رمشا کچھ دن پہلے اپنے گھر جاچکی تھی ۔ مہر کا بھی سمسٹر شروع ہوگیا تھا اور وہ پوری طرح پڑھاںٔی میں لگ گںٔی تھی لیکن اس سب میں بھی وہ فارس سے غافل نہیں تھی۔ اسکا آنا اسکا جانا سب کے بارے میں وہ جانتی تھی لیکن یہ بات الگ تھی کہ اب آپس میں کم ہی بات کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج موسم صبح سے ہی کچھ ابر آلود تھا ۔ ہر طرف ٹھنڈی ہواںٔیں چلتی ماحول میں ایک سکون سا پیدا کر رہی تھیں ۔ مہر کا بھی پیپر تھا اسی لیے وہ گھر پر رک نہیں سکی ورنہ اماں جی اسے جانے ہی نہیں دے رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار رانیہ یہ ڈراںٔیور کہاں رہ گیا اوپر سے موسم بھی خراب ہے ( مہر پیپر دے کر فارغ ہوتی ساتھ کھڑی رانیہ سے بولی جو خود اپنے بھاںٔی کا ویٹ ک رہی تھی)
اب تیرا ڈراںٔیور میرا کچھ لگتا تو ہے نہیں جو مجھے پتا ہوگا ہے نا ؟( رانیہ نے سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ کر پوچھا)
چپ کر موٹی جب بولنا الٹا ہی بولنا ( مہر نے مصنوعی غصے سے کہا تو رانیہ نے حسبِ معمول ڈھیٹوں کی طرح دانت نکال دںٔیے)
♥️♥️♥️♥️
فارس اس وقت کسی ڈاکٹر کے ساتھ بیٹھا ایک کیس ڈسکس کررہا تھا کہ فون رنگ ہونے پر اسکی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔۔۔
ایکسکیوز می( اپنے ساتھ بیٹھے ڈاکٹر سے کہہ کر کال اوکے کی)
ہیلو( فون کان سے لگاتے ہی اندر سے ڈراںٔیور کی پریشانی والی آواز ابھری)
فارس صاحب میں بی بی جو کو لینے یونیورسٹی جا رہا تھا تو رستے میں بارش شروع ہوگںٔی اور میری گاڑی بھی خراب ہوگئی ہے ( ڈراںٔیور کی بات سن کر فارس بھی فوراً فکر میں آگیا گھڑی میں ٹاںٔم دیکھا تو تین بجنے والے تھے مطلب مہر کی چھٹی ہوۓ گھنٹا ہونے والا تھا )
اووھو تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟۔۔۔۔۔
صاحب جی کب سے فون ملا رہا تھا آپ کو لیکن سگنل نہیں مل رہے تھے ( ڈراںٔیور نے فوراً بولا)
اچھا اچھا تم کہاں ہو مجھے بتاو میں مکینک کا انتظام کرتا ہوں اور مہر کو لینے میں خود جارہا ہوں .......
جی بہتر صاحب جی ( پھر ڈراںٔیور نےاسے جگہ کا نام بتا کر کال بند کردی اور فارس ہسپٹل میں ایمرجنسی کا بول کر اسکی یونیورسٹی کی طرف نکل گیا)
رستے میں بارش کافی تیز ہوگںٔی تھی سردیوں کی بارش تھی تو ٹھنڈ بھی کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی۔ یونی کے باہر پہنچ کر فارس نے دیکھا تو مہر رانیہ کے ساتھ کسی گاڑی کی طرف جا رہی تھی ۔ فارس نے بھی فوراً گاڑی اسی طرف موڑ دی۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم فارس بھائی ( رانیہ کی اچانک نظر پڑتے ہی اسنے سلام کیا تو مہر نے بھی چونک کر اسے دیکھا)
واعلیکم السلام رانیہ ۔۔۔۔۔( فارس فوراً گاڑی سے نکلتا بارش سے بچتا ہوا ان تک آیا)
چلیں شکر ہے آپ آگںٔے ورنہ تو یہ ٹینشن سے گھلتی جارہی تھی میرے بھاںٔی کی بھی گاڑی خراب ہوگئی تھی اسی لیے ابھی آئے وہ تو میں نے سوچا اسے بھی ڈراپ کردوں ( رانیہ نے تفصیل بتاںٔی تو فارس اسکے بھائی سے ملتا رانیہ سے بولا)
بہت شکریہ رانیہ ۔۔۔۔دراصل ڈراںٔیور کی گاڑی بھی خراب ہوگئی تھی اسی لیے دیر ہوگںٔی ( فارس نے مسکرا کر بولتے ہوۓ مہر کی جانب دیکھا جو ڈارک بلو کلر کاٹن کا جوڑا پہنے گرم شال کو سختی سے تھامے خاموش کھڑی تھی اور کچھ کچھ بھیگی ہوئی بھی تھی تبھی شاید اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی)........
رانیہ کو خدا حافظ کر کے وہ اسے لیے گاڑی میں آکر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے مجھے کال کیوں نہیں کی ؟( گاڑی میں بیٹھتے ہی فارس نے پہلا سوال کیا)
مجھے یاد نہیں رہا ( مہر سردی سے کانپتی ہوںٔی بولی)
اسکی حالت دیکھتے ہوۓ فارس نے ہاتھ بڑھا کر ہیٹر اون کردیا ۔۔۔۔۔۔
آںٔندہ ایسی کوںٔی بھی بات ہو تو سب سے پہلے تم مجھے کال کروگی سمجھیں ( فارس نے کچھ سختی سے کہا تو وہ سر ہلا گںٔی )
کچھ دن پہلے رمشا کی بتاںٔی گںٔی باتیں یاد آتے ہی فارس نےاسکی طرف دیکھا جو اب کھڑکی سے باہر کے منظر دیکھنے میں مصروف تھی۔ فارس نے گاڑی فوراً اسی روڈ پر ڈال دی جہاں تین سال پہلے اسنے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا۔ آج بھی اس روڈ پر کوںٔی دوسری گاڑی نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی جانے پہچانے روڈ پر دیکھ مہر نے فارس کی طرف دیکھا جو ڈراںٔیو کرنے میں مصروف تھا تو وہ نظر انداز کرتی پھر سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
فارس بظاہر تو گاڑی ڈراںٔیو کر رہا تھا لیکن اسکا دیھان مہر کی ایک ایک حرکت پر تھا ۔ کچھ سوچتے ہوۓ اچانک ہی اسنے گاڑی دو تین جھٹکوں کےساتھ روک دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا ہوگیا ؟( گاڑی رکتی دیکھ مہر نے فوراً پوچھا)
شاید کچھ پروبلم ہوگںٔی ہے میں دیکھتا ہوں ( بولتے ہوۓ گاڑی سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ مہر نے فوراً اسکا ہاتھ تھام لیا)
باہر بہت تیز بارش ہے آپ بیمار ہوجاںٔیں گے ( مہر کے اس طرح روکنے پر فارس نے اپنے ہاتھ طرف دیکھا تو مہر بھی اپنی جلد بازی پر ماتم کرتے ہوئے ہاتھ ہٹا گںٔی لیکن اس سے پہلے فارس نے اسکا ہاتھ
اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ مہر نے فوراً چونک کر اسکی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی بولتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا).....
ہاتھ کیوں چھوڑ دیا ؟( اسکے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیے ہوۓ ہی پوچھا)
غ۔۔۔۔غلطی سے پکڑ لیا تھا م۔۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔( اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی فارس نے اپنے لبوں پر انگلی رکھ کر اسےچپ کروا دیا )
یہ جگہ یاد ہے مہر ؟( فارس اب اسکے ہاتھوں کے نرم ملائم پشت کو اپنے انگوٹھے سے سہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا)
اسکے اس طرح پوچھنے پر مہر نے نظر اٹھا کر جگہ کو اور پھر اپنے ہاتھ کو دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔ اسکے نظریں جھکانے کو اقرار سمجھ کر فارس ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ بھی بھول گںٔی ہو تو میں بتا دیتا ہوں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں۔۔۔۔۔۔
م۔۔۔مجھے یاد ہے سب کچھ ( اسکی بات درمیان میں ہی کاٹ کر مہر فوراً بولی مبادہ کہ وہ بات مکمل ہی نہ کرلے)
پھر تو میرے بول بھی یاد ہونگے نا ؟( اسکے ہاتھ کو ہلکا سا اپنی طرف کھینچ کر پوچھا جس سے مہر زرا آگے کو ہوںٔی لیکن بولی کچھ نہیں )
انھیں جھکا کر مت رکھا کرو مہر فارس میں ان آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہتا ہوں ( فارس کی بات پر مہر نے لرز کر اپنے ہاتھ کھینچنا چاہے لیکن اسکی پکڑ مضبوط تھی )
ادھر دیکھو ( اسکی انوکھی فرمائش پر بھی مہر نے نظریں نہیں اٹھاںٔیں)
مہر میری طرف دیکھو ( فارس نے پھر بولا لیکن ہنوز اسی طرح بیٹھی رہی)
میں آخری بار کہہ رہا ہوں میری طرف دیکھو ( اس بار مہر نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھاںٔیں تو وہ مغرور شہزادہ لہجے کے برعکس چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے ہی دیکھ رہا تھا )
پتا ہے تم بہت حسین ہو لیکن تمھاری یہ آنکھیں بہت ظالم ہیں ۔ یہ ایک گہری جھیل کی طرح ہیں جہاں سے فارس شاہنواز کبھی باہر نہیں آیا اور نہ ہی کبھی ان کے سحر سے آزاد ہونا چاہتا ہے ( اسکی نشیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا)
فارس کا ایک ایک لفظ مہر کے دل میں اتر رہا تھا لیکن چپ چاپ بس اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسے یوں دیکھتا پاکر فارس نے فوراً اپنے لب اسکے خوبصورت ہاتھوں کی پشت پر رکھ دںٔیے۔ فارس کے اس طرح کرنے پر مہر پوری جان سے کانپ گںٔی ۔۔۔۔۔۔
پ۔۔۔۔پلیززز( مہر کی آواز میں لڑکڑاھٹ محسوس کرتے ہوۓ اسنے مسکراتے ہوۓ اپنے لب ہٹا لیے تو مہر نے گرفت ڈھیلی پڑتی دیکھ فوراً ہاتھ کھینچ لیا اور پھر سے باہر دیکھنے لگ گںٔی ۔ فارس نے بھی اسکے ہوش ربا سراپے کو دیکھتے ہوۓ گاڑی سٹارٹ کردی۔ گاڑی اسٹارٹ ہونے پر مہر نے چونک کر اسکی جانب دیکھا تو فارس نے بھی اسی وقت مسکراتے ہوۓ اپنی ایک آنکھ دبا کر گاڑی آگے بڑھا دی ۔ اسکی اس حرکت پر مہر دھڑکتے دل کے ساتھ پھر سے فوراً باہر دیکھنے لگ گںٔی لیکن ایک نا محسوس سی مسکراہٹ نے اسکے خوبصورت سے لبوں کا احاطہ کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
گھر پہنچ کر مہر فوراً گاڑی سے نکلتی اندر کی طرف بڑھ گںٔی ۔ لاؤنج میں ہی آمنہ بیگم اور اماں جی پریشان سی بیٹھیں تھیں ۔۔۔۔۔
ارے مہر پتر تو کہاں رہ گئی تھی وقت دیکھ اور موسم کتنا خراب ہے ( اماں جی فوراً اسے دیکھتی پریشانی سے بولیں )
اس سے پہلے مہر کچھ بولتی پیچھے سے آتے فارس نے بات سنبھال لی۔۔۔۔۔
تمھیں میں نے کتنی کال بھی کی تھی ( آمنہ بیگم فارس کی سننے کے بعد بولیں)
جی موم لیکن فون شاید ساںٔلنٹ پر تھا۔۔۔سوری ( فارس شرمندہ ہوکر بولا )
جاؤ دونوں چینج کرو بھیگ گںٔے ہو سارے ( اماں جی دونوں کو دیکھتی بولیں تو وہ جی کہتے اوپر کی طرف بڑھ گںٔے)
سب سے اوپر والی سیڑھی پر پہنچ کر مہر کا پیر چپل گیلے ہونے کی وجہ سے پھسلا لیکن پیچھے سے آتے فارس نے فوراً سے اسے تھام لیا۔۔۔۔۔۔
کیوں ظلم کرتی ہو ان نازک پیروں پر ؟( اپنے حصار میں لیے ہوۓ فارس نے پوچھا)
پ۔۔۔پیر پھسل گیا تھا۔۔۔چ۔۔۔چھوڑیں اماں جی دیکھ رہی ہیں ( مہر اسکے حصار میں گھبرا کر بولی تو فارس نے فوراً اسے چھوڑ کر نیچے دیکھا جہاں اماں جی اور آمنہ بیگم اپنی مسکراہٹ دباتی بیٹھی تھیں۔فارس بھی ڈھیٹوں کی طرح بغیر شرمندہ ہوۓ انکی طرف مسکراہٹ اجھالتا کمرے میں چلا گیا
شریر۔۔۔۔۔( اماں جی اسکی مسکراہٹ پر بولتیں اسکی داںٔمی خوشیوں کی دعا کرنے لگیں )
لیکن یہ حسین منظر کسی نے اپنی بد صورت نظروں سے بھی دیکھا تھا ۔دانیہ اپنے کمرے سے نکل رہی تھی تو ان دونوں کو سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے قریب دیکھتی واپس کمرے کی اوٹ میں چھپ گںٔی تھی ۔لیکن اس منظر نے اسکے دماغ میں شولے بھڑکا دںٔیے تھے ۔مہر سے نفرت کی ایک سرد لہر پورے وجود میں سراںٔیت کرگںٔی ۔۔۔۔۔۔۔
موسم انجواۓ کرکے آرہے ہو فارس شاہنواز۔۔۔اسی حسین موسم میں آج تم دونوں میں آگ نہ لگا دی تو میرا نام بھی دانیہ قمر نہیں ( خود سے عہد کرتی ہوںٔی نیچے کی طرف ہولی)
♥️♥️♥️♥️
رات کھانے کی میز پر سب نے خاموشی سے کھانا کھایا ۔۔۔۔۔
چاۓ پیتے ہوۓ شاہنواز صاحب نے اسے کل عباس کی واپسی کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ اسکو انھوں نے خود بلوایا ہے تاکہ تم دونوں کا ولیمہ جلد از جلد کردیا جاۓ جس پر فارس نے شوخی بھری نظروں سے مہر کی جانب دیکھا جو لب دباتی اماں جی کے پہلو میں بیٹھی نظریں جھکا گںٔی جس پر وہ مسکراتا شاہنواز صاحب کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مہر کمرے میں آںٔی تو فارس کو چھینکتا پایا ۔پہلے تو مہر نے کوںٔی رسپانس نہ دیا لیکن جب چھینکوں کا دورانیہ بڑھتا گیا تو آخر بول ہی گںٔی۔۔۔۔۔۔
آپ کو ٹھنڈ لگ گںٔی ہے کوںٔی دوا لے لیں ( لیکن وہ اسکی بات سنے بغیر مسلسل چھینکا جارہا تھا )
نہیں اسکی ضرورت نہیں ( جب کچھ قابو چھینکوں پر ہوا تو کہتا کوںٔی کام کرنے لگ گیا تھا لیکن ساتھ ہی بچوں کی طرح سوں سوں جاری تھی)
اچھا ٹھیریں میں آپ کے لیے قہوہ بنا لاتی ہوں ( یہ کہہ کر مہر اسکی سنے بغیر چلی گںٔی)
اسکی اس طرح فکر کرنے پر فارس کے لبوں پر دلفریب سی مسکراہٹ آگئی......
بہت ستاتی ہو لڑکی ( اپنا ہمیشہ والا جملہ دہراتا کام میں لگ گیا)۔۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہی ہو مہر ؟( مہر جو فارس کے لیے قہوہ بنا رہی تھی دانیہ کی آواز پر چونک کر پلٹی)
وہ فارس کو زکام ہوگیا ہے تو ان کے لیے قہوہ بنا رہی تھی ( مہر اسے دیکھتی ہوںٔی بولی)
اچھاااا۔۔۔۔۔( فوراً ہی دانیہ کے شاطر دماغ میں ایک آںٔیدیا آیا جسکو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ باہر چلی گںٔی)
رکو مہر شاید تمھیں اماں جی بلا رہیں ہیں( اسے قہوہ لے کر اوپر جاتا دیکھ دانیہ جو لاؤنج میں بیٹھی تھی فوراً بولی)
اس وقت لیکن کیوں؟( رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے اسی لیے مہر نے پوچھا کیونکہ اس وقت تک وہ سوجاتی تھیں)
ہاں ۔۔۔۔۔۔
تو یہ قہوہ( مہر نے اسکی طرف اشارہ کیا لیکن اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسکے ہاتھوں سے کپ لے لیا )
لاؤ میں دے آتی ہو فارس کو تم سن آؤ اماں جی کی ( اس سے کہتی بغیر اسکی سنے اوپر کی جاب بڑھ گںٔی اور مہر سر جھٹکتی اماں جی کے کمرے کی طرف چلی گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی اپنے بلایا ( مہر ان کے کمرے میں جاکر بولی لیکن آگے اماں جی سو رہی تھیں )
اماں جی( مہر نے پھر بولا لیکن وہ دواؤں کے زیرِ اثر سورہی تھیں ۔ )
یہ تو سوگںٔیں ہیں لیکن دانیہ تو ۔۔۔۔۔( خود سے بڑبڑاتی اوپر کی جانب بڑھ گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ نے جب اسے اماں جی کے کمرے کی جانب جاتا دیکھا تو ایک فاتحانہ مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کرلیا لیکن پھر فوراً اوپر کی جانب بڑھ گںٔی کہ مہر آتی ہوگی۔۔۔۔۔۔
ٹک ٹک ۔۔۔۔( دروازہ نوک کر کے دانیہ فوراً اجازت ملتے ہی اندر چلی گںٔی)
تم۔۔۔۔۔خیریت ( فارس جو مہر کی توقع کر رہا تھا دانیہ کو سامنے دیکھ کر ماتھے پر بل پڑ گںٔے)
ہاں وہ مہر کو کچھ کام تھا تو بس اسی لیے میں دینے آگںٔی ( دانیہ نے مسکرا کر بولا)
اس وقت وہ ایک گرم سی شرٹ اور ٹراوزر میں ملبوس تھی دوپٹہ لینا اسنے ضروری نہ سمجھا تھا اسی لیے فارس کی ناگواری بھی محسوس کرلی تھی لیکن ڈھیٹ بنی کھڑی رہی)
اچھااا۔۔۔۔رکھ دو اسے یہیں ( فارس اسے ساںٔیڈ ٹیبل کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا)
تو وہ بھی مسکراتی آگے بڑھ گںٔی لیکن بیڈ کے قریب پہنچ کر اسنے جان کر اپنا پیر موڑا تو سارا قہوہ اسکے ہاتھوں پر آگرا۔۔۔۔۔۔
آآآآہ۔۔۔ زور سے چیختی وہ اپنا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی یہ سب اتنی اچانک ہوا کہ فارس فوراً بوکھلا کر اسکے اٹھ کر اسکے پاس آتا اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا....
کیا ہوگیا ہے دیکھ کر چلا کرو ( فارس دیکھ کر بولا)
بہت جلن ہورہی ہے ( دانیہ روتے ہوۓ اسکے دوسرے ہاتھ کو پکڑتی ہوںٔی بولی)
لیکن نیچے سے آتی مہر نے جب اندر آکر یہ منظر دیکھا تو آنکھیں پھیل گںٔیں ۔۔۔۔۔۔منظر کچھ یوں تھا کہ دانیہ کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی اور فارس اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا تھا تو دوسرا ہاتھ دانیہ نے پکڑا ہوا تھا اور رو بھی رہی تھی ۔ دیکھنے میں یہ کوںٔی ایموشنل سین ہی لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
فارس جیسے ہی اسکا ہاتھ چھوڑ کر فرسٹ ایڈ بکس لینے کے لیے مڑنے لگا تو اسکی نظر دروازے پر کھڑی مہر پر پڑی جو آنکھوں میں آنسو لیے ضبط سے لب بھینچے کھڑی تھی ......
مہر تم ۔۔۔۔
س۔۔۔۔سوری ( اس سے پہلے فارس بات پوری کرتا مہر فوراً بول کر وہاں سے نکل گںٔی)
آج اتنے دنوں بعد دانیہ کو اپنے جلے دل پر ٹھنڈی پھوار پڑتی محسوس ہوںٔی تھی )
فارس نے فوراً اپنے دراز سے ایک ٹیوب نکال کر دانیہ کو دی اور خود لگانے کا کہہ کر مہر کے پیچھے چلا گیا.......
اووو ماںٔی گاڈ۔۔۔۔۔۔چچہ چچہ ۔۔۔فارس شاہنواز بہت افسوس ہوا تمھاری چلتی بستی ازدواجی زندگی تو چل بسی ( اسکے جانے کے بعد خود سے کہتی ٹیوب لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی کیونکہ جو وہ کرنا چاہتی تھی وہ تو ہوگیا تھا اب یہ مزے کی خبر تیمور کو دینی تھی)
♥️♥️♥️♥️
وہاں سے نکلتی مہر کو سمجھ نہ آیا کہ اب کہاں جاۓ تو سیدھا اوپر چھت کی جانب بڑھ گںٔی. اوپر آکر کھلی فضا میں گہرے گہرے سانس لیتی خود کو ریلکس کرنے لگی ۔ موسم بھی خراب تھا تیز ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ بارش بھی شروع ہوگںٔی تھی اور ساتھ ہی اسکی آنکھوں سے ہونے والی برسات بھی جاری تھی....
جب میں سب جانتی ہو تو مجھے پھر تکلیف کیوں ہورہی ہے اللّٰہ کیوں ہورہی ہے پھر تکلیف ( مہر روتے ہوۓ اپنے خدا سے شکوہ کرنے لگی )
آج کا یہ منظر دیکھ کر اسے تین سال پہلے والا منظر یاد آگیا تھا جس نے اسکی خوبصورت سی زندگی کو ایک بدصورت شکل دے دی تھی......
فارس ۔۔۔۔فارس آںٔی ہیٹ یو ۔۔۔۔آںٔی ہیٹ یو ( مہر روتے ہوۓ مسلسل بولے جارہی تھی )
اسے ڈھونڈتے ہوۓ اوپر آتے فارس اسکے الفاظ سن کر وہیں رک گیا ........
م۔۔۔۔میں نے اتنی محبت کی اور اپنے اتنی ہی نفرت کی ۔۔۔مجھ سے نفرت میں آپ اتنا اگے نکل گںٔے کہ میری زندگی کو برباد کر کے مجھ سے ہر رشتہ چھین لیا ۔۔۔۔۔۔(وہ شدتِ غم میں فارس سے شکوہ کر رہی تھی ۔ اس سردی کی بارش میں بھیگ رہی تھی لیکن اپنے اندر کی تکلیف اسے کسی چیز کا احساس نہیں ہونے دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اسکے منہ سے اظہارِ محبت سن کر فارس کی دل کی دھڑکن فوراً ہی بے قابو ہوںٔی لیکن خود سے اس قدر بد گمان ہونا اسکا فارس کو یقین نا آیا۔ وہ فوراً اسکی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔
مہر ۔۔۔۔( فارس نے دھیمے سے اسے پکارا )
مہر جو سامنے دیوار پر جھکی آنسو بہا رہی تھی فارس کے مخاطب کر نے پر فوراً اپنے انسو صاف کیے۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔( مہر فوراً اسکی طرف مڑی لیکن اسکی آواز کی لڑکھڑاہٹ اسکے سارے بھید کھول گںٔی )
برستی بارش میں اسکی برستی آنکھیں فارس شاہنواز کے دل کی دنیا اتھل پتھل کر گںٔیں)
رو کیوں رہی تھیں؟( اسے جانجتی نظروں سے دیکھ کر پوچھا)
ا۔۔۔ایسی کوںٔی بات نہیں ہے وہ بس ۔۔۔۔۔( اس سے کوںٔی بات نہیں بن رہی تھی اسی لیے چپ کرکے ساںٔیڈ سے نکلنے لگی تھی کہ فارس کی آواز نے اس کے قدم روک لیے ....
مجھ سے کسی نے کہا تھا کہ جب ضبط کے مراحل کڑے لگیں تو انسان کو خود پر ظلم کرکے پہرے نہیں بیٹھانےچاہیں۔۔۔۔۔۔۔( فارس نے اسے اسی کی بات یاد دلاںٔی ۔۔۔
لیکن مجھ پر ایسا کوںٔی مرحلہ نہیں آیا ہے ( بغیر مڑے ہی اسنے جواب دیا)
فارس نے فوراً آگے بڑھ کر اسکی کلاںٔی پکڑ کر اپنی طرف اسکا رخ کیا۔۔۔۔۔
کتنا جھوٹ بولو گی خود سے اور مجھ سے ہاں کہہ کیوں نہیں دیتی کہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہو ( برستی بارش میں بھی وہ اسکے آنسو پہچان سکتا تھا اسی لیے انگلی کے پوروں سے نرمی سے صاف کرتے ہوئے بولا)
م۔۔۔۔میں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے م۔۔۔میں آپ سے محبت نہیں کرتی ( اسکے لمس پر مہر نظریں جھکا کر بولی)
یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر کہہ دو میں مان جاؤں گا (اسکے ہاتھوں کو تھامے ہوئے بولا)
اس ٹھنڈی رات کی سرد بارش میں وہ دونوں کھڑے بھیگ رہے تھے لیکن پروہ کسے تھی۔۔۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے فارس ( مہر نے پھر اسکی نفی کی )
مہر۔۔۔۔۔۔۔
بس فارس پلیز بس کردیں اور کتنا کھیلیں گے میرے ساتھ میں انسان ہوں مجھے بھی درد محسوس ہوتا ہے ۔ آپ دانیہ سے جب محبت کرتے ہیں تو مجھے کیوں نہیں چھوڑ دیتے کیوں ....( اسکی بات کاٹتی مہر بولی لیکن فارس نے جھٹکے سے کھینچ کر اسے خود سے لگا لیا کہ اسکے باقی کے الفاظ ادھورے رہ گںٔے)
دل کے بغیر بھی کوںٔی زندہ رہا ہے کبھی .؟....میں نہیں چھوڑ سکتا تمھیں مہر نہیں چھوڑ سکتا تم ۔۔۔۔۔۔۔
بس ۔۔۔۔بس خدا کے لیے بس کریں اور تماشا مت بناںٔیں میرا ( اس کے شدت بھرے حصار سے جھٹکے سے نکلتی ہوںٔی بولی)
کاش کہ آپ میری زندگی میں نہ آئے ہوتے ۔۔۔۔کاش کہ میں آپ سے نہ ٹکرائی ہوتی۔۔۔ کاش کہ آپ نہ مجھے دھوکا دیتے ۔۔۔۔یا کاش کہ میں نہ وہ سب دیکھتی ( یہ کہہ کر وہ رکی نہیں بلکہ نیچے کہ جانب بھاگ گںٔی )
اور فارس اس بارش میں تنہا کھڑا اسکے لفظوں پر ساکت رہ گیا )
🔥🔥
اور اگلے دن عباس گھر پر موجود تھا ۔ اسنے بھی جب یہ سب سنا تو بے یقینی پی بے یقینی تھی لیکن جب فارس کا مہر کا موباںٔل منگوانا اور اسکی بھابھی بنانے کی بات یاد آئی تو سب سمجھ گیا۔ فارس کو کل رات بارش میں بھیگنے کی وجہ سے ٹمپریچر ہوگیا تھا لیکن سب کے لاکھ منع کرنے پر بھی وہ دوا لے کر ہسپٹل چلا گیا کیونکہ اپنے ہسپٹل کو عہ جلد از جلد بنانا چاہتا تھا ۔ کافی حد تک کام ہوگیا تھا لیکن کچھ ڈاکٹرس اور جدید مشینوں کا انتظام رہتا تھا جس میں شاہنواز صاحب اور قمر صاحب اسکا بھرپور ساتھ دے رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
رات میں گھر واپسی بھی دیر سے ہوںٔی تو سب سے پہلے اسے روٹھے بیٹھے عباس کا سامنا کرنا پڑا جو مہر ،اماں جی ، اور آمنہ بیگم کے ساتھ بیٹھا تھا۔ لیٹ آنے کی وجہ سے کھانا بھی گھر نا کھایا تھا۔ لیکن عباس کو سمجھانا اور منانا زیادہ مشکل ثابت نہ ہوا جس میں مہر کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا وہ کوںٔی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اسی لیے عباس کو اپنے ٹھیک ہونے کا یقین دلاتی رہی ورنہ جو کچھ کل رات اسنے دیکھا تھا تو فارس کے لیے دل میں جو ایک نرم گوشہ پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوگیا تھا۔ مہر کے کہنے پر عباس خاموش ہوگیا تو فارس نے بھی شکر کا کلمہ پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔
دانیہ نے جب کل والی بات کمرے میں آکر تیمور کو بتاںٔی تو اسے دانیہ کی اس قدر دیدہ دلیری پر یقین نہ آیا لیکن بہت خوش بھی ہوا اور آگے کا پروگرام ترتیب دینے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہنواز صاحب نے عباس کے آنے پر ولیمہ دو ہفتے بعد کا رکھ لیا۔ جس پر کسی نے کوںٔی اعتراض نہ کیا یہاں تک کہ مہر بھی کچھ نہ بولی کیونکہ اسکے بابا سے معافی مانگنے کا وہ فارس کو سختی سے کہہ چکے تھے جس پر فارس خاموش ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں بھی آکر دونوں میں خاموشی ہی باتیں کرتی تھی ۔ لیکن آج مہر کو بہت خوشی تھی کہ وہ اپنے بابا سے ملنے والی ہے اسکی خوشی دیکھتے ہوئے فارس نے ان سے معافی مانگنے کا سوچا لیکن مہر کو چھوڑنا اسکے لیے ناممکنات میں شامل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سے ہی ان کے گھر ولیمے کی تیاریاں شروع ہوگںٔیں ۔ اس گھر کے سب سے بڑے بیٹے کا ولیمہ تھا تو بہت بڑے پیمانے پر کیا جانا تھا۔ ہر کوںٔی بازاروں اور مالز کے چکر لگانے میں مصروف ہوگیا تھا ایسے میں مہر بس خاموشی سے اں کے درمیان میں بیٹھ جاتی تھی ہر کوںٔی بہت خوش تھا کہ ان دونوں میں سب ٹھیک ہوگیا ہے لیکن ایک دانیہ ہی تھی جسے سب پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن سب لاؤنج میں بیٹھے تیاریاں دیکھ رہے تھے۔ ولیمے میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا مسرت بیگم بھی اب کر کام میں شامل تھیں کیونکہ دانیہ کو نارمل دیکھ کر وہ مطمئن ہوگںٔی تھیں۔۔۔۔۔
دانیہ بیٹا آج مہر کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور اسکے ولیمے کا جوڑا دلا آؤ ( اماں جی نے ساتھ بیٹھی دانیہ سے بولا تو وہ جی کہتی خوش ہوگںٔی کیونکہ وہ کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھی۔ اسکی کچھ دن پہلے والی کاروائی سے ان دونوں کے درمیان غلط فہمی کی دیوار کچھ اور بھی بڑی ہوگںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی کے کہنے پر دونوں اپنے اپنے رومز میں جاکر تیار ہوگںٔیں۔ فارس آج اپنے نںٔے ہسپٹل کے وزٹ پر گیا ہوا تھا ۔ اسی لیے اماں جی نے مہر کو دانیہ کے ساتھ جانے کا کہہ دیا۔۔۔۔۔۔۔
دونوں تیار ہوتی ڈراںٔیور کے ساتھ نکل گںٔیں۔ مہر نے جامنی رنگ کی کاٹن کی سٹاںٔلش سی کرتی پہن رکھی تھی جس پر اسنے جامنی حجاب کے ساتھ ٹی پنک گرم شال لی ہوںٔی تھی کسی بھی سنگھار سے پاک چہرہ لیے وہ بے حد دلکش اور حسین لگ رہی تھی۔ ساتھ ہی دانیہ نے بلو شارٹ کرتی جینس کے ساتھ اور اوپر گرم شال سٹاںٔل سے لے کر بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ چہرے پر خوبصورتی سے کیے گںٔے میک اپ میں وہ بھی حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی اسنے کسی بہت بڑے مال میں رکواںٔی تھی جسکا پتا کم سے کم مہر کو تو نہیں تھا۔ وہ اسے لیے مختلف براںٔیڈل بوتیک میں لے جا رہی تھی ۔ بلاآخر ایک شاپ پر انھیں ایک ڈریس پسند آگیا تھا جسے فوراً پیک کروا کر واپسی کے لیے نکل گںٔیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اووھو مہر میرا فون شاید شاپ میں رہ گیا ہے تم یہیں رکو میں ابھی لے کر آتی ہوں ( کافی آگے آنے کے بعد دانیہ نے جب بیگ ٹٹولا تو فون نہ پاکر بولی)
لیکن دانیہ۔۔۔۔
ارے تم بس یہیں کافی شاپ میں رکو میں بس پانچ منٹ میں آںٔی ( دانیہ اسکی بات کاٹتی اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دںٔیے بغیر چلی گںٔی تو ناچار مہر بھی سامنے کافی شاپ میں بیٹھ کر اسکا ویٹ کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر واجد ملک ۔۔۔۔۔( اپنے پیچھے سے مردانا آواز سن کر مہر کرنٹ کھا کر مڑی لیکن پیچھے تیمور اسد کو کھڑا دیکھ اسکو شدید حیرت ہوںٔی)
آ۔۔۔آپ ( گھبراہٹ کے مارے اس سے پورے الفاظ بھی ادا نہ ہوۓ)
جی میں ۔۔۔( تیمور اسے نظروں کے ذریعے دل میں اتارتا ہوا بولا)
وہ میں کسی کا ویٹ۔۔۔۔۔
آںٔیے نا بیٹھیں مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے ۔۔۔ ( تیمور بول کر اسکے سامنے والی سیٹ سنبھال گیا)
نہیں مجھے جانا ہے ( مہر فوراً اٹھنے لگی کہ تیمور کی بات نے اسے وہیں روک دیا)
مجھے واجد انکل کے بارے میں کچھ بات کرنی تھی ( تیمور کو جب کچھ بہانا سمجھ نہ آیا تو یہی بول دیا وہ جانتا تھا یہ بے وقوف لڑکی فوراً رک جائے گی اور توقع کے عین مطابق ہوا بھی ہیی مہر فوراً واپس بیٹھ گںٔی) ۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر کے پاس سے کچھ فاصلے پر آکر دانیہ نے تیمور کو مسڈ کال دی اور پھر فارس کو کال ملا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس اس وقت ہسپٹل کے وزٹ میں مصروف تھا کہ موبائل کی رنگ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔
ہیلو فارس ( فارس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی دانیہ کی پریشانی والی آواز ابھری)
ہاں دانیہ کیا بات ہے اتنی پریشان کیوں ہو؟( فارس کو اسکی آواز پر تشویش ہوںٔی)
وہ فارس میں اور مہر ابھی شاپنگ کے لیے آۓ تھے لیکن اب وہ مجھے مل نہیں رہی ہے پتا نہیں شاپ سے کہاں چلی گںٔی ( دانیہ نے کمال مہارت سے آواز میں فکر مندی شامل کرکے بولا)
واٹ۔۔۔۔لیکن کہاں جاسکتی ہے تم نے اسکا فون ٹراۓ کیا ( فارس کو فوراً پریشانی نے آگھیرا)
ہاں کیا لیکن کال نہیں اٹھا رہی ( دانیہ نے فوراً جواب دیا کیونکہ مہر فون لے کر آںٔی ہی نہیں تھی)
تم مجھے مال کا نام بتاو میں ابھی آرہا ہوں ( فارس ںے جلدی میں نام پوچھا اور گاڑی میں بیٹھتا رش ڈراںٔیونگ کرتا مال پہنچا ۔ سارے رستے اسے برے برے خیالات اور وسوسوں نے اپنی لپیٹ میں رکھا ۔مال کے باہر ہی اسے دانیہ مل گںٔی تھی۔۔۔۔۔
آخری بار کس شاپ میں تھے ؟( فارس نے فوراً پاس اکر پوچھا)
تو دانیہ اسے اس شاپ کی طرف لے گںٔی لیکن پلان کے مطابق اسی کافی شاپ کے پاس سے لے آںٔی۔ ادھر ادھر نظر دوڑاتے فارس کی اچانک نظر سامنے بیٹھی مہر پر گںٔی لیکن ساتھ ہی کوںٔی مرد بھی تھا جس کی پیٹھ فارس کی طرف تھی۔ یہ منظر دیکھ کر فارس کی رگیں تن گںٔیں۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ فوراً ہی اندر کی طرف بڑھ گیا۔ دانیہ بھی پیچھے سے مسکراتی ساتھ ہی ہولی۔۔۔۔۔
مہر ( فارس نے نہایت ہی ضبط سے اسے پکارا تو مہر نے چونک کر سامنے دیکھا لیکن فارس کی تنی ہی نیلی دماغ کی رگیں دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوگئی)
اٹھو یہاں سے ( آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا تو وہ کانپتی ہوںٔی اٹھ گںٔی)
تیمور بھی یہ سب دیکھتا کھڑا ہوگیا۔ فارس نے تیمور کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا جس کے برعکس تیمور ناسمجھی کی ایکٹنگ کرتا انھیں دیکھ رہا تھا۔ بہت سے لوگ انھیں اس طرح کھڑا دیکھ کر متوجہ ہوۓ اسی لیے ان سب کا خیال کرتا ہوا تیمور کے سامنے رک کر بولا۔۔۔۔
تمھیں تو میں دیکھ لوں گا تیمور اسد ( یہ بولتا ہوا دانیہ کو ڈراںٔیور کے ساتھ آنے کا کہہ کر مہر کو ہاتھ سے پکڑتا وہاں سے کھینچنے کے انداز میں لے گیا)
پیچھے کھڑے دانیہ اور تیمور نے ایک دوسرے کو فاتحانہ نظروں سے مسکرا کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
VOCÊ ESTÁ LENDO
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiaek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔