part 24 (SPECIAL EPI)

755 42 10
                                    

رستے میں انھوں نے رانیہ کے لیے تحفہ خریدا ۔ اس کے بعد گاڑی ایک بڑے ہال کے آگے رکی۔ دونوں ساتھ میں ہی گاڑی سے نکلے تو سامنے اینٹری پر ہی عمار کسی سے محوِ گفتگو نظر آیا۔ فارس اسے دیکھتے ہی اسکی طرف بڑھ گیا تو مہر بھی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے پیچھے چل دی۔۔۔۔۔۔
سنیں ۔۔۔۔( فارس کچھ ہی آگے گیا تھا کہ مہر کے خاص بیویوں والے طرزِ مخاطب پر پلٹ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا )
وہ میرے سینڈل کی ہیل بہت اونچی ہے تو مجھ سے چلا نہیں جارہا ( معصوم سی شکل بناتی ہوںٔی وہ اسے بہت کیوٹ لگی تھی)
لیکن پھر بھی چہرے پر سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے گہرا سانس لیتا پیچھے آیا۔۔۔۔۔
ولیمے پر کیا سلیپرز پہنے تھے ؟.....
نہیں بلوک ہیل تھی اس میں چلنا مشکل نہیں ہوتا ...( اسکے الٹے سوال پر جھٹ سے جواب دیا )
اچھاااا۔۔۔۔اب میں کیا خدمت کرسکتا ہوں آپکی کہو تو گود میں اٹھا کر ل۔۔۔۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں کیسی باتیں کر رہیں ہیں بس اپنا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔( اسکی بات پر سرخ ہوتی اپنی بات کہنے لگی لیکن اس میں بھی دشواری پیش آرہی تھی)
ہاں ۔۔۔کیا ہاتھ....( تھوڑا اسکے حسین چہرے کے قریب جھک کر سرگوشی میں پوچھا)
وہ اپنا ہاتھ دے دیں تاکہ میں گر نا سکوں ( آنکھیں میچ کر کہتی لمبا سا سانس لیا )
اسی ہاتھ کو دوبارہ مانگ رہی ہو جسے چھوڑ گںٔیں تھیں ( اپنی بات سے بہت کچھ باور کرواتے ہوئے اسکو نظریں جھکانے پر مجبور کرگیا )
فارس ۔۔۔۔( اسی وقت پیچھے سے عمار کی آواز آںٔی تو اسکی طرف آنے کا اشارہ کرتا نظریں جھکائے کھڑی اپنی بیوی کا نازک ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں پکڑ لیا .جس پر مہر نے اچانک سر اٹھا کر اسے دیکھا)
لیکن میں تم جیسا نہیں ہوں ۔۔۔چلو ( اور آہستہ سے اسکے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا )
عمار سے مل کر ہی سامنے رمشا نظر آگںٔی ۔ ان دونوں پر نظر پڑتے ہی اسنے بے اختیار دل میں ماشاء اللّٰہ کہا اور مسکراتی ان کی طرف آگںٔی۔۔۔۔
السلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ؟( فارس کے ساتھ لگ کر پوچھا)
واعلیکم السلام گڑیا میں بلکل ٹھیک تم کیسی ہو ؟( اسکے سر پر بھاںٔیوں جیسی شفقت سے پیار دیا)
میں بلکل فٹ اور بھابھی جی کیسی ہیں آپ مجھے تو بلکل ٹھیک لگ رہی ہیں ( رمشا شرارت سے اسکے گلے لگ کر دونوں کے پکڑے ہوئے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتی ہوںٔی بولی)
ٹھیک ہوں میں ( وہ اسکے بھابھی بولنے پر ہی بری طرح شرما گںٔی تھی ۔ اسکے چہرے کے حسین رنگ فارس نے بہت شوق سے دیکھے تھے)
ہاتھ چھوڑ دیں اب ( اپنا ہاتھ اسکی مضبوط پکڑ سے کھینچتی ہوںٔی بولی لیکن ناکام )
کیوں چھوڑ دیں پکڑے رہنے دے بہت اچھے لگ رہیں دونوں ساتھ ماشاء اللّٰہ سے ( رمشا اسکے بولنے پر فوراً ڈپٹ کر بولی جس پر فارس تو مسکرا دیا البتہ مہر گھبرا گںٔی)
تو کیا رانیہ کے گھر والوں سے ایسے ملوں گی( اپنے پکڑے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر بولی)
کیوں انھیں نہیں پتا کیا نیولی ویڈ کپل کیسا ہوتا ہے ( فارس کے اچانک بولنے پر جہاں رمشا کا قہقہہ لگا وہیں مہر سٹپٹا گئی)
راںٔٹ بھاںٔی بجا فرمایا اپنے چلیے آںٔیں رانیہ سے مل لیتے ہیں ورنہ کوئی بعید نہیں کہ نیچے آجاۓ ( رمشا رانیہ کی طرف اشارہ کرکے بولی جو فروزی اور پنک رنگ کے خوبصورت لہنگے میں بامشکل اسٹیج پر بیٹھی تھی اسکی بات پر دونوں مسکراتے ہوئے اسکی طرف بڑھ گںٔے)
انھیں دیکھتے ہی رانیہ جھٹ سے کھڑی ہوگئی۔ اور سیف( منگیتر) بیچارہ بس اسے دیکھ کر رہ گیا .....
فارس آگے بڑھ کر سیف سے ملا اور رانیہ تو دلہن ہونے کا خیال کیے بغیر مہر کے گلے لگ گںٔی۔۔۔۔۔
کیسی کمینی ہے کب سے تیرا ویٹ کررہی تھی لیکن تو نہیں آںٔی جلدی.....
خدا کا خوف کر آ تو گںٔی ہوں اب کیا تیری منگنی کا ٹینٹ بھی میں لگاتی ( اسکے گلے پر مہر بھی کمال ڈھٹاںٔی سے بولی)
السلام علیکم فارس بھائی کیسے ہیں آپ؟( فارس کو دیکھتے ہی فوراً سلام ٹھوک دیا)
واعلیکم السلام میں بکل ٹھیک ہوں گڑیا ۔۔۔ اور منگنی کی بہت بہت مبارک ہو ( اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر بولا اور اسکے لیے لیا ہوا تحفہ بھی آگے بڑھا دیا جسے تھام کر وہ مسکرا کر شکریہ بولی۔ مہر نے بھی سیف کو سلام کیا)....
بھاںٔی آپ کو عمار بلا رہے ہیں ( رمشا کے مخاطب کرنے پر وہ معذرت کرتا اسٹیج سے اتر گیا)
ہاں تو بے غیرت ٹینٹ نا لگاتی لیکن آکر تھوڑا میری تیاری میں ہاتھ ہی بٹا دیتی لیکن یہاں تو محترمہ کی اپنی تیاری بڑی فرست سے کی گںٔی ہے بھںٔی کیا بات ہے ( وہیں سے بات شروع کرکے آخر میں شرارت سے بولی تو مہر مسکرا دی)
نہیں یہ تو اماں جی اور آنٹی نے کروا دیا زبردستی ( اسکے جواب دینے پیچھے سے رمشابھی لپک کر آگںٔی)
سب چھوڑ رانیہ تیرا کیا ہاتھ بٹاتی آکر آج تو لوگ خود ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آۓ ہیں ( رمشا کے چھیڑنے پر رانیہ کا زور کا قہقہہ لگا تو مہر کا چہرہ خفت سے لال ہوگیا)
رانیہ کچھ تو خدا کا خوف کرلو دلہن ہو تم ( اسی وقت رانیہ کی امی اسٹیج پر آکر بولیں تو مہر فوراً آگے ہوکر ان سے ملی)
دلہن ہوں تو کیا منہ میں گٹکا ڈال دوں ( اسکی قینچی جیسی چلتی زبان پر جہاں اسکی ماں نے سر پکڑ لیا وہیں سیف اپنے مستقبل کا سوچتا پریشان ہوگیا لیکن اس دل کا کیا کرتا جو اس ہوا ہواںٔی قسم کی لڑکی پر آگیا تھا۔۔۔۔۔۔
آپ ٹینشن نہیں لیں آنٹی ہم دیکھتے ہیں اسے ( انھیں پریشان دیکھ کر مہر فوراً سے بولی تو وہ مشکور نظروں سے دیکھتی مہمانوں کی طرف بڑھ گںٔیں)
ارے میں کیا عجاںٔب گھر میں رکھا ہوا نمونہ ہوں جو دیکھتے ہیں ( انکی بات پر ہتھے سے اکھڑ کر بولی لیکن رمشا اور مہر نے بامشکل اسے واپس سیف کے ساتھ بٹھایا. )
اس سے کم بھی نہیں ہے ( رمشا نے اسکے پھولے ہوئے سرخ گالوں پر پیار سے چٹکی کاٹ کر بولی)
آاہ ہ ظالم کہیں کی ( اسکی محبت بھری چٹکی پر مصنوعی درد سے چلا کر بولی)
خدارا لڑکی آہستہ ( اسکے پھر سے چلانے پر مہر نے ڈپٹ پر بولا تو اس بار ڈھیٹوں کی طرح دانت نکال کر مسکرا دی۔۔۔
اس کے بعد رانیہ اور سیف نے ایک دوسرے کو رنگ پہناںٔی۔ مہر نے متلاشی نظروں سے جب فارس کو دیکھا تو وہ عمار اور کچھ اور لڑکوں کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مگن تھا۔ اسکی سب سے نمایاں اور خوبصورت شخصیت پر مہر نے دل میں اسکی نظر اتاری اور شرما کر رمشا کی طرف آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد وہ دونوں کچھ اور دیر بیٹھے پھر سب سے مل کر واپسی کے لیے نکل گںٔے۔ واپسی میں انھیں رات کے دو بج چکے تھے ۔ گاڑی میں مہر کے حسین چہرے پر مسلسل ایک مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
ماشاء اللّٰہ بیٹا تمھارا شوہر بہت نیک اور سلجھا ہوا ڈاکٹر ہے میرے دل کا آپریشن اسی نے کیا تھا اللّٰہ تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے ( منگنی میں اسے رانیہ کی ایک رشتہ دار مل گںٔیں تھیں جنھیں فارس کو دیکھ کر جیسے ہی اسکی بیوی کا پتا چلا تو جھٹ سے اسکے پاس آگںٔیں اور ساتھ ہی بہت سی دعاںٔیں دے ڈالیں )
انکی دعا یاد کرکے مہر کے لب مسکراۓ جارہے تھے۔۔۔۔۔
فارس ڈراںٔیونگ کرتے ہوئے بار بار اسکے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ رہا تھا اور وہ ننھا سا گڑھا بار بار اسکی توجہ اپنی سمت کھینچ رہا تھا ۔ وہ آج اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اسکادل بے اختیار ہوا جارہا تھا ۔ دونوں اس سرد رات میں اپنے اپنے حسین خیالوں میں گم تھے کہ اچانک فارس کو اپنے پیچھے کسی گاڑی کا شبہ ہوا ۔ لیکن جب تک وہ سمجھتا وہ گاڑی اسپیڈ بڑھا کر جھٹ سے انکے سامنے آکر رکی۔ اسکے اچانک سامنے آنے پر فارس نے فوراً بریک لگاںٔی جس سے ایک زبردست قسم کا جھٹکا لگا اسنے بروقت مہر کا بازو پکڑ لیا تھا ورنہ اسکا سر بری طرح ڈیش بورڈ سے لگ جاتا۔۔۔۔
ک۔۔ کیا ہورہا ہے یہ ؟( اپنے آگے گاڑی اور اس جھٹکے پر گھبرا کر بولی۔ اسے فوراً تین سال پہلے والا واقع یاد آیا تو جھرجھری لے اٹھی)
پریشان نہیں ہو میں ہوں نا( اسکی خوف سے پھیلی آنکھوں میں دیکھتا اپنے ہونے کا یقین دلایا)....
رات ہونے اور دوسرا سردی ہونے کی وجہ سے سڑک بکل خالی تھی ۔۔۔۔۔
چل اوۓ باہر نکل ( اسی وقت سامنے والی گاڑی سے دو لوگ باہر نکلے )
ک۔۔کون ہیں یہ آپ باہر مت جاںٔیے گا وہ اپکو کوںٔی نقصان پہنچا دیں گے ( فارس کو گاڑی کا دروازہ کھولتے دیکھ جھٹ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر ڈبڈباںٔی نظروں سے بولی)
مہر پریشان مت ہو میں دیکھتا ہوں انھیں وہ ہمیں کوںٔی نقصان نہیں پہنچائیں گے ( اسکے ہاتھ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر تسلی دی لیکن مہر کا دل سکڑ رہا تھا)
فارس نہیں۔۔۔۔۔۔
آبے اوو بعد میں عاشقی لڑانا نکل باہر گاڑی سے ( اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ لڑکا ایک بار پھر بولا)
اسکے گھٹیا الفاظوں پر فارس ہونٹ بھینچ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کرتا باہر نکل گیا.....
ارے واہ حلیے اور شکل سے تو کسی فلم کے ہیرو لگتے ہو لیکن ہمیں اس سے کیا۔۔۔۔ چل شرافت سے اسے نکال ( وہی لڑکا اپنے پان سے رنگے دانت نکال کر بولا)
دیکھو تمھیں جو بھی چاہیے لے لو لیکن ہمیں جانے دو ( فارس نے احتیاط سے بولتے ہوئے جیب سے موبائل وغیرہ نکالنا چاہا تو وہ لڑکا فوراً بول پڑا)
نہیں نہیں تو سمجھ نہیں رہا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ہمیں تیری دولت نہیں مال چاہیے ( اسکا مہر کی طرف اشارہ دیکھ فارس دھاڑ اٹھا)
تمیز سے بات کرو ورنہ بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا ( اسکی دھاڑ پر مہر نے اپنی چادر زور سے مٹھیوں میں دبا لی)
آبے چپ کر یہ تمیز کے لیکچر کسی اور کو دینا ہمیں جو چاہیے ہم لے کر جاںٔیں گے چل نکال شرافت سے باہر ۔۔۔۔ اوۓ سلو گن پکڑا ( اس بار اسکی بات پر فارس نے زور دار پنچ اسکے منہ پر مارا کہ اسکا جبڑا ہل گیا )
اور اسی وقت دوسرے لڑکے نے فارس کے اوپر گں تان دی .۔۔۔۔
انھیں گتھم گتھا ہوتے اور پھر گن  دیکھ مہر کی چیخ نکل گںٔی۔۔۔ ۔
ف۔۔۔فارس نہیں پلیز ( اسکے چلانے پر اس لڑکے نے خباثت سے ہنستے ہوئے اپنے پھٹے ہوئے ہونٹ سے خون صاف کیا)
واہ کیا آواز ہے اس چڑیا کی تو سوچو خود ......
چپ کر جا حرام زادے میں تیرا منہ توڑ دونگا ( اسکی گھٹیا بات پر فارس دھاڑ کر بولا)
لا ادھر دے گن اور تو اوقات میں رہ کر کھڑا ہو ورنہ تیرے ساتھ ساتھ اس حسین چڑیا کو بھی اڑا دوں گا ( دوسرے لڑکے کےہاتھ سے گن لے کر فارس سے بولا جو بھپرا ہوا شیر لگ رہا تھا)
دیکھو یمیں جانے دو اور جو چاہیے میں دونگا موبائل پیسا.......
نہیں ہیرو ہمیں وہی چاہیے جو ہم لینے آئے ہیں شرافت سے اسے نکال ورنہ میں گولی چلا دونگا۔۔۔۔۔۔..( فارس کی بات کاٹ کر جب وہ بولا تو مہر کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے)
ن۔۔۔نہیں آپ انھیں کچھ مت کریے گا ( مہر فوراً دروازہ کھولتی باہر نکلی )
اسے باہر نکتا دیکھ جہاں انکے مکرو چہروں پر مسکراہٹ آںٔی وہیں فارس کی آنکھوں سے شولے نکلنے لگے.....
لگتا ہے بڑی محبت ہے دونوں میں ۔۔۔۔۔۔۔
مہر واپس گاڑی میں بیٹھو ورنہ ٹانگیں توڑ دونگا ( اسکی بات کاٹتا دھاڑ کر بولا کہ مہر اندر تک کانپ گںٔی)
ارے چپ کر تو ۔۔۔۔ جب خود سے آرہی ہے تو کیوں چلا رہا ہے ( وہی لڑکا گان اسکے سامنے کرکے بولا تو فارس جیسے ہی آگے بڑھا مہر پھر سے بول اٹھی)
نہیںںں۔۔۔۔فارس نہیں پلیز آپ کو گولی لگ جائے گی ۔ ( اسکی خوف سے بھرپور آواز پر سامنے والوں کا غلیظ قہقہہ لگا جبکہ فارس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مہر کا منہ توڑ دے)
ارے چڑیا بڑی محبت ہے اپنے یار سے چل ثبوت دے اسی محبت کا اور چل ہمارے ساتھ( اسکی بات پر مہر نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ).
ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا مہر ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر تونے ایک قدم بھی پیچھے لیا تو میں گولی چلا دونگا ( فارس کی دھاڑ کی پروا کیے بغیر وہ بولا).
اور مہر خوف سے تھر تھر کانپتی فارس پر تنی گن دیکھ رہی تھی مجبوراً اونچی سینڈل میں مقید پیر آگے بڑھایا۔...
ارے ارے آرام سے لگ جائے گی ( اسکا پیر لڑکھڑانے پر وہ لڑکا خباثت سے بولا)
جا سلو بھابھی کو لے آ۔۔۔۔
ن۔۔۔۔نہیں آگے مت بڑھنا میں خود آؤں گی ( اسکی بات خوف سے درمیان میں کاٹ کر بولی)
ارے آںٔیے پھر ( فارس انتہائی ضبط سے یہ سب دیکھ رہا تھا اچانک اسکا دیھان اس لڑکے کی طرف گیا جو کہ مہر کی طرف متوجہ تھا اور گن پر اسکی پکڑ کچھ حد تک ڈھیلی تھی۔ فارس نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اسکے ہاتھوں سے گن جھپٹ لی ۔ اب وہ گن اس پر تنی ہوںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔
ہلنا مت اپنی جگہ سے ورنہ یہ کھوپڑی اڑا دونگا( فارس کے اچانک گن چھیننے پر وہ دونوں لڑکے ایکدم بوکھلا گئے)
مہر نے جب اسکے ہاتھوں میں گن دیکھی تو وہیں ٹھیر گںٔی۔۔۔۔۔۔
مہر گاڑی میں بیٹھو فوراً ( انکے اوپر گن تانے ہوئے چلا کر بولا تو مہر ایک لمحے کی دیر کیے بغیر واپس مڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئی )
د۔۔۔دیکھو گن واپس کردو ورنہ۔ ۔۔۔۔۔۔
ورنہ کیا ہاں اگر دونوں میں سے ایک بھی ہلا تو گولی چلا دونگا ( انکے اوپر گن ویسے ہی رکھے ہوئے  آہستہ آہستہ پیچھے کی سمت بڑھنے لگا اور گاڑی میں بیٹھ گیا . ایک ہاتھ سے گاڑی اسٹارٹ کی اور گن کا رخ انکی طرف ہی کیے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی )
اور وہ لڑکے دانت پیستے ضبط سے یہ سب دیکھ کر رہ گںٔے۔ ۔۔۔۔۔
کچھ آگے پہنچ کر فارس نے گن وہیں جھاڑیوں میں پھینک دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ف۔۔۔فارس۔۔۔۔۔
خاموش مہر خاموش ایک لفظ نہ نکلے تمھارے منہ سے ( اسکے پکارنے پر وہ اتنی زور سے دھاڑ کر بولا کہ وہ خوف سے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ چپ ہوگںٔی).........
🔥🔥
ہاں تیمور کیا ہوا کام ہوگیا جلدی سے مجھے اسکی آواز سناؤ پلیز مجھ سے اور صبر نہیں ہورہا ...( کمرے میں ںے صبری سے جاگتی تیمور کی کال کا انتظار کرتی دانیہ فوراً کال اٹھا کر بولی)
لیکن جو خبر آگے سے سننے کو ملی اسنے تو اسکی دنیا ہی ہلا کر رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو تم ہاں ایسے کیسے کام نہیں ہوا تم نے کیسے ( گالی) لڑکے بھیجے تھے جو ایک گن اور انسان کو قابو نہیں کرسکے ( اسکی سننے کے بعد انتہائی بدتمیزی سے چلا کر بولی پھر کسی کے اٹھ نہ جانے کے ڈر سے لمبا سانس لیتی خود کو ریلکس کرنے کی کوشش کرنے لگی)
گن مل گںٔی تو کیا گلے میں ڈال دوں ۔۔۔۔۔ میں کیا کیا سوچ کر بیٹھی تھی اور کیا ہوگیا تیمور ہم پھر سے ہار گئے پھر سے ( تھک ہار کر شکستہ لہجے میں بولی)
مقابل کی بات سننے کے بعد چہرے پر ایک مسکراہٹ پھر سے آگںٔی لیکن وہ بھی پھیکی سی تھی .....
ہاں ضرور اب جو ہوگا ہم خود کریں گے اس بار میں کسی پر اعتبار نہیں کرسکتی ( یہ کہہ کر اسنے کال ڈسکنیکٹ کردی )
مہر ۔۔۔۔۔۔۔ اسنے ساںٔڈ ٹیبل سے گلاس اٹھایا اور زور سے سامنے دیوار پر دے مارا جو کںٔی ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر نیچے قالین پر گر گیا ۔۔۔۔۔۔۔
اب میں تمھیں نہیں چھوڑنے والی بہت ہوا مجھے میرا فارس واپس کرنا ہوگا تمھیں ( لہو آنکھوں سے سوچتی ہوںٔی ایک قہقہہ لگا گںٔی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

TUMHARY BAGHER HUM ADHURE...(Complete) ✅Onde histórias criam vida. Descubra agora