part 14

688 30 4
                                    

کیسی بدکردار لڑکی ہے آپکی واجد صاحب بہت ناز تھا نہ اپکو اپنی تربیت پر اب دیکھںٔیے کیسے کالک مل کے آںٔی ہے اپکے منہ پر اور ہم سب کو بھی ہمارے خاندان میں بدنام کردیا اسے تو پیدا ہوتےہی مار دینا چاہیے تھا ( عاںٔشہ بیگم مسلسل زہر اگل رہیں تھیں)
یہ تونے کیا کیا مہر ہمیں جیتے جی مار دیا ہمارا کیا قصور تھا یہی کہ تجھ منہوس کو پیدا کیا آںٔندہ اپنی شکل ہمیں نہیں دکھانا مر گںٔی تو ہمارے لیے مر گںٔی۔۔۔۔( واجد صاحب سر ہاتھوں میں گراۓ زار زار رو رہے تھے)
ن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔بابا۔۔۔م۔۔۔۔میں ۔۔میں نے کچھ نہیں کیا میں بے قصور ہوں ۔۔۔ب۔۔۔بابا۔۔۔۔۔۔بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ایکدم ہی اٹھ کر بیٹھ گںٔی اتنی سردی میں بھی اسکا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا تیز تیز چلتی ڈھرکنیں، لال آنکھیں اور ان سے رواں آنسو، اور بکھرے بال اسکی ابتر حالت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ا۔۔۔تنا بھیانک خواب ( وہ اپنے آنسو صاف کرتی خود سے بڑبڑاںٔی)
مہر کیا ہوا تم ٹھیک ہو ؟( اسکی چیخ سن کر فارس فوراً ڈریسنگ روم سے گھبرا کر باہر آیا)
مہر نے چونک کر سر اٹھایا اور فارس کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگی جیسے سب سمجھنے کی کوشش کررہی ہو لیکن جیسے ہی دماغ پوری طرح بیدار ہوا تو کل کا سارا واقعہ ایک فلم کی طرح اسکے سامنے چل گیا۔ فارس اسکی حالت دیکھ کر فوراً اسکے قریب آیا لیکن وہ اتنی ہی تیزی سے اس سے دور ہوںٔی۔۔۔۔۔۔
د۔۔۔۔دور رھیں مجھ سے ( مہر روتے ہوۓ چلا کر بولی)
اوکے ۔۔۔اوکے میں نہیں آؤنگا لیکن تم بتاؤ کہ ہوا کیا ہے کوںٔی برا خواب دیکھا تھا کیا ؟( فارس اسکا ری ایکشن دیکھ کر نرمی سے بولا)
خواب نہیں تھا فارس شاہنواز حقیقت تھی وہ۔۔۔کیوں کیا آپ نے ایسا کیا ملا مجھے سب سے دور کر کے؟ ( مہر اسی طرح روتے ہوۓ بولی)
فارس خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اب اسے کچھ کچھ سمجھ انے لگا تھا کہ وہ یہاں کیسے آںٔی ۔ پھر ایک گہرا سانس لے کر اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔
چپ ہو جاؤ مہر ( فارس نرمی سے بولا)
کیوں چپ ہو جاؤں ہاں کیوں چپ ہو جاؤں اپنی انا کی تسکین کے لیے میری عزت قربان کردی میرے ماں باپ کو رسوا کردیا ( مہر ایکدم ہی اسکا گریبان پکڑ کے چلا کر بولی)
اسکے ہاتھ اپنے گریبان پر دیکھ کر فارس نے سختی سے لب بھینچ لیے پھر اپنے ہاتھوں سے اسکی دونوں کلاںٔیاں پکڑ کر گریبان چھوڑوانے چاہے جو اسنے مضبوطی سے تھام رکھے تھے ۔۔۔۔۔
گھٹیا دھوکے باز انسان نفرت ہے مجھے آپ سے میں اپکو کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی بھی نہیں ( وہ اسکا گریبان جھنجھوڑ کر بولی اور بس فارس کا ضبط یہیں تک کا تھا یہ الفاظ اسے گولی کی طرح لگتے تھے ۔
مہر۔۔۔۔۔( اسنے دھاڑ کر اسکا نام پکارا اور اسکے ہاتھ زور سے اپنے گریبان سے ہٹاۓ اور جھٹکے سے اسی کلاںٔی سے اسے اپنی طرف کھینچا وہ اس افتاد کے لیے قطعی تیار نہیں تھی اسی لیے فوراً ہی اسکے چوڑے سینے کا حصہ بنی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کہو اب سن رہا ہوں میں ( فارس اسی پوزیشن میں اسکے دونوں ہاتھ پکڑے بولا).
مہر پہلے تو سمجھ نہ پاںٔی لیکن جیسے ہی سمجھ آیا تو فوراً اس سے دور ہونا چاہا لیکن اسکے ہاتھ فارس کی مضبوط گرفت میں ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کرسکی مزید کچھ کوششوں کے بعد بھی جب دور نہ ہو سکی تو تھک کر اسکے سینے پے سر رکھ کے زور زور سے رونے لگی ۔ اسکے اس طرح سینے سے لگ کر رونے پر فارس نے اسے روکا نہیں کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ رو کر وہ اپنا سارا غبار نکال لے ورنہ یوں بے قابو ہونے سے اسکا نروس بریک ڈواؤن بھی ہوسکتا تھا ۔اسنے اپنے مضبوط بازوں کا حصار اسکے گرد باندھ لیا ۔
مہر ( کچھ دیر بعد فارس نے اسے پکارا لیکن وہ ہنوز اسکے سینے سے لگی رہی )
فارس نے خود ہی نرمی سےاسے خود سے علیحدہ کیا اور اسکے چہرے پر آنسوؤں سے چپکے ہوۓ بالوں کو پیچھے کیا ۔ مہر اب بغیر آواز کے انسو بہا رہی تھی فارس کے ایسا کرنے سے اسنے کوںٔی مذمت نہ کی شاید وہ بھی تھک گںٔی تھی یوں خود کو سنبھالتے سنبھالتے ۔۔۔۔
فارس نے اسکا چہرہ تھوڑی سی پکڑ کے اوپر کیا اسی لمحے مہر نے بھی اپنی آنسوؤں سے بھری نشیلی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔۔ اور بس فارس تین سال پہلے کی طرح آج ایک بار پھر اسی سمندر میں ڈوب گیا جہاں سے اسکی رہاںٔی کبھی ممکن ہی نہیں تھی۔ فارس نے ٹرانس کی سی کیفیت میں دوسرا ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کیے ۔ مہر پھر سے اسکی پناہوں میں پھڑپھراںٔی لیکن فارس نے اسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کردی ۔۔۔۔۔۔۔
مہر کا جسم رونے سے اب ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔ فارس باغور بہت قریب سے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ تیز تیز چلتی سانسیں ، لرزتی ہوںٔی گھنی پلکیں جو رخساروں پر سجدہ ریز تھیں , کپکپاتے ہوئے گلابی لب اور کھلتی دمکتی رنگت پر رونے کی وجہ سے گھلتی ہوںٔی سرخی فارس کو دیونہ بناۓ جارہی تھی ۔ وہ مبہوت سا یہ دل لوٹ لینے والا منظر دیکھ رہا تھا کہ دروازہ بجنے کی آواز پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔ نرمی سے اسکا ہاتھ چھوڑ کر ایک بھرپور نظر اسکے ہوش روبا سراپے پے ڈال کر اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس صاحب بڑے صاحب اپکو نیچے بلارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا میں آتا ہوں ( ملازمہ شاہنواز صاحب کا پیغام دیتی واپس چلی گںٔی تھی )
مجھے ڈیڈ نیچے بلارہیں ہیں تمھارا ناشتہ میں اوپر ہی بھجوادونگا ( فارس اسے بولتا ہوا ڈریسنگ روم میں واپس چلا گیا ۔ مہر اسکے پیچھے غصے سے سر جھٹکتی وہیں بیٹھی رہی اسے اس وقت فارس سے شدید نفرت محسوس ہورہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ ڈریسنگ روم سے ہسپٹل کے لیے ریڈی ہو کر نکلا اور اسے فریش ہونے کا بول کر نیچے کی جانب بڑھ گیا جسکا مہر نے کوںٔی اثر نہ لیا اور ہنوز اسی طرح بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اس وقت وہ مسلسل ایک ہی سوچ میں غرق اپنے بیڈ پر نیم دراز تھی ساری رات اسے سمیرا کی بات سوچ کر نیند نہیں آںٔی تھی ۔ کل جب اسے پتا چلا کہ اماں جی اور باقی سب مہر کے گھر جاںٔیں گے تو وہ شدید غصے کی حالت میں باہر نکل گںٔی تھی ۔ سڑکوں پہ بے مقصد گاڑی دوڑانے کے بعد سمیرا کے پاس چلی گںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے کیا سوچ رہی ہے ؟ ( سمیرا اسکے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولی)
تو جانتی ہے سمیرا کہ میں کیا سوچ رہی ہوں ( دانیہ بےزاری سے بولی)
میری جان وہ تو سنا ہی ہوگا نہ کہ ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ( سمیرا اپنی ہی بات پر قہقہ لگاتی ہوںٔی بولی)
پلیز سمیرا میں پہلے ہی پریشان ہوں مجھے اور تنگ نہ کر ( دانیہ ضبط سے بولی)
اچھا اچھا بابا پریشان ہوکر کیوں جلدی بوڑھی ہونا چاہتی ہے ابھی تو فارس کے ساتھ پوری زندگی گزارنی ہے اور اس کام میں میں تیرے ساتھ ہوں ( سمیرا اسے سیریس ہوتا دیکھ کر بولی)
خاک زندگی گزارنی ہے اس حسین چڑیل سے اسکی جان چھوٹے گی تب نا میں اس لڑکی کو ایک منٹ اپنی نظر کے آگے برداشت نہیں کر سکتی اور گھر والے اسے منانے چلے گںٔے ہیں ۔۔۔( دانیہ غصے سے بولی)
نہ نہ جانی یہ مت کرنا اگر فارس کو حاصل کرنا ہے تو دونوں ساںٔڈ سے کھیل مہر سے نہ بگاڑنا وہی تجھے فارس تک پہنچاۓ گی( سمیرا شاطر پن سے بولی)
کیا مطلب ( دانیہ نا سمجھی سے بولی)
ہممممم۔۔۔۔تونے بتایا تھا اسکی منگنی ہوںٔی تھی کسی تیمور اسد نامی لڑکے سے ( سمیرا بولی)
ہاں تو ( دانیہ کو اب بھی سمجھ نہ آںٔی )
دیکھ دانیہ مرد بڑی عجیب چیز ہوتا ہے عورت کو چاہے کہیں بھی خود سے رسوا کرے لیکن اگر کسی عورت کی وجہ سے اسکی عزت اور انا مجروع ہوتی ہے تو وہ کبھی برداشت نہیں کرتا تیرے کزن فارس کا بھی یہی کچھ سین تھا نا( سمیرا سمجھانے والے انداز میں بولی)
یار بات کو گول مت گھما ٹھیک سے بتا کہ چل کیا رہا ہے تیرے دماغ میں ( دانیہ چڑ کے بولی)
سمپل ہے یار تو اسکے منگیتر سے رابطہ کر ( سمیرا کی بات پر دانیہ نے اسے گھور کے دیکھا)
میں کیوں کروں اس سے رابطہ کیا دماغ تو نہیں خراب تیرا ۔۔۔۔۔۔۔
ارے پاگل تو سمجھ نہیں رہی تو اس سے رابطہ کر کے دیکھ وہ تو یہی سمجھتا ہے نا کہ مہر اسے شادی سے بارہ دن پہلے چھوڑ آںٔی وہ بھی کسی اور کے لیے اسکی انا پر کیسی کاری ضرب لگی ہوگی آخر ایک مرد جو ٹہرا اگر تھوڑا بھی غیرت مند ہوا تو تیرا کام آسان ہی آسان ہے ( سمیرا کی بات پر دانیہ سوچ میں پرگںٔی پھر بولی)
لیکن اگر اسنے کوںٔی رسپانس نہ دیا پھر ( دانیہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا )
پھر تھوڑی سی محنت کر کے تو اسکو اتنا بھڑکا اسکی سوںٔی ہوںٔی انا کو اتنی ہوا دینا کہ وہ بھڑکتا ہوا آگ کا شولا بن جاںٔے اور اپنے ساتھ سب کچھ جلا کے راکھ کردے اور مجھے یقین ہے کہ تو یہ کام باخوبی کرسکتی ہے ( سمیرا کی بات کو دانیہ بہت غور سے سن رہی تھی سب سننے اور سمجھنے کے بعد اسکے چہرے پر ایک جاندار سی مسکراہٹ آںٔی)
I am impressed Samera Zaidi .........
Thank you so much darling۔۔۔۔۔۔۔
( سمیرا سر کو خم دیتی ہوںٔی بولی)
اب ٹینشن نہیں لینا اور احتیاط سے سہی موقعہ ڈھونڈ کر مہر کا موباںٔل چیک کرنا مجھے امید ہے کہ کچھ ضرور مل جاۓگا جو تجھے اس تک پہنچنے میں مدد دیگا (سمیرا یاد آنے پر بولی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ میں کل کی بات پھر سے یاد کرکے دانیہ کی چہرے پر مسکراہٹ اگںٔی ۔سمیرا کے گھر واپسی پر مسرت بیگم نے جب اسے ڈرتے ڈرتے مہر کا بتایا تو اسے حیرت کے ساتھ شدید غصہ آیا لیکن پھر کچھ سوچ کر مطمئن ہوگںٔی۔۔۔۔۔۔
ایسی منہ کی دونگی مہر واجد کہ تڑپ تڑپ کے مر وگی ( دانیہ نفرت سے بولتی فریش ہونے کے لیے واش روم میں گھس گںٔی) ۔۔۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
وہ جب سیڑیا اتر کر نیچے آیا تو سب ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ سب کو سلام کرتا اماں جی کے ساتھ والی کرسی سنبھال کے بیٹھ گیا ۔ قمر صاحب اسے بلکل نظر انداز کررہے تھے وہ سمجھ گیا تھا کہ ناراض ہیں۔ناشتہ سب نے خاموشی سے کیا ۔ دانیہ وقفے وقفے سے سامنے اسی کو دیکھ رہی تھی جو سنجیدگی سے اپنا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا ۔ وہ لڑکی اسکے کمرے میں رات بھر اسکے ساتھ تھی یہی سوچ اسکے لیے سوہان روح تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کر کے لاؤنچ میں آؤ بات کرنی ہے تم سے ( شاہنواز صاحب ناشتے کرتے ہی فارس کو بول کر اٹھ گںٔے)
موم مہر اٹھ گںٔی ہے آپ دیکھ لیجیے گا ۔۔۔۔ ( فارس کی بات پر مسرت بیگم اور دانیہ نے چونک کر اسے دیکھا اور غصے سے سر جھٹک دیا )
دیکھ لونگی رات میں تم دیر سے آۓ تھے تو بات نہیں کرسکے ہم میں نے اسے نیند کی دوا دے کے سلایا تھا قابو نہیں ہورہی تھی اب جاؤ اپنے ڈیڈ کی سن لو ( آمنہ بیگم کے بولنے پر وہ شرمندہ ہوتا ہوا اٹھ گیا )
آپ بھی آںٔیں نا اماں جی ( فارس جاتے ہوۓبچون کی طرح ڈر کے بولا جس پر اماں جی مسکراتے ہوۓ اسکے ساتھ اٹھ گںٔیں )
ہاں تو برخودار جو کارنامہ تم انجام دے چکے کو اسکے نتاںٔج بھی دیکھ چکے ہوگے ( شاہنواز صاحب اسے دیکھتے ہوۓ بولے . فارس ان کے سامنے ہی صوفے پر ٹک گیا )
بھاںٔی صاحب میں آفس کے لیے نکل رہا ہوں آپ آجاںٔیے گا ( اسی وقت قمر صاحب شاہنواز صاحب سے بولتے ہوۓ نکل گںٔے)
جی ڈیڈ لیکن آپ سب مجھے شروع سے بتاںٔیں کہ وہاں ہوا کیا ؟ ( فارس شرمندگی سے بولا )
پھر اماں جی نے اسے کل ہونے والے سارے واقعے کی رداد سنا دی جسے سن کر فارس کو اچھا خاصا شوک لگا اسے واجد صاحب سے اتنے انتہائی قدم کی امید نہیں تھی لیکن ایک باپ کی عزت پہ جب حرف آتا ہے تو شاید وہ ایسا ہی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے )
فارس مجھے جتنی امید تم سے تھی کہ تم کبھی مجھے شرمندہ نہیں ہونے دوگے تم نے مجھے اتنا ہی ذلیل کروایا ہے تمھاری وجہ سے اس بچی کہ ہنستی کھیلتی زندگی تباہ ہوگںٔی تمھارے اس عظیم کارنامے پر میں تمھیں گھر سے نکال دیتا اگر جو بات اس بچی کی عزت پہ نا آںٔی ہوتی ( شاہنواز صاحب کے شرمندہ کرنے پر فارس نظریں بھی اٹھانے سے قاصر تھا اماں جی نے جب اسے دیکھا تو شاہنواز صاحب کو ڈپٹ کے بولیں)
بس بھی کرو شاہنواز غلطی سب ہی سے ہوتی ہے اور فارس جب شرمندہ ہے تو تم کیوں بار بار اسے باتیں سنا رہے ہو۔۔۔۔۔؟؟
دانیہ بھی ساتھ ہی آکر بیٹھ گںٔی تھی اور بہت غور سے سب کی باتیں سن رہی تھی ۔۔۔۔
ہونا بھی چاہیے اماں جی مہر کو اسکے باپ نے گھر سے رخصت نہیں کیا بلکہ نکال دیا وہ بھی اس کی وجہ سے اور اب یہ ہی اس بچی کو اسکے باپ سے ملواۓ گا ( شاہنواز صاحب اماں جی بات کے جواب میں بولے)
ہاں ضرور ملواۓ گا مہراب بیوی ہے اسکی اور ہم سب کو ہی اسکا نقصان مل کر بھرنا پڑے گا ( اماں جی فارس کے چوڑے شانے پر تھپکی دیتے ہوںٔے بولیں )
بیوی لفظ پر دانیہ نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔۔
رمشا کچھ دنوں میں آجاۓ گی اور عباس بھی ۔۔۔۔۔رمشا کو بھی جواب دہی تم ہی کروگے ۔۔۔۔(شاہنواز صاحب کی بات پر فارس جی ڈیڈ بول کر خاموش ہوگیا)
ہم نے ساری زندگی عزت بنانے میں لگاںٔی ہے فارس۔۔۔۔چاہے جس طرح بھی لیکن مہر اب اس گھر کی بڑی بہو ہے اسے کوںٔی بھی تکلیف ہوںٔی تو جواب طلبی تم سے ہی ہوگی ( شاہنواز صاحب بولتے ہوۓ اماں جی کو اور آمنہ بیگم کو خدا حافظ کرتے ہوۓ آفس کے لیے نکل گںٔے )
ان کے جانے کو بعد فارس بھی ہسپٹل کے لیے اٹھ گیا ۔۔۔۔۔
دانیہ بھی اٹھ کر اپنے روم میں جا چکی تھی ۔۔۔۔
میری جان میں جانتی ہوں تو مہر سے کتنی محبت کرتا ہے وہ اس وقت بہت ٹوٹی ہوںٔی ہے اور ایک مضبوط سہارے کی اسے اشد ضرورت ہے اور شوہر سے بڑھ کر کوںٔی سہارا نہیں ہوتا تیری طلب میں اللّٰہ نے اسے تیرا کردیا ہے اسے کبھی تنہا نہ کرنا ۔ مجھے وہ بچی بہت عزیز ہے میں بس اب یہی دعا کرونگی کہ اسکے دل میں تیری محبت پھر سے جاگ جاۓ ( اماں جی اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر بولیں)
بہت شکریہ اماں جی میں پوری کوشش کرونگا کہ آپ کو اور ڈیڈ میں سے کسی کو بھی مجھ سے کوںٔی شکایت نہ ہو ( فارس انکے ہاتھ چومتا ہوا مسکرا کر بولا)
شاباش چل جا اب اللّٰہ کی امان میں ( اماں جی اسے دعا دیتی ہوںٔی بولیں اور وہ ہسپٹل کے لیے نکل گیا).........
🔥🔥
دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے سر اٹھا کر دیکھا تو آمنہ بیگم مسکراتے ہوئے اسکے پاس آںٔیں ۔۔۔۔۔
اٹھ گںٔیں بیٹا ؟ ( آمنہ بیگم محبت سے اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ بولیں)
جی ( مہر نے نظریں جھکا کر جواب دیا)
چلو اٹھو ناشتہ کرلو تم نے رات میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا بیٹا ( آمنہ بیگم اسکے روۓ ہوۓچہرے کی طرف دیکھ کر بولیں)
نہیں انٹی ۔۔۔مجھ سے کچھ بھی نہیں کھایا جاتا پتا نہیں بابا نے کچھ کھایا ہوگا ( مہر ایکدم ہی روتے ہوۓ بولی)
کیوں بیٹا تم کیوں پریشان ہوتی ہو جب تم روتی ہو تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے مجھے معاف کردو بیٹا شاید میری ہی تربیت۔۔۔۔۔۔۔
ن۔۔۔نہیں آنٹی آپ معافی مت مانگیں یہ سب تو میرے نصیب میں تھا ( مہر اپنے آنسو صاف کرتی  ہو ںٔی بولی)
آمنہ بیگم کو یہ لڑکی تب سے اور بھی عزیز ہوگںٔی تھی جب سے اماں جی نے انھیں فارس اور اسکے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ فارس تمھیں تمھارے ماں باپ سے دوبارہ ملوا ۓ گا اور سب ٹھیک بھی کرے گا بس تم اسے بھی معاف کردو تھوڑا جذباتی ہے لیکن میرا یقین کرو تم سے محبت کرتا ہے ( آمنہ بیگم کی آخری بات پر مہر کے چہرے پر فوراً ناگواری آگںٔی جسے نوٹ کرتے ہوۓ وہ بات بدل گںٔیں )
چلو اب بس اٹھ جاؤ ہم سب یہی سمجھیں گے کہ تم نے ہمیں معاف کیا ( ان کے اس طرح کہنے پر مہر ناچاہتے ہوۓ بھی اٹھ گںٔی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
آؤ میرے بچے ( اماں جی مہر کو نیچے آتا دیکھ کر بولیں)
السلام علیکم اماں جی ( مہر ان کے آگے جھکتے ہوۓ بولی)
واعلیکم السلام میری بیٹی ( اماں جی اسکی روشن پیشانی چوم کر بولیں)
جاؤ آمنہ میری بیٹی کو اچھے سے ناشتہ کرواؤ ( اماں جی کے کہنے پر وہ اسے اپنے ساتھ ٹیبل پر لے آںٔیں اور زبردستی اسے دو سلاںٔس ڈبل روٹی کے کھلاۓ ورنہ وہ کچھ نہیں کھا رہی تھی )
واہ آمنہ بھابی ابھی سے بہو کے لاڈ اٹھاۓ جارہے ہیں ( اسی وقت مسرت بیگم بھی کمرے سے باہر آتی ہوںٔی طنزیہ مسکراہٹ سے بولیں) انکی بات پر مہر نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اپنی بیٹی کی جگہ کسی اور کو دیکھنا وہ انکی سچویشن اور غصے کو سمجھتے ہوۓ دوبارہ سر جھکا گںٔی)
کیوں نہ اٹھاؤں میری بیٹی ہے بہو سے پہلے اللّٰہ اسکے نصیب اچھے کرے اور حاسدوں کی نظروں سے میرے بچوں کی جوڑی محفوظ رکھے ( آمنہ بیگم کی بات پر جہاں مسرت بیگم تلملا کے رہ گںٔیں وہیں دانیہ نے بھی ان کے سامنے بیٹھ کر انکی بات کا بھرپور ساتھ دیا)
بلکل ٹھیک کہتی ہیں تاںٔی جان مہر تو اس گھر کی لاڈلی بہو ہے اور حاسدوں کا کیا ہے اپنا ہی خون جلاتے ہیں حسد کرکے کیوں اماں جی ( دانیہ نے بول کر اماں جی کو بھی بات میں شامل کیا )
جی بیٹا جی بلکل ٹھیک کہا اپنی ماں کو بھی سمجھاؤ ذرا.........( اماں جی بولیں)
سب سمجھ جاںٔیں گے ( دانیہ کے مسکرا کے بولنے پر مہر صرف اسے دیکھ کے رہ گںٔی وہ جانتی تھی کہ فارس اور دانیہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس طرح اسکا چہکنا اسے اور سوچوں میں ڈال چکا تھا۔یہ لڑکی اسے شروع دن سے ہی عجیب لگی تھی اور مسرت بیگم تو حیرتوں کے سمندر میں ڈوبی جارہی تھیں کل جب انھوں نے اسے مہر کے آنے کا بتایا تو انکی توقع کے خلاف اسنے زیادہ ہنگامہ بلکہ کوںٔی ہنگامہ نہ کیا اور اب ان سب کے ساتھ مل کر بیٹھی مسکرا رہی تھی)
چلو کوںٔی بات نہیں مہر اب سے تم میرے ساتھ رہا کرو۔۔۔۔سب جلدی ہی ٹھیک ہوجاۓ گا ( دانیہ کے بولنے پر سب نے مسکرا کر انشاء اللّٰہ کہا اور مسرت بیگم تو صرف اسے سوچ کر ہی رہ گںٔیں )........
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
مہر یہ پہن کر دیکھاؤ تم پر کیسا لگ رہا ہے ( دانیہ مہر کے ساتھ ہی کمرے میں أتے ہوۓبولی اسکے ہاتھ میں چار جوڑے اور دو گرم شال تھیں جو اماں جی نے دانیہ سے بول کر اسکے لیے دلواۓ تھے )
اسکی کیا ضرورت ہے دانیہ ؟( مہر کو اسکی عنایت سمجھ نہ آںٔی)
ارے کیوں ضرورت نہیں ہے بلکل ہے دو دن سے یہی ڈریس پہنا ہے تم نے اماں جی نے بولا ہے کہ میں تمھیں ابھی یہ اپنے پاس سے دے دوں بعد میں اور شوپنگ کرلیں گے ( دانیہ اسکے ہاتھوں میں کپڑے دیتی ہوںٔی بولی )
اور ہاں میں نے یہ ایک بار بھی نہیں پہنے سچ میں ( دانیہ اسے خاموش کھڑا دیکھ کر بولی)
ن۔۔۔نہیں ۔۔نہیں ایسی بات نہیں ہے میں ابھی چینج کرلیتی ہوں شاور لے کر ( مہر فوراً ایک جوڑا لی کے واش روم کی طرف بڑھ گںٔی )
اسکے جاتے ہی دانیہ کے چہرے سے مسکراہٹ ایسے غاںٔب ہوںٔی جیسے کبھی تھی ہی نہیں اسنے ایک نظر گھما کر پورے کمرے کو دیکھا آج یہ کمرہ بھی اسکو پرایا لگ رہا تھا جہاں آنے کے خواب اسنے بچپن سے دیکھے تھے ۔پھر اچانک کچھ یاد آنے پہ متلاشی نظروں سے ہر طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔
پتا نہیں موباںٔل ہوگا بھی یا نہیں اس مڈل کلاس کے پاس ( خود سے بڑبڑاتی جلدی جلدی مہر کا فون ڈھونڈ رہی تھی تا کہ اس سے کچھ کام کا مل سکے آخر کار بیڈ کی داںٔیں جانب کے ساںٔڈ ٹیبل کی دراز سے اسے ایک موباںٔل مل ہی گیا جو یقیناً مہر کا ہی تھا کیونکہ وہ کوںٔی قیمتی فون نہ تھا )....
ہہہہہ۔۔۔۔مڈل کلاس( موباںٔل دیکھتے ہی دانیہ تمسخر اڑانے والے لہجے میں بڑبڑاںٔی )
موباںٔل میں فرنٹ وال پیپر پر مہر کے ساتھ ایک لڑکی کی تصویر تھی جس کی کچھ مشابہت مہر جیسی بھی تھی لیکن مہر کی آنکھیں اور ننھا سے ڈمپل جو ہونٹوں کے قریب تھا اسے مختلف بناتا تھا جبکہ اس لڑکی کی آنکھیں زیادہ بڑی نہ تھیں لیکن پھر بھی وہ خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔
یقیناً بہن ہوگی اس مڈل کلاس کی ( دانیہ دونوں کی خوبصورتی دیکھ کر جلتی ہوںٔی بولی ۔دانیہ بھی بلاشبہ بہت خوبصورت تھی لیکن وہ خود سے برتر کسی کو بھی نہیں دیکھ پاتی تھی)
دانیہ نے جلدی جلدی ہاتھ چلا کے تیمور کا نمبر ڈھونڈنا شروع کیا جو کہ تیمور اسد کے نام سے فیڈ ملا ۔ یہ دیکھتے ہی دانیہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آگںٔی۔۔۔۔۔
لگتا ہے باتیں کرتی تھی ( خود سے بول کر اسنے فوراً وہ نمبر اپنے موبائل میں سیو کیا اور میسجز میں دیکھا کہ شاید کچھ مل جائے لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا یہاں سے مایوس ہوکر اسنے فون کو واپس اسکی جگہ پہ رکھ دیا یہ سب کاروائی اسنے پانچ منٹ میں کی تھی ۔ پھر وہیں بیڈ پر بیٹھ کر اس کمرے میں فارس کی خوشبو محسوس کرنے لگی ۔ٹھیک پانچ منٹ بعد مہر باہر آتی دکھاںٔی دی . ڈارک بلو کلر کے پرنٹڈ کاٹن کے سوٹ میں نکھری نکھری سی مہر دانیہ کی پوری جان جلا گںٔی۔
ارے واہ مہر تم پر یہ کلر خوب جچ رہا ہے ( دانیہ بامشکل خود پر قابو پاتی ہوںٔی بولی)
شکریہ ( اسکی تعریف پر مہر مسکرا بھی نہ سکی کیونکہ دانیہ کا تعارف اسے کوشش کے بعد بھی کچھ بھولنے نہ دیتا )
اتنا خوبصورت ہونے کا کیا فاںٔدہ جب اس قدر بری قسمت ہو ( دانیہ بظاہر افسوس سے مہر سے بولی لیکن دل ہی دل میں بہت کچھ سوچ کر بیٹھی تھی)
مطلب۔۔۔(بالوں میں کنگھی کرتی مہر کو اسکی بات سمجھ نہ آںٔی )
مطلب دیکھو نہ مہر کون لڑکی نہیں چاہتی کہ اسکی قسمت سب سے بہترین ہو جب گھر سے رخصت ہو تو ماں باپ کی دعاؤں کے ساۓ میں رخصت ہو لیکن تمہاری قسمت میں یہ سب نہیں تھا الٹا تمھیں یہاں بھیج دیا جہاں تم نہیں آنا چاہتی تھی اور اوپر سے ناپسندیدہ شخص کے ساتھ ایک کمرے میں بھی رہنا ۔۔۔۔اوو ماںٔی گاڈ دس از ٹو مچ ( دانیہ بڑی ہہ مکاری سے اسے اس کمرے سے نکلوانے کے لیے بولی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ فارس اور مہر ایک ساتھ ایک کمرے میں رہیں )
دانیہ کی بات سن کر مہر کے کنگھی کرتے ہاتھ بلکل ساکت ہوگںٔے اپنے ماں باپ اور خود سے ہر زیادتی یاد کرکے ایکدم آنکھوں میں آنسو آگںٔے اور ایک کمرے میں رہنے واکی بات وہ اماں جی سے کرنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں ہوںٔی تھی۔
ارے مہر پلیز رو مت میرا مقصد تمھیں رلانا نہیں تھا پلیز ۔۔۔آںٔی ایم سوری ( اپنا تیر نشانے پر لگتا دیکھ دانیہ فوراً جھوٹی ہمدردی جتاتی ہوںٔی اسکے پاس آںٔی)
ن۔۔۔نہیں اٹس اوکے(مہر بامشکل مسکرا کے بولی اسے فارس سے کچھ اور بھی نفرت محسوس ہورہی تھی)
چلو چھوڑو یہ سب آؤ نیچے چلتے ہیں اماں جی کے پاس ( دانیہ کے بولنے پر مہر خاموشی سے کنگھی اپنی جگہ پر رکھتی ایک جوبصورت مہرون اور گرین کے امتزاج کی ایک گرم شال اچھے سے اوڑھتی دانیہ کے پیچھے چلنے لگی )
مہر کو تیار دیکھ کر اماں جی نے اسے خوب دعائیں دیں جن میں سے ایک سدا سہاگن رہنے کی بھی تھی جسے سنتی دانیہ ضبط سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گںٔی ۔کچھ دیر میں سب نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا ۔مہر کو بھوک محسوس نہیں ہورہی تھی لیکن اماں جی کے خیال اور آمنہ بیگم کی محبت دیکھتے ہوۓ کچھ نوالے زہر مار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد وہ اماں جی کے ساتھ انکے کمرے میں آگںٔی تھی ۔
اماں جی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ( مہر انکے ساتھ بیڈ پر بیٹھتی ہوںٔی بولی)
بولی بیٹا جھجھکو مت ( اسے سوچتا دیکھ اماں جی محبت سے بولیں)
اماں جی میں ف۔۔۔فارس کے ساتھ ایک کمرے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( اتنا بول کر مہر خاموش ہوگںٔی تو اماں جی ساری بات سمجھ گںٔیں ).
کیوں بیٹا ایک کمرے میں رہنے میں کیا براںٔی ہے ؟(؛اماں جی اسے دیکھتے ہوۓ بولیں )
آ۔۔۔اپ جانتی ہیں کہ انھوں نے میرے ساتھ کیا کیا اسکے باوجود بھی ( مہر انھیں دیکھتی آنسو پی کر بولی)
میں جانتی ہوں جان کہ تھیں اپنے ماں باپ سے یوں بچھڑنے کا غم کھایا جارہا ہے لیکن فارس تم سے بہت محبت کرتا ہے اس گھر میں وہ سب سے زیادہ مجھ سے قریب رہا ہے اپنی سگی ماں سے بھی زیادہ اور جس طرح میں اسکی آنکھیں پڑھ سکتی ہوںٔی کوںٔی نہیں سمجھ سکتا اور میں نے اسکی آنکھوں میں تمھارے لیے بےشمار محبت دیکھی ہے چاہت اور تڑپ دیکھی ہے ۔۔۔۔بیشک اسکا طریقہ غلط لیکن نیت بری نہیں تھی بیٹا میں ایک دادی نہیں بلکہ ایک عورت بن کر بول رپی ہوں اگر مجھے اسکی نیت میں ذرہ برابر بھی کھوٹ نظر آتا تو میں تمھیں اس گھر میں اسکے پاس آنے ہی نہ دیتی ۔۔۔۔۔( اماں جی اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں وہ نہیں چاہتی تھیں کہ کمرہ الگ کرنے سے ان دونوں میں مزید دوری آںٔی کیونکہ اس طرح یہ مسلۂ کبھی حل نہ ہوتا )
اماں جی کی بات سن کر مہر نے حیرت سے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔فارس اور اس سے محبت مہر چاہ کہ بھی اس بات پر یقین نہیں کرپارہی تھی کیونکہ فارس بہت ہی کھلے الفاظوں میں اس زبردستی کی شادی کو بدلے کا نام دے چکا تھا جبکہ اپنی آنکھوں سے اسکی اور دانیہ کی محبت کا منظر دیکھ کر اماں جی کی بات پر یقین کرنا ممکن ہی نہیں تھا.............
لیکن اماں جی میں یہ سب قبول نہیں کرپارہی اتنی جلدی( مہر ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتی ہوںٔی بولی)۔۔۔۔۔۔
میری جان صرف ایک موقع خود کو اور فارس کو دے کر تو دیکھو میں جانتی ہوں تمھیں مایوسی نہیں ہوگی اور پھر جب تم اپنے ماں باپ سے ملنے جاؤ گی تو اپنی بیٹی کو خوش دیکھ کر وہ خود ہی سب ماف کردیں گے انھیں فلحال صرف غصہ ہے ماں باپ کے لیے اپنی اولاد کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا ۔ میری بات پر ایک بار یقین کرکے تو دیکھو ( اپنے ماں باپ سے ملنے اور انکی ناراضگی دور کرنا کا سوچ کے ہی مہر سب فراموش کرگںٔی۔ اپنے بابا کا شفقت بھرا لمس اپنی ماں کی ممتا بھری گود اور اپنے بہن کا وہ محبت بھرا انداز محسوس کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی )
ٹ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے اماں جی میں ایک موقع خود کو دونگی ( مہر اپنے آنسو صاف کرتی ہوںٔی بولی)
شاباش مجھے اپنی بیٹی سے یہی امید تھی ( اماں جی نے مسکرا کر اسکی روشن پیشانی چومی پھر مزید بولیں)
چل میں نماز پڑھ لوں تم بھی نماز ادا کر کے کچھ دیر آرام کرلو پھر کچھ دیر آرام کروں گی جاۓ نماز سامنے الماری سے اپنے لیے لے لو ( اماں جی کی بات پر وہ فوراً جی کہتے ہوۓ اٹھ گںٔی اور جاۓنماز لیتے ہوۓ انکی آرام کے غرض سے کمرے سے نکل گںٔی) ۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آکر اسنے سب سے پہلے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا اور جاۓنماز بچھا کر خدا کے حضور کھڑی ہوگںٔی ۔ نماز ختم کر کے جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو اسکی خوبصورت آنکھوں کی صورت بہنا شروع ہوگیا ۔ اللّٰہ سے اپنے باپ کی صحت اور سلامتی کے لیے بہت سے دعا کی اور اپنے لیے حوصلہ اور ہمت مانگ کر جاۓ نماز اٹھالی۔۔۔۔۔۔
پھر وہیں کاؤچ پر بیٹھ گںٔی تو شدید نیند کے احساس نے آگھیرا۔ کچھ دیر آنکھ لگانے کی نیت سے وہ بیڈ کی داںٔیں جانب آکر لیٹ گںٔی تو فوراً ہی آنکھ لگ گںٔی۔
دبی دبی سی موباںٔل بجنے کی آواز پر اسکی آنکھ کھلی ۔سامنے گھڑی پر نظر پڑی تو شام کے پانچ بج رہے تھے مہر نے متلاشی نظروں سے موباںٔل ادھر ادھر دیکھا لیکن نہ ملا پھر غور کرنے پر آواز اسی کے ساںٔڈ ٹیبل کے دراز سے آرہی تھی۔ وہ کھولتے ہی سامنے موباںٔل پر نظر پڑی جو بج بج کے بند ہوگیا تھا۔۔۔۔
یہ موباںٔل کب ساتھ لاںٔی میں؟ ( مہر اپنے موباںٔل کو دیکھتی بولی )
شاید رباب نے ہی ڈال دیا ہوگا بیگ میں ( موباںٔل جیسے ہی ہاتھوں میں لیا تو وہ ایک بار پھر بجنا شروع ہوگیا ۔ اسکرین پر چمکتا انجان نمبر دیکھ کر مہر نے پہلے نہ اٹھانے کا سوچا پھر کب سے بج رہا ہے یہ سوچ کر اٹھالیا)
السلام علیکم کمینی کدھر مری ہوںٔی ہوتی ہے کبھی وقت پر فان نہ اٹھایا کرنا ( فون اٹھاتے ہی رمشا کی غصے والی آواز اسپیکر سے ابھری)
واعلیکم السلام کیسی ہے رمشا اور عمار بھاںٔی کیسے ہیں ( مہر آواز فوراً پہچانتے ہوۓ خوشی سے ہمیشہ کی طرح اسکے غصے پر مسکراتی ہوںٔی بولی )
میں بلکل ٹھیک اور عمار بھی بلکل ٹھیک ہیں تو سنا کس مزے میں ہے شادی کی شوپنگ ہوگںٔی کیا اور کچھ چاہیے تو بتا مجھے؟؟( رمشا کی بات پر مہر کے مسکراتے لب ایکدم سکڑ گںٔے اور آنکھوں میں ایک بار پھر آنسوؤں نے رستہ بنا لیا)
مہر کیا ہوا ؟( اسے کچھ نا بولتا دیکھ رمشا بولی)
م۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں رمشا بلکل اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے بہت بہت شکریہ ( مہر بامشکل آنسوؤں کے درمیان میں بولی)....
ارے چپ کر زیادہ فارمیلیٹی نہ نبھا لگاؤں گی ایک تھپڑ ( رمشا کی بات پر مہر نم آنکھوں سے مسکرا دی )
یار مہر سوںٔٹزر لینڈ اتنا خوبصورت ہے نہ کہ بس کیا بتاؤں تو بھی تیمور بھاںٔی کے ساتھ ادھر ہی ہنی مون پر آنا ( رمشا کے شرارتی انداز پر مہر کے رونے میں اور شدت آگںٔی)
مہر کیا ہوا تو رو رہی ہے کیا؟ ( اسکے یوں اچانک رونے پر رمشا نے پریشانی سے پوچھا )
ن۔۔۔۔نہیں بس تیری یاد بہت آرہی ہے اسی لیے( مہر فوراً بوکھلا کر خود پر قابو پاتے ہوۓبولی)
ارے جان میں بس تھوڑے دنوں میں آنے والی ہوں تیری شادی بھی تو ہے نہ میں تو کل ہی آجاؤ لیکن عمار کا ابھی موڈ نہیں ہے ( رمشا فوراً محبت سے بولی)
نہیں تو انجواۓ کر میں تیرا انتظار کروں گی ( مہر منہ صاف کرتی ہوںٔی بولی)
ہاۓ۔۔۔۔اتنی محبت۔۔۔۔تیری شادی میں دس دن ہیں نا ابھی میں دو دن پہلے ضرور آجاؤں گی انشاء اللّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر دونوں نے ادھر ادھر کی کچھ باتیں کیں اور فون رکھ دیا لیکن مہر کو ایک نںٔی پریشانی نے آگھیرا کہ پتا نہیں رمشا کو جب یہاں آکر سب پتا لگے گا تو کیسا ری ایکٹ کرے گی کہیں وہ اسے ہی غلط نہ سمجھ لے۔۔۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں نہیں میری کوںٔی غلطی نہیں ہے میں نے انھیں چھوڑ دیا تھا سب غلطی فارس کی ہے وہی جواب دیں گے ( مہر یہ سوچتے ہوۓ کچھ حد تک مطمئن ہوتے ہوۓ عصر کی نماز کے لیے اٹھ گںٔی)
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Donde viven las historias. Descúbrelo ahora