"امید" (قسط نمبر 4)

276 20 7
                                    

"کیسی ہو؟" اتنی دیر خاموشی برداشت کرنے کے بعد آخر زکی نے ہی بات کرنے کے لیے پہل کی تھی۔
"تم سے تو بہت زیادہ اچّھی ہوں۔"
اُس کے جواب پر زکی ہنس دیا اور اب اس کا غصّہ مزید بڑھ گیا۔
"آٸی ہیٹ یو زکی۔ یو آر سو مین
( تم بہت مطلبی ہو)۔"
ناک پھلاتے ہوۓ اس نے یہ بات کہہ کر رُخ دوسری طرف پھیرلیا۔زکریا نے کوٸ جواب نہیں دیا۔
"اُف زکی! تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ تم لاٸف میں کبھی سیریس نہیں ہوسکتے،تم ہی پیو یہ سوفٹ ڈرنک اور تم کھاٶ یہ سب"
اب کی دفعہ وہ گلاس پٹختے ہوۓ جانے لگی۔
" مِناہل ! تم کہیں نہیں جاٶگی۔ پلیز بیٹھ جاٶناں اب میں تنگ نہیں کرونگا"
اب زکی بالکل سیریس ہوچکا تھا۔ مِناہل وہ واحد لڑکی تھی جس کے آگے وہ ہار مان لیتا تھا۔اُس کی آنکھیں اب مِناہل پہ ٹکی ہوٸی تھیں۔

آج وہ پہنچنے میں ١٥ منٹ لیٹ ہوگیا تھا، جس پر مِناہل آج ایک دفعہ مناہل سے موڈی مِناہل بن گٸی تھی۔ کافی دیر محنت کرنے کے بعد جب بات نہیں بنی تو تو اب وہ اُس سے ریکوٸیسٹ کر رہا تھا۔ اور اب مناہل اُس کی بھولی بھالی شکل دیکھ کر واپس کرسی پہ آکر بیٹھ گٸی۔
"اچھّا ٹھیک ہے اب اتنا اوور ریٸکٹ نہیں کرو، ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ میں نے تمہیں اغوا کر کے زبردستی بٹھایا ہوا ہے۔"
اب کی دفعہ مِناہل تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔
”اگر کسی اور لڑکی کو پسند آگیا پھر کیا کروگی۔۔۔"نیلی آنکھوں میں تجسس اُبھرا۔
”اگر کسی لڑکی نے تمہاری طرف دیکھا بھی تو عقل ٹھکانے لگادوں گی میں اُس کی۔“
زکریا کی بات پر مِناہل نے چڑتے ہوۓ اور انگلی اُٹھا کر تنبیہ کرتے ہوۓ کہا تو زکی کھلکھلا کر ہنس دیا۔وہ بھی مسکرادی۔پھر دونوں اپنی باتوں میں مصروف ہوگۓ۔
                ---------------------
"کیا بات ہے بھٸی؟ بڑی مسکراہٹ نظر آرہی ہے آج تمہارے چہرے پر"
حذیفہ نے زکی کو کہا جوکہ ڈرایٶنگ کرتے ہوۓ مسلسل مُسکرا رہا تھا۔اور حذیفہ اس کے برابر والی سیٹ پہ بیٹھا کب سے اُس کی یہ حرکت نوٹ کر رہا تھا۔
"لگتا ہے موڈی کو مناکر آیا ہے آج! تبھی تو بتّیسی اندر جانے کا نام نہیں لے رہی۔"
ابراہیم جوکہ پچھلی سیٹ پہ خاموش بیٹھا تھا اچانک سے مزاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
"دانت میرے ہیں تجھے کیا مسٸلہ ہے؟ زیادہ جلا مت کر اُس سے ورنہ کسی دن پہچاننے میں بھی نہیں آۓ گا کہ ابراہیم احمد نام کا ایک خوبصورت لڑکا تھا۔"
زکریا نے ہنستے ہوۓ بیک ویو مِرَر سے ابراہیم کو دیکھا جو اب بھی اس کی بات پر ڈھیٹ بنا ہنس رہا تھا۔
"ہاہاہا۔ حذیفہ دیکھو تو زرا یہ مسٹر خوش فہمیاں بھی پالتے ہیں۔ وہ موڈی اس کی ساری باتیں مانتی نہیں بلکہ اپنی ساری باتیں منواتی ہے۔"
ابراہیم نے بھی زکریا کو  تپانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ابراہیم نے زکریا کو کہا اور حذیفہ خاموش بیٹھا دونوں کی جنگ دیکھ کر مزے لے رہا تھا۔
"میں اُسے زیادہ اچھے سے جانتا ہوں۔ تیری تو مِناہل سے پاک بھارت جنگ چھڑی رہتی ہے ہر وقت۔"
زکریا نے ابراہیم کو غصّے سے دیکھا اور پھر حذیفہ سے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
”ہونہہ! میں اُس سے لڑوں اتنا ٹاٸم نہیں ہے میرے پاس“ ابراہیم بھی اپنے نام کا ایک تھا۔
زکریا نے تھوڑی سنجیدگی سے کہا تو ابراہیم آگے ہوا اور زکی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
”اچھا بھٸ۔۔۔بس ختم کرو یہ بحث۔تم ڈراٸیونگ پہ دھیان دو زکریا۔“ حذیفہ نے دونوں کو خاموش رہنے کا کہا۔
               -----------------------
" اَنزُو اَنزو ! اُٹھ جاٶ۔ کتنا بے ہوش ہوکر سوتی ہو تم۔"
زَہرہ نے کمرے کی ساری لاٸٹیں آن کردیں۔ اور اب انزلنا کے اوپر سے بلینکٹ کھینچ رہی تھی۔
"انزو اُٹھ جاٶ۔رات ہورہی ہے۔ دن سے سوٸی ہوٸی ہو،کھانا کھا لو اور نماز پڑھ کر پھر سے سوجانا"
دس منٹ کی کوشش کے بعد اب انزلنا بیڈ کراٶن سے ٹیک لگاۓ نیند میں ڈوبی ہوٸی تھی۔
”زَہرہ  مجھے گھر کا کھانا نہیں کھانا"
زَہرہ کمرے سے جارہی تھی کہ انزلنا نے اُسے پکارا
"تو پھر ڈانٹ کھانی ہے تم نے امّی سے؟"
زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ اس کے برابر میں بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
"نہیں،مجھے برگر یا پیزا کھانا ہے۔"
انزلنا نے خوش ہوکر جواب دیا۔
"اوہو! میڈم کی فرماٸشیں تو دیکھو، جیسے ریسٹورینٹ میں بیٹھی ہوٸی ہیں۔"زَہرہ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
"آپی چلو نا پلیز، اور ویسے بھی پورے ہفتے میں کوٸی بریک نہیں لیا۔بس آفس اور آفس کا کام کرتی رہی ہو۔"
انزلنا نے پہلے اُسے منانے ہوالے انداز میں کہا اور پھر ناراض ہوتے ہوۓ منہ موڑ لیا
"اچھا اب رونے نہیں بیٹھ جانا، جلدی سے تیار ہوجاٶ میں امّی سے بات کر کے آتی ہوں۔ تیار رہنا ورنہ نہیں جاٸیں گے"
-------------------------
ان کی گاڑی ایک شاندار ریسٹورینٹ کے سامنے آکا رکی۔ پہلے حذیفہ اور ابراہیم اترے۔
"تم دونوں چلو۔ میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں۔"
"اوکے" زکریا کی بات کا جواب دیتے ہوۓ وہ دونوں اندر چلے گۓ۔
-------------------------
" رہنے بھی دو اب۔ یہ آٸی لاٸنر لگانا ضروری ہے کیا؟"
پچھلے 5 منٹ سے انزلنا دونوں آنکھوں میں آٸی لاٸنر برابر لگانے کی کوشش کر رہی تھی آخر زَہرہ نے ہی تنگ آکر کہا
"اوہو۔ تم تو رہنے ہی دو زوہی! تمہارا بس نہ چلے تم تو سوکر اٹھو اور بغیر تیار ہوۓ یونیورسٹی چلی جاٶ۔" انزلنا نے آٸی لاٸنر لگاتے ہوۓ ہنس کر کہا
"توبہ ہے اَنزُو۔ جب تمہارا کام تھا تو آپی آپی کہ رہی تھیں اور اب ڈاٸیریکٹ زوہی بول رہی ہو"
زَہرہ نے تھوڑی ناراضگی سے کہا۔
"اچھا میری بہنا زوہی! تم ناراض نہیں ہو، مجھے زوہی کہنا اچھا لگتا ہے۔ اب چلو میں تو تیار ہوں"
انزلنا، زَہرہ سے ایک سال چھوٹی تھی۔ اور دونوں میں بے تکّلفی تھی۔اس لیے دونوں ایک دوسرے کو نام سے ہی پکارلیا کرتی تھیں۔
  اب اس نے تیار ہوتے ہی زَہرہ کو کھڑا کیا۔
تھوڑی دیر بعد دونوں ہی گاڑی میں بیٹھی تھیں۔ انزلنا کو ڈراٸیونگ نہیں آتی تھی اس لیے زَہرہ نے ہی ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی۔
"ویسے زوہی نقاب تم پر بہت خوبصورت لگتا ہے“
زَہرہ دھیما سا مسکرادی۔
”ویسے انزُو! آج  آخر تمہارا آٸی لاٸنر دونوں آنکھوں میں برابر لگ ہی گیا“
زَہرہ نے انزلنا کو دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہا۔
”ہاں ٹھیک کہا تم نے آج دیکھنا پورے ریسٹورینٹ میں سب سے اچھی میں ہی لگوں گی“ 
انزلنا نے اتراتے ہوۓ کہا اور دونوں ہنس دیں۔۔
       ***************

 "امید"    Où les histoires vivent. Découvrez maintenant