اس وقت وہ خود کو کالی شال میں اچھے سے ڈھکے ہوئے تھی اور اماں جی کے پاس بیٹھی یونیورسٹی جانے کی تیاری میں تھی ۔ سردیوں کے آغاز میں ہی موسم کافی سرد ہوگیا تھا ۔ اسی لیے ابھی تک سارے کمبلوں میں گھسے خواب خرگوشوں کے مزے لے رہے تھے ایسے میں مھر کو یونیورسٹی کا کوںٔی فارم جمع کرنا تھا جس کی خیر سے آخری تاریخ تھی جو وہ شادی کے ہنگاموں میں بلکل فراموش کرگںٔی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی میں چلی جاؤنگی صرف دس منٹ کا کام ہے کیوں پریشان ہوتی ہیں ( مھر یہ بات کوںٔی دسویں دفعہ کہہ رہی تھی)
ایسے کیسے جانے دو اکیلے وہ تو شکر میں نے دیکھ لیا ورنہ تو تو نکل جاتی اکیلے ہی ۔آنے دے اس موۓ ڈراںٔیور کو جہاں جاتا ہے وہیں کا ہو جاتا ہے اسی کے ساتھ جانا ( اماں جی بھی دسویں بار والا جواب دیتی ہوںٔی بولیں)
لیکن اماں جی۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا اماں جی بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ہماری ذمہ داری ہو ایسے کیسے اکیلے جانے دیں ( آمنہ بیگم محبت سے اسکی بات درمیان میں کاٹ کر بولیں انھیں یہ بڑی بڑی آنکھوں والی گڑیا بہت اچھی لگتی تھی )
جی آنٹی ۔۔۔۔۔۔۔
اتنے میں اوپر سے فارس آتا ہوا دیکھاںٔی دیا ۔بلیک پینٹ، واںٔٹ شرٹ اور اس پر بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے بالوں کو جیل سے خوبصورتی سے سیٹ کیا ہوا تھا وہ نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
فارس پتر کہیں جارہا ہے تو؟۔۔۔( اماں جی اسے دیکھتے ہی بولیں)
جی اماں جی ایک دوست سے ملنے جارہا ہوں ۔اپکو کوںٔی کام ہے کیا؟...( فارس ایک نظر مھر پر ڈالتے ہوۓ بولا)
ہاں میرا بچا دیر نہیں ہورہی تو مھر کو اسکی یونیورسٹی چھوڑ دے گا اسے صرف دس منٹ کا کام ہے وہاں ( امااں جی کی یہ بات تو گویا مھر کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوںٔی)
اماں جی کی اس بات پر فارس نے مھر کو دیکھا جو بے یقینی سے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھاڑے انھیں دیکھ رہی تھی فارس کو اسکی حالت پہ ہنسی تو بہت آںٔی لیکن پھر مسکراہٹ دبا کے بولا...............
کیوں نہیں اماں جی میں چھوڑ دونگا مس مھر کو یونیورسٹی ۔۔( فارس کا یہ بولنا تھا کہ مھر کو تو پتنگے لگ گںٔے جھٹ سے ہوش میں آتے ہی بولی )
ن۔۔نہیں اماں جی میں ڈراںٔیور کے ساتھ ہی چلی جاؤنگی ۔۔۔۔۔۔
ارے گولی مار اس موۓ کو پتا نہیں کب آۓ جاتو میرے بچے کے ساتھ جا ( اماں جی پیار سے اسکا گال تھپتھپاتی ہوںٔیں بولیں )
اور پھر مھر کی ہزاروں کوششیں بھی بے کار گںٔیں اس ساری کاروائی میں فارس کھڑا کافی کے سپ لیتے ہوۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ وہ کیسے کیسے بہانے کر رہی تھی صرف اور صرف اس سے دور ہونے کے لیے پھر جو اگلا آنے والا احساس تھا وہ تھا غصے کا ۔کوفی کا کپ ٹیبل پر رکھ کے سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔۔
میں باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں آجاںٔیے گا ۔۔۔
اور یہ بول کر رکا نہیں بلکہ چلا گیا ........
یہ سب اوپر کھڑی دانیہ باغور دیکھ رہی تھی جو ابھی سو کر اٹھی تھی۔ لیکن اماں جی کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتی تھی کچھ اسے یہ بھی پتہ تھا ک فارس اپنی توہین بھولنے والوں میں سے نہیں ہے یہی سوچ کر کافی حد تک پرسکون تھی لیکن مکمل نا ہوسکی ۔۔۔۔۔۔۔۔
مھر مرے مرے قدموں سے باہر کی طرف بڑھ گںٔی اس وقت دل میں رانیہ کو جتنی صلواتیں سنا سکتی تھی سنا دی جس نے اپنا کام بھی اسی کے متھے مار دیا تھا ورنہ وہ اسی کے ساتھ جاتی ۔۔۔۔۔۔
مھر باہر پورچ میں آںٔی تو فارس آنکھوں پر کالا چشمہ لگاۓ غیر معمولی سنجیدگی کے ساتھ گاڑی سٹارٹ کر کے اسکا ویٹ کر ریا تھا ۔۔۔۔۔۔
اسکے چہرے کا پتھریلا پن دیکھ کر مھر کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے آج تین سال بعد وہ اس کے ساتھ تنہائی میں سفر کرے گی یہی سوچ اسکو ڈرا رہی تھی۔۔۔۔۔
آگے آکر بیٹھو ڈراںٔیور نہیں ہوں میں تمھارا ( مھر کو پچھلا دروازہ کھولتا دیکھ کر فارس بولا)
مھر نے چونک کر اسے دیکھا لیکن پھر پیچھے ہی بیٹھنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا نہیں کیا آگے آکر بیٹھو ( اس بار تھوڑا سخت لہجے میں بولا جس سے مھر کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگںٔی فوراً سے فرنٹ ڈور کھولا اور آگے بیٹھ گںٔی ۔اسکے بیٹھتے ہی فارس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں پہلے فارس نے اپنے دوست کو آج ملنے سے منع کیا پھر خاموشی سے ڈراںٔیو کرنے لگا ۔۔۔۔۔
یونیورسٹی کا نام کیا ہے تمھاری ( کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فارس کی بھاری آواز گونجی)
مھر نے اسے یونیورسٹی کانام بتایا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی فارس نے بھی مزید کچھ بات نہ کی )
یونی کے آتے ہی مھر گاڑی سے اترنے لگی تو فارس بولا...............
میں یہیں ویٹ کر ریا ہوں دس منٹ میں کام ختم کر کے آؤ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں آپ چلے جاںٔیں میں آجاؤ نگی ( مھر کو اسکا ساتھ عجیب سا لگ رہا تھا اسی لیے فوراً بولی )
تم سے پوچھا نہیں ہے بتایا ہے اس وقت تم میری ذمہ داری ہو خیر سے گھر چھوڑ دوں پھر جہاں مرضی ہے پھرتی رہنا ( فارس بات اس سے کر رہا تھا لیکن دیکھ سامنے رہا تھا)
لیکن میں ۔۔۔۔۔۔۔
بحث کا کوںٔی فاںٔدہ نہیں now go
مھر کو فارس کا یہ اندازِ گفتگو ایک آنکھ نہ بھایا اسی لیے پیر پٹختی ہوںٔی گاڑی سے اتری اور یونی میں چلی گںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس گاڑی سے نکل کر اسی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ایک پیر پیچھے گاڑی پہ تھا ۔ایک ہاتھ میں سیگریٹ سلگا لی اور دوسرا پینٹ کی جیب میں ڈال لیا ۔ اسکی سحرانگیز اور رعب دار شخصیت کی وجہ سے ہر آتی جاتی لڑکی اسے مڑ مڑ کے دیکھ رہی تھی لیکن اس مغرور شہزادہ کی نظریں صرف اسی پر تھیں جو سامنے ایک لمبی سی لاںٔن میں کھڑی بار بار شال کو درست کرتی کچھ اکتاںٔی ہوںٔی لگ رہی تھی اسکے اعتراف میں نظر دوڑاںٔی تو کچھ منچلے نوجوان لڑکوں کا ٹولا کھڑا مھر کو دیکھ کر باتیں کر رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر فارس کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بن گیا اسنے سیگریٹ کو پیروں کے نیچے مسلا اور آگے بڑھ کر مھر کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا ۔جس سے ان لڑکوں کا ٹولا اپنی عافیت سمجھ کر وہاں سے کھسک گیا۔۔۔۔۔۔۔
اسنے جب فارس کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھا اور دوسرے لوگوں کی کی معنی خیز نظروں کو محسوس کر کے مھر کی دمکتی رنگت شرمندگی اور غصے سے لال ہوگںٔی کیونکہ یونی میں اسے سب اچھے سے جانتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خدا کر کے پندرہ منٹ میں اسکی باری آںٔی ۔اس کے بعد وہ غصے میں کھولتی فارس کے ساتھ واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گںٔی تو فارس نے گاڑی آگے بڑھا دی ...........
یہ کیا حرکت تھی؟ ( مھر نے غصے میں پوچھا)
کون سی محترمہ ؟( فارس جانتے بوجھتے ہوئے بھی انجان بن کر بولا)
کیا ضرورت تھی یوں آکر سر پہ کھڑے ہونے کی اس وقت آپکے رحم وکرم پر ہوں تو جو مرضی ہے کریں گے آخر سمجھتے کیا ہیں آ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زور کے جھٹکے نے مھر کی بولتی وہیں بند کروادی فارس نے غصے میں مھر کی طرف مڑ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے پاس کھینچا ۔۔۔۔
جو تم سمجھتی ہو مجھے مھر واجد میں بھی وہی سمجھتا ہوں لیکن افسوس کہ تین سال پیلے بھی غلط تھیں اور آج بھی غلط ہو ۔۔۔۔۔۔( یہ بول کر فارس نے اسکا ہاتھ ہلکا سا موڑا جس سے مھر کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکی)
کیا ہوا درد ہورہا ہے ان ہاتھوں میں جن ہاتھوں سے میرے منہ پر تھپڑ مارا تھا اور آج اسی ہاتھ میں اپنے نںٔے محبوب کے نام کی انگوٹھی پہن کے بیٹھی ہو ( یہ کہہ کر فارس نے اسکا ہاتھ تھوڑا اور موڑا جس سے مھر کی خوبصورت آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگںٔے)
ف۔۔۔فارس چھوڑیں درد ہورہا ہے مجھے ( مھر آنسو پیتی مشکلوں سے بولی).....
کوںٔی بات نہیں لیکن یہ درد اس درد کے آگے کچھ نہیں ہوگا جو تم مجھے دے کر گںٔی تھی اور ہاتھ اس وقت چھوڑ دیا تھا لیکن اب یہ غلطی دوبارہ نہیں ہوگی میں وہ فارس شاہنواز نہیں ہو جو تمھارا تھپڑ کھا کر بھی خاموشی سے چلاگیا تھا میں وہ ہوں جو تم سوچ بھی نہیں سکتی مھر واجد خون کے آنسو رولاؤں گا میں تمھیں جو تم نے میرے ساتھ کیا ۔۔( فارس کی بات سے مھر کی زبان تالو سے جالگی اور آنکھیں خوف سے باہر آگںٔی اسے لگ رہا تھا کہ آج حساب کا دن ہے )
اور ہاں یہ انگوٹھی ( بولنے کے ساتھ ہی اسنے وہ انگوٹھی اسکے ہاتھوں سے نکالی اور دور گاڑی کے باہر اچھال دی پھر مزید بولا)
اس انگوٹھی اور انگوٹھی والے کو دل و دماغ سے نکال دو۔۔۔۔۔( یہ بولتے ہی اسنے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا کیونکہ وہ اسکی نشیلی آنکھوں میں رواں سمندر مزید نہیں دیکھ سکتا تھا)
آ ۔۔۔۔آپ نے یہ کیا کیا میری انگوٹھی کیوں پھینک دی اب میں کیا جواب دونگی سب کو؟ ( مھر ہوش میں آتے ہی چلا کر بولی)
یہ میرا مسلۂ نہیں ہے اور ہاں خاموش ہوکر بیٹھنا اب ( فارس نے بول کر گاڑی آگے بڑھا دی )
کیوں نہ بولوں میری۔۔۔۔۔۔
خاموش بولا نہ آواز نہ آۓ مجھے تمھاری ورنہ اسی انگوٹھی کے ساتھ باہر پھینک دوں گا۔۔۔۔
(اسکے کرخت لہجے میں کہی گںٔی بات پر مھر خاموشی سے آنسو پیتی غصے میں کھولتی اپنے دکھتے ہوۓہاتھ کو پکڑ کے بیٹھ گںٔی کیونکہ اسی میں اسکی عافیت تھی ) ۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
گھر پہنچتے ہی مھر فارس کی طرف دیکھے بغیر گاڑی سے نکلی اور یہ جا وہ جا ۔ اسکی اسپیڈ دیکھ کر فارس کو ہنسی آںٔی اور زیر لب اسے پاگل بولتا ہوا اسکے پیچھے ہی ہولیا۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی مھر کا پہلا سامنا دانیہ سے ہوا ۔ دانیہ کو دیکھتے ہی مھر کو ماضی پھر یاد آگیا۔۔۔۔۔
آگر فارس اس سے محبت کرتے ہیں تو تو یہ سب کیوں کر رہے ہیں ۔ہاں مجھ سے تھپڑ کا بدلا لینے کے لیے سب کر رہے ہیں ۔ لیکن فارس شاہنواز مھر واجد دوبارہ اپکے ہاتھوں سے نہیں ٹوٹے گی ۔۔۔۔۔
کیا ہوا لڑکی کدھر گم ہو ؟...( مھر کو سوچ میں غرق دیکھ کر دانیہ نے پوچھا )
ن۔۔نہیں ایسا تو کچھ نہیں۔۔۔۔۔
اتنے میں پیچھے سے فارس آگیا ۔۔۔۔
Hey daniya....
( مھر کو دیکھانےکے لیے زور سے بولا)
KAMU SEDANG MEMBACA
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔