سارے رستے مہر اسکی تنی ہوںٔی رگیں دیکھ کر خوفزدہ ہوتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ تیمور کے ساتھ اسے بیٹھا دیکھ کر اسکا یہ حال ہوا ہے لیکن پھر بھی کچھ بولنے کی ہمت خود میں نہیں پارہی تھی۔۔۔۔۔۔
خود تو دانیہ کی باہوں میں کھڑے تھے تب تو کچھ نہیں بولا میں نے پھر کیوں ایسا ری ایکٹ کر رہے ہیں ( یہ سوچ آتے ہی سر جھٹکتی باہر دیکھنے لگی لیکن خوف میں کمی نہ آںٔی)
گھر آتے ہی فارس نے اسکی ساںٔڈ والا دروازہ کھولا کر کلاںٔی سے پکڑ کر کھینچنے کے انداز میں باہر نکالا اور مہر چپ چاپ خوفزدہ سی چڑیا بنی اسکی مضبوط پکڑ میں کھچتی چلی گںٔی....۔۔
صد شکر کہ لاؤنج میں کوںٔی نہیں تھا اماں جی کمرے میں آرام کر رہی تھیں اور آمنہ بیگم اور مسرت بیگم کچن میں کھانے کی تیاری دیکھ رہی تھیں۔عباس بھی یونی میں تھا۔۔۔۔۔۔
فارس اسے کھینچتا ہوا کمرے میں لے آیا اور جھٹکے سے بیڈ پر پھینکتا دروازہ بند کردیا ۔۔۔۔
مہر بیڈ پر اوندھے منہ جاکر گری تھی ۔ ڈر اور خوف سے اسکی خوبصورت آنکھیں اور پھیل گئی تھیں ڈرتے ڈرتے ہی سیدھے ہوکر جب سامنے دیکھا تو فارس اضطرابی کیفیت میں یہاں سے وہاں چکر کاٹتا ایک ہاتھ سے اپنی پیشانی مسل رہا تھا ۔ شاید خود کے اندر اٹھتے طوفان کو قابو کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی ۔ مہر شال کو سختی سے تھامتی اسے دیکھ رہی تھی جو کہ اسکے پھینکنے کی وجہ سے کندھوں سے سرک کر اتر گںٔی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ف۔۔۔فارس ( مہر نے ڈرتے ڈرتے اسے پکارا )
آآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔( آخر جب خود پر قابو نہ ہوا تو دھاڑتے ہوۓ ڈریسنگ ٹیبل پر ہاتھ مار کر سب کچھ ایک جھٹکے سے پھینک دیا )
جس پر مہر نے خوف سے چیخ مار کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیا......
مہر ۔۔۔۔۔۔( فارس نے اسکی طرف بڑھ کر بے دردی سے بازوں سے پکڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا ۔ مہر کی ٹانگیں خوف سے شل ہوںٔی وی تھیں)
کیوں کیا تم نے ایسا ہاں کیوں....؟( وہ پاگلوں کی طرح جھنجھوڑ کر اس سے پوچھ رہا تھا )
ف۔۔۔۔فارس آپ (خوف سے اسکے الفاظ ہی حلق میں دب گئے تھے کہ جب فارس نے اسکو جبڑوں سے سختی سے پکڑ کر اسکا منہ قریب کیا )
ایک بات یاد رکھنا مہر فارس تم چاہے جتنا بھی مجھ سے دور بھاگو لوٹ کر تمھیں میرے پاس ہی آنا ہے ( وہ اتنی زور سے دھاڑ کر بولا کہ مہر نے درد اور خوف سے آنکھیں میچ لیں)
تم صرف میری ہو فارس شاہنواز کی سمجھیں۔۔۔۔تمھارے پور پور پر فارس شاہنواز کا حق ہے ( یہ کہتا اسنے جھٹکے سے اسکا جبڑا چھوڑا تو مہر بیڈ پر جا گری)
تمھاری طرف اٹھنے والی گندی نظر کو بھی میں نوچ کر نکال دونگا مہر فارس مجھ سے دور بھاگنا چھوڑ دو سب کی سب چالیں بے کار جاںٔیں گی تمھاری ۔۔کیونکہ میں تو تمھیں نہیں چھوڑنے والا ( یہ کہتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گھر سے ہی نکلتا چلا گیا )
پیچھے مہر خوف سے تھر تھر کانپتی زارو قطار رونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
گھر پہنچ کر دانیہ نے فارس کو غصے سے باہر جاتے دیکھا تو اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ مچلنے لگی ۔وہ فارس اور مہر کو ایک دوسرے سے بدگمان ہی کرنا چاہتی تھی جو کہ باخوبی ہوگیا تھا ۔ یہ اسکا اور تیمور کا سوچا سمجھا کھیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں سے نکلنے کے بعد وہ ںے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھا لیکن غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا ۔ آخر ایک سنسان جگہ گاڑی روک کر تھک کے سٹیرنگ پر ماتھا ٹکا دیا ۔ وہ مضبوط مرد آج ہار گیا تھا ۔ ضبط سے آنکھیں لال انگارہ بنی ہوںٔی وی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے آپ سے اتنی محبت کی اور آپ نے اتنی ہی نفرت کی مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ساتھ نہیں تو پھر کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو اس تیمور اسد کے ساتھ ہاں ؟
ہاں رہ لونگی کسی کے ساتھ بھی لیکن آپ جیسے کم ضرف اور دھوکے باز انسان کے ساتھ نہیں جو دکھتا کچھ تھا اور نکلا کچھ.......
مہر کا ایک ایک جملہ اسکے کانوں میں گونج رہا تھا ۔ وہ سنسان سڑک پر سٹیرنگ پر سر رکھا بلکل ہارا ہوا لگ رہا تھا ۔ اج اپنی محبت اپنے عشق کو کسی اور کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر وہ پاگل ہورہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آںٔی لو یو مہر ۔۔۔۔آںٔی لو یو میری سانس بھی تمھارے بغیر نہیں آتی تو یہ زندگی کیسے گزرے گی ۔۔۔۔۔تم کہتی ہو کہ چھوڑ دوں تمھیں لیکن کیسے چھوڑ دوں ۔۔۔۔مجھ سے محبت کیا تمھیں اتنی ہی تھی جو ایک غلط فہمی کی بنیاد پر ختم ہوگںٔی۔ مارنا ہی تھا تو اپنے ہاتھوں سے مار دیتی اس طرح قطرہ قطرہ موت نہ دو مجھے ( خود سے مخاطب اس وقت وہ ایک ہارا ہوا انسان لگ رہا تھا جس نے جوۓ میں اپنا سب کچھ لگا دیا ہو مگر پھر بھی ہاتھ خالی رہ جائیں۔۔۔۔۔۔۔
آخر جب خود پر کچھ قابو پایا تو گہرا سانس لیتا رلیکس ہوگیا۔۔۔۔۔
یہ تو طے ہے کہ میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا چاہے میری جان بھی کیوں نہ چلی جائے ( ایک عزم سے کہتا گاڑی واپس ہسپٹل کی طرف موڑ دی )
♥️♥️♥️♥️
مہر جب رو رو کر تھکی تو خود کا حلیہ
درست کرتی نیچے کی طرف بڑھ گںٔی جہاں انکا خریدا ہوا ولیمے کا جوڑا سب کے سامنا کھلا رکھا تھا۔ بے دلی سے ایک نظر اس پر ڈالتی آمنہ بیگم کے برابر میں بیٹھ گںٔی۔ دانیہ بہت غور س اسکے سست چہرے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
ہہہ۔۔۔بے وقوف لڑکی یہ نہیں سوچتی کہ فارس وہاں کیوں آیا ( دل میں مسکراتی چپ چاپ بیٹھی رہی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں کھانے کی میز پر بھی سب خاموشی سے کھانا کھاتے تھےلیکن عباس کے آتے ہی سب گھر میں رونق سی لگ گںٔی تھی وہ ہمہ وقت اپنی باتوں سے سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ۔فارس ہسپٹل سے واپس نہیں آیا تھا رمشا بھی کل آرہی تھی تقریب کے سلسلے میں اور ولیمہ گزار کر ہی جانا تھا اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔
رات میں دیر سے فارس کی واپسی ہوںٔی تھی۔ تھکا ماندا سا کمرے میں جب داخل ہوا تو مہر کو کمبل میں دبکا ہوا پایا وہ جانتا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے بس اسکے ڈر سے سوتی بنی ہوںٔی ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالتا اپنے کپڑے لے کر واشروم میں گھس گیا۔ گرم پانی سے اپنے تھکے ہوئے عصابوں کو آرام دے کر جب باہر آیا تو سامنے ٹرے میں کھانا رکھا ہوا تھا اور وہ اسی طرح کمبل میں لیٹی ہوںٔی تھی۔ فارس چپ چاپ تولیہ ساںٔڈ پر رکھتا کھانے لے کر صوفے پر آگیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اس میں کسی بھی کام کی ہمت نہیں تھی اسی لیے اپنی جگہ پر اکر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سب اپنی اپنی روٹین پر کام کرنا شروع ہوۓ رمشا بھی آگںٔی تھی مہر کی بھی آج کل سمسٹر کے بعد کچھ دن کی چھٹیاں تھیں اسی لیے گھر پر ہی تھی رانیہ بھی اسکے بلانے پر آگںٔی تھی ۔ آج اتنے عرصے بعد تینوں سہیلیاں آپس میں مل کر بیٹھیں تھیں ۔ ان کے ساتھ لگ کر مہر کا بھی دل بہل گیا تھا ۔ رانیہ اور عباس کی چھیڑ چھاڑ والی لڑاںٔیاں بھی عروج پر تھیں جس پہ سارا گھر ہی ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ کچھ دنوں میں رانیہ کی بھی منگنی رکھ دی گںٔی تھی جس پر عباس نے اسے خوب تنگ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دن اسی طرح گزرتے گںٔے اور پھر ولیمے سے دو دن پہلے فارس کو مہر کے ساتھ اسکے گھر جانے کا حکم مل گیا ۔ جس پر مہر تو خوشی سے پھولے ہی نہیں سما رہی تھی اور فارس خاموش اور سنجیدہ سا اسے خوش دیکھ رہا تھا ۔ وہ رات مہر نے بہت مشکلوں سے کاٹی تھی ۔۔۔۔۔
اگلی صبح ہفتہ ہونے کی وجہ سے فارس کا اوف بھی تھا اسی لیے وہ اور مہر صبح ہی واجد صاحب کے گھر کے لیے نکل گںٔے تھے۔ گاڑی گھر سے کچھ فاصلے پر رکتی دیکھ مہر نے سوالیہ نظروں سے فارس کو دیکھا۔۔۔۔۔۔۔
تمھارے بابا کیا مجھے معاف کردیں گے؟( اپنے دل میں اٹھتے سوال کو فارس نے زبان دی)
میرے بابا بہت اچھے ہیں وہ کسی سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتے ( مہر نے مسکرا کر اعتماد سے کہا تو فارس خاموش ہوگیا اور گاڑی آگے بڑھا لی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ رباب دیکھو گیٹ پر کون ہے ( سارہ بیگم جو کچن میں کچھ کام کر رہی تھیں گیٹ پر ہونے والی دستک پر رباب سے بولیں)
تو وہ جی امی کہتی گیٹ کھولنے چلی گںٔی لیکن سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر وہ وہیں ساکت ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔
رباب ۔۔۔۔( مہر فوراً آگے بڑھ کر اسکے گلے لگ گںٔی ۔ اپنی سہیلی جیسی بہن سے دو مہینے بعد ملنے ہر رباب کا بھی خود پر قابو نہ رہا اور دونوں مل کر روپڑیں ۔ فارس خاموشی سے کھڑا یہ ایموشنل منظر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
آںٔیے نا آپ دونوں ( رباب کو فوراً احساس ہوتے ہی فارس کو سلام کرکے اندر انے کی جگہ دی )
کون ہے رباب اس۔۔۔۔۔۔( کچن سے آتی سارہ بیگم کی نظر جب مہر پر پڑی تو سب بھلا کر اسکو اپنے ممتا بھرے سینے میں چھپا لیا۔ ماں کا ممتا بھرا لمس پاکر مہر زارو قطار رونے لگی۔)
کمرے میں موجود واجد صاحب کو جب باہر سے جب کچھ آوازیں آںٔیں تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے باہر آۓ لیکن سامنے جو منظر انھوں نے دیکھا تو وہیں ٹھر گئے۔۔۔۔۔۔
فارس کی نظر جب سامنے واجد صاحب پر گںٔی تو انکی کمزور حالت دیکھ کر اسے کچھ شرمندگی نے آگھیرا۔۔۔۔۔۔۔
ب۔۔۔۔بابا ( سارہ بیگم سے ملنے کے بعد مہر نے جب واجد صاحب کو دیکھا تو بے تابی سے انھیں پکارتی انکی طرف بڑھنے لگی لیکن واجد صاحب اسے دیکھ کر اپنے کمرے کی طرف واپس بڑھ گںٔے......
امی بابا ۔۔۔۔۔( مہر نے سارہ بیگم کو واجد صاحب کی طرف دیکھ کر روتے ہوئے اشارہ کیا)
غصے میں ہیں وہ میری جان جاؤ ان سے معافی مانگ لو ( سارہ بیگم نے محبت سے اسکے آنسو صاف کرکے کہا تو وہ فارس کو دیکھتی آگے بڑھ گںٔی)
آپ بھی جاؤ بیٹے ( فارس کو کھڑا دیکھ سارہ بیگم بولیں تو وہ بھی جی کہتا اندر کی طرف بڑھ گیا).........
ب۔۔بابا ( کمرے میں آکر مہر نے واجد صاحب کو پکارا جو منہ موڑے بیڈ پر بیٹھے تھے )
کیوں آںٔی ہو مہر یہاں جب تمھیں منع کیا تھا کہ ہم سے کوںٔی تعلق نہ رکھنا ( واجد صاحب کی آواز پر مہر تڑپ کر آگے بڑھی )
ن۔۔۔نہیں بابا مجھے معاف کردیں مجھ سے غلطی ہوگںٔی ہے میں تو آپ کی سب سے پیاری بیٹی ہوں نہ بابا( مہر فوراً ان کے قدموں میں بیٹھ کر بولی.)
باہر کھڑے فارس نے جب اسکی تڑپ دیکھی تو وہیں کھڑا رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہو تم میری بیٹی مہر ۔۔۔میں نے اپنی بیٹی کی یہ تربیت نہیں کی تھی (واجد صاحب اسکے ہاتھوں میں سے آپنا ہاتھ نکال کر بولے)
اسی وقت کمرے میں سارہ بیگم اور رباب بھی آگںٔیں۔۔۔۔۔
پلیز بابا مجھے معاف کردیں مجھ سے غلطی ہوگںٔی بابا ۔۔۔۔۔میں نے بہت سزا کاٹی ہے اس سب کی آپ سب سے دور ہوکر ۔۔۔۔اب مجھے معاف کردیں ( مہر مسلسل انکی منت کررہی تھی لیکن واجد صاحب پتھر بنے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔)
سزا تم نے کاٹی ہے تو ہم نے اس سے بڑھ کر کاٹی ہے میرے عزیز رشتے مجھے چھوڑ کر چلے گںٔے صرف تمھاری وجہ سے مہر میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرسکتا کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔
فارس ضبط سے کھڑا اپنی کل متاعِ جاں کو روتا تڑپتا دیکھ رہا تھا لیکن کچھ کر نہیں پارہا تھا۔۔۔۔۔
امی آپ ہی بابا سے کہیں کہ مجھے معاف کردیں ماں باپ کا دل تو بہت بڑا ہوتا ہے نا پھر مجھے اتنی بڑی سزا نا دیں بابا ( مہر کے اس طرح رونے پر فارس فوراً اسکے پاس آیا)
انکل میں جانتا ہوں کہ ہماری معافی آپکی عزت نہیں لوٹا سکتی لیکن میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں مجھے ایک موقع دیجئے اور اسے معاف کردیں ( فارس مؤدب انداز میں ان سے مخاطب ہوا)
ٹھیک کہتے ہو تمھاری معافی یا شرمندگی میری عزت نہیں لوٹا سکتی لیکن جو میرے رشتے مجھ سے روٹھ گںٔے انکا نقصان کیسے بھروگے ۔۔۔میں تم دونوں کو معاف نہیں کرسکتا لے جاؤ اسے یہاں سے اور کبھی واپس نہیں لانا( واجد صاحب سختی سے کہتے سب کو حیران کرگںٔے)
باپ کیا اتنا سخت دل بھی ہوسکتاہے کیا ( فارس صرف سوچ کے رہ گیا.....)
بابا میرے ساتھ یہ نہ کریں امی رباب آپ کہیں نا بابا ایسا مت کریں میرے ساتھ ( فارس نے اسے جب کندھوں سے پکڑ کے اٹھایا تو وہ اسکی پکڑ میں مچلتی پھر بولی)
لے جاؤ اسے یہاں سے اور اگر کسی اور کو بھی اسکے ساتھ جانا ہے تو جاسکتا ہے لیکن واپس ادھر کا رخ نہیں کرے گا ( انکی بات پر سارہ بیگم اور رباب منہ پر ہاتھ رکھتی رونے لگیں )
چلو مہر ( فارس اسے کھینچتا ہوا لے جانے لگا )
ن۔۔۔نہیں نہیں میں نی جاؤں گی بابا مجھے معاف کردیں آپ کی مہر مر جائے گی آپ کے لیے ( مہر اسکی پکڑ میں کھنچتی ہوںٔی تڑپ کر بولی )
یہ بات ہی سوہان روح تھی کہ ایک بار پھر سے جداںٔی۔۔۔۔۔
مر تو تم ہمارے لیے اسے دن گںٔی تھی جس دن ہماری عزت اور رشتوں کا خون ہوا تھا اب آگر زچ میں مر بھی جاؤ تو فرق نہیں پڑے گا ( اور بس یہ جملا تھا جس نے مہر کو ایکدم ساکت کردیا )
انکے منہ سے اپنی جان سے بڑھ کر بیوی کے لیے ایسے الفاظوں پر فارس لب بھینچ کر رہ گیا لیکن کچھ بول کر معاملہ اور خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔سارہ بیگم نے بھی چھبیس سالہ زندگی میں اپنے شوہر کو اتنا سخت گیر کبھی نہیں پایا تھا ۔ یہ وہ مہر تھی جو انکی گود میں شادی کے چار سال بعد رحمت اور رونق بن کر آںٔی تھی یہ وہ مہر تھی جس کی ایک ہنسی اور خوشی کے لیے وہ ساری ساری رات جاگ کر کام کرتے تھے اور آج اسکی غلطی پر معافی بھی نہیں تھی کیوں۔۔۔۔کیونکہ اسکی غلطی سے انکے رشتے چھوڑ گںٔے تھے ۔۔وہ رشتے جو صرف مطلب کے ہوتے ہیں جن کو خاک کرنے کے لیے ایک چنگاری ہی بہت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واجد صاحب کے منہ سے خود کے لیے یہ سن کر مہر پھر کچھ نہ بولی بس جس طرح آںٔی تھی اسی طرح واپس پلٹ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے رستے فارس اسکی طرف وقتاً فوقتاً دیکھ رہا تھا لیکن وہ تو جیسے اپنی تمام حساسیات وہیں چھوڑ آںٔی تھی بس چپ چسپ گود میں رکھے ہاتھوں کو گھور رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی سب انکا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے لیکن مہر کو اس طرح خاموش دیکھ اماں جی نے پریشان ہو کر فارس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اسنے نفی میں سر ہلا کر جھکا دیا۔۔۔۔۔۔
دانیہ یہ سب بیٹھی خاموشی سے دیکھ رہی تھی ورنہ خوشی تو اسے بہت تھی اس طرح تو اسکا کام اور بھی آسان ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اماں جی اور کسی نے بھی اس وقت بات کرنا مناسب نہ سمجھا اسی لیے اسے اسکے کمرے میں چھوڑ آئے۔۔۔۔۔۔۔
فارس بھی اسکے خیال رکھنے کی ہدایت دیتا کسی کام کے سلسلے میں نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
اور آخر ولیمے کا دن بھی آگیا ۔ مہر کو رمشا اور رانیہ پارلر لے کر چلی گںٔیں تھیں۔ اس دن کے بعد سے وہ بلکل خاموش ہوگںٔی تھی ۔ اسے کمرے میں بھیجنے کے کچھ دیر بعد اماں جی بھی اسکے پاس گئیں اور خوب تسلیاں اور دلاسے دے کر اسے سمجھایا لیکن مہر بس خاموشی سے سب سنتی رہی اور کہا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو شہر کے بڑے ہوٹل میں تمام انتظامات کیے گںٔے تھے ۔ بزنس کی دنیا کے بڑے بڑے لوگ اور ماہر ڈاکٹرس اس تقریب میں شریک تھے ۔ آخر اس گھر کے سب سے بڑے اور لاڈلے بیٹے کا ولیمہ تھا ۔ سب خاندان بھر کو کافی تجسس تھا کہ فارس کی دلہن کیسی ہوگی ۔ اتنے میں تمام ہوٹل کی لاںٔٹ اوف ہوگںٔی اور اینڑنس پر سپورٹ لاںٔٹ کی روشنی میں مہر فارس کے بازو میں ہاتھ ڈالے چلتی ہوئی اندر آںٔی۔ ٹی پنک کلر کی خوبصورت سی ٹیل والی میکسی پہنے جس پر سلور کام ہوا تھا ۔ ڈاںٔمنڈ کی نازک سی جیولری کے ساتھ بیوٹیشن کے ماہر ہاتھوں نے اسکے خوبصورت چہرے کو کچھ اور بھی حسین کردیا تھا اوپر سے اسکا سوگوار حسن فارس کی دل کی دنیا ہلا گیا تھا۔ فارس خود بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے سیٹ کیے ہوۓ نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا۔ ہر کوئی انکی جوڑی کو ستاںٔش بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ مہر نظریں جھکائے اسکے ہم قدم تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشا اور رانیہ بھی مسکرا کر انھیں کو دیکھ رہیں تھیں ۔ اسٹیج پر بیٹھتے ہی اماں جی نے ہزاروں کے نوٹ ان دونوں کے سر سے وارے تھے ۔ ہر کوںٔی اتنی نازک سی حسین بہو لانے پر آمنہ بیگم سے مہر کی تعریفیں کر رہا تھا جسے وہ مسکرا کر وصول رہی تھیں۔ لیکن اس سب میں دانیہ ضبط سے لال آنکھیں لیے کھڑی تھی ۔ جامنی رنگ کی خوبصورت ویلوٹ کی میکسی میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریب اپنے عروج پر تھی ۔ فارس بار بار چور نظر مہر کے حسین سراپے پر ڈال رہا تھا جو اپنی نشیلی آنکھوں کو جھکائے چپ چاپ اسکے پہلو میں بیٹھی تھی۔ لیکن فارس کا اس طرح دیکھنا عباس سے نہ چھپ سکا اور اسنے اور سب کزنز نے مل کر فارس پر خوب ہوٹنگ کی جس پر وہ بغیر شرمندہ ہوۓ بڑی ڈھٹائی سے مسکراتا رہا ۔۔۔۔۔۔
بلآخر یہ حسین رات دو بجے اپنے اختتام کو پہنچی تو سب لوگوں نے اپنے گھر کی راہ لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر مہر کو کچھ دیر بعد اسکے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن فارس کو اسکے دوست گھیر کر بیٹھ گںٔے تھے ۔۔۔۔۔۔
مہر کو سب کمرے میں بیڈ پر بٹھا کر جاچکی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اپنے خوبصورت ڈریس سے الجھتی کھڑی ہوگئی اور ایک نظر سامنے لگے شیشے پر ڈالی تو وہیں ساکت ہوگئی۔ وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی یہ اسے نہیں پتا تھا لیکن پھر فوراً ہی نظر ہٹاتی اپنی جیولری اتارتی وارڈروب سے اپنے لیے ایک سادہ کاٹن کا کالا پرنٹڈ جوڑا لے کر واشروم میں گھس گئی ۔ کچھ دیر بعد جب باہر آںٔی تو چہرہ تمام آراںٔش سے پاک تھا۔ ولیمے کے جوڑے کو ہینگ کرتی واپس رکھ کر ٹیرس پر جا کر کھڑی ہوگئی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پر اسنے بے اختیار ہی ایک گہرا سانس لیا۔ آج کی تقریب صرف اسکی مجبوری تھی ورنہ آپنے باپ ماں کے بغیر وہ اسکا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اچانک ہی فون کی رنگ پر وہ کمرے میں آںٔی تو وہی انجان نمبر دیکھا لیکن اٹھایا نہیں ۔جب فون بجنے کا دورانیہ بڑھا تو مجبوراً اسے کال اٹھانی پڑی لیکن اسپیکر سے جو آواز ابھری اسے سن کر مہر وہیں ساکت رہ گںٔی۔۔۔۔۔۔
ہیلو مہر جان پہچان تو گںٔی ہوگی( تیمور کی شوخی بھری آواز پر وہ کانپ کے رہ گںٔی)
ک۔۔۔۔کون بات کر رہا ہے ( اپنے خدشے کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ بولی)
ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے مجھے بھولنے کی ویسے آج تو تم قیامت لگ رہی تھی تبھی اس کمینے فارس کی نیت تم پر خراب ہوںٔی ( تیمور بے باکی سے کہتا اسے لرزا گیا)
مطلب آج کے ولیمے میں وہ وہیں کہیں موجود تھا..
ت۔۔۔۔تیمور آپ نے فون کیوں کیا ؟( اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا بولے)
تمھاری یہ مدہوش کردینے والی آواز سننے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بدتمیزی ہے یہ آںٔندہ یہاں کال مت کیجئے گا ( بول کر مہر فون بند کرنے ہی لگی تھی کہ اسکی آواز نے ایسا کرنے سے بعض رکھا)
نہیں ۔۔۔نہیں مہر جان تم کیا سمجھتی ہو اپنے عاشق کے ساتھ عشق کا کھیل رچا کے مجھے رسوا کرجاو گی اور میں چپ بیٹھوں گا ۔۔۔بلکل بھی نہیں اب تم دیکھنا ایسی جگہ جا کر ماروں گا جہاں تمھیں پانی تک نصیب نہیں ہوگا اور جو تمھارا باپ ہے وہ تو بچی کچی عزت کا جنازہ دیکھ کر ہی گزر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس۔۔۔بس آ۔۔۔۔آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے پلیز میرے بابا ( مہر روتے ہوئے بولنے لگی تھی کہ تیمور نے اسکی بات کاٹ دی)
میں ایسا ہی کروں گی مہر جان تم بس دیکھتی جاؤ ( یہ بول کر سامنے والے نے کال کٹ کردی اور مہر ہیلو ہیلو ہی کرتی رہ گںٔی)
اسنے دوبارہ اس نمبر پر کال ڈاںٔل کی لیکن اب کے نمبر بند جا رہا تھا۔ مہر وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گںٔی ۔ حسین آنکھوں سے اشک بے مول ہو کر بہہ جارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ۔۔۔۔یہ کیا ہوگیا ہے سب ۔۔۔بابا ۔۔۔امی۔۔۔۔( یہ سب سوچتے ہی وہ اور زور زور سے رونے لگی)
میں کیسے سب برداشت کروں گی م۔۔۔میں مرجاؤ گی بابا کے بغیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مر تو تم ہمارے لیے اسی دن گںٔی تھی جس دن ہماری عزت اور رشتوں کا خون ہوا تھا اب آگر مر بھی جاؤ تو فرق نہیں پڑے گا ( اچانک ہی مہر کے کانوں میں واجد صاحب کا کہا گیا جملہ گونجا تو دھڑکن وہیں تھم گںٔی )
کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنے انسو بےدردی سے صاف کرتی اٹھی اور فارس کی ساںٔیڈ ٹیبل کے دراز سے نیند کی گولیاں نکال لیں۔۔۔۔۔
ٹھیک کہتے ہیں آپ بابا جو عزتوں کے جنازے نکال دے تو اسے بھی جینے کا کوںٔی حق نہیں ہوتا ۔۔۔۔میں ادھر رہ کر آپکواور رسوا نہیں کروں گی ( تلخی سے سوچتے ہی ہاتھ میں گولیاں بھر کر نکالیں اور شیشی واپس رکھ کر پانی کے ساتھ بغیر کچھ سوچے سمجھے حلق سے اتار لیں )
اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور فارس اندر آیا بے اختیار ہی اسنے گہرا سانس لے کر کمرے میں لگے خوبصورت گلابوں کی تازہ خوشبو کو اپنے اندر اتارا ۔ لیکن نظر جب سامنے کھڑی سادہ سے حلیے میں مہر پر گںٔی تو اسے کافی حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا لیکن غصہ کو دباتے ہوئے اسنے اپنے مضبوط قدم اندر بڑھا دںٔیے اور چلتا ہوا اسکے سامنے آیا جو چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ فارس آج تمام غلط فہمیاں اور دوریاں ختم کردینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
مہر ( اسکے سامنے کھڑے ہوکر گمبھیر لہجے میں اسے پکارا)
لیکن وہ بس خاموشی سے اسکے خوبرو چہرے کو تک رہی تھی۔ فارس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے نرم ملائم ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیا اور ایک ڈاںٔمنڈ کی خوبصورت نگ والی انگوٹھی اسکی ہرٹ فنگر میں پہنا دی اور جھک کر اسکی انگلی پر اپنے لب رکھ دںٔیے۔ لیکن مہر نے آگے سے کوںٔی مذمت نہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر میں آج سب غلط فہمیاں دور کر دینا چاہتا ہوں میں جانتی ہوں ماضی میں مجھ سے بہت سی غلطیاں ہوںٔیں ہیں لیکن مہر میرا یقین کرو کہ۔۔۔۔۔( اچانک ہی مہر کو ایک چکر آیا تو وہ ںے اختیار ہی فارس کا بازو تھام گںٔی)
مہر کیا ہوا ہے تمھیں ۔۔۔تم ٹھیک ہو؟( اسکے اس طرح چکرانے پر فارس فوراً پریشان ہوتا ہوا بولا)
م۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں فارس ۔۔۔بہت تھک گںٔی ہوں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں ( اسکے دونوں بازوؤں کو سختی سے تھامے بولی)
ہاں تم سوجاؤ ہم کل بات کریں گے اوکے ریلیکس ( فارس اسے اسکی جگہ لیٹا کر کمفرٹر اس پر درست کرگیا تو مہر نے بھی آنکھیں موندھ لیں لیکن آنکھوں کے کونوں سے ایک آنسو لڑھک کر باہر آیا جسے فارس نے فوراً ہی انگلی کے پوروں پر چن لیا اور اسکی دمکتی پیشانی پر اپنے تشنہ لب رکھتا ہوا کھڑا ہوگیا )
رات کے چار بج رہے تھے تو وہ بھی اپنے کپڑے لے کر واشروم میں گھس گیا کچھ دیر بعد باہر آیا تو وہ خود پر کمبل چڑھاۓ سوگںٔی تھی فارس بھی مسکرا تا ہوا اپنی جگہ پر آکر لیٹ گیا تھا۔۔۔۔۔ آیا تو وہ آج تمام گلے شکوے دور کرنے تھا لیکن مہر کی طبیعت کا خیال کرتے ہوئے کل کے کے لیے چھوڑ دیا اور مسکرا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔