LAST EPISODE.....

1.2K 59 28
                                    

ڈاکٹر فارس کوںٔی لڑکی آپ سے ملنا چاہ رہی ہے ..( فارس وارڈ میں پیشنٹ کا چیک اپ کر رہا تھا کہ ایک نرس اندر آکر بولی)
کیا کوںٔی نام بتایا اسنے ؟( فارس کو تعجب ہوا کہ بغیر اپوائنٹمنٹ کے کون آگیا)
نہیں سر کہہ رہی ہے بس آپ سے دس منٹ چاہیے ہیں ( نرس لاعلمی سے بولی)
اچھا اسے میرے کیبن میں لے جاؤ میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بات پر نرس اوکے کہہ کر سر ہلاتی ہوئی چلی گںٔی۔۔۔۔۔۔
دس منٹ بعد فارس اپنے کیبن میں آیا تو سامنے ہی کوںٔی لڑکی چیر پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔
یس مس ...؟( فارس اپنی چیر کے پاس آکر بولا تو سامنے موجود نفوس کو دیکھ اسے پہلے تو حیرت ہوںٔی لیکن پھرجو اگلا احساس تھا وہ غصہ تھا ۔۔۔۔۔
پلیز فارس میری بات سن لینا اسکے بعد جو مرضی ہے مجھے کہہ دینا ( دانیہ فوراً اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولی)
گیٹ لاسٹ دانیہ مجھے تمھاری کوںٔی بات نہیں سننی ( فارس اسے چھوڑتا جانے ہی لگا تھا کہ دانیہ ایک لمحے میں اس کے سامنے دیوار بن گںٔی)
نہیں فارس تمھیں مہر کی قسم ہے میری بات سن لو ( دانیہ کی بات پر فارس کے بڑھتے قدم وہیں رک گںٔے اور اسنے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا )
تمھارے پاس صرف دس منٹ ہیں دانیہ اسکے بعد اپنی شکل غاںٔب کرو یہاں سے۔۔۔۔( غصے سے بولتا ہوا اپنی چیر کی طرف بڑھ گیا تو دانیہ بھی اپنے آنسو پونچھتی اسکے پیچھے ہی ہولی)
کہو۔۔۔۔۔( فارس بولا)
دیکھو فارس میں جانتی ہوں جو میں نے کیا وہ قابلِ معافی نہیں ہے لیکن میں بھی کیا کرتی ۔۔۔میں تم سے بہت محبت کرنے لگی تھی تین سال پہلے سے نہیں بچپن سے تمھیں صرف اپنا تصور کیا ہے پھر اچانک مہر کا تمھاری زندگی میں آنا مجھ سے برداشت نہیں ہوا خدا کے لیے فارس میری کم عمری کی بھول سمجھ کر معاف کردو میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم دونوں کے بیچ کبھی نہیں آؤنگی ۔۔۔۔۔۔۔( دانیہ آنسوؤں کے درمیان میں اس سے بولی جو چپ کرکے اسکی بات سن رہا تھا )
کہہ دیا؟( اسکے خاموش ہونے پر فارس بولا تو بس یہی)
پلیز فارس ایسا مت کرو میں مہر سے بھی معافی مانگ کر آںٔی ہوں اور اسنے مجھے معاف بھی کردیا کہتی ہے جو بھی ہوا میرا نصیب تھا ۔۔۔میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کہو تو تمھارے پیر بھی پڑجاتی ہوں ( یہ کہہ کر وہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ فارس نے فوراً اسے روک لیا)
کیا ہوگیا ہے پاگل ہوگںٔی ہو مجھے تمھاری معافی کی ضرورت نہیں ہے۔۔تمھیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے یہی بہت ہے اور اگر مہر تمھیں معاف کرچکی ہے تو ٹھیک ہے میں نے تمھیں معاف کردیا ہے صرف اسکی خاطر دانیہ قمر ورنہ میں تمھاری شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوں ( فارس بغیر اسکی طرف دیکھے بولتے ہوئے اٹھ گیا )
ب۔۔۔بہت بہت شکریہ فارس میرا وعدہ ہے تم سے میں کبھی بھی تم دونوں کے بیچ نہیں آؤنگی ( دانیہ خوشی سے اپنے آنسو صاف کرکے اٹھ گںٔی)
ہمممم۔۔۔۔( فارس محض اتنا بولتا ہوا باہر چلا گیا )
اور پیچھے دانیہ پر سوچ انداز نیں کھڑی اسے خود سے دورجاتا دیکھتی رہی)
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
کیا بات ہے عباس کہاں گم ہو؟ ( مہر شام کے وقت اسے لاونج میں اسے سوچ میں گم دیکھ کر بولی)
ن۔۔۔نہیں بھابھی کہیں بھی نہیں...( عباس فوراً ہوش میں آتے ہوئے بولا)
رباب کو گںٔے یہاں سے تیسرا دن تھا اور عباس اسے چاہ کر بھی بھلا نہیں پا رہا تھا....
ہمممم۔۔۔۔نہیں کچھ تو بات ہے تم ایسے تو سوچوں میں کبھی نہیں جاتے ( مہر اسکے خوبرو چہرے کو دیکھتی ہوںٔی بولی)
اسکی اتنی باریک بینی سے دیکھنے پر عباس کنفیوز ہوگیا....
ایسے تو مت دیکھیں بھابھی ماں مجھے شرم آرہی ہے ( اپنے مسخرے پن سے مجبور انگلی کو دانتوں میں دبا کر شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا)
تو مہر کو اسکی اس زنانہ ادا پر ہنسی آگںٔی۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے پھر بتا دو شاید میں تمھاری کچھ ہیلپ کرسکوں ( مہر رازدارانہ انداز میں بولی تو عباس گہری سانس لے کر رہ گیا)
بھابھی ۔۔۔۔میں اپکو کیسا انسان لگتا ہوں ۔۔آںٔی مین میں جس سے بھی شادی کرونگا تو اس لڑکی کے بارے میں آپ کہ کیا کہیں گی ؟( عباس سیدھا ہوکر بیٹھتا ہوا بولا تو مہر اسکے سنجیدہ ہونے پر چونک گئی پھر مسکرا کر بولی)
اچھا جی تو یہ بات ہے موصوف کو کوئی پسند آگںٔی ہے ۔۔۔۔( مہر کی قیاس پر عباس سر کھجا کر اثبات میں گردن ہلا گیا)
بتاںٔیں نا میرے سوال کا جواب لیکن بلکل سچ ( اپنا کیا سوال پھر سے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا)
ہمممم۔۔۔۔۔چلو میں اپنے پواںٔنٹ اف ویو سے بتاتی ہوں ۔۔تم بہت اچھے انسان ہو اور جس بھی لڑکی سے شادی کروگے وہ بہت لکی ہوگی کیونکہ تم خود ہر وقت ہنسنے بولنے والے دوسروں کو خوش رکھنے والے ہو تو اسے کیسے خوش نہیں رکھو گے جو تمھاری محبت ہوگی ۔۔۔کوںٔی لڑکی تمھارے ساتھ ناخوش ہو ہی نہیں سکتی ( مہر نے مسکرا کر سچے دل سے کہا تو عباس کا چہرہ کھل اٹھا )
سچ میں بھابی ماں .....؟
مچ میں ...( مہر اسے کے انداز میں بولی)
لیکن اب تمھیں مجھے اس لڑکی کا نام بتانا ہوگا ( اسکے کھلتے چہرے کو دیکھ کر بولی)
تو عباس ہچکچا گیا .....
بھابھی ماں اگر میں آپ سے کچھ مانگو تو کیا آپ مجھے دینگی؟...( عباس کی بات پر مہر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا)
میں ۔۔۔۔ہاں اگر میرے اختیار میں ہوا تو ضرور دوں گی( اسکے کہنے پر عباس ہلکا سا مسکرا دیا پھر کچھ لمحے بعد بولنا شروع کیا)
دیکھیے بھابھی میں آپکو اپنی بہن مان کر سب بتا رہا ہوں کیونکہ میری کوںٔی غلط انٹینشنز نہیں ہیں ۔۔۔۔میں آپ کی بہن رباب سے شادی کرنا چاہتا ہوں ( مہر جو اسکی بات مسکرا کر سن رہی تھی اسکے خاموش ہونے پر اسکے لب سکڑ گںٔے جسے دیکھ کر عباس کی جان ہی نکل گںٔی)
بھابھی پلیز آپ مجھے غلط مت سمجھیے گا میں نے نہ ہی اسے کچھ کہا ہے نہ اسے پتا ہے میں عزت سے اسے اپنانا چاہتا ہوں ( عباس کے گھبرا جانے پر بھی مہر کچھ نہیں بولی)
بھابھی۔۔۔۔۔۔( عباس نے ڈرتے ہوئے دوبارہ پکارہ تو وہ سوچوں سے باہر آںٔی پھر ہلکا سا مسکراںٔی تو عباس کی سولی پر ٹنگی جان میں جان آںٔی)
میں جانتی ہوں تمھاری کوںٔی غلط انٹینشنز نہیں ہیں اور نا ہ میں تمھیں غلط سمجھ رہی ہوں تمھیں بھاںٔی مانا ہے تو اب بہن کا کردار تو نبھانا ہی پڑے گا نا میں اماں جی سے بات کرکے پھر اپنے گھر بات کروں گی ( مہر کی بات پر عباس نے بے یقینی سے انھیں دیکھا لیکن جب ہوش آیا تو ایک خوشی سے بھرپور قہقہہ فضا میں گونجا)
اوو ماںٔی گاڈ بھابھی تھینک یو سو مچ پتا ہے میں کتنا ڈر گیا تھا کہ ناجانے آپ کا کیا ری ایکشن ہوگا لیکن آپ نے میری ٹینشن دور کردی ۔۔۔بھابھی ماں یو ار دا بیسٹ ( عباس خوشی سے جھوم اٹھا تو اسکی مسکراہٹ دیکھ مہر بھی مطمئن ہوگںٔی کیونکہ وہ اپنی چھلاوا بہن کو جانتی تھی اور اسے کسی ایسے ہی ہمسفر کی ضرورت تھی)
لیکن شادی تمھارے کچھ بن جانے کے بعد ہی ہوگی( مہر نے اسے یاد دلایا)
ارے آپ فکر ہی نا کریں میرا ایم بی اے جب کمپلیٹ ہوجاۓ گا اسکے بعد ڈیڈ کے ساتھ بزنس سیکھ جاؤں گا تب تک اسکی بھی پڑھاںٔی مکمل ہوجاۓ گی ( عباس کی اتنی دور کی پلینگ پر مہر اسے دیکھ کر رہ گںٔی)
توبہ اتنا آگے کا سوچ رکھا ہے تم نے شریر ( اسکے بازو پر ایک چپت لگاتی ہوںٔی بولی)
تو وہ بھی ڈھیٹوں کی طرح دانت نکال کر ہنس دیا۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
مارچ کے دن تھے ۔ درختوں پر نںٔی نںٔی بہاریں تھیں ۔رات کے کھانے کے بعد مہر جب کمرے میں آںٔی تو پورے کمرے میں اندھیرا تھا صرف سامنے صوفوں کے پاس ٹیبل پر موم بتیوں کی روشنی میں ایک کیک رکھا ہوا تھا جس کے اعتراف میں گلابوں کی پتیاں تھیں۔ یہ سب دیکھتے ہی مہر کے لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ آگئی۔ لیکن سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب کس لیے ہے ۔۔۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ٹیبل کے پاس آںٔی تو اپنے پیچھے سے بھاری خوبصورت آواز سنتی وہیں ساکت ہوگئی۔۔۔۔
گلاب آنکھیں، شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انھیں میں الفت، انھیں میں نفرت
ثواب آنکھیں، عذاب آنکھیں۔۔
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں۔۔
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں۔۔
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پاںٔیں تو سراب آنکھیں
وہ آۓ تو لوگ مجھ سے بولے
حضور! آنکھیں. جناب! آنکھیں
عجیب تھا گفتگو کا عالم۔۔
سوال کوںٔی جواب آنکھیں
ہزاروں ان پہ قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں۔۔۔۔
فارس کی آواز میں یہ خوبصورت غزل نے ماحول میں ایک سرور پھونک دیا تھا۔۔۔۔
جانِ فارس ( اپنے پیچھے کان میں سرگوشی کے انداز میں بولے گںٔے جملے پر مہر اچھل کر دور ہوکر پلٹی تو سامنے وہ دنیا جہان کی چاہت آنکھوں میں سموۓ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
یہ۔۔۔۔یہ سب کس لیے ؟( ہوش آتے ہی سب سے پہلا سوال کیا)
آج کے دن کے لیے ۔۔۔آج ہی کے دن میں تم سے پہلی بار ملا تھا مہر جب تم خود بھاگتے ہوئے میری پناہوں میں آگںٔی تھیں۔۔۔۔( اسکے گھمبیر لہجے پر مہر کی آنکھیں حیرت سے کھل گںٔیں )
آج ہی کے دن فارس تمھاری ان مخمور آنکھوں کا دیوانہ ہوگیا تھا اس جھیل میں ڈوب گیا تھا تو میں اس خوبصورت دن کو کیسے بھول سکتا ہوں ( اسکے لفظوں سے زیادہ اسکی آنکھیں بول رہیں تھی جو مہر موم بتی کی روشنی میں بھی باخوبی دیکھ سکتی تھی)
فارس بہت چاہت سے اپنے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اسکی بیوی کے رتبے پہ فاںٔز بامشکل اسکے کندھوں سے نیچے تک آتی تھی لیکن یہی لڑکی اسکی سانسوں میں بستی تھی اسکی زندگی کے جینے کا جواز تھی۔۔۔۔
ارے چپ کیوں ہو کیا پسند نہیں آیا؟( اسے کچھ نہ بولتا دیکھ ایکدم فارس پریشانی سے بولا تو اندھیرے میں اسکی ایک سسکی گونجی)
فارس نے فوراً گھبرا کر لاںٔٹ اون کی اور اسکے پاس آیا۔۔۔
کیا ہو مہر تمھیں پسند نہیں آیا تو ہم نہیں یاد کریں گے کچھ بھی پلیز چ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے مجھے کیوں پسند نہی آئے گا ۔۔یہ تو خوشی اور بے یقینی کے آنسو ہیں کہ ہمارے درمیان اتنے سالوں کے فاصلے بھی آپ کی محبت کم نہیں کرسکے میرے لیے ( اپنے آنسو مسکرا کر صاف کرتی ہوںٔی بولی تو فارس ریلکس ہوکر گہرا سانس بھر کر رہ گیا )
تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا لڑکی ۔۔۔پتا بھی نہیں چلتا کہ تم لڑکیوں کے کب خوشی اور کب دکھ کے آنسو بہنا شروع ہوجاتے ہیں ( فارس کی بات پر مہر روتے میں بھی ہنس گںٔی ۔ یہ خوبصورت منظر فارس نے بہت غور سے دیکھا تھا)
تمھارے اور میرے درمیاں صرف ایک موت ہی جداںٔی ڈال سکتی ہے مہر فارس تو یہ ماہ و سال کیا حیثیت رکھتے ہیں ( فارس کی بات پر مہر نے فوراً اسکا بھاری ہاتھ تھام لیا)
ا۔۔۔ایسی باتیں کریں گے تو میں آپ سے ناراض ہوجاؤ گی ( مہر  کے انداز پر فارس مسکرا دیا)
تو میں اپنی جان کو بہت محبت اور چاہ سے منا لوں گا۔۔۔۔آؤ کیک کٹ کریں ( کہتا ہوا اسکا نازک ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ میں چھری پکڑا کر اوپر اپنا ہاتھ بھی رکھ کے کیک کاٹا ۔ سب سے پہلے اسنے اور پھر مہر نے اسے کھلایا جس کے ساتھ وہ اسکی انگلی بھی دانتوں میں دبا گیا۔۔۔)
کیا کرتے ہیں ( جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچ کر بولی تو فارس زور سے ہنس دیا )
سنیں ۔۔۔۔( کچھ دیر بعد مہر بولی )
ہاۓ سنا دیں ( اسکا یہ طرزِ مخاطب فارس کو بہت پسند تھا)
آپ نے دانیہ کو معاف کردیا؟( مہر کی اگلی بات پر اسکے گھنی مونچھوں تلے عنابی لب سکڑ گںٔے)
اس موقع پر اسکا نام مت لو ( وہ فوراً اٹھنے لگا تو مہر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا)
پلیز بتائیے نا ( اسکی منت پر گہرا سانس لیتا واپس بیٹھ گیا)
ہاں کردیا معاف کیونکہ تم نے اسے معاف کردیا تھا اسی لیے ( وہ سامنے کی طرف دیکھ کر بولا تو مہر مسکرا دی).
مجھے آپ سے یہی امید تھی ۔۔۔۔۔
لیکن اب اسکا نام مت لینا ( اسے یاد دلاتا ہوا بولا تو مہر مسکرا کر کان پکڑ گںٔی جس پر وہ بھی مسکرا دیا )
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
اور پھر اگلے دن مہر نے اماں جی اور آمنہ بیگم کو عباس کے بارے میں بتایا جسے سن کر دونوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گںٔے۔۔۔۔۔۔
کیسا میسنا لڑکا ہے یہ آمنہ ( اماں جی تو اسکی اس فاسٹ سروس پر حیران تھیں ۔)
مہر بس چپ مسکرا رہی تھی.....
وہی تو اماں جی لیکن اب بچے کی خواہش رد کریں گے تو اس میں بھی بغاوت نہ آجاۓ اور ویسے بھی رباب بچی مجھے بہت پسند آںٔی تھی پھر کیا کہتی ہیں آپ بات کریں واجد صاحب سے ( آمنہ بیگم اپنی راۓ دے کر بولیں)
حرج تو کوںٔی بھی نہیں ہے اچھا ہے اس کے مزاج میں بھی زرا سنجیدگی آۓ گی کرتے ہیں پھر شاہنواز سے آج بات پھر چلتے ہیں کسی دن ان کے گھر ( اماں جی بولیں تو سب انکی بات پر مسکرا دںٔیے)
شاہنواز صاحب سے بات کی تو وہ بھی سب کی طرح پہلے حیران ہوئے پھر بیٹے کی خوشی دیکھتے ہوۓ مسکرا کر اپنی رضا مندی ظاہر کردی ۔۔۔۔۔۔
دانیہ کا بھی رویہ پھر سے نارمل ہوگیا تھا مہر سے باتیں کرنا گھر میں سب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی شروع کردیا تھا ۔ مہر بھی سب بھول کر آگے بڑھ گںٔی تھی ۔ وہ فارس کے ساتھ بہت خوش تھی وہ اسکی محبت تھا جو اب وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی فارس کے سنگ زندگی کے ہر خوبصورت رنگ اب دیکھنا شروع کیے تھے۔۔۔۔
سنڈے کے دن وہ سب واجد صاحب کے ہاں سوالی بن کر گںٔے۔ واجد صاحب اور سارہ بیگم نے جب انکی بات سنی تو فوراً کوںٔی جواب نہ دے کر رباب کی مرضی پوچھنے کا وقت مانگ لیا تھا۔۔۔
رباب نے جب اپنے لیے اس تاڑو کا رشتہ آنے کا سنا تو ہتھے سے اکھڑ گںٔی لیکن مہر کے سمجھانے پر منہ بناتی خاموش ہوگئی تھی۔۔۔۔
سارہ بیگم کے مرضی پوچھنے پر اسنے خاموشی سے صرف منگنی کے لیے رضا مندی دے دی تھی ۔ جسے سن کر سب کے چہرے کھل اٹھے۔ عباس کی تو شادی مرگ کی سی کیفیت تھی۔ اسکو یقین نہیں آرہا تھا کہ اسکی محبت اسے یوں اتنی آسانی سے مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔
پھر اسی ہفتے ان دونوں کی منگنی اور پڑھاںٔی کے بعد شادی کی بات طے ہوگںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اس وقت وہ اپنے کمرے میں ٹیرس پر کھڑی سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہی تھی ۔ رات کے تین بج رہے تھے لیکن نیند اسکی آنکھوں میں کہیں نہیں تھی ۔ اس دن فارس سے معافی مانگنے کے بعد بھی وہ اس سے بلکل بات نہیں کرتا تھا جبکہ مہر کا رویہ اس سے ٹھیک تھا نہ اسنے اسے کچھ محسوس کرایا نہ ہی کوںٔی بات دھراںٔی لیکن دانیہ کے دل میں جو آگ لگی تھی وہ اسکا وجود تک جلا کر راکھ کر رہی تھی۔ گھر میں عباس کی منگنی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں ہر کوںٔی خوشی سے اپنی خدمات انجام دے رہا تھا وہ بھی سب کو دکھاوے کے لیے ساتھ ساتھ تھی لیکن یہ اسکا دل ہی جانتا تھا کہ وہ کس طرح مہر اور فارس کو ہنستا بولتا دیکھتی تھی۔ فارس کی کسی شرارت پر مہر کا حیا سے سرخ چہرہ اسے اپنی توہین محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کل کےسورج کی کرنیں تمھاری دنیا میں اندھیرا کردیں گی مہر ۔۔۔
مجھے اپنے انجام کی پروا نہیں ہے تمھیں برباد کرنا ہی میرا مقصد ہے تمھارے منہ پر پہلی کالک کے آثار مٹے نہیں ہونگے کہ میں دوسری مل دونگی۔ تم سب نے مل کر میرا ضبط آزمایا ہے اب میری باری ہے وہاں جاکر ماروں گی جہاں پانی بھی نصیب نہیں ہوگا۔ فارس میرا نہیں تو تمھارا بھی نہیں ۔۔۔۔۔
( خود سے عہد کرتی کسی گہری سوچ میں غرق ہوگںٔی)
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
سنیں آج جلدی آجاںٔیے گا مجھے عباس اور رباب کی منگنی کے لیے کچھ تحفہ لینا ہے ۔۔۔۔۔( بیڈ شیٹ سہی کرتی ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑے تیار ہوتے ہوئے فارس سے بولی)
اور اگر نہ آؤں تو۔۔۔؟( اسکی طرف مڑ کر گھڑی باندھتے ہوئے پوچھا،)
تو ۔۔۔میں اکیلی چلی جاؤنگی ( اسے چھیڑنے کے لیے مسکرا کر بولی)
اگر کہیں اکیلے نکلنے کا سوچا بھی تو ٹانگیں سلامت نہیں رہیں گی ( اسکی مزاق کی بات پر بھی کڑے تیوروں سے بولا)
کیا آپ مجھے ہر بات پر ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ؟( وہ منہ بسور کر بولی تو اسکی اس ادا پر فارس مسکرا دںٔیے)
وہ اس لیے جاناں کہ تمھارا شوہر تمھاری ایک پل کی بھی جداںٔی اب برداشت نہیں کرسکتا اور اگر یہ غلطی کی تو ٹانگیں ٹوٹنے کے بعد دوبارہ نہیں ہوگی۔۔( کہتے ساتھ اسے مسکرا کر کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا)
دوسروں کے دل کے آپریشن کرنے کے باوجود بھی آپ کا دل خاصا کمزور ہے( اسکے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹا کر ساںٔڈ ٹیبل سے موبائل اور والٹ لینے چلی گںٔی)
صرف تمھارے معاملے میں ورنہ ان ہاتھوں میں بہت سے لوگوں نے جان کی بازی ہاری ہے لیکن قسم سے دل زرا نہیں کانپا( اسکی بات پر مہر نے چونک کر اسکے خوبرو چہرے کو دیکھا )
اتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے؟ ( اسکا والٹ اور موبائل دیتے ہوئے بولی)
فارس کی رگ رگ میں لہو بن کے رواں ہو تم مہر فارس ۔۔۔۔آںٔی ایکسٹریملی لو یو( اسکے ہاتھوں سے موباںٔل پکڑتے ہوئے تھوڑا جھک کر بولا)
تو وہ اسکی بات پر سرخ ہوتی اپنے نازک ہاتھ کو اسکے سینے پر رکھ کر اسے پیچھے کی سمت دھکیلا جس سے مقابل کو کوںٔی فرق نہ پڑا ۔۔۔۔۔
جاںٔیں مجھے بھی تیار ہونا ہے یونیورسٹی کے لیے۔۔۔( اسکے گلنار سے چہرے کو دیکھتا مسکرایا پھر اسکی روشن پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑ کر  کر مڑ گیا)
سنیں ( مہر کی آواز پر اسکے قدم وہیں رک گںٔے اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا)
پلیز جلدی آجاںٔیے گا۔۔۔۔( اسکے منت کرتے انداز پر سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے مسکرایا)
جو حکم باس( سلیوٹ کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا تو وہ بھی مسکرا کر نفی میں گردن ہلاتی یونی کی تیاری کرنے لگی).....
بیٹے فارس کو جلدی آنے کا بول دیا تھا نا آج؟( اسکے نیچے آنے پر اماں جی نے اس سے پوچھا)
دانیہ بھی سامنے ٹیبل پر ناشتہ کر رہی تھی)
جی اماں جی کہہ دیا تھے کہہ رہے تھے کہ آجاںٔیں گے ( مہر بھی مسکرا کر ساتھ بیٹھتی جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی)
اسکے بعد سب کو خدا حافظ کرتی ڈراںٔیور کے ساتھ یونی کے لیے روانہ ہوگںٔی۔۔۔۔
پیچھے دانیہ چہرے پر نا محسوس سی مسکراہٹ لیے اسی دیکھتی رہی .......
🔥🔥
وہ کالج کے لیے تیار ہورہی تھی کہ موباںٔل کی رنگ پر اسی طرف متوجہ ہوںٔی لیکن وہاں انجان نمبر دیکھ کافی حیران ہوںٔی۔۔۔۔
ہیں۔۔۔۔یہ کون ہے ہوسکتا ہے کوںٔی جاننے والا ہو میرے پاس سارے نمبر تو ہیں نہیں( واجد صاحب نے اسے کچھ دن پہلے ہی موبائل ضرورت کی وجہ سے لے کر دیا تھا یہی سوچتے ہوئے کال اٹھا لی)
ہیلو....( کال اوکے کر کے کان سے لگایا)
زہے نصیب۔۔۔۔( لیکن اسپیکر سے مردانہ آواز اور اس لفظ نے اسے کافی غصہ دلا دیا)
کون بکواس کررہا ہے ؟( غصے سے کھول کر پوچھا )
تو اسپیکر سے ایک جان جلانے والا قہقہہ بلند ہوا......
ہم آپ کے ہونے والے منگیتر نامدار ( عباس کی آواز سن پہلے تو خاموش ہوگںٔی پھر یاد آیا کہ نمبر ضرور مہر سے لیا ہوگا اسنے۔۔۔)
صبح صبح اس بکواس کا مطلب؟ ( چڑ کر پوچھا )
ارے لڑکی کتنا غصہ کرتی ہو تم بڑا ہوں تم سے تھوڑی تو تمیز کرلیا کرو (آخر جب بیچارے کو اپنی توہین محسوس ہوںٔی تو بول ہی گیا لیکن سامنے بھی رباب تھی)
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔اچھا جی بڑے ہیں آپ تو کیا بھاںٔی بول دوں وہ ٹھیک رہے گا عباس بھاںٔی ( اب کے اسے جلاتی  آنکھیں پٹپٹا کر بولی)
توبہ لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔ کیسا فضول قسم کا مزاق ہے یہ خبردار جو آئندہ بھاںٔی یا کچھ اول فوم کھا تو ( عباس کو اسکا بھاںٔی کہنا ایک آنکھ نا بھایا تھا)
ہاں تو تم بھی اوقات میں رہو نا ابھی ہوئے نہیں ہو منگیتر جب ہوگے تب کہنا ( رباب کو بھی اسکا حکم چلانا زرا اچھا نہیں لگا)
ٹھیک ہے رباب بی بی جب تمھیں اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر اپنا کروں گا پھر دیکھتا ہوں کیسے نہیں مانتی میری ( یہ کہہ کر اسنے کال ڈسکنیکٹ کردی اور رباب فون کو گھور کر رہ گںٔی)
ہہہ۔۔۔۔دیکھ لونگی تمھیں بھی عباس شاہنواز ( خود سے اسکی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ارادہ کرتی کالج کے لیے نکل گںٔی۔۔۔۔۔
⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩⁦♥️⁩
سنو کہاں جارہے ہو ؟( دانیہ نے ڈراںٔیور کو جاتا دیکھ پوچھا)
بی بی جی مہر بی بی کو لینے جارہا ہوں ۔۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ...( ڈراںٔیور کو جانے کا کہہ کر فوراً اپنے موبائل پر ڈن کا میسج سینڈ کردیا اور مسکراتی ہوںٔی اوپر چلی گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا چل میں چلتی ہوں بھاںٔی آگںٔے ہیں ...( یونی کے گیٹ پر چھٹی کے وقت رانیہ مہر سے بولی تو وہ مسکرا کر خدا حافظ کہتی ڈراںٔیور کا ویٹ کرنے لگی جو دس منٹ بعد آتا ہوا نظر آیا)
ابھی انھیں چلتے پانچ منٹ ہی ہوۓ تھے کہ ایک اور گاڑی ان کے سامنے آکر رکی ۔ مین روڈ نہ ہونے کی وجہ سے ایکا دکا ہی گاڑیاں اس پاس سے گز رہیں تھیں ۔۔۔۔۔
اس گاڑی کو تو دیکھ کر مہر کی جان ہی ہوا ہوگںٔی کیونکہ یہ وہی کار تھی جو رانیہ کی منگنی کی رات واپسی پر ان کے سامنے آںٔی تھی۔۔۔۔
چ۔۔۔چچا آپ دیکھیں یہ کون ہیں ..( ڈر کر کہتی اپنا خدشہ غلط ثابت ہونے کی ہی دعا کر رہی تھی )
جی بی بی جی ( یہ کہہ ر ڈراںٔیور نکلنے ہی لگا تھا کہ وہی دو لڑکوں میں سے ایک انکی گاڑی کی طرف آتا ہوا نظر آیا۔ اسے دیکھ مہر کا سانس سوکھ گیا ۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکا ڈراںٔیور کی کھڑکی سے اندر جھانکا اور گن کو ڈراںٔیور کے سینے پر رکھا ۔۔۔۔۔۔
سن چڑیا یہ دیکھ اگر شرافت سے ابھی کے ابھی ہمارے ساتھ گاڑی میں نہ بیٹھی تو اسکے ساتھ تیری کھوپڑی بھی اڑا دونگا ( گن دیکھ کر ڈراںٔیور کے ساتھ ساتھ مہر کی زبان بھی تالو سے جا لگی۔۔۔۔)
یہ منظر کچھ ایسا تھا کہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگتا کہ کوںٔی نارمل گاڑی کے اندر ہوکر بات کر رہا ہے ....
د۔۔۔دیکھو تم یہ نہیں کرسکتے میں شور کردونگی ( مہر نے ہمت کر کے بولا لیکن آگے والا پر کوںٔی اثر نہیں ہوا)
کردے شور پھر جو ہوگا اسکی زمہ دار صرف تو ہوگی پھر اور ہم کیا کرسکتے ہیں کیا نہیں نکل گاڑی سے ورنہ میں گولی چلا دونگا
بی بی جی آپ فکر نہیں کریں میں دیکھتا ہوں اسے ( ڈراںٔیور کی آواز اپنے سینے پر گن دیکھ کر نکل ہی نہیں رہی تھی لیکن اگر مہر کو کچھ ہوجاتا تو اسکی خیر نہیں تھی)
چپ بی بی کے بچے خاموش رہے ورنہ اب میں گولی چلا دونگا ( اسکے غصے سے کہتے ہی ٹریگر پر انگلی رکھ دی )
بس پھر کیا مہر خوف سے سپید پڑتے چہرے کے ساتھ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تو اس لڑکے کے چہرے پر ایک مکروہ سی فاتحانہ مسکراہٹ آگںٔی......
بی بی جی ....( ڈراںٔیور نے اسے باہر نکلتا دیکھا تو ایک آخری سی کوشش کی لیکن اسنے گن کا دباؤ اسکے سینے پر ڈال دیا )
مہر مردہ قدم اٹھاتی چادر کو سختی سے مٹھیوں میں دبوچتی بس اپنے اللّٰہ سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا ہی مانگ رہی تھی۔۔۔
پھر جب تک وہ دوسری گاڑی میں جاکر نہیں بیٹھی وہ لڑکا ویسے ہی گن تانے کھڑا رہا اسکے بیٹھتے ہی ڈراںٔیور کے سر پر گن سے ضرب لگاتا ہوا کسی کے آنے سے پہلے ہی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔
گن کی ضرب سے ڈراںٔیور کراہ کر بے ہوش ہوگیا تو اسنے بھی گاڑی فل اسپیڈ سے ساںٔڈ سے نکال دی ۔ گاڑی چلتے ہی مہر کا دل ڈوب گیا اسنے کرب سے آنکھیں میچی تو سامنے اپنے عزیز شوہر کا خوبرو چہرہ آگیا۔
ف۔۔۔۔فارس ( اپنی سسکی دبانے کے لیے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتی رو پڑی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر ادھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد اماں جی کو مہر کہ فکر ستانے لگی۔۔۔۔۔
آمنہ۔۔۔آمنہ ( انھوں نے آوازیں دے کر اپنی بہو کو بلایا جو کچن سے نکل کر فوراً انکے سامنے آگںٔیں )
جی اماں جی کیا بات ہے پریشان کیوں ہیں ؟ ۔۔۔۔۔
آمنہ مہر بچی ابھی تک نہیں آںٔی ہے ڈراںٔیور کیا اسے لینے نہیں گیا ۔۔۔؟( اماں جی کے پوچھنے پر وہ مسکرادیں)
اماں جی آجاۓ گی ہوسکتا ہے ٹریفک میں پھس گںٔے ہوں ( انکی بات پر بھی وہ مطمئن نہ ہوںٔیں لیکن چپ ہوگںٔیں)
مگر جب گھنٹہ اوپر ہوگیا تو اب سب ہی کو گھر میں ٹینشن نے آگھیرا ڈرائیور کا فون بھی نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔
آمنہ میرا دل ہول رہا ہے پتا نہیں بچی کیوں نہیں پہنچی اب تک نا موا ڈراںٔیور فون اٹھا رہا ہے ( وہ مسلسل تسبیح کے دانے گھماتیں فکر میں بیٹھی تھیں جبکہ آمنہ بیگم بار بار ڈراںٔیور کا فون ٹراۓ کررہیں تھیں جو آگے سے کوںٔی نہیں اٹھا رہا تھا۔ پھر مہر کو کال لگاںٔی پہلے تو بیل گںٔی لیکن پھر فون اوف ہوگیا۔۔۔۔
دانیہ نے اوپر ریلنگ سے جھانک کر سارا معاملہ دیکھا اور مسکراتی ہوںٔی کمرے میں چلی گںٔی ۔۔۔
ہاں کہو تیمور ہماری مہمان پہنچ گںٔی کیا؟( کمرے میں آتے ہی دانیہ نے تیمور کو فون کیا)....
بہت خوب  ۔۔۔تمھیں یاد ہے نا کہ فارس کو کب کال کرکے بلانا ہے ۔۔۔۔؟( آگے والے کے جواب پر خاموش رہی)
مہر کو تب تک قابو کرکے رکھنا اوپر دیھان رکھنا بھاگنے نا پائے ( یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے کال ڈسکنیکٹ کردی)
آج تم دونوں کے ملن کا آخری دن ہے مہر فارس ۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے آگے رکی جہاں آس پاس اکا دکا گھر تھے ۔۔۔۔
یہ جگہ دیکھ مہر کے ہاتھ پاؤں پھول گںٔے۔ گاڑی میں جب اسکے فون پر آمنہ بیگم کی کال آںٔی تو انھی لڑکوں نے اسکا موباںٔل ضبط کرکے اوف کردیا تھا۔۔۔۔۔۔
ت۔۔۔تم لوگ مجھے کہاں لائے ہو ؟( ڈرتے ڈرتے سوال کیا تو دوسرے لڑکے ( گن والے کے ساتھ والا سلو نامی لڑکا) نے قہقہہ لگا کر اسکی طرف آکر گیٹ کھولا تو مہر فوراً ڈر کر پیچھے ہوگںٔی)
ارے ڈرو مت ہم تمھیں ہاتھ بھی نہیں لگاںٔیں گے با شرط یہ کہ بس خاموش رہنا۔۔۔۔۔ چلو شاباش اب باہر آؤ ( اسکی بات پر مہر خوف سے یہاں وہاں دیکھتی باہر آںٔی )
تو وہ دونوں اسے لیے اندر کی جانب بڑھ گںٔے۔ چلتے ہوئے بھی اسکی دھڑکن صرف عزت کی حفاظت کے لیے دعا گو تھی۔۔۔۔۔۔
گھر بڑا تو نہیں لیکن خوبصورت تھا وہ چابی سے دروازے کا لوک کھول کر اندر آۓ اور مہر کو آگے بڑھنے کا اشارہ کریا۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ چاپ اس کمرے میں بیٹھو سر ابھی آتے ہی ہونگے لیکن اگر ذرا بھی آواز آںٔی تو اس پستول کی گولیاں تیرے ساتھ تیرے اس عاشق کے سر میں بھی اتار دونگا سمجھی( اچھا خاصہ اسے ڈرا کر خود بھی گن لیے سامنے صوفے پہ ٹک گیا۔)
سر کا نام سنتی مہر کی حالت خراب ہوگئی اسکا مطلب یہ لوگ کسی کے کہنے پر یہ سب کررہے ہیں لیکن کون ہوسکتا ہے ( انھیں سوچوں میں گم بیڈ کے کونے پر ٹکتی بے آواز رو رو کر فارس کے آنے اور اپنی عزت کی سلامتی کے لیے دعا کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang