وہ جب دانیہ اور اماں جی کے ساتھ لاونج میں بیٹھی کوفی پی رہی تھی تبھی اوپر سے فارس بلیک پینٹ پر ڈارک براؤن کلر کی فل سلیوز ہاںٔی نیک والی گرم شرٹ پہنے اپنی بھرپور مردانا وجاہت کے ساتھ نیچے آتا دیکھاںٔی دیا۔ وہ اس قدر ہینڈسم لگ رہا تھا کہ بے اختیار ہی مہر کا دل عجیب ہی لے میں دھڑک اٹھا تھا ۔ اچانک ہی خیال آنے پر اسنے ترچھی نظر سے دانیہ کو دیکھا تو وہ جانثار نظروں سے فارس کو ہی دیکھ رہی تھی۔اب واقعی میں ایسا تھا یا اسے لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
میری جان اچھا کیا جو آگںٔے آؤ گرم گرم کوفی پی لو سردی میں بھیگ کر آۓ ہو کہیں ٹھنڈ نہ لگ جاۓ ( اماں جی اسے دیکھتی محبت سے بولیں تو وہ بھی مسکراتا ان کے پاس بیٹھ گیا اب مہر اور دانیہ اسکے بلکل سامنے والے صوفے پر تھیں)
دانیہ تمھارے ہاتھ کی کوفی پینے کو بہت دل کر رہا ہے پلیز بنادو گی ؟( فارس اسے مکمل نظر انداز کیے دانیہ سے بولا)
اسکے منہ سے دانیہ کا نام سن کر مہر کی گرفت کپ پر مضبوط ہوگںٔی۔۔۔۔۔
کیوں نہیں بس آبھی لاںٔی ( دانیہ فوراً چہکتی ہوئی اٹھ گںٔی)
فارس اب اماں جی سے باتوں میں مشغول ہوگیا تھا ۔ مہر نے اپنی نشیلی آنکھوں سے گھنی پلکوں کی باڑ اٹھا کر اسے دیکھا جو ایسے بنا ہوا تھا کہ جیسے وہ یہاں ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔
پہلے محبت جتاںٔی وہ بھی بدلے میں اب اس طرح نظر انداز کیوں کررہے ہیں ( روتے دل سے شکوہ کرتی سوچنے لگی)
دس منٹ بعد دانیہ ایک کپ مسکراتے ہوئے اسکی طرف لے آںٔی جسکو فارس نے مسکرا کر تھام لیا ۔ لیکن تھامتے ہوۓ فارس کی انگلیاں دانیہ کی انگلیوں سے ٹچ ہوگئیں جو مہر کو اندر تک سلگا گںٔی اور دانیہ سرشار سی مہر کے برابر میں دوبارہ آکر بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔
ہاں تو بیٹے تم نے مہر کو لے کر جانا ہے رانیہ خاص طور پر تمھارے اور مہر کے لیے دعوت دے کر گںٔی ہے ( اماں جی اسے رانیہ کی منگنی کے بابت بتاتے ہوئے بولیں)
اماں جی میرے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے جو میں یہ سب چونچلے نپٹاتا پھروں گا ( فارس بے زار سی شکل بنا کر بولا تو دانیہ کی دبی دبی سی ہنسی نکلی)
مہر نے جھٹکے سے چونچلے لفظ پر سر اٹھا کر اسے دیکھا لیکن پھر لب بھینچ کر کوفی کے کپ پر جھک گںٔی۔۔۔۔
چپ کر جا چونچلے نہیں ہیں یہ بچی محبت سے دعوت دے کر گںٔی ہے اگر تو نہ گیا میری بچی کو لے کر تو مجھ سے بات مت کرنا( اماں جی اسکی بست پر ڈپٹ کر ناراضگی سے بولیں)
اوھوو اماں جی آپ بھی کیا روٹھی ہوئی حسینا بن جاتی ہیں بات بات پر یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے ( فارس معصومیت سے بولا)
چپ شریر ( اماں جی حسینہ لفظ پر جھینپ کر بولی)
ہاۓ اس ادا پر سب قربان ( فارس انکی جھینپ دیکھ کر شرارتی ہوکر بولا)
تو اماں جی سمیت سب مسکرا دںٔیے کہ اچانک کوفی کا سپ لیتے فارس کی نظر سامنے بیٹھی اپنی بیوی پر گںٔی جو اسکی بات پر مسکرا رہی تھی ۔ ایپل گرین کلر کے پرنٹڈ کاٹن کے سوٹ میں لاںٔٹ پنک گرم شال اوڑھے وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ مسکرانے سے اسکا ہونٹوں کے قریب ننھا سے ڈمپل تمتما اٹھا۔ اچانک ہی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی مہر کی نظر سامنے اٹھی تو وہ مغرور شہزادہ کوفی کے سپ لیتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ اسکی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مہر کا خوبصورت چہرہ گلنار سا ہوگیا۔ اسکے چہرے کے حسین رنگ فارس سمیت اماں جی کی نظروں سے بچ نہیں سکے تھے ۔انھوں نے مسکرا کر دل میں انکی خوشحال زندگی کی دعا کی اور فارس تو خاموشی سے یہ دل لوٹ لینے والا منظر دیکھ رہا تھا کہ گزشتہ دنوں کی تکلیف یاد کرتے ہی اسنے نظریں پھیر لیں ...
دانیہ کسی کی کال آنے پر ایکسکیوز کرتی ہوںٔی اٹھ گںٔی تھی ورنہ فارس کا یوں دیکھنا اسکو برداشت نہ ہوتا........۔
بارش کچھ تھمی تو فارس کچھ ضروری کام بول کر باہر کی طرف بڑھ گیا اور مہر کی نظروں نے تب تک اسکا پیچھا کیا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔۔۔۔۔۔
مہر ( اماں جی کی آواز پر اسنے چونک کر انھیں دیکھا)
جی اماں جی ( مہر مسکراتی ہوئی ان کے پاس بیٹھ گئی).
کیا ہوا میری جان کیوں گم سم ہو اب تو تیرے بابا نے بھی میری بچی کو معاف کردیا ہے ( اماں جی شفقت سے اسے دیکھتے ہوۓ بولیں)
نہیں اماں جی اداس تو نہیں ہوں آپ کو ایسے ہی لگا ہوگا ( مہر بامشکل مسکرا کر بولی )
میں جانتی ہوں میری جان کہ فارس تجھ سے ناراض ہے کیونکہ تیرا اٹھایا ہوا وہ انتہائی قدم اسکی بھی جان لینے کے در پہ تھا....
اماں جی کی بات پر مہر نے حیرت سے انھیں دیکھا تو وہ مسکرا دیں۔۔۔۔
ہاں مہر میرا فارس تجھ سے بہت محبت کرتا ہے جب تو ہسپٹل میں تھی تب تیرا علاج کرنے کے بعد بھی وہ ایک منٹ تیرے پاس سے نہیں ہلا ۔ وہ بہت بکھر گیا تھا تیرے اس قدم پہ ۔۔۔ہم سب نے بہت مشکلوں سے اسکی ہمت باندھی تھی ۔ اس دن وہ مجھے ایک چھوٹا سا بچہ لگا جسکی عزیز چیز اسے سے چھینی جارہی ہو ۔ ( اماں جی بول رہیں تھیں اور خاموشی سے آنسو پیتی ہوںٔی سب سن رہی تھی)
مجھے معاف کردیں اماں جی میں نے اپنی وجہ سے آپ سب کو بہت اذیت میں رکھا ( وہ روتے ہوئے انکا ہاتھ تھامتے ہوۓ بولی)
نہ میری بچی معافی ہم گنہگاروں سے نہیں بلکہ اس رب سے مانگ جسنے تجھے ایسی حرام موت سے بچا لیا ( اماں جی اسکو ساتھ لگاتی ہوںٔیں بولیں)
فارس سمجھتا ہے کہ تونے یہ قدم اس سے جان چھڑانے کے لیے اٹھایا تھا ۔ وہ محبت بہت کرتا ہے تجھ سے لیکن بس جو تکلیف اسنے دیکھی ہے اسے نہیں بھلا پارہا ۔۔۔تو اس سے معافی مانگ کر اپنی زندگی کی شروعات کر ۔۔۔اسے بھی سکون دے اور خود بھی پرسکون ہوجا کب تک یون سحرا کے مسافر بنے بھٹکتے رہو گے ۔۔۔۔۔( اماں جی کی بات پر مہر ان سے الگ ہوتی انھیں خاموشی سے دیکھنے لگی)
ہاں میری جان میرا بچہ بہت ترسا ہے تیرے لیے اسے تیری ضرورت ہے اب ۔۔۔۔میرا فارس تیرے بغیر ادھورا ہے ( اس بار انکی بات پر مہر نے اثبات میں سر ہلایا اور شرما کر چہرہ جھکا گںٔی )
تو اماں جی نہال ہوتی اسکی روشن پیشانی چوم گںٔیں ۔ کال پر تیمور سے بات کرکے آتی دانیہ نے بھی یہ سب سنا تھا اور تمسخر بھری مسکراہٹ چہرے پر لیے خاموشی سے وہاں سے ہٹ گںٔی...........
🔥🔥
رات میں آٹھ بجے کے قریب وہ گھر آیا تھا تو سب کھانے کی میز پر بیٹھے تھے وہ بھی سب کو سلام کرتا عباس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ مہر کے بلکل سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا جس پر وہ چور نظر سے اسے دیکھ کر چہرہ جھکا لیتی ۔
مہر بھابی پورا دیکھیے نا آپ ہی کے ہیں سارے کے سارے ( عباس نے اسکی چوری پکڑی تو مہر نے ہڑبڑا کر پھر گھور کر اسے دیکھا )
اسکی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آگںٔی سواۓ فارس اور دانیہ کے ....
ہر وقت فضول کی نہیں ہانکا کرو عباس ( دانیہ نے برا مان کر بولا)
کیوں دانیہ اپکو کیا مسلۂ ہے جب میاں بیوی کو نہیں ہے تو ( عباس نے اسکی جل ککڑی عادت کو جانتے ہوئے کہا)
عباس کی بات پر دانیہ دانت پیستی واپس کھانے کی طرف متوجہ ہوگںٔی۔۔۔۔۔
عباس۔۔۔( آمنہ بیگم کی تنبیع والی آواز پر عباس دانت نکال کر چپ ہوگیا تو فارس نے بھی مسکرا کر اسکے گلے میں ایک بازو ڈال دیا لیکن بیچ میں ہی ایک نظر اس دشمن جان پر بھی ڈالی جو اب پوری طرح پلیٹ پر جھکی ہوںٔی تھی۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد سب نے معمول کے مطابق مل کر کوفی پی ۔ مہر آمنہ بیگم کے منع کرنے کے باوجود مسکرا کر سب کے کپ اٹھا کر لے گںٔی سواۓ فارس کے کیونکہ اسکا کپ ابھی خالی نہیں تھا ۔ کچن میں ملازمہ کو کپ دے کر جیسے ہی واپس مڑی تو پیچھے کھڑے فارس کے چوڑے سینے سے ٹکراتے ٹکراتے پچ گںٔی ۔۔۔۔۔
یا اللّٰہ خیر۔۔۔۔۔( بے اختیار ہی اسکے منہ سے نکل گیا )
فارس اسکے اس میٹھے سے بول پر ایک نظر ڈالتا کپ کاؤنٹر پر رکھ کر واپس مڑ گیا)
اسکے جانے کے بعد بھی مہر کافی دیر ادھر ہی اسی پوزیشن میں کھڑی رہی وہ اسکے کلون کی خوشبو اب تک اپنے آس پاس محسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔
بی بی جی آپ ٹھیک ہیں ؟( ملازمہ کو اسے دیکھ کر تشویش ہوئی )
ہاں میں ٹھیک ہوں ( وہ مسکرا کر وہاں سے چلی گںٔی تو ملازمہ بھی کندھے آچکا کر کام میں لگ گںٔی)
کچھ دیر بعد وہ اوپر آںٔی تو کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا لیکن پھر اچانک لیمپ کی روشنی جلی اور پھر بند ہوگںٔی۔ مہر نے نا سمجھی سے جب بیڈ کی جانب دیکھا تو وہاں فارس آنکھوں پر بازو رکھے ایک ہاتھ میں لیمپ کا بٹن لیے اسے جلا اور بجھا رہا تھا ۔ گلاس ڈور سے آتی چاند کی مدھم چاندنی میں وہ ادھر ادھر سے ٹٹولتی بیڈ کے سرے تک آںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارس کو اسکے آنے کا پتا لگ گیا تھا ۔ کچن میں اس سے ٹکراؤ نے اسکے عصابوں کو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اپنی حالت سے گھبرا کر وہ اس طرح سے خود کو ریلکس کر رہا تھا کہ ایک کراہ کی آواز پر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ لیمپ اون کر کے دیکھا تو وہ بیڈ کے سرے پر اپنا پیر پکڑ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے ؟( لہجے میں سنجیدگی شامل کرکے پوچھا)
ٹھوکر لگ گںٔی ہے بیڈ کے کونے سے ( مہر تکلیف سے انگلی دیکھتی ہوںٔی بولی جو اب پوری درد سے لال ہوگںٔی تھی)
تو ان بڑی بڑی آنکھوں کو کھول کر چلا کرو ( وہ اسکو تکلیف میں دیکھ کر بولا)
اسکی بات پر مہر نے چہرے پر خفگی لیے اسے گھورا جیسے کہہ رہی ہو کہ خود ہی لاںٔٹ کے ساتھ ڈرامے لگائے ہوئے تھے۔ اسکے اس طرح گھوری پر فارس نظریں پھیر گیا...
دیکھاؤ کیا کردیا اب ( اٹھ کر اسکے سامنے اکر بولا)
اب سے مراد؟( اپنی تکلیف بھول کر اسکے جملے کو پکڑ لیا)
جو بھی سمجھ سکتی ہو سمجھ لو ( پنجوں کے بل اسکے سامنے بیٹھتا ہوا اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا)
اور اسکا پیر پکڑ کر دیکھنے لگا جہاں انگلی چھل کر ہلکا سا خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔
یہ چوٹ تو کچھ بھی نہیں مہر واجد ان چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر رونے مت بیٹھ جایا کرو ( اسکے آنسو دیکھ کر اپنے لہجے سے بہت کچھ باور کراتا ہوا بول کر اٹھ گیا کہ اچانک مہر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا)
ف۔۔۔۔فارس۔۔۔۔( اسکی آواز کی لڑکڑاھٹ پر فارس نے حیرت سے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو اسکی نازک پکڑ میں تھا)
اور پھر اپنی بڑھنے والی دھڑکنوں کو قابو کرکے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا.....
کیا آپ مجھے معا۔۔۔۔۔
نہیں مہر واجد یہ ممکن نہیں ۔۔۔۔ تم نے مجھے محبت کے مطلب سکھائے تھے تو نفرت کے حد بھی تم ہی نے بتاںٔی ہے ( اسکی پکڑ سے اپنا ہاتھ چھوڑواتے ہوئے بولا لیکن مہر نے دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑ لیا۔۔۔۔
ن۔۔۔نہیں ایسے مت کہیں میں نے یہ سب جان کر نہیں کیا تھا مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آیا ( مہر روتے ہوئے بولی وہ آج خود نہیں جانتی تھی کہ وہ یہ سب کیوں کہہ رہی ہے لیکن دانیہ کی آنکھوں میں اسکے لیے کھلی محبت دیکھ اس سے برادشت نہیں ہوا تھا)
فارس نے کچھ دیر اسکی بولتی آنکھوں میں دیکھا جہاں تین سال پہلے کی طرح کچھ عجیب سا احساس تھا ۔ پھر انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر نرمی سے اسکے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ نکال لیا۔۔۔۔
سوجاؤ مہر ( اور یہ بول کر واپس اپنی جگہ پر آکر لاںٔٹ اوف کردی اور پیچھے مہر آنکھوں میں تیرتی نمی سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گںٔی)....
اسکے اس طرح اچانک بدلاؤ پر فارس کے دل کی دھڑکن نے عجیب شور مچا دیا تھا اور اوپر سے اسکا اپنے ہاتھ پر استحاق اور امید بھرے لمس نے اسکے دل کو ایکدم ہی پگھلا دیا تھا لیکن وہ اسے کچھ وقت دینا چاہتا تھا تاکہ وہ کوںٔی بھی فیصلہ جذبات میں آکر نہ کرے کیونکہ اس بار وہ اسکی کسی تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
صبح اسکی آنکھ کھلی تو فارس شیشے کے آگے کھڑا ہسپٹل جانے کی تیاری کررہا تھا اسے ایک نظر دیکھتا دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا۔ وہ بھی چپ چاپ اٹھتی یونی کے لیے ریڈی ہونے لگی۔۔۔۔۔۔
ناشتے کے بعد جب وہ یونی کے لیے نکلنے لگی تھی کہ اسی وقت تیار سی دانیہ بھی آگںٔی۔۔۔۔
فارس اگر تمھیں دیر نہیں ہورہی تو پلیز کیا مجھے سمیرا کے گھر ڈراپ کردوگے؟اصل میں ڈراںٔیور کے ساتھ مہر جارہی ہے اسی لیے( مہر کو سناتی جان کر زور سے بولی)
اے لڑکی صبح صبح کیوں جارہی ہے ؟( فارس کے بولنے سے پہلے ہی اماں جی بول پڑیں)
وہ اماں جی آج ہم سب دوستوں نے مل کر بریک فاسٹ کا پروگرام بنایا ہے اسی لیے( دانیہ مسکرا کر وجہ بولی)
دانیہ اگر تمھیں جانا ہے تو چلی جاو ڈراںٔیور کے ساتھ ( مہر کو اسکا فارس کے ساتھ جانا ایک آنکھ نہ بھایا)
نہیں دانیہ اٹس اوکے میں تمھیں ڈراپ کردوں گا ( مہر کی بات کو سمجھتے ہوۓ دل میں قہقہے لگاتا دانیہ سے بولا)
ل۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یو فارس چلو پھر ابھی نکلتے ہیں تاکہ کوںٔی بھی لیٹ نہ ہوسکے ( دانیہ مہر کی بات درمیان میں ہی کاٹ کر بولی جس پر وہ اسے خطرناک گھوری سے دیکھنے لگی)
ہاں چلو ۔۔۔۔ ( فارس بھی فوراً چاۓ کا کپ واپس رکھتا اٹھ گیا)
ایک نظر مہر کے غصے سے لال چہرے پر ڈالتا اماں جی کو خدا حافظ کرکے دانیہ کے ساتھ نکل گیا ۔ انکے پیچھے ہی مہر بھی اماں جی سے ملتی ہوںٔی یونی کے لیے نکل گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
یو نو واٹ فارس تم نے جب سے میڈیکل جواںٔن کی ہے لاںٔف کتنی بور ہوگںٔی ہے ورنہ پہلے میں اور تم رمشا ساتھ مل کر اسکرںٔیم کھانے جاتے تھے ہر ویک اینڈ پر ( باہر نکلتے ہوئے دانیہ فارس سے مسکرا کر بولی پیچھے پیچھے مہر بھی سب سنتے ہوئے چل رہی تھی۔ )
ہاں یار بہت انجوائے کرتے تھے چلو ایسا کرتے ہیں آج رات کو میں جب آؤں گا تو ہم پھر سے چلیں گے تھیک ہے؟ ( فارس مسکرا کر بولا)
ارے واہ نیکی اور پوچھ پوچھ ( دانیہ خوش ہوتے اسکا بازو پکڑ کر بولی)
یہ منظر مہر نے دیکھا اور وہ تینوں کار پورچ میں آگئے تھے۔مہر کو دیکھتے ہی ڈراںٔیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو مہر نے بیٹھتے ہوئے رک کر ایک نظر فارس کی گاڑی کی طرف ڈالی جو دانیہ کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔ اچانک اسکی نظر اسکی گاڑی پر گںٔی جہاں وہ اسے شکوہ کناں نظروں سے آنکھوں میں نمی لیے دیکھ رہی تھی ۔ اسکے دیکھتے ہی وہ نظریں ہٹاتی گاڑی میں بیٹھ گںٔی اور اسی وقت ڈراںٔیور نے گاڑی مین گیٹ سے نکال دی۔ فارس کی بے چین نظروں نے اسکا تب تک پیچھا کیا جب تک اسکی گاڑی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوگںٔی۔۔۔۔۔
کیا ہوا کہاں کھو گئے؟( دانیہ نے مسکرا کر اسکے آگے چٹکی بجاںٔی)
نہیں کہیں بھی نہیں چلیں ( فارس با مشکل مسکرا کر بولا)
چلو ( دانیہ بھی مسکرا کر بولی)
تو فارس نے گہرا سانس بھرتے ہوئے گاڑی گیٹ سے نکال دی .......
🔥🔥
شکر ہے فارس تم آگںٔے ورنہ میں یہیں انتظار میں آدھی ہو جاتی ( دانیہ اسے تھکا ہارا سا آتا دیکھ کر بولی)
کیوں میرا انتظار کیوں کر رہی تھی؟( فارس وہیں اماں جی کو سلام کرتا صوفے پر ڈھے گیا )
ارے تم نے ہی صبح کہا تھا کہ ہم رات میں اںٔسکریم کھانے جاںٔیں گے ( دانیہ کے مسکرا کر بولنے پر فارس کو اپنی صبح کی کہی بات یاد آںٔی جو اسنے مہر کو سنانے کے لیے بولی تھی اور ساتھ ہی وہ دو نم نشیلی آنکھیں بھی یاد آںٔیں )
اوکے تم تیار ہوجاؤ ہم کھانا کھا کر نکلتے ہیں ( فارس گہرا سانس بھرتا ہوا بولا تو وہ خوشی سے اٹھ کر کمرے میں چلی گںٔی)
مہر کو بھی ساتھ لے کر جانا ( اماں جی کی بات پر اسنے چونک کر انھیں دیکھا)
وہ نہیں چلے گی ( فارس نے نظریں جھکا کر بولا)
کیوں کر رہے ہو یہ ظلم اپنے اور اسکے ساتھ ؟( وہ اسکے بکھرے بال سنوارنے لگیں)
کونسا ظلم اماں جی؟( فارس جان کر انجان بنا)
جیسے میں نہیں جانتی میری جان ۔۔۔۔چلو آؤ کھانا کھالو ( اماں جی اسے اٹھاتے ہوئے بولیں )
پھر سب کو کمروں سے بلوا کر کھانا لگا ۔ مہر بھی خاموشی سے نیچے آگںٔی . فارس نے اسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ جامنی رنگ کی ویلوٹ کے کرتے میں ہم رنگ دوپٹے کو سر پر ٹکاۓ وہ نظریں جھکا کر سب کے ساتھ بیٹھ گںٔی۔ لیکن ایک نظرِ غلط فارس پر نہیں ڈالی....
بھاںٔی آخر ماجرا کیا ہے کبھی وہ اپکو ایسے دیکھتی ہیں کبھی آپ انھیں دیکھتے رہتے ہیں ( عباس شرارت سے سرگوشی کے انداز میں بولا)
جس پر فارس نے مصنوعی گھوری سے نواز کر ایک دھپ اسکی کمر پر لگاںٔی ۔عباس کی کراہ پر سب انکی طرف متوجہ ہوئے پھر عباس کی شرارت والی عادت کو جانتے ہوئے مسکرا کر واپس پلیٹوں پر جھک گںٔے۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد اماں جی نے مہر کو بلا کر ساتھ جانے کے لیے کہا جس پر اسنے انکار کردیا۔ ۔
کیا سب کے لیے اپنے شوہر کو چھوڑ دے گی ؟( اماں جی کا اشارہ سمجھتی حیرت سے انھیں دیکھا جس پر مسکرا کر انھوں نے اثبات میں سر ہلایا)
جاؤ میری بچی سب ٹھیک ہوجاۓ گا ( وہ آج یونی ڈے آتے ہوئے اور صبح دانیہ اور فارس کے ساتھ جانے پر مہر کی اداسی محسوس کرچکی تھیں)
مہر تم بھی چل رہی ہو؟( تیار سی دانیہ اسے کالی چادر میں دمکتے دیکھ کر بولی)
ہاں کیون نہیں جاۓ گی اسکا شوہر جو جارہا ہے تو وہ گھر پر کیا کرے گی ( اماں جی نے اسکے بولنے سے پہلے ہی کہہ دیا جس پر دانیہ زبردستی مسکرا گںٔی۔)
وہ بہت چاہ سے فارس کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوںٔی تھی۔ لاںٔٹ پنک شارٹ سی کاٹن کی کرتی اور ساتھ میں بلو ٹاںٔٹ جینس پہنے گرم شال کو سٹاںٔل سے دونوں کندھوں پر ڈالے بال کھول کر وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
جبکہ مہر نے بس کالی چادر میں خود کو چھپا لیا لیکن سادگی میں بھی اسکی نشیلی آنکھیں اور خوبصورت نقوش واضح ہورے تھے اوپر سے سلکی بالوں کی لٹیں اسکے چہرے پر گرتی بہت خوبصورت منظر پیش کررہی تھیں ۔ فارس کے فریش ہوکر آنے پر وہ تینوں نکل گںٔے تھے۔ مہر کو ان کے بیچ آنا عجیب سا لگ رہا تھا اسی لیے خاموشی سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
فارس جیسے ہی ڈراںٔیونگ سیٹ لر بیٹھا تو دانیہ بھی اسی وقت فرنٹ ڈور کھول کر ساتھ بیٹھ گئی اور یہ سب دیکھتی مہر ضبط سے بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔
پلیز مہر ماںٔنڈ مت کرنا مجھ سے پیچھے نہیں بیٹھا جاتا ۔۔۔( دانیہ کے مسکرا کر کہنے پہ مہر وہ بھی زبردستی مسکرا دی)
فارس نے دانیہ کی اس حرکت پر لب بھینچ کر بیک مرر مہر پر سیٹ کیا جو کہ منہ موڑے باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
چلو بھی ( اسے سوچتا دیکھ دانیہ بولی تو وہ بھی خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر گیا۔)
رستے میں دانیہ اس سے باتیں کرتی جارہی تھی جسکا وہ جواب دے رہا تھا لیکن نظریں بیک مرر میں اس پری پیکر کے چہرے پر ہی ٹکی تھیں جو سب سے لاتعلق بنی باہر دیکھ رہی تھی ۔ اچانک ہی فسرس کو وہ وقت یاد آگیا جب مہر پہلی بار اسکی گاڑی میں بیٹھی تھی اور اسی کی وجہ سے اسکا ناخن مڑ گیا تھا بے اختیار ہی اسکے لبوں پر نامحسوس سی مسکراہٹ آگںٔی. گاڑی ایک آںٔسکریم پارلر کے آگے روکی۔۔۔۔۔
کونسا فلیور کھاؤ گی تم ؟( دانیہ کودیکھ کر پوچھا)
جو ہمیشہ کھاتی ہوں یار سٹرابیری ( دانیہ مسکرا کر بولی۔)
تو فارس نے سوالیہ نظروں سے بیک مرر سے دیکھا جہاں وہ سب نظر انداز کیے باہر دیکھ رہی تھی.
تم کونسا فلیور لوگی مہر ؟( اسے چپ دیکھ کر دانیہ نے پوچھ لیا)
نہیں میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ۔۔۔میں نہیں کھاؤ نگی کچھ بھی ( مہر نے مسکرا کر سہولت سے انکار کر دیا تو دانیہ بھی کندھے آچکا کر آگے موڑ گںٔی۔ )
لیکن فارس اسکے منع کرنے کی وجہ جانتا تھا۔۔۔۔۔
یہ لڑکی خود بھی پاگل ہوگی اور مجھے بھی کرے گی ( سوچتا ہوا گاڑی سے نکل گیا )
کچھ دیر بعد واپس آیا تو ہاتھ میں تین کپ تھے ......
ارے مہر نے تو منع کردیا تھا( دانیہ کو اسکا مہر کے لیے لانا ایک آنکھ نہ بھایا)
اووو سوری میں بھول گیا تھا خیر اب تو آگںٔی ہے لیے کھا لو ( کہتے ہوئے اسنے کپ پیچھے کردیا).
میں نے کہا نا کہ میری طبیعت نہیں ٹھیک ( اسکے کپ دینے پر تپ کر بولی )
لیکن بیک مرر میں اسکی گھورتی سیاہ آنکھوں میں دیکھ کر غصے سے کپ لےلیا ۔۔۔۔
یہ ٹیسٹ کرو فارس ( دانیہ اپنے چمچ کو اسکی طرف بڑھا کر بولی تو ناچار اسے اسکے ہاتھوں سےکھانی پڑی )
مہر انکی اس قدر کھلی بےباکی پر نہایت ضبط سے دیکھ رہی تھی
چلو اب اپنی والی بھی ٹیسٹ کرواؤ ( دانیہ کی فرماںٔش پر فارس نے اپنا کپ اسکے آگے کردیا)
ارے تم خود کھلا دو نا پلیز ( اسکے اسرار پر فارس نے چمچ بھر کر اسکی طرف بڑھا دی جسے وہ خوشی سے کھاگںٔی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد فارس نے گاڑی آگے بڑھا دی لیکن بیک مرر میں پیچھے بیٹھی اپنی نازک سی بیوی کے آنکھوں میں نمی اسے صاف دکھ رہی تھی.۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچ کر دانیہ اسے گڈ نائٹ کہتی کمرے کی طرف بڑھ گںٔی۔ مہر کے ہاتھوں میں آںٔسکریم کا بھرا ہوا کپ ویسے ہی پگھل گیا تھا۔ جسے اسنے فارس کے سامنے کچن میں جاکر پھینک دیا تھا۔۔۔۔
رو کیوں رہی تھی؟( کمرے میں اسکے آتے ہی سونے کی تیاری کرتے دیکھ پوچھا).
کیا مطلب میں کب روںٔی ؟( مہر بلکل انجان بن گںٔی)
فارس نے اسکے اس طرح رنگ بدلنے پر ایک گہرا سانس لیا.......
مہر بھی اسے کچھ نا بولتا دیکھ سونے کے لیے لیٹ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھا اور سیگریٹ کو ہونٹوں میں دبا کر ٹیرس پر کھڑا ہوگیا ۔ اسکے جاتے ہی مہر کی آنکھوں سے اشک نکل کر تکیہ بھگو گںٔے۔۔۔۔
میں کیسے اپکو کسی اور کا ہوتے دیکھوں گی ..........
♥️♥️♥️♥️
گڈ جاب دانیہ مجھے تم سے یہی امید تھی ( فون سے تیمور کی مسکراتی آواز پر دانیہ کھکھلا کر ہنسی)
یہ تو کچھ بھی نہیں تیمور تم بس اب دیکھتے جاؤ کہ کیا ہوتا ہے۔ بس مجھ سے تو اور انتطار نہیں ہوتا( دانیہ نے مسکرا کر پھر بےچینی سے کہا).
انتظار تو مجھ سے بھی نہیں ہوتا کہ کب مہر میرے پاس ہو اور میں اس سے اپنے طریقے سے حساب لوں ( تیمور کی بات پر دانیہ کا کھنکدار قہقہہ لگا)
لگتا ہے بہت کچھ سوچ کر بیٹھے ہو ( دانیہ کی بات پر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگںٔی)
تمھاری سوچ سے بھی زیادہ بس اس وقت کا انتظار ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آکر دانیہ نے سب سے پہلے تیمور کو اپنے کارنامے کے بارے میں بتایا اور پھر آگے کا پروگرام ترتیب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔥🔥
فارس جب کمرے میں واپس آیا تو مہر سوچکی تھی۔ اسکے چہرے پر مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان اسے کنفیوز کرگںٔے۔ وہ آہستہ سے چلتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔۔۔۔
جب محبت نہیں کرتی تو روتی کیوں ہو جانِ فارس۔۔۔ ( جھک کر احتیاط سے لیکن پورے استحاق سے اسکے ماتھے پر لب رکھ دںٔیے)
وہ سوںٔی ہوںٔی بلکل معصوم بچی لگ رہی تھی جسے دیکھتے ہی فارس کے اداس لب مسکرا اٹھے ۔۔۔۔۔۔۔
"""بس ۔۔۔۔بس خدا کے لیے بس کریں اور تماشا مت بناںٔیں میرا ۔۔۔۔۔کاش کہ آپ میری زندگی میں نہ آئے ہوتے ۔۔۔۔کاش کہ میں آپ سے نہ ٹکرائی ہوتی۔۔۔ کاش کہ آپ نہ مجھے دھوکا دیتے ۔۔۔۔یا کاش کہ میں نہ وہ سب دیکھتی """"( اسکے کہے گںٔے الفاظ جب کانوں میں گونجے تو مسکراتے لب خود بہ خود ہی سکڑ گںٔے۔۔۔۔۔۔
کاش کہ مہر تم مجھے جان پاتی ۔۔۔۔اب فارس تمھیں تب ہی سمیٹے گا جب تم خود اپنی محبت کا اظہار کروگی۔۔۔۔ ( اسکے بے خبر سوۓ ہوۓ وجود کو دل میں اتارتا سوچ کر وہاں سے ہٹتا چلا گیا )
♥️♥️♥️♥️
VOCÊ ESTÁ LENDO
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasiaek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔