️♥️
بس مجھے نہیں پتا میرے بچے کو بلاؤ یہاں واپس پتا نہیں اس موے امریکہ میں کیا ہے جو واپس انے کا نام نہیں لیتا بس شاہنواز میں بتا رہی ہوں اگر وہ نہ آ یا تو میں شادی میں شریک نہیں ہونگی۔(کمرےسے مسلسل اماں جی کی خفگی بھری آواز آ رہی تھی)
اس وقت سب اماں جی کے کمرے میں جما تھے اور اماں جی کو منانے کی کوشش کر رہے تھے جن کی بس یہی رٹ تھی کہ فارس کو بلاؤ واپس جو تین سالوں سے باہر تھا۔
اماں جی یہ سراسر نا انصافی ہے آ پ اپنے پوتے کی وجہ سے میری خوشی میں شریک نہیں ہو نگی مطلب میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی آپ کے لیے( رمشا منہ بسور کے بولی جو اماں جی کے برابر میں ہی بیٹھی ہوئی تھی)ارے میری جان مجھے میرے سب بچے عزیز ہیں یہ تو بس اس نا لاںٔق کو بولانے کا طریقہ ہے ( اماں جی نے اپنی پیاری پوتی کو ساتھ لگاتے ہوئے بولیں جس پہ رمشا مسکراںٔی)
بلکہ ایساکر شاہنواز اس سے کہہ کہ اماں جی مرنے والی ہیں اب آ جائے بس۔۔
خدا نہ کرے اماں جی کیسی باتیں کر رہیں ہیں آ پ میں اس نالاںٔق کو سیدھا کرونگا آجا ۓگا وہ ( شاہنواز صاحب کے ساتھ سب نے مل کر اماں جی کو سمجھایا)لیکن شاہنواز صاحب صحیح معنوں میں پریشان ہو گئے تھے کیونکہ فارس نے اپنا فون ہی اوف کردیا تھا۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
مھر بیٹا دروازہ کھولو دیکھو کون آیا ہے ۔
دروازہ بجے کی آواز پر مھر کی امی نے کچن سے ہی آواز لگاںٔی۔
جی امی کھولتی ہوں۔
اسلام علیکم اسد انکل کیسے ہیں آپ ( مھر نے سامنے موجود شخصیت کو دیکھ کر نہایت خوشدلی سے کہا)
واعلیکم السلام میں بلکل ٹھیک میرا بیٹا کیسا ہے ( اسد صاحب نے شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا)
میں بھی الحمدللّٰہ بلکل ٹھیک آ ںٔیے نہ آپ۔۔۔امی دیکھیں کون آ یا ہے
بھائی صاحب آ پ اسلام علیکم کیسے ہیں آپ ( مھر کی امی نے خوش ہوکر پوچھا)
واعلیکم السلام! بس بہن اللّٰہ جس کرم ہے ( وہ بیٹھتے ہوئے بولے)
جاؤ مھر چاۓدیکھو اور اپنے بابا کو بھی بلاؤ۔
جی امی۔۔
اسد صاحب واجد صاحب کے بہت بہترین دوست تھے دفتر میں بھی ساتھ کام کرتے تھے لیکن پھر ایک آکسیڈنٹ میں وہ معذور ہوگئے اور سارا گھران کے بیٹے کے کندھوں پر آ گیا ۔۔۔
ارے میرا یار آ یا ہے کیسا ہے تو ( واجد صاحب خوش سے ملے)
الحمدللہ رب کا احسان ہے
اتنے میں رباب اور مھر چاۓلے آ ںٔی رباب اسد صاحب سے ملی اور مھر نے چاۓ سرو کی۔
جیتی رہو( اسد صاحب چاۓ لیتے ہوئے مسکرا کر بولے)
بھںٔی بہت دنوں سے سوچ رہا تھا تیرے ہاں چکر لگا آؤں لیکن بس آ نا نہیں ہوا( اسد صاحب نے بات کا آغاز کیا) مھر اور رباب چلیں گںٔی تھیں تا کہ وہ سکون سے باتیں کر سکیں
خیریت تجھے کب سے اتنا سوچنا پڑا آ نے کے لیے ( واجد صاحب نے پوچھا)
بس یار بات ہی کچھ ایسی ہےاصل میں آ ج میں تجھ سے کچھ مانگنے آ یا ہوں ( اسد صاحب بولے)
میں کچھ سمجھا نہیں ۔۔۔۔۔
تیمور کی اماں اور میں تیمور کے لیے لڑکی تلاش رہے ہیں اور ہمیں اپنی بہو کے روپ میں مھر بیٹی سے بہترین اور کوںٔی نہیں لگتا تیمور کی اماں کی طبعیت کچھ خراب ہے ورنہ وہ خود آ تی آج میرے ساتھ ( اسد صاحب نے اپنی خواہش کا اظہار کیا)ان کی خواہش سن کر۔ واجد صاحب سوچ میں پڑگںٔے پھر مسکرا کر بولے: مجھے تو کوںٔی مسلۂ نہیں ہے اور نا سارہ کو ہوگا( مھر کی امی) تیمور تو اپنے ہاتھوں میں بڑا ہوا ہے بس با ت بچوں کی پسند کی ہے.
ارے تو کس نے بولا ہے کہ اس سے پوچھے بغیر فیصلہ کرو میری بیٹی جو کہے گی وہی ہوگا اور مجھے یقین ہے وہ مجھے مایوس نہیں لوٹاۓگی ۔۔ماشاءاللہ تیمور بہت بڑی کمپنی میں جاب کرتا ہے اور اسی ہفتے آفس کے کام سے باہر جا رہا ہے پھر شاید دو مہینے بھی لگ جاںٔیں واپسی میں بس اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی بندھن میں بندھ جاۓ
اور پھر واپسی میں شادی بھںٔی ہم جلد ازجلد مھر کو اپنے گھر کی رونق بنانا چاہتے ہیں۔۔۔۔( اسد صاحب نے تو گویا پورا پروگرام ترتیب دے ڈالا)
تیمور بہت نیک بچا ہے لیکن میں مھر سے پوچھ کہ کوںٔی جواب دے سکوں گا ( واجد صاحب سہولت سے بولے)
کوںٔی مسلۂ نہیں وہ جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہوگا بس مجھے فون پر اطلاع دے دینا ہم مھر کو اپنی بیٹی بنانے کے لیے پہنچ جاںٔیں گے( اسد صاحب امید سے بولے)
اور پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اسد صاحب نے اپنے گھر کی راہ لی ،۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
بیٹے کیا میں اندر آجا ؤ۔۔۔
مھر نوٹس بنارہی تھی جب واجد صاحب کمرے میں آ ۓ۔
ارے بابا پوچھ کیوں رہے ہیں آ ںٔیے نا۔۔
مھر نے فوراً کتابیں ساںٔڈ پہ کر کے بیڈ پر جگہ بنائی
واجد صاحب مھر کے پاس بیٹھے اور لفظ جوڑنے لگے کہ بات کیسے شروع کریں۔۔۔
کیا بات ہے با با پریشان لگ رہے ہیں کھل کے بتا ںٔیں مجھے( مھر نے واجد صاحب کو سوچ میں گم دیکھ کہ پوچھا)
ہاں بیٹا اگر میں تمھارے لیے کونٔی فیصلہ کروں تو کیا تم مجھ پر بھروسہ کروگی لیکن تمھاری بھی اتنی ہی مرضی شامل ہوگی جتنی میری۔۔( واجد صاحب نے بات کا آغاز کیا)
ان کی بات پر مھر نے مسکرا کے ان کے ہاتھ تھام لیے اور بولی : بابا اتنا مت سوچیں بس حکم کریں ۔۔۔
مھر بچے اسد تمھارا رشتہ اپنے اکلوتے بیٹے تیمور سے کرنا چاہتا ہے
واجد صاحب کے بات پہ مھر کے مسکراتے لب ایکدم سے سکڑ گںٔے۔
دیکھو بچے ماں باپ بیٹیوں کے معاملے میں بہت محتاط ہوتے ہیں اور تیمور بہت نیک بچا ہے میرے سامنے بڑا ہوا ہے بہت بڑی کمپنی میں جاب کرتا ہے اور کچھ دنوں کمپنی کے کام سے باہر جا نا ہے اسے ور اسد اس سے پہلے منگنی کے خواہشمند ہیں تم سے بولو بیٹی تم کیا کہتی ہو ( واجد صاحب مسلسل اس کو خاموش دیکھ کر بولے )
بابا ماں باپ ہمیشہ بچوں کا اچھا چاہتے ہیں اور
آج اپنے میرے لیے کو ںٔی فیصلہ کیا ہے تو میں کون ہوتی ہوں منع کرنے والی آپ جب چاہیں گے اور جیسا چاہیں گے وہی ہوگا مجھے آپ کے کسی فیصلے سے کو ںٔی اعتراض نہیں ( مھر نے ایک گہرا سانس لے کرمسکراکے بولے)
مجھے اور اسد کو پورا یقین تھا کہ ہماری بیٹی ہمارا مان نہیں توڑے گی اور پڑھائی کی فکر نہ کر نا تم شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی ہو میرا وعدہ ہے کہ تم تیمور کے ساتھ بہت۔ خوش رہو گی جیتی رہو میں ابھی اسے فون پر یہ خوشخبری سنا کے اتا ہوں ۔
( واجد صاحب خوش ہوکر مھر کے سر پہ ہاتھ رکھ کر چلے گںٔے)
ان کے جانے کے بعد مھر کے مسکراتے لب ایکدم سکڑ گںٔے اسے اچانک ہی اپنے عصابوں پر بوجھ محسوس ہوا تکیے سے پیچھے ٹیک لگا کے آنکھیں موند لیں اور ماضی ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا وہ ماضی جس سے آج تک نظریں چراتی آںٔی تھی۔
♥️♥️♥️♥️
VOCÊ ESTÁ LENDO
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiaek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔