کیا کررہی ہو دانیہ ہوش میں تو ہو؟( مسرت بیگم جیسے ہی دانیہ کے کمرے میں آںٔیں تو کمرے کی حالت دیکھ کر ہی چکرا گںٔیں جہاں بیڈ شیڈ اور کشن ان کے پیروں میں پڑے ہوۓ تھے اور اب وہ ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں اٹھا کر پھینک رہی تھی)
اتنی انسلٹ موم اتنی انسلٹ میری کبھی نہیں ہوںٔی جتنی آج فارس نے کی ہے اسنے مجھے اس دو ٹکے کی مڈل کلاس لڑکی کے لیے رجیکٹ کردیا ۔میں ۔۔۔۔میں خود ہی کو اپنی نظروں میں اتنا چھوٹا محسوس کر رہی ہو موم۔۔۔۔۔( دانیہ پاگلوں کی طرح چلا چلا کر بول رہی تھی)
مسرت بیگم نے جلدی سے دروازہ بند کیا تاکہ کسی کو آواز نہ آ ۓ پھر چلتے ہوۓ دانیہ کے پاس آ ںٔیں اور اسے مشکلوں سے قابو کرتیں بازو سے تھام کر بیڈ پر بٹھایا اور جگ سے پانی لا کر گلاس اسکے لبوں سے لگایا جسکے اسنے دو گھونٹ پینے کے بعد پیچھے کردیا۔۔۔۔۔۔
تم پریشان مت ہو میری جان ہم سب بات کریں گے اسے طلاق دینی ہوگی اس لڑکی کو ( مسرت بیگم اسکا ہاتھ تھام کر بولیں)
نہیں موم وہ نہیں دے گا کبھی اسے طلاق وہ محبت کرتا ہے اس سے اسنے تین سال پہلے نہ چھوڑا اسے تو اب بھی نہیں چھوڑے گا ( دانیہ روتے ہوۓ سر ہاتھوں میں گرا کر بول رہی تھی)
لیکن میری جان۔۔۔۔۔
ن۔۔نہیں موم نہیں م۔۔۔۔میں برباد گردوں گی مہر کو میں اسے سکون کا ایک سانس بھی نہیں لینے دونگی ۔ ج۔۔۔۔۔جس کے لیے میں نے تین سال انتظار کیا وہ ا۔۔۔اسے ایک جھٹکے میں لے گںٔی ۔۔۔۔م۔۔۔میں نہیں چھوڑوں گی مہر کو موم نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔( دانیہ ہچکیوں میں بامشکل بولی اور پھر زور زور سے رونے لگی ۔ مسرت بیگم نے بھی اسے رونے دیا تاکہ اپنے دل کا غبار نکال لے ۔ان سب باتوں میں دانیہ یہ بھول رہی تھی کہ جسکا انتظار اسنے کیا اسے کس طرح اسنے تین سال پہلے اپنی مکاری سے توڑا تھا ۔)
🔥🔥
مہر ۔۔۔۔مہر پلیز پک اپ دا کال۔۔۔۔
وہ کب سے کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا مہر کو کالز ملا رہا تھا لیکن اسکا نمبر مسلسل بند جارہا تھا۔۔۔۔
آخر تھک کر وہ بیڈ پر بیٹھ گیا اور سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔۔۔۔۔
ایم سوری مہر ایم سوری۔۔۔ اس وقت تمھیں کسی اور کے ساتھ دیکھ کر میں خود پہ قابو نہ رکھ سکا اور ہر بار کی طرح اس بار بھی تمھیں تکلیف دے گیا ۔لیکن میں تمھیں اپنے پاس لے آؤں گا تم چاہے غصہ کرنا یا کچھ بھی لیکن میرے پاس آجاو مہر۔۔۔۔۔۔( فارس بے بسی سے مہر سے مخاطب تھا آخر جب کسی طور بھی سکوں نہ آیا تو اپنے بیڈ کے ساںٔڈ ٹیبل کے دراز سے اپنی پلز نکال کر پانی کے ساتھ حلق سے اتار لیں).....
♥️♥️♥️♥️
فارس کی جب آنکھ کھلی تو صبح کے 9 بج رہے تھی ۔ نیند کی گولیوں سے کچھ دیر وہ سوگیا تھا ۔سنڈے ہونے کی وجہ سے اسکا آج آف تھا ۔ فریش ہوکر وہ نیچے آگیا ۔ کل رات کی وجہ سے پورے گھر میں سناٹا تھا ورنہ عباس نے سنڈے کے دن الگ ہی رونق لگاںٔی ہوںٔی ہوتی تھی ۔ فارس نے ایک گہرا سانس لے کر خود کو رلیکس کیا کیونکہ اسے اب کسی بھی طرح گھر والوں کو منانا تھا اور وہ جانتا تھا کہ سب سے آسان کسے منانا ہے اسی لیے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ بجنے کی آواز پر اماں جی نے اجازت دی لیکن فارس کو آتا دیکھ فوراً منہ موڑ لیا ۔ فارس دروازہ بند کرتا انکے بیڈ کے پاس آگیا جہاں وہ کمبل اپنے پیروں تک کیے بیٹھی ہوںٔیں تھیں ۔ فارس انکے قدموں میں ہی بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھ تھام لیے جسے انھوں نے جھٹکے سے چھوڑا لیا ۔ فارس نے اب کے انکے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر انھیں مخاطب کیا۔۔۔۔۔
اماں جی ۔۔۔( فارس کی بھاری آواز پر اماں جی ہنوز منہ موڑے بیٹھی رہیں)
انھیں کچھ نہ بولتا دیکھ فارس نے پھر سے انھیں پکار کر بات شروع کی۔۔۔۔
اماں جی ۔۔میں جانتا ہوں میں نے بہت برا کیا ہے مہر کے ساتھ لیکن اماں جی میں اس سے بے انتہا محبت کرتا ہوں.....
یہ محبت ہے تمھاری اسکو سارے زمانے میں بدنام کردیا تم نے ؟( اسکی بات پر اماں جی منہ موڑے غصے میں بولیں)
آپ کا غصہ جاںٔز ہے لیکن میں نے جو بھی کیا سب مجبوری میں کیا مجھے اور کوںٔی رستہ نظر نہ آیا۔۔۔ پندرہ دن بعد اسکی شادی تھی اماں جی اور میں اسے کسی اور کا ہوتا نہیں دیکھ سکتا ۔ مہر میرا عشق ہے آج سے نہیں بلکہ تین سال پہلے سے
( فارس کے انکشاف پر اماں جی نے حیرت سے اسے دیکھا جو نظریں جھکاۓ بیٹھا تھا )
انھیں کچھ نہ بولتا دیکھ فارس مزید بولا......
تین سال پہلے جن دنوں میں نے اسکولر شپ کے لیے اپلاۓکیا تھا انھیں دنوں ۔۔۔۔۔( اور پھر فارس انھیں شروع سے لے کر اب تک سب کچھ بتاتا چلا گیا جسے سن کر اماں جی کو شدید حیرت ہوںٔی ۔ انکا عزیزوجان پوتا اتنی اذیت اکیلے ہی پردیس میں تین سال تک سہتا رہا اور کسی کو کان وکان خبربھی نہ ہوںٔی ۔اسکی تکلیف کو محسوس کرکے اماں جی کی آنکھیں نم ہوگںٔیں ۔۔۔۔
میرا بچہ مجھ سے کہا ہوتا میں تیرے لیے اسے مانگ کر لاتی چاہے جیسے بھی ( اماں جی اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر بولیں جسکی آنکھیں اس وقت ضبط سے لال تھیں )
میں نے جب آپ سے سنا کہ وہ کسی اور سے منسوب ہوگںٔی ہے اماں جی ت۔۔۔۔تو مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا ایسا لگا کہ کوںٔی میری روح کھینچ کر لے جارہا ہے میرے جسم سے اماں جی میں۔۔۔۔۔
بس میری جان بس کر میں ہو اپنے بچے کے ساتھ میں لاؤنگی اسے اپنے بچے کے لیے۔۔( اماں جی نے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے پاس اوپر بٹھایا تو وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا ۔اماں جی محبت سے اسکے سر میں ہاتھ پھیر رہی تھیں اس وقت وہ انھیں 28 سال کا جوان فارس نہیں بلکہ وہ 6 سال کا چھوٹا سا فارس لگ رہا تھا جو اپنی چیز کے لیے ان کے آگے ضد باندھ لیتا تھا۔۔۔۔۔
اماں جی آپ ڈیڈ کو مناںٔیں ہم اسے کل ہی لے آںٔیں گے وہ بہت تکلیف اور مشکل میں ہے میری وجہ سے میں اسے ہراذیت سے نکالنا چاہتا ہوں اپنی ہر غلطی کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔
( فارس انکی گود میں سر رکھے ہوۓ ہی بولا)
فکر نہیں کرو میری جان شاہنواز میرا بیٹا ہے وہ میری کسی بات سے انکار نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔(اماں جی محبت سے بولیں)
پھر چلیں ابھی بات کرتے ہیں۔ ڈیڈ آج گھر پر ہی ہیں چلیں بس ( فارس بچوں کی طرح ان سے بولا)
صبر میرا بچہ (اماں جی اسکی جلد بازی پر مسکرا کر بولیں)
نہیں اماں جی بس چلیں اور منا کے ہی اٹھنا ہے آپ نے( بولنے کے ساتھ ہی فارس انھیں سہارا دیتے ہوا اٹھا چکا تھا اماں جی بھی مسکراتی ہوںٔیں اٹھ گںٔیں انکا دل اب کچھ حد تک مطمئن تھا کہ مہر کے دل میں فارس کے لیے کوشش کرنے پر گنجاںٔش بن سکتی تھی ۔۔۔۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت آفس کی کوںٔی فاںٔل دیکھ رہے تھے جب دروازہ ناک ہونے کی آواز پر شاہنواز صاحب نے انھیں اندر آنے کی اجازت دی تھی لیکن اماں جی کو دیکھ کر حیران ہوگںٔے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ انھیں خود ہی کمرے میں بلاتیں تھیں لیکن فارس کو ان کے پیچھے دیکھ کر انھیں باخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ بات کیا ہے پھر بھی اماں جی کی وجہ سے خاموش رہے ۔
شاہنواز میں جو بھی بات کروں گی اسے نہایت ٹھنڈے اور کھلے دماغ سے سننا ہے تم نے۔۔۔( اماں جی اور فارس کمرے میں موجود تھری سیڑر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے)
حکم کریں اماں جی ( شاہنواز صاحب فرمانبرداری سے بولے اسی وقت آمنہ بیگم بھی کمرے میں آگںٔیں اور اماں جی کے سامنے والے صوفے پر ٹک گںٔیں )
دیکھو شاہنواز جو ہونا تھا ہوگیا اور بلکل اچھا نہیں ہوا لیکن اسے نہ تم بدل سکتے ہو نہ ہم ۔۔۔میں آج فارس کی دادی نہیں بلکہ ایک عورت بن کر بات کروں گی ۔فارس نے جذبات میں آکر اس بچی کی زندگی خراب کی ہے لیکن اب ہمیں مل کر اس بچی کا نقصان بھرنا ہے میں جانتی ہو اسکا کوںٔی کفارہ نہیں لیکن ہم سے جتنا ہوسکا ہم کریں گے ۔( اماں جی نے اتنا کہہ کے فارس کی طرف دیکھا جو نظریں جھکاۓ سب سن رہا تھا پھر شاہنواز صاحب اور آمنہ بیگم کو دیکھ کر بات دوبارہ جاری کی)
ہم سب مہر کو لینے جاںٔیں گے اور عزت سے اسے اپنے گھر کی بہو بنا کر لاںٔیں گے ( اماں جی کی اس بات پر خاموش شاہنواز صاحب بول اٹھے)
آپ کو کیا لگتا ہے اماں جی کہ آپ کے پوتے نے ایساکام کیا ہے جو وہ لوگ اسے اپنی بیٹی دیں گے؟
شاہنواز صاحب کی بات پر فارس نے انھیں دیکھا جن کی آنکھوں میں خفگی صاف دیکھاںٔی دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کے ماں باپ ہیں شاہنواز انکار کرکے اپنی بچی کچی عزت نہیں گنواںٔیں گے اور ہمارا بھی فرض ہے کہ اس بات کو مزید نہ بڑھاںٔیں کیونکہ نہ ہمیں کچھ حاصل ہوگا نہ انھیں سواۓ رسواںٔی کے ( اماں جی کی بات پر آمنہ بیگم خوش ہوگںٔیں تھیں کیونکہ انھیں مہر شروع سے ہی پسند تھی جب کہ شاہنواز صاحب ایک گہرا سانس بھر کے رہ گںٔے)
ٹھیک ہے اماں جی ہم تیار ہیں مہر کو اپنی بہو بنانے کے لیے کیونکہ اس سب میں اس بچی کی کوںٔی غلطی نہیں ہے ( شاہنواز صاحب کی بات پر فارس کو ایسا لگا کہ اسکے تین سال کے ہجر کو وصل کی راحت مل گںٔی ہو۔مہر اسکی ہے اور اسکی پناہوں میں آنے والی ہے یہی احساس ہی اسکے لیے اتنا دلفریب تھا کہ وہ بیان نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔۔۔ ۔
لیکن باہر کھڑی مسرت بیگم کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا انھوں نے جب اماں جی فارس اور انکےپیچھے آمنہ بیگم کو شاہنواز صاحب کے کمرے میں جاتا دیکھا تو سمجھ گںٔیں تھیں کہ بات کچھ معمولی نہیں ہے لیکن یہ بات ہوگی انھیں اندازہ نہیں تھا وہ تو سمجھیں تھیں کہ اس لڑکی کو طلاق دلواںٔیں گے لیکن یہاں تو صلاح کی بات ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
♥️♥️♥️♥️
اگلے دن سب مہر کے گھر جانے کو تیار تھے۔ دانیہ کو تو جب پتہ چلا کہ سب اسکے گھر جارہے ہیں تو اس سے خود پر قابو نہیں ہوا اور غصے میں مسرت بیگم کے منع کرنے کے باوجود گھر سے گاڑی لے کر نکل گںٔی ۔ فارس کی تو خوشی کا ٹھکانہ ہی نا تھا جب کہ شاہنواز صاحب اس سے ناراض ہی تھے اور آمنہ بیگم بھی لیکن فارس نے آمنہ بیگم کو منا لیا تھا ماں تھی زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکیں اور تب جب اسے اپنی غلطی پر پچھتاوا بھی تھا اور اسے سدھارنا چاہتا تھا۔ ۔۔۔۔۔
گاڑی جیسے ہی ان کے گھر کے پاس رکی تو سب باہر نکلے ۔ ان کے گھر کے باہر تالا لگا دیکھ فارس کا سانس ہی اٹک گیا ۔ پڑوس والوں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ دو دن پہلے شاہنواز صاحب کو ہرٹ اٹیک ہوا تھا جس کی وجہ سے سب ہسپٹل میں ہی ہیں یہ سن کر شاہنواز صاحب نے ملال بھری نظروں سے فارس کو دیکھا جو ہونٹ بھینچے سنجیدگی سے کھڑا تھا ۔ ہسپٹل کا نام پوچھ کر وہ سب وہیں کے لیے روانہ ہوگںٔے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپٹل پہنچ کر فارس نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر سے معلومات لی چونکہ کچھ ڈاکٹرس اسے جانتے تھے کیونکہ وہ اپنی ہاؤس جاب اسی ہسپٹل میں کرچکا تھا ۔ ڈاکٹر کے بتانے پر وہ لوگ مطلوبہ وارڈ کی جانب بڑھ گںٔے ۔ باہر ہی روبینہ بیگم اور رباب انھیں کمرے سے نکلتی ہوںٔی نظر آںٔیں ( رقیہ بیگم کل کی فلاںٔٹ سے زبردستی اسفند ملک کو لے گںٔیں تھیں انکے بہت سمجھانے پر بھی وہ بعض نہ آںٔیں تھیں کچھ اسفند ملک کو بھی اپنی عزت اور بیٹی کا خیال تھا اور نہ ہی کسی نے انھیں روکنا ضروری سمجھا ) ۔ فارس کو دیکھ کر روبینہ بیگم وہیں رک گںٔیں ۔لیکن اسی وقت فارس کو اسکے ہسپٹل سے کال آگںٔی ۔ ایمرجنسی ہونے کی وجہ سے اسکا اسی وقت وہاں جانا بے حد ضروری تھا۔۔۔۔۔
ڈیڈ ہسپٹل سے کال آرہی ہے ایمرجنسی ہوگںٔی ہے اور میرا جانا لازمی ہے میرے بغیر آپریشن سٹارٹ نہیں ہوسکتا ۔( فارس کی بات پر شاہنواز صاحب نے اسے جانے کی اجازت دے دی )
اگر یہاں کوںٔی بھی مسلۂ ہو تو آپ سب مجھے کال کردی جںٔیے گا ( فارس بولتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہسپٹل سے نکل گیا ).......
آپ واجد صاحب کے ساتھ ہیں؟ ( آمنہ بیگم نے روبینہ بیگم سے پوچھا )
جی میں انکی بہن ہوں اور اپکے بیٹے نے کیا کم کی جو آپ سب بھی آگںٔے ہیں ؟( روبینہ بیگم دبے دبے غصے میں بولیں )
بہن آپ غلط سمجھ رہی ہیں پلیز اندر آںٔیے ہم بات کرنے آںٔیں ہیں ( آمنہ بیگم تحمل سے بولیں )
ہمیں آپ سے کوںٔی بات نہیں کرنی خدارا چلے جاںٔیے ( روبینہ بیگم روتے ہوۓ بولیں)
ہم جانتے ہیں بیٹے کہ غلطی ہماری ہے لیکن ایک بار اندر آکر بات سن لو پھر فیصلہ تم سب کا ہوگا ( اس بار اماں جی بیچ میں بولیں اور روبینہ بیگم بھی انکی عمر کا لحاظ کرتیں خاموشی سے ساتھ چل دیں)
چلیں اماں جی اندر ( شاہنواز صاحب بولتے ہوۓ کمرے کے اندر داخل ہوگںٔے۔ جہاں واجد صاحب آنکھیں موندے لیٹے ہوںٔے تھے ۔ مہر ، سارہ بیگم پاس ہی بیٹھی کچھ پڑھ رہیں تھیں ۔ ان سب کو اندر آتا دیکھ مہر کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے لیکن ان سب کا آنا کچھ اچھا نہیں تھا ۔
شاہنواز صاحب آگے بڑھے اور دھیر سے واجد صاحب کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر انھیں پکارا ۔ ان کے پکارنے پر واجد صاحب نے آنکھیں کھول کر اجنبی نظروں سے انھیں دیکھا ۔ اماں جی نے آگے بڑھ کر مہر کو گلے سے لگایا ۔ آمنہ بیگم نے سارہ بیگم سے اپنا تعارف کروایا تو وہ بھی پریشان ہوگںٔیں کیونکہ واجد صاحب کی طبعیت بہت مشکلوں سے سنبھلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
واجد صاحب میں شاہنواز ہوں فارس کا والد اور یہ میری والدہ اور ساتھ زوجہ ہیں ۔ ( شاہنواز صاحب کے مکمل تعارف پر واجد صاحب کے زخموں سے نںٔے سرے سے خون رسنے لگا اور وہ چہرا موڑ گںٔے)
YOU ARE READING
TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅
Fantasyek maghror shehzade ki kahani jo masoom si ladrki ki aankho ka dewana hojata ha... Lkn apni anaa k hatho majbor ho kr dono bichar jate hn۔۔۔۔۔