ابراہیم اسے پانی پلاکر سہارا دیتے ہوۓ گاڑی تک لایا، زکریا کا سر درد سے پھٹنے کو تھا،لیکن وہ گھر جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسکے بار بار کہنے پر ابراہیم نے ڈراٸیور کو گاڑی خان ہاٶس لے جانے کو کہا۔پورا راستہ خاموشی سے گزرا۔وہ جانتا تھا آگے جو کچھ ہونے والا ہے وہ کسی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔
-----------
بہت دیر تک وہ بیڈ پر یونہی لیٹی رہی اور سوچ میں گم رہی۔پھر اٹھی اور فریش ہونے کے لیے باتھروم چلی گٸ۔رو رو کر اپنا حال برا کرلیا تھا۔وہ اپنے کمرے میں ہی رہتی،ابراہیم کو مسجز کرتی لیکن وہ کوٸ جواب نہیں دیتا تھا وہ اسکی معذرت کو کسی خاطر میں لاتا ہی نہیں تھا۔اسکا فون نمبر بھی اسنے زکریا سے بڑی منتیں کرکے لیا تھا۔انزلنا کو اسکا نظرانداز کرنا بےتحاشہ برا لگ رہا تھا،لیکن وہ کیا کرسکتی تھی؟
طویل سجدے لمبی دعاٸیں اور سسکیاں
خواہشات پوری نہ ہوں تو خدا بڑا یاد آتا ہے!
(ایمن انیس)
اب اس میں چار دنوں میں ہی تبدیلی آگٸ تھی جسے گھر کے سب افراد نوٹس کررہے تھے،اب ساری نمازیں پابندی سے ادا کرتی اور قرآن بھی پڑھتی صبح زَہرہ اپنے کمرے میں قرآن کی تلاوت کرتی تو اسکے ساتھ ہی بیٹھ جاتی اور سنتی رہتی،آجکل شرارتیں بھی کم کردی تھیں اور ثاقب اور اسکی جنگ بھی نہیں ہورہی تھی۔دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھنے کھڑی ہوتی تو عجیب محسوس ہوتا شرٹ اور جینز پہنے سکون سے نماز نہیں پڑھی جارہی تھی تو اسنے زَہرہ سے کرتیاں اور کچھ اچھے جوڑے لے لیے تھے۔حنا اور زَہرہ اسکی حرکتیں دیکھ دیکھ کر مسکرا دیتیں۔صبح یونیورسٹی کے لیے بھی نہیں جارہی تھی،چھٹی کرنے کا تو اسے ویسے ہی بہت شوق تھا، دوسرا سال کا آغاز ہوچکا تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔شام کے چاۓ پینے کے لیے سب کے ساتھ بیٹھتی پھر کچھ گھنٹے بعد واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ویسے آج خوشی کا دن تھا لیکن شرط کے مطابق اسے بتنا نہیں تھا تو سب اسکی اس تبدیلی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔شاید اسکی دعاٸیں جلدی سن لی گٸ تھیں۔ آج بھی فجر کے لیے ایک ہلکے گلابی رنگ کی کرتی پہنی دوپٹہ سنبھالنا مشکل لگتا تھا اب عادت جو نہیں بنی تھی لیکن زَہرہ اسکی کافی مدد کررہی تھی۔ ابھی بھی منہ ہاتھ دھوکر بالوں کو پونی ٹیل میں جکڑ کر ناشتے کے لیے نیچے جارہی تھی۔
------------
زَہرہ نے صالحہ کو انزلنا کو انزلنا کے رشتے کی بات بتاٸ، پہلے تو اسکا دل رو رو کے اچھا محسوس کرنے لگا پھر اسنے یہ بات بتاٸ تو صالحہ حیرت سے منہ کھولے دیکھتی رہی پھر کچھ لمحوں میں سمجھ آنے پر دونوں نے خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور پھر پورے کمرے کو سر پہ اٹھالیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد زَہرہ اپنے اور صالحہ کے لیے کوفی بناکر اسے اپنے ساتھ لان میں لے آٸ۔سردیوں کی صبح ابھی گیارہ بجے تھے لیکن سورج طلوع نہیں ہوا تھا اور آسمان پہ بادلوں کا بسیرا تھا اور ٹھنڈی ہوا میں گرم گرم کوفی پینے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ابھی بھی دونوں اپنی باتوں پہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھیں اور یہ سوچ رہی تھیں کہ یہ خوشی سیلیبریٹ کیسے کریں؟ زَہرہ کو اب کافی اچھا محسوس ہورہا تھا، صبح صالحہ سے ساری باتیں کہہ کر بہت اچھا لگ رہا تھا اور نفل بھی پڑھ لیے تھے۔
کچھ دیر گزری کہ دروازے پہ دستک ہوٸ۔زَہرہ نے چوکیدار کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا تو وہ دروازہ کھل کر ایک ساٸیڈ پہ ہوگیا۔ اندر داخل ہونے والے لوگوں کو دیکھ کر ان دونوں کو ہی حیرت ہوٸ۔دونوں وہاں ٹیبل کے قریب پہنچے اور کرسیوں پہ جم کے بیٹھ گۓ۔ وہ زَہرہ کے مقابل کرسی پر بیٹھا،زَہرہ کو وہ خاموش سا لگا یا شاید اس کا وہم تھا۔
ایک گھنٹے پہلے وہ یہاں لان میں سب کے ساتھ بیٹھا باتیں کررہا تھا لیکن اب وہ خاصا سنجیدہ لگ رہا تھا۔وہ خاموشی سے اٹھ کر کچن کی جانب چلی گٸ،وہ کچن میں جارہی تھی کہ سیڑھیاں اترتی انزلنا کو دیکھ کر وہ مسکرادی
"انزلنا مہمان آۓ ہیں،میں کچھ ریفریشمنٹ کا سامان لے کے آتی ہوں تم وہاں جاکے بیٹھ جاٶ۔" وہ بھرپور مسکراہٹ سکے ساتھ بتانے لگی۔
"اچھا" وہ اتنا کہہ کر خاموشی سے پانی کا گلاس ساتھ لے کر چلی گٸ۔
"بڑے چھپے رستم نکلے تم تو۔ صالحہ نے ابراہیم کو بتیسی دکھاتے ہوۓ کہا
"تمہیں بھی خبر مل گٸ؟" اس نے بےزاری سے پوچھا،وہ اسے زچ کرنا چاہ رہا تھا۔
"ہاں بھٸ میرے بھی کچھ تعلقات ہیں،زَ ہرہ مجھ سےکچھ نہیں چھپاتی۔"صالحہ نے فرضی کالر جھٹکتے ہوۓ کہا
"بہت بھروسہ ہے تمہیں زَہرہ پہ؟!" زکریا نے مداخلت کی تو صالحہ اسے ناسمجھی سے دیکھنے لگی اور ابراہیم دکھ سے۔
"ہاں! کیوں نہ ہو۔وہ تو ان سب ہی لوگوں سے مخلص رہتی ہے جنہیں چاہتی ہے۔" صالحہ نے اسکی مکمل حمایت میں کہا تو زکریا محض سر کو اثبات میں ہلا کر خاموش ہوگیا۔
"ویسے اب تم تیار رہو، ہونے والی سالی ہوں میں تمہاری۔اب سکون سے جینے نہیں دوں گی، خوب پیسے نکلواٶں گی تم سے کنجوس انسان سے۔" صالحہ نے بتیسی دکھاتے ہوۓ پھر ہنس کر کہا۔
"اگر تم میری ہونے والی بیوی کا خیال رکھو گی تو میں تمہاری بات مانوں گا! ورنہ ڈیل کینسل۔" ابراہیم نے مدعے کی بات کہہ کر زبان چڑاٸ
"اوہ ابھی سے بیوی کی حمایت، جب شادی ہوگی تب تو ساتھ بھی نہیں چھوڑوگے اس کا" صالحہ نے چہرے پر شرافت سجاۓ کہا ابراہیم نے اسے گھورا پھر دونوں ہنسنے لگے۔
"اسلام و علیکم" انزلنا سلام کرکے بیٹھ گٸ۔اباراہیم کو اتنے دن بعد دیکھ کر وہ کچھ گھبراہٹ کا شکار ہوٸ البتہ خود کو کمپوز کرکے رکھنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔پچھلے چار دن جب سے ایکسیڈینٹ ہوا تھا وہ آج اسے دیکھ رہی تھی۔اسکے سر کے گرد ابھی بھی پٹی بندھی ہوٸ تھی،اس نے سوچوں کو جھٹک کر جلدی سے پورا پانی گلاس ایک ساتھ پی لیا۔
وہ ادھر ادھر کا جاٸزہ لے رہی تھی تو وہ بھی اسے مکمل توجہ سے دیکھ رہا تھا،پھر کچھ سوچتے ہوۓ ایک فاتحانہ سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔
ابراہیم!" صالحہ نے تقریباً چلاتے ہوۓ اسے پکارا وہ کھسانہ ہوکر اسے گھورنے لگا۔
، اب انزلنا اسے دیکھ رہی تھی ابراہیم نے اس سے کوٸ بات نہیں کی تھی،ورنہ وہ اسے جہاں ملتی وہ باتیں کر کرکے اسکا سر کھپاتا رہتا تھا۔لیکن وہ اسکے سامنے صحیح سلامت بیٹھا تھا اسے یہی بات خوشی دے رہی تھی
"میں تمہارے سامنے ہی بیٹھا ہوں صالحہ۔" ابراہیم نے الفاظوں کو چبا چبا کر کہا تو وہ ڈھٹاٸ سے ہنس دی۔
"ابراہیم طبیعت کیسی ہے اب؟" انزلنا نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا اسکا کیا بھروسہ وہ اسی وقت حساب برابر کرنے بیٹھ جاتا۔اور دوسری جانب ابراہیم۔۔۔وہ تو جیسے موم ہوگیا تھا
"(کتنے پیار سے میرا نام پکار رہی ہے اور ویسے جنگلی بلیوں کی طرح لڑتی ہے ہونہہ! جواب دے دیتا ہوں اتنی توچہ سے پوچھ رہی ہے۔ نہیں عابی! جواب نہیں دینا انتظار کروا تھوڑا میں بھی تو دیکھوں اب یہ میرے لیے کتنی کوشش کرتی ہے! نہیں یار جواب دیتا ہوں۔چل عابی اگلی بارکے لیے بدلہ صحیح۔)" وہ دل ہی دل میں خود س باتیں کرنے لگا۔اور صالحہ اور انزلنا اسے دھیما سا مسکراتا ہوا بغور دیکھ رہی تھیں، شاید یہ لگ رہا تھا کہ ابراہیم بیٹھے بیٹھے دماغ سے فارغ ہوگیا ہے۔
"ابراہیممممم" اب کی دفعہ صالحہ مزید تیز آواز سے چلاٸ وہ جیسے چونک گیا۔
"کیا مسٸلہ ہے تمہیں۔" ابراہیم نے سوچوں سے نکل کر منہ بسور کر کہا
"کچھ پوچھ رہی ہے تمہاری بیو۔۔۔۔۔"صالحہ کہنے لگی
"ہاں میں ٹھیک ہوں۔" ابراہیم نے بات سنبھالی ورنہ صالحہ نے کوٸ کسر نہیں چھوڑی تھی،ابراہیم نے صالحہ کو گھورتے ہوۓ جواب دیا تواسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔پھر وہ سمجھتے ہوۓ مسکرادی
ابراہیم نے اسکی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا! انزلنا دل ہی دل میں اسے صلواتیں سنانے لگی
تھوڑی دیر بعد زَہرہ ان تینوں کے لیے جوس لے آٸ۔ اس نے اور صالحہ نے پہلے ہی کوفی پی لی تھی۔اب تجسس اس بات کا تھا کہ ( وہ دونوں یہاں کیوں آۓ۔زکریا تو ایک گھنٹے پہلے ہی مل کر گیا تھا۔شاید کوٸ خاص بات ہو!) واس نے اپنی سوچوں کو ایک طرف رکھ کر اسے پکارا
"زکریا۔"
"ہممم"
"کوٸ پرابلم ہے؟کوٸ بات کرنی ہے؟" وہ اپنا رخ اسکی طرف کرکے بیٹھی اب مکمل توجہ زکریا پر تھی۔اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔
"ہاں۔۔۔مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" اس نے تھوڑے وقفے کے بعد کہا اسے حیرت ہوٸ وہ اسکے کہنے سے پہلے ہی کیسے سمجھ گٸ!
ابراہیم نے انزلنا اور صالحہ کو وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا کہ وہ دونوں غلط فہمی کلیٸر کرلیں۔ وہ تینوں لان میں چہل قدمی کرنے لگے۔ابراہیم نے ان دونوں کا آج کا ساررا واقعہ بتانا شروع کیا۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک نظر لمحے بھر کے لیے انزلنا پہ ڈالتا پھر اپنی بات جاری رکھتا، انزلنا نے اسے نوٹس نہیں کیا تھا۔
"زَہرہ۔۔۔۔۔تم نے مجھ سے کوٸ بات چھپاٸ ہے؟" زکریا نے سوال کیا۔ تین سال کے عرصے میں اس نے اسے پہلی دفعہ اس کے اصل نام سے پکارا۔وہ وہیں ٹہر سی گٸ۔۔۔پھر اسکے سوال پر غور کرتے ہی جیسے دماغ نے کسی بات کی یاد دہانی کرواٸ لیکن اسنے اس بات کو نظرانداز کرکے سجواب دینا ضروری سمجھا۔
"نہیں۔کیوں؟" وہ الجھی
"ہر وہ انسان جوتمہیں اپنے لیے اہم سمجھتا ہے۔تمہیں مخلص سمجھتا ہے!تم ان سب سے اسی طرح جھوٹ کہتی ہو؟" اس نے دکھی لہجے میں سخت الفاظ کہے۔زَہرہ کے دل پو ضرب لگی۔ پہلی دفعہ وہ اسکے سرد لہجے سے واقف ہورہی تھی۔
"ن نہیں میں جھوٹ میں جھوٹ نہیں بولوں گی۔اور اگر میں نے کسی سے سچ چھپایا بھی تو اسکے لیے کچھ اچھا سوچتے ہوۓ---" دماغ ایک ہی بات پہ خطرے کی گھنٹی کی طرح اسے خبردار کررہا تھا تو اس نے بھی اچھی طرح وضاحت دینا چاہی وہ ابھی مزید کچھ کہتی کہ
"بھاڑ میں گیا کسی کا اچھا سوچنا! تم نے مجھ سے کیوں چھپایا کہ مِناہل کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے۔ابھی نہیں پچھلے ڈھاٸ سال سے! پھر تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا! کیا میں اتنا پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کیوں؟" اس کی آواز تھوڑی بلند ہوٸ پھر وہ مزید آگے کی طرف جھکا اور کہا تاکہ کوٸ اور ان دونوں کی گفتگو نہ سنے۔اور زَہرہ اسکی بات سن کر ہی سکتے میں آگٸ۔زکریا کا اتنا سخت لہجہ اور اتنا غصہ! اسے لیے یقین کرپانا مشکل ہوگیا تھا۔آنکھوں کے گوشے نمی سے بھرنے لگے۔
"بولو! سچ کیوں چھپایا؟ بھروسی کیا تھا میں نے تم پہ زَہرہ!" اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ گویا ہوا،آواز دھیمی لیکن لہجہ سرد تھا۔وہ خاموشی سے للب بھینچے اس ہری خوبصورت گھاس کو یک ٹک لب بھینچے دیکھنے لگی۔ زکریا کو دیکھنے کی ہمت تو اس میں شروع سے ہی نہیں تھی! اور اب اسکا غصّہ! آنکھوں کے سامنےکے منظر گڈمڈ ہونے لگے تھے۔وہ آنکھوں کی نمی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ وہ خاموش سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔اور وہ اسے گھور رہا تھا غصہ سے! آج ان آنکھوں میں چمک نہیں تھی نہ کوٸ زندگی کی چاہت کوٸ اچھا احساس اس وقت اسکے قریب بھی نہیں۔ کیا واقعی خود کو اس وقت سنبھالنا اتنا آسان ہوتا ہے کہ جسے خود سے بڑھ کر چاہا جاۓ وہ بغیر کسی غلطی کے آپکو ہیونہی چھوڑ جاۓ نہ آپکی چاہتوں کا مان رکھے نہ آپکے احساسات کا!۔ آج اسکے دل میں خوشی اور پیار نہیں تھا۔۔۔بس غصہ،دکھ۔تکلیف اوربےتحاشہ تکلیف تھی۔
اپنوں کے دکھ دیے جانے کا غم اتنی آسان سے تو نہیں جاتا۔
"زَہرہ!" اس نےآخری دفعہ اسے پکارا اور اسے نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔زَہرہ کے آنکھوں میں جو آنسو کب سے باہر آنے کو بےتاب تھے وہ اس کا چہرہ نظروں کے سامنے دِکھتے ہی فورا باہر کو بہہ گۓ۔زکریا وہیں ساکت ہوا! اس نے کبھی اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھنا نہیں چاہے تھے!
ابرہیم اور وہ دونوں بھی زکریا کی تھوڑی بلند آواز سن کر وہیں ٹیبل پر آکے اپنی اپنی کرسیوں پر خاموشی سے بیٹھ گۓ۔زکریا نے سب کی موجودگی کو محسوس کیا تو یکدم سیدھے ہوکر بیٹھا کہیں کوٸ اسے سکتے میں نہ دیکھ لیتا۔
زہرہ ہاتھوں کو مٹھی کی صورت میں بند کیے اور کہیں دور کسی غیر مرمری نقطی کو غور سے دیکھ رہی تھی۔یہ تیسری دفعہ تھا جو اسنے اسے غصے سے پکارا تھا ا اسکی برداشت ختم ہورہی تھی۔وہ ان سب کے سامنےرون نہیں چاہتی تھی۔لیکن ناجانے کیسے وہ دو آنسو زکریا کو دیکھتے ہی فوراً باہر نکل آۓ۔
وہ زکریا کے سامنے ہی جلد ہی ہمت کھو بیٹھی تھی۔
"تم میری بات کا یقین نہیں کرتے!" اسنے مختصر کہا اور دوبارہ کچھ آنسو اسکے گالوں سے لڑھکتے ہوۓ گاس میں گر کر جذہوگۓ سب نے اسے دیکھا۔زکریا نے بھی۔لمحے بھر کے لیے اس نے اسے دیکھا،زَہرہ نے بھی اسے دیکھا پھر وہ خاموش ہوگٸ وہ اسکے انداز کو دیکھ کر بےچینی کا شکار ہوجاتا، پتا نہیں کیوں؟ اسے سمجھ نہیں آیا۔زَہرہ کو یوں دیکھ کر صالحہ کو بہت تکلیف ہوٸ لیکن وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ان دونوں کے درمیان جو مس انڈرسٹینڈگ ہے وہ دور ہوجاۓ۔اور انزلنا تو اپنی بہن کو پہلی دفعہ ایسے دیکھ رہی تھی۔زَہرہ کسی کے سامنے روتی نہیں تھی سواۓ امی جان اور صالحہ کے۔انزلنا بھی کسی بات سے آگاہ نہیں تھی۔ مزمل صاحب اور حنا صاحبہ اپنے کمرے میں سورہے تھے صح مہمانوں کی آمد کی وجہ سے اس وقت وہ سورہے تھے۔اور یہ سب باتیں بھی ان تمام لوگوں کی تھیں و وہاں بیٹھے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ وہاں نہیں تھے۔زَہرہ کے تمام رازونیاز امی جان اور صالحھ تک ہوتے تھے۔آج انزلنا نے اسکے لہجے میں بہت کچھ محسوس کیا تھا! وہ اس سےوبعد میں بات کریگی یہ سوچ کر وہ خاموش رہی۔
"تم مجھے کہتیں تو، تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سجھا۔" زکریا کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا تھا۔
"تم بھروسہ نہیں کرتے جسطرح ابھی نہیں کررہے۔" وہ دکھی لہجے میں جیسے اسے یاد دہانی کروانے لگی۔کچھ لمحے خموشی رہی پھر صالحہ نے کہنا شروع کیا۔
"میں نے اسے تب ہی کہا تھا کہ زکی کو سچ بتادو" صلاحہ بتانے لگی۔زہرہ جو کو محض آنکھوں میں نمی لیے بیٹھی تھی اب رونہیں رہی تھی
وہ صالحہ کی طرف متوجہ ہوٸ
"لیکن اس کا کہنا تھا کہ تم مِناہل کو اتنا چاہتے ہو کہ اسکی بات کا یقین نہیں کروگے اور پھر اِسے اس بات کا بھی احساس تھا تھا کہ تم اس سے ناراض ہوجاٶگے جو کہ یہ کسی قمت پر افورڈ نہیں کرسکتی تھی!۔" صالحہ پرسکون انداز میں کرسی سے ٹیک لگاۓ کہنے لگی اور اتنے عاملہجے میں جیسے موسم کا حال سنارہی ہو لیکن اس نے زَہرہ کے سر پر بم پھوڑا تھا او باقیوں کے منہ بھی ادھ کھلے تھے۔زکریا کو شاک لگا۔ابراہیم اور انزلنا میں الجھن بھری نظروں کا تبادلہ ہوا لیکن اچنا ہی دونوں کی اپنی اپنی انا یاد آٸ تو رخ ان دونوں کی طرف موڑ لیا۔زکریا اسے شاک کے عالم میں دیکھ رہا۔وہ اسے بغور دیکھے گیا۔زَہرہ نے کنکھیوں سے اسے دیکھا تو وہ اتنے تحیر سے اپنی نیلی نیلی آنکھوں سے دیکھ رہ تھا کہ زَہرہ کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔وہ ابھی بھی اسے دیکھ رہا تھا بنا پلک جھپکے! اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا تھا! وہ اٹھا اور کسی کو دیکھے بغیر تیز تیز قدم چلتا باہر نکل گیا۔
پیچھے سب لوگ حیر سے اسے دیکھتے رہ گۓ۔زَہرہ کے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
"زوہی۔۔۔وہ بس۔تھوڑا اداس ہے اسلیے۔ ٹھیک ہوجاۓ گا تھوڑے وقت میں۔تم لوگ اپنا خیال رکھنا اوکے۔باۓ۔" ابراہیم کو شرمندگی ہوٸ تو اس نے بات سنبھالی وہ جبراً مسکرادی۔
پھر زَہرہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گٸ جبکہ انزلنا دور صالحہ ایک دوسرے کو خاموشی میں ہی اپنی پلاننگس سمجھانے لگیں۔
-------------------
"جناب آج گھر آنے کا دل نہیں کررہا آپکا؟" سارہ نے کال اٹینڈ ہوتے ہی سلام کرنے کے بعد کہا۔ وہ چولھا کی آنچ بند کرکے وہیں کھڑی ہوگٸ۔روز کے معمل کی طرح وہ اسے فون کرکے حال احوال پوچھ رہی تھی بہت اچھے انداز میں!
حذیفہ پانچ بجے تک گھر آجاتا تھا لیکن اب آٹھ بجنے والے تھے۔اس کی بات پر وہ دل کھول کر مسکرایا۔
"کیوں؟آپکو میری یاد آرہی ہے بہت؟" حذیفہ نے دلچسپ انداز میں پوچھا۔فون کے دوسری جانب سارہ نے اپنی ہنسی دباٸ۔
"اممم نہیں! وہ ماما آپکو یادکررہی ہیں۔آپکا پوچھ رہی تھیں کہ کب تک آٸیں گے۔"اب وہ لاٶنج میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گٸ۔
"اہیم! تو ماما کی بہو مجھے مس نہیں کررہی؟" وہ اسکے منہ سے اپنے لیے تعریفی کلمات سننا چاہ رہا تھا
"ہاں بس تھوڑا سا۔۔۔" وہ بھی سارہ تھی اتنیآسانی سے جواب دینا اسنے سیکھا نہیں تھا۔
"اچھا اب آپ جلدی گھر آجاٸیں ورنہ میں کھانا کھا کے سوجاٶں گی پھر آپ خفا ہوں گے۔" انگلی کے گرد بالوں کی ایک لٹ کو گھماتے ہوۓ کہنے لگی۔
"اچھا جی۔ میں آپ سے خفا نہیں ہونے والا۔اور آپ تھوڑا انتظار کریں میں خود دیکھ لوں گا آپکو۔۔۔" وہ اپنی مسکراہٹ دباۓ کہنے لگا۔وہ بلش ہوٸ۔
"بھاٸ۔۔۔ڈیٸر بھابھی میں پورے دو دن بعد آج آرہی ہوں گھر میری پسند کا کھانا بنایا ہے ناں؟" صالحہ کی چلاتی ہوٸ آواز فون پہ ابھری تو سارہ نے کان سے فون کو دور کیا۔
"اوکے پھر جلدی گھر پہنچو۔" اس نے بھی تیز پرجوش آواز میں کہا آخر کزنس تھیں کچھ تو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا اثر تھا۔اب کی دفعہ حذیفہ نے فون کو کان سے دور کیا۔پھر دوبارہ گویا ہوا۔
"بیگم صاحبہ آپ دروازہ کھولیں ہم باہر ہی کھڑے ہیں۔" حذیفہ نے اسے کہا تو وہ حیرت میں ڈوبی پھر جلدی سے دروازہ کھولا۔بیرونی دروازے سے گاڑی اندر داخل ہوٸ اور وہ فون کان سے لگاۓ اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا وہ بھی مسکرای ۔ پھر صالحہ بہت گرم جوشی سے اس سے گلے ملی۔
"بہت بدتمیز ہو صالحہ بتایا بھی نہیں کہ گھر کے باہر ہی کھڑے ہو۔میں سمجھی حذیفہ آفس میں ہیں۔" وہ اسے مصنوعی خفگی کے ساتھ ڈانٹنے لگی۔
"اور آپ۔۔۔"وہ ابھی اسکی طرف مڑی ہی تھی کہ حذیفہ نے اسے خود سے لگاتے ہوۓ ماتھے پر بوسہ دیا اور ریڈ روز بکے اسکے ہاتھ مںی تھمایا۔ سب کچھ اتنا اچنا ہوا کہ وہ سنبھل ہی نہیں سکی اور اب وہ حذیفہ کے بازوٶں کے قید میں تھی۔اس نے حذیفہ کو دیکھ تو وہ مسکرادیا۔
"بھاٸ میں آدونوں کے سامنے کھڑی ہوں ابھی بھی۔" صالحہ نے کھانستے ہوۓ اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔سارہ کے کالوں پہ سرخ رنگ ابھرے وہ فوراً پیچھے ہٹی اور حذیفہ کے ہاتھ سے بیگ اور کوٹ لے کر اندر کی جانب بڑھی۔وہ دونوں بھی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
"ہاں تو؟ بیوی ہے میری تمہیں کیا مسٸلہ ہے چڑیل؟" وہ بچوں کی طرح منہ بسور کر کہنے لگا۔
"تمہارا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔بات کرتا ہوں میں ماما سے۔" حذیفہ نے اسے زچ کرتےہوۓ کہا صالحہ نے اسے گھوری سے نوازا پھر دونوں ہی ہنس دیے۔
"یہیں کھڑے رہوگے یا فریش ہوکر کھانا بھی کھاٶگے؟" کلثوم نے ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر کہا۔۔"ماما میں آج بہت خوش ہوں الحمداللہ۔ اللہ نے میری ساری دعاٸیں سن لی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں آج۔" اسکے چہرہے سے خوشی واضح تھی۔
"کیا ہوا بیٹا؟۔" وہ اس سے پوچھنے لگیں۔
"آپ دادی بننے والی ہیں ماما۔" اس نےخوشی سے چلاتے ہوۓ کہا کچھ دیر وہ اسے حیرت سے دیکھتی رہیں
"الحمداللہ۔۔۔" وہ اتنا ہی کہہ سکیں پھر اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔پھر سارہ کے گال پہ بوسہ دیا۔سارہ کے آنسو بہنے لگے تھے۔ساتھ کھڑی صالحہ نے اسے خوشی سے گلے لگالیا۔ سب بہت خوش تھے۔ایک سال ہوچکا تھا سب نے کتنی ہی دعاٸیں کی تھیں۔حذیفہ اسسے اتنی محبت کرتا تھا وہ اسے مایوسی کی طرف جانے ہی نہیں دیتا تھا اور للہ نے ان سب کو مایوس نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ سب آج بہت خوش تھے بےتحاشہ خوش۔ نعمان صاحب کو بھی اس خبر سے آگاہ کیا انھوں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا جارہا تھا۔حذیفہ کا فون بج اٹھا تو سبکی توجہ اسطرف گٸ۔
"ہاں وعلیکم اسلام۔اچھا تم پریشان مت ہو۔ہاں آرہا ہوں۔اوکے میں پہنچ جاتا ہوں۔"وہ پریشانیکے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا۔کال کٹ ہونے پر سب اسکی طرف دیکھنے لگے۔
"کیا ہوا بیٹا اتنے پریشان کیوں ہو؟ سب خیر تو ہے۔" نعمان صاحب نے پوچھا۔
"معلوم نہیں بابا، زکی کی طڈیعت خراب ہںٸ ہے ہسپتال لے کر جارہے ہیں ایمرجنسی میں۔وہ بتانے لگا اور سب سکتے میں آگۓ
"چلو جلدی گاڑی نکالو۔۔۔صالحہ تم سارہ بیٹی کی پاس رکو ہم تینوںجارہے ہیں۔" انھوں نے پہلی بات حوذی اور دوسری صالحہ سے کہی۔
اس نےکسے کو بھی آج والے واقعے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔زَہرہ کے گھر پر جب حوذی کی کال آٸ تھی تو خبر ہی اتنی اچھی تھی کہ اس نے کسی کو ٹینشن دینا چاہی۔اور بتانا مناسب نہیں سمجھا۔
وہ سب لوگ ہسپتال کے لیے نکل گۓ۔صالحہ اسے ساری تفصیل بتانے لگی۔سارہ کسی بات پہ غصہ ہوتی تو کسی بات پہ دکھی۔
"اللہ جو چاہے گا ہمارے لیے اچھا ہی ہوگا۔شاید زکریا کے لیے اسی میں بہتری ہوگی۔" وہ اسے سمجھانے لگی۔،صالحہ زہرہ کی وجھ سے بہت پریشان تھی۔
"ہاں سارہ۔ اب اللہ تعالی آسانی کرے ان دونوں کے لی۔"وہ کہنے لگی۔
"آمین۔ چلو اب اٹھو عشا۶ کی نماز پڑھتے ہیں۔سب ٹھیک ہوجاۓ گا انشا۶اللہ تم پریشان نہیں ہو۔"اس نے صالحہ کا گال تھپتھپاتے ہوۓ کہا پھر دونوں اٹھ کر چلی گٸیں۔
---------------
"زکی اب طبیعت کیسی ہے؟" کلثوم نے پوچھا۔اسکے والدین حذیفہ کے ماما بابا اور وہ دونوں بھی ہسپتال کے اسی روم میں موجود تھے۔
"بہتر" زکریا نے مختصر کہا۔چند منٹ بعد سب بڑے اٹھ کر باہر چلے گۓ۔مومنہ اور مزمل نے اس اتنی بڑی خبر کے بعد کوٸ ری ایکشن تک نہیں دیا، وہ محض خاموش ہوکر رہ گۓ لیکن سب کو جس کی فکر لاحق تھی وہ زکریا تھا۔
اب ہسپتال کے اس کمرے میں وہ تین دوست تھے۔ ابراہیم دیوارکے ساتھ رکھی ایک کرسی پر خاموشی سے بیٹھا تھا جبکہ حذیفہ پریشان سا زکریا کے ساتھ بیڈ پر بیٹھا تھا۔اسے زکریا اس عمل کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ اور ابراہیم کا بھی غصہ اسی بات کا تھا، اور وہ اپنی خاموںشی سے اس بات کا اظہار بھی کررہا تھا۔
"کیا ہوا؟ کیوں کیا تم نے ایسا؟" پریشانی و غصے کی ملی جلی کفیت میں حذیفہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔وہ اسکا دھیان بٹانا چاہتا تھا اسلیے لہجے میں پیار بھی شامل تھا
"یہ کیا بتاۓ گا میں بتاتا ہوں۔اِسے ہماری کوٸ فکر نہیں ہے خود مرنے پر تُلا ہے اور ہمیں مزید تکلیف دے رہا ہے۔"ابراہیم ناچاہتے ہوۓ بھی غصے کو قابو نہیں کرپایا۔ زکریا نے حرکت ہی ایسی کے تھی کہ اسے اپنے آپ میں زکریا سے زیادہ تکلیف محسوس ہوٸ تھی۔وہ ان کا دوست تھا اور وہ دونوں اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے، لیکن اسکے علاوہ ان دونوں کے پاس کوٸ آپشن بھی نہیں تھا۔اور زکریا نے زندگی بھر زیادہ نازنخرے اٹھاۓ تھے تو یہ سب اسے زیادہ ہی تکلیف دے رہا تھا۔ابراہیم نے کچھ گھنٹے پہلے والا منظر سوچا تو وہ دوبارہ اداس ہوتا گیا۔پھر حذیفہ کو سارا صبح سے لے کر اب تک کا قصو بتایا البتہ وہ کسی اذان نامی شخص کے بارے میں بات کرنا بھول گیا۔
(کچھ گھنٹے پہلے)
وہ زکریا کو اسکے کمرے میں کھانا کھانےکے لیے بلانے جارہا تھا۔زہرہ کے گھر سے واپسے ہوٸ تو اس نے خاموشی سے خود کو کمرے میں بند کردلیا۔مومنہ اور معیز لاٶنج میں ہی بیٹھے تھے۔پہلے تو جب مومنہ نے اس سے زکریا کے بارے میں پوچھا تو وہ ٹالتا رہا لیکن جب معیز صاحب نے تھوڑے سخت لہجے میں اسے سب بتانے کی تلقین کی تو اسنے آج صبح کے سارے واقعے کے بارے میں بتادیا۔مومنہ تو شاک کے عالم میں دسے دیکھتی رہیں۔لیکن معیز نے اسے کوٸ تاثر نہیں دیا ناجانےوہ کس سوچ میں گم تھے۔ابراہیم بوجھل قدموں سے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلاگیا۔کھانے کی غرض سے جب زکریا کو بلانے کے لیے اسکے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے شاک لگا۔
زکریا ہاتھ میں جلتی ہوٸ ماچس کی تیلی پکڑے اسے خالی خالی نظروں سے گھور رہا تھا جب تیلی بالکل بجھنے کے قریب ہوتی تو تو وہ اسے اپنی داٸیں ہاتھ کی کھال پر پوری شدت سے رکھ دیتا اور پھر سیاہ رنگ کے دھبے اسکی کیال میں گڑھ جاتے۔اسکی آنکھ نے آنسو بہہ رہے تھے۔لیکن وہ اسے عمل قو پوری توجہ سے کررہ تھا۔داٸیں ہاتھ کی کہنی سے باٸیں ہاتھ تک ایسے ہی لاتعداد نشانات بن چکے تھے۔ماچس کا ایک خالی پیکٹ کارپیٹ پر گرا ہوا تھا اور ڈھیروں جلی ہوٸ تیلیاں بجھ کر وہیں گری ہوٸ تھیں۔جب کہ اب وہ دوسرا پیکٹ یہی عمل کرتے کرتے آدھا کرچکا تھا۔ابھی بھی ایک ایک کرکے تیلی جلاتا اور جب وہ بجھنے کے قریب ہونے لگتی تو پوری شدت سے اسے اپنے داٸیں ہاتھ پہ رکھ دیتا اور گہراہ داغ بن جاتا۔یہ سب دیکھتے ہی ابراہیم کا دماغ بھک سے اڑگیا۔اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا شاید آنکھوں نے کسی اور زکریا کو دیکھ لیا تھا۔ابراہیم کی آنکھوں میں نمی بھرنے لگی وہ بھاگتا ہوا اسکے پاس آیا اور زکریا کو جھنجھوڑا تو وہ کسی ٹرانس سے باہر آیا۔
"زکی۔۔۔پاگل ہوگیا ہے کیا کیوں خود کو تکلیف دے رہا ہے بھاٸ دفعہ کر اسے۔" ابراہیم آگے بڑھا اور اسکے ہاتھ سے ماچس کا پیکٹ چھین کر دُور پھینکا۔ابھیوہ مزید کچھ کہتا کہاس نے ساٸیڈ ٹیبل سے لیمپ اٹھا کر پوری قوت سے زمین پر دے مارا ابراہیم اسے اسطرح غصے میں دیکھتے ہی سکتے میں آگیا۔زکریاکے آنسو بھی بہہ رہے تھے اور عجیب سا پاگل پن تھا۔،وہ آپے سے باہر ہورہا تھا۔ لیمپ زمین بوس ہوتے ہی کرچی کرچی ہوگیا۔وہ بھی تو کرچی کرچی ہوگیا تھا!۔اسے بھی توآسمان پہ بٹھا کر زمیں پہ پٹخ دیا تھا مِناہل نے۔اس نے بھی تو اسکے بکھر جانے کی پرواہ نہیں کی تھی تو وہ اپنی پرواہ کیوں کرتا۔وہ دل ہی دل میں خود سے مصمم ارادہ کررہا تھا اب وہ خود کو ایک مضبوط چٹان بنالے گا،جس پر میٹھے لہجے فریب کاریاں اثر نہیں کریں۔ جس پر نہ آنسو اثر کریں نہ جھوٹی چاہتیں نہ کسی کی کوٸ دوسری بات۔ہاں وہ خود ایسا ہی بنالے گا کسی مضبوط چٹان کی طرح لیکن ہر جذے اور ہر احساس سے عاری زکریا!
ابراہیم نے اسے بمشکل قابو کیا ہوا تھا۔ لیکن پھر جلدی سے اسلم چچا کو بلانے گیا۔اسکے جانے کی دیر تھی زکریا سامنے رکھے اس بڑے گلدان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے آگے بڑھا۔رو رو کر ایک چیخ چیخ کر ویسے ہی اب وہ نڈھال ہورہا تھا یہ تو اسکی ہمت تھی کہ اب تک ناسمجھی سے ہی سہی لیکن چل رہا تھا۔وہ جیسے ہی آگے بڑھا ٹوٹے ہوۓ لیمپ کا بڑا سا ٹکڑا اسکے پھر کے تلوے میں اندر تک کھب گیا ایک دل خراش چیخ نکلی اور وہ زمین پر ڈھہ گیا۔اب مزید ہوش و حواس میں قاٸم رہنا اسکے لیے مشکل ہورہا تھا۔خون بہت تیزی سے بہنے لگا تھا۔اس نے وہ کانچ کا کُھنا ہوا ٹکڑا نکالنا چاہا لیکن اسکا ہاتھ خون میں رنگ گیا اور وہ تکلیف سے کچھ نہیں کرسکا بےہوشی اسکے حواسوں پہ قاٸم ہورہی تھی وہ وہیں بیڈ سےسہارا لے کر بیٹھا آنسو بہارہا تھا کہ کچھ لمحے میں تکلیف کے سبب بےہوشی اس پر طاری ہوگٸ آخری آواز کسی کے چلانے کی تھی کوٸ اسے تڑپ کر پکار رہا تھا۔ماما۔۔۔بابا۔۔۔نہیں بلکہ شاید کوٸ اور۔۔۔عاب۔۔۔عابی اسکی زندگی کا ایک خاص حصہ جسکے بغیر وہ کچھ نہیں تھا زکریا بےہوشی ہوتی آنکھوں کے ساتھ تکلیف سے ہلکا سا مسکرایا پھر عابی نے شاید اسے تھپتھپایا تھا وہ رونے کے قریب تھا لیکن زکی کچھ نہیں کرسکتا تھا وہ اپنی مدد کرنا ہی نہی چاہتا تھا۔وہ بس بےہوش ہوکر عابی کی کندھے سے لگا رہ گیا۔
(حال)
ابراہیم نے سارا قصہ حذیفہ کو سنایا تو وہ بےیقینی سے زکریا کو دیکھنے لگا۔وہ جانتاتھا زکریا نرم دل کا ملک ہے لیکن اتنا حساس تھا زکریا۔۔۔اسے اب معلوم ہوا تھا۔
زکریا کے پورے داٸیں ہاتھ میں بازو تک دواٸ لگا کر پٹی باندھیگٸ تھی ہاتھ جلا تھا تو تکلیف اتنی آسانی سے نہیں جانی تھی لیکن اسے پرواہ بھی نہیں تھی۔داٸیں پیر میں بھی پٹی بندھی تھی زمین پر ہلکا سا پیر ٹکانےپر بھی تکلیف آسمان کو چھورہی تھی۔وہ تکیے سے ٹیک لگا کر خاموش بیٹھا تھا وہ خود پر ضبط کیے تھا۔وہ ان دونوں کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔ناجانے کیوں لیکن جب سے اذان کا نام سنا اسے دوست جیسے رشتے سے بھی کڑواہٹ محسوس ہورہی تھی۔اسکا کسی سے بات کرنے کا موڈ بالکل نہیں تھا۔اذان اسکا بچپن کا دوست تھا ہر اوٹ پٹانگ حرکت اور بےوقوفی کام میں ساتھ دینے والا۔لیکن ژکریا نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اذان اپنے ہی دوست کو بےوقوف بنا کر اسکی شرافت کا فاٸدہ اٹھاۓ گا۔ مناہل تو مَِناہل لیکن اذان کا دیا ہوا دکھ وہ بھولے نہیں بھول پارہا تھا، اسکا دل دُکھ رہا تھا۔
کون کہتا ہے کہ محبت تکلیف دہ ہوتی ہے! محبت میں آنسو ملتے ہیں!
کبھی کوٸ دل و جان اور چاہتوں کی گہراٸیں سے دوستی نبھا کر تو دیکھے ۔۔۔
محبت سے زیادہ تکلیف دہ دوستی ہوتی ہے!
محبت میں تو کسی کا زندگی میں ساتھ ہونا معنی رکھتا ہے
دوستی میں تو انسان دوست بغیر ہی ادھورا ہوتا ہے۔
کوٸ لفظ "دوست" کی صحیح معنوں پر اتر کر تو دیکھے۔۔۔دوستی محبت سے زیادہ قیمتی ہے اللہ نے دوستی جیسا خوبصورت رشتہ ہمیں دے کر ہم پر احسان کردیا۔ کبھی کسی سے کوٸ تعلق تک نہیں ںہوتا اور پھر وہ ہی لوگ ہنسی خوشی غم تکلیف میں زندگی کا خاص حصہ بن جاتے ہیں۔ان چند لوگوں کے ساتھ زندگی رنگوں میں بھری دکھتی ہے۔
جب انسان رونا چاہے اور اسے اپنے دوست کا کندھا میسر ہو تو وہ دنیا کا امیر ترین شخص ہوتا ہے۔ایک دوست ہی ہوتا ہے جو ہمارے لہجے رویوں کے اتار چڑھاٶ کو ایسے سمجھ جاتا ہے جیسے کسی کتاب کے موضوع پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ لکھنے والا کس بارے میں کہنا چاہ رہا ہے۔انسان دوست کے سامنے کھلی کتاب سا ہوتا ہے۔دوستی ہی ہمیں سکھاتی ہے کہ اجنبی بھی اپنے ہوا کرتے ہیں! محبت محض خون کے رشتوں سے نہیں ملاکرتی۔
دوست دوست ہوتا ہے اور دوست جیسا کوٸ دوسرا شخص ہو ہی نہیں سکتا!.
دوست خوبصورت رشتہ جسے ناکام ہوتے دیکھ کر بھی لوگ اپنی غلطیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
کبھی تم صدق دل سے دوستی نبھاٶ تو جانو کسی کا اچھے اور بُرے وقتوں میں ساتھ ہونا اللہ کی طرف سے کتنی بڑی نعمت ہے۔
دوست زندگی کی کٹھن راہ میں کسی ساۓ کی طرح اور کسی صحرا میں بہار کا احساس ہوتا ہے۔
دوستی زندگی کی ریسیپی میں ایک اہم اجزا۶ ہوتا ہے۔
"زکی انکل آنٹی کو بھی دکھ ہورہا ہے تجھے ایسے دیکھ کر۔ ود کو اسطرح تکلیف نہیں دے۔ چھوڑنے والے تو چھوڑ کر چل جاتے ہیں انھیں تو محض ایک بہانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔"حذیفہ اسکے کمر تھپتھپاتے ہوۓ کہنے لگا۔ابکی دفعہ زکریا برداشت نہیں کرپایا
"میں کیوں کروں کسی کی پرواہ؟میں کیوں کروں کسی کی تکلیف کو محسوس؟ اس نے میری پرواہ نہیں کی۔تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی انسان ہوں میں بھی! مجھے کس بات کی سزا مل رہی ہے؟تم کسی کی تکلیف کسی کے درد کو محسوس نہیں کرو لیکن تم چاہتے ہو کہ سب تمہاری تکلیف کو محسوس کریں۔۔۔تو ایس ہرگز ممکن نہیں"وہ تقریبا چلاتے ہوۓ کہنے لگا پھر اچانک حذیفہ کے گلے لگ کر رونے لگا۔بہت دیر وہ روتا رہا اور وہ لب بھینچے اسے دیکھتا رہا ابراہیم تو اٹھ کر ایک کھڑکی کی جانب خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔پوری کمرے میں خاموشی تھی البتہ رات اس دوسرے پہر محض زکریا کے رونے کی آواز نے ہر چیز کو باور کروایا تھا کہ ایک دل تکلیف میں ہے۔
"ح ح حوذی م میں ا ا ایسا بننا ن نہیں چاہتا لیکن ی یہ ت تکلیف م مم مجھے مجبور کررہی ہے۔" زکریا نے ہکلاتے ہوۓ دل کے اوپر ہاتھ رکھ کر کہا کہا۔آج ان نیلی آنکھوں کی چمک بھی ختم ہوچکی تھی اور وہ مسکراہٹ وہ جس کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہی گالوں میں گڈے پڑجاتے تھے وہ بھی غاٸب وہ نیلی آنکھیں کسی آبشار کی طرح دکھ رہی تھیں۔ حذیفہ سے اسے مزید ایسے دیکھا نہیں جارہا تھا اس نے زکریا کو مضبوطی گلے لگالیا جب کو ابراہیم نم آنکھوں سے کھڑکی کے باہر چھاٸ ہوٸ اندھیری رات کو نم آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
-----------------
”زَہرہ میرا بچہ تم بی کھانا کھاٶ ایس گم صم بیٹھی ہو“ دادو نے کہا تو وہ زبردستی منہ میں چھوٹے چھوٹے لقمے ڈالنے لگی۔
”دادو زوہی ڈاٸٹ پہ ہے“ انزلنا نے اسے نوٹ کرتے ہوۓ فوراً بات سنبھالی۔
”ہیں؟ اگر یہ ڈاٸٹ کرے گی تو سارا کھانا کون کھاۓ گا۔“ اسامہ نے بھی سبکے چہروں پہ مسکراہٹ لانے کی کوشش کی اور وہ کامیاب بھی ہوا۔انزلنا سے اسکی اچھی خاصی دوستی ہوگٸ تھی جبکہ زَہرہ سے اتنی بات نہیں ہوٸ تھی لیکن ہنسی مذاق میں اسکا ساتھ ضرور دے دیتی۔
اذان نے آنکھ کے کونے سے اس دیکھا و اسے پریشان پریشان سی لگی۔
”نہیں اسامہ یہ سب تو تمہارے لیے ہے۔اب آپ اتنی محنت مشقت والی پولیس آفیسر کی جاب کرتے ہیں تو اپنی صحت کا خیال تو رکھنا چاہیے۔“ انزلنا نے چہرے پر بھرپور شرافت سجاۓ اداکاری کی تو تو وہ چاہ کر بھی اپنا قہقہہ نہیں روک سکا۔باقی سب بھی ہنس دیے۔
”ویسے دادو میں آپکو دادو ہی کہوں گی۔اچھا لگتا ہے یہ کہنا دادو دادو دادو۔“ انزلنا کسی سُر میں بتانے لگی تو سب کے قہقہے بلند ہوۓ۔
”اذان بیٹا تمہارا ہاتھ کیسا ہے اب؟“ حنا کی توجہ اسکے ہاتھ کی طرف گٸ تو پوچھا۔اس نے چونک کر زَہرہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی پھر فوراً ہی حنا کی جانب دیکھنے لگا۔
”جی آنٹی اب بہتر ہے۔“ اس نے کہہ کر کھانے کی طرف دھیان دیا۔
”تم دونوں حنا کو خالہ کہہ لیا کرو۔سدرہ اور حنا کی دوستی بھی اتنی لاجواب تھی دونوں بہنوں کی طرح رہتی تھیں دونوں۔اور عادل اور مزمل بھی کچھ کم نہیں تھے۔“ ناصرہ بیگم بتانے لگیں تو حنا اور مزمل مسکرادیے۔
لوگ چلی جاتے ہیں اور محض یادیں رہ جاتی ہیں۔
”ہاں بیٹا تم دونوں بھی میرے لیے ثاقب کی طرح ہو خالہ پھپھو چچی جو اچھا لگے کہا کرو۔“حنا نے کہا تو وہ دونوں مسکرا دیے۔
”اذان اسامہ یہ ڈزرٹ نہیں کھانا۔“ ثاقب نے کھانا کھاتے ہوۓ اچانک کہا تو سب اسکی طرف متوجہ ہوۓ
”کیوں؟“ اذان اور اسامہ نے ساتھ پوچھا۔
”یہ زَہرہ نے بنایا ہے کوٸ گارنٹی نہیں ہے پھر بعد میں شکایت کے قابل نہیں رہوگے۔“ثاقب نے اپنی بہن کی تعریف کرتے ہوۓ کہا تو سب ہنسے لیکن زَہرہ نے اسے غصے سے دیکھا جبکہ اذان محض مسکرادیا۔
”اور اگر آپ سب ثاقب کے ہاتھ کا بنا ہوا آملیٹ کھاٸیں تو آپکے لیے اندازہ لگانا مشکل ہوجاۓ گا کہ انڈہ کھانا ہے یا صرف دیکھ کر پیٹ بھرنا ہے۔“ زَہرہ نے معصومانہ صورت بناتے ہوۓ کہا اور بریانی کا ایک لقمہ منہ میں ڈالا۔ پہلے تو ثاقب اپنی تعریف وصول کرتا رہا لیکن پھر اچانک کے حملے پر زَہرہ کو گھوری سے نوازا اتنے میں تمام لوگوں کے قہقہے بلند ہوۓ۔ اور زَہرہ نے ثاقب کو دیکھ کر زبان چڑاٸ اور اب کی دفعہ اذان اسے دیکھ کر اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔
زَہرہ اور انزلنا نے صبح والا واقعہ گھر میں کسی کو نہیں بتایا تھا گھر پر مہمان تھے اور وہ کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں اور زَہرہ نے ابھی حنا کو اسلیے بھی نہیں بتایا کہ انزلنا کو لے کر وہ پہلے ہی بہت خوش تھیں۔وہ امی جان سے کل ہی بات کرے گی یہ سوچ کر وہ سونے کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گٸ۔
-----------------
”اب کیسی ہے طبیعت زکریا کی؟“ اس نے کمرے میں ٹہلتے ہوۓ پریشانی کے عالم میں پوچھا۔اب وہ بالکونی میں جاکر کھڑی ہوگٸ تھی۔سوٸٹر پہنے کوفی کا مگ ہاتھ میں لیے سردیوں کی راتیں بھلی لگ رہی تھیں۔ وہ کسی الجھن کا شکار تھیں۔اسے اس بات کی تکلیف تھی کہ وہ سب جو اس نے تین سال سے زکریا سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی وہ سب یوں سامنے آیا کہ وہ اس سے مکمل طور پر بدظن ہوگیا تھا جیسا اس نے چاہا نہیں تھا۔
(میں نے تم پر بھروسہ کیا تھا زوہی؟)“ اسکے الفاظ زَہرہ کے کانوں میں صبح سے گونج رہے تھے اسے بُرا محسوس ہورہا تھا۔
”ابھی گھر پہنچے تھے تھوڑی دیر پہلے دواٸ دی ہے ابھی اپنے کمرے میں لیٹا ہوا ہوا ہے بہتر ہی ہے بس لیکن مینٹیلی طور پر بہت زیادہ ڈسٹرب ہے تم دعا کرو بس۔“ موباٸل کے دوسری جانب سے ابراہیم کی آواز ابھری۔
”ہاں۔۔۔عابی تمہیں یہی لگتا ہے کہ غلطی میری ہے؟“ ناچاہتے ہوۓ بھی زَہرہ کی آواز بھر آٸ تھی
”ارے نہیں میری بہنا۔تمہیں تو معلوم ہے یار وہ ایسا نہیں ہے بس یہ سب اسکے لیے کسی صدمے کی طرح ہے۔انسان جب اپنے من چاہے انسان کی طرف سے نظرانداز ہوتا ہے، وہ اسے ریجیکٹ کرتا ہے تو پھر انسان ایسا ہی ہوجاتا ہے دل بہت دُکھتا ہے۔ اللہ تعالی آسانی کرے گا انشا۶اللہ ،تم زیادہ سوچو نہیں۔“ ابراہیم نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا اور اس نے جبراً مسکرا کر ہاں ہوں میں جواب دیا۔
”ویسے میری ہونے والی بیگم صاحبہ کہاں ہیں؟“ ماحول کے تناٶ کو تھوڑا کم کرنے کےلیے اس نے کہا تو زَہرہ ہنس دی
”وہ اپنے کمرے میں ہے“
”اچھا سورہی ہے؟“
”نہیں،تم مس کررہے ہو اسے؟ ہاں“ زَہرہ اسے ٹیز کرنے لگی تو وہ ہنس دیا۔
”یار زوہی چار دن۔۔۔صرف چار دن میں اتنابدل گٸ ہے وہ! آج تو دوپٹہ اوڑھ کر اتنی پیاری لگ رہی تھی اُففف۔۔۔کیا بتاٶں اب“وہ ویسے ہی اپنے دل کا حال سنانے لگا تو زَہرہ اسکی بات پر بہت ہنسی اور پھر ہنستی رہی۔
”اوۓ بہنا یہ تم اتنا کیوں ہنس رہی ہو؟سچ کہہ رہا ہوں۔اور اتنی شریف صورت بناۓ بیٹھی تھی کہ بس یہ جو دل ہے ناں۔۔۔یہ میرے ہاتھوں سے ہاتھوں سے جارہا تھا۔۔۔“ وہ مسکراتے ہوۓ مزید بتانے لگا۔
”اچھا بس اب باقی تعریفیں بعد میں سنادینا۔ویسے تمہیں اندازہ نہیں آج سنڈے تک تمہارے ایکسیڈینٹ کو چار دن ہوۓ ہیں اور وہ اتنا روٸ ہے کہ بس۔“ وہ اپنی بہن کی حمایت میں سنجیدہ ہوکر بتانے لگی۔
”میں قربان جاٶں تم پہ انزلنا۔۔۔“وہ جیسے اسکے نقش کو ذہن کے پردے پر دیکھتا ہوا مسکرا کر کہنے لگا تو وہ مسکرادی۔
”ایسے ہی رہنا ہمیشہ میری بہن کے ساتھ۔ بہت چلبلی سی ہے۔اور جب اسے تمہارے سرپراٸز کے بارے میں معلوم ہوگا تو پھر دیکھنا تم۔“ زَہرہ نے اسے وان کرنے والے انداز میں آگاہ کیا تو اسکا قہقہہ بلند ہوا۔
”ہاہاہا بہت مزہ آۓ گا جب یہ سرپراٸز اسے ملے گا۔“ ابراہیم نے کہا۔
زَہرہ اسے یاد کررہی تھی وہ بیمار تھا تکلیف سے گزر رہا تھا لیکن وہ اسکے لیے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔سواۓ دعا کے، آج بھی کتنی دعاٸیں مانگ رہی تھی۔پورے دن کے بعد اب تھوڑا بہتر محسوس کررہی تھی۔لیکن اسے زکریا کے لفظوں سے بہت تکلیف پہنچی تھی بے تحاشہ تکلیف،لیکن اسے نے اس بات کو بھرپور طریقے سے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔اور اب ابراہیم کی باتوں پ اسے ہنسی آرہی تھی۔وہ خوش تھی کہ وہ اسکی بہن کو اتنا چاہتا ہے۔
”اللہ تم دونوں کو اسی طرح محبت میں جوڑے رکھے آمین۔“ زَہرہ نےپورے دل سے دعا تھی تو وہ مسکرادیا۔
”تمہیں بھی۔۔۔۔۔“ ویٹ ایک بات تو بتاٶ زوہی“ابراہیم نے بھی وہ ہی کہا پھر تشویش بھرے لہجے میں مخاطب کیا۔
”یاں پوچھو۔“
”تمہیں اھی تو کوٸ پسند ہوگا مطلب تمہیں بھی شاید کسی سے محبت ہوٸ ہوگی! کون ہے وہ؟“ وہ اسے زچ کرنے کے لیے پوچھنے لگا
””بتادوں گی پھر کبھی۔“ وہ کہنا کچھ اور چاہ رہی تھی لیکن منہ سے یہ جملہ نکل گیا۔
”ک کک کیا؟ مطلب؟ واقعی زوہی؟“ وہ تقریباً چلایا تھا زَہرہ نے موباٸل کو کان سے دُور کیا پھر اسے اپنے کہے گۓ الفاظ یاد آۓ تو خود کو سرزنش کی۔
”آہستہ بولو عابی بہری نہیں ہوں میں۔“ زَہرہ نے چڑتے ہوۓ کہا
”اوۓ چھوٹی چڑیا۔پلیز میری پیاری اچھی والی بہن ہے ناں۔اب جلدی سے بتاٶ کون ہے وہ بندہ؟ آخر میری ساری انفارمیشین تمہیں معلوم ہے تم اپنے بھاٸ کو نہیں بتاٶ گی اب؟“ وہ رونے کی بھرپور اداکاری کرنے ہوۓ بولا تو زَہرہ نے اپنی ہنسی کو بمشکل بریک لگایا۔
”یاں تو؟ تم میری بہن سے محبت کرتےہو اور پھر بہر جلد شادی بھی کرنے والے ہو تو انفارمیشن لینا بھی تو ضروری تھی تمہارے بارے میں۔اگر بعد میں اپنے کسی وعدے سے منہ پھیر لیا تو ٹانگیں توڑ دوں گی۔“ وہ فخریہ لہجے میں کہنے لگی ابراہیم ہنس دیا۔
”میں تمہاری بہن سے محبت کرتا ہوں اور تم میرے بھاٸ سے محبت کرتی ہو!۔“ ابراہیم نے اسکے پہلے جملے کو نشانہ بناتے ہوۓ زچ کرنا چاہا اور وہاں زَہرہ کے جسم کا خون جیسےگردش کرنا بند ہونے لگا تھا۔اسے کس نے بتایا کہ۔۔۔وہ سوچ رہی تھی کہ ابراہیم کی آواز پر حال میں واپس آٸ۔
”کہاں غاٸب ہوگٸ تھیں؟ مریخ پہ چلی گٸیں تھیں کیا؟ میں مذاق کررہا تھا یار چِل۔“ وہ ہنستے ہوۓ کہنے لگا تو اسکی رکی ہوٸ سانس بحال ہوٸلیکن زَہرہ کی اتنی دیر خاموشی نے اسے تجسس میں ڈالا تھا اور زَہرہ کا دل چاہا اسکا سر دیوار سے دے مارے۔
”ویسے زوہی۔“ اسکے دماغ کی چابی دوبارہ بھری تھی۔
”ہاں بولو بھی۔“ اب اسے نیند آنے لگی تھی اس نے جھنجھلاتے ہوۓ کہا۔
”ویسے میرا بھاٸ اتنا بُرا بھی نہیں ہے۔“فون کے باوجود بھی وہ سمجھ گٸ تھی ابراہیم اسے زچ کرنے کے لیے کہہ رہا تھا اور اب وہ ہنسی دباۓ اسکے مرچوں بھرے جواب کا منتظر تھا۔
”بکواس بند کرو تم اپنی۔پورے دن کی تھکاوٹ سر چڑھ کر بول رہی ہے۔“ زَہرہ نے کہا تو اسکا جاندار قہقہہ بلند ہوا اور اس سے پہلے وہ جوابی کارواٸ کرتا زَہرہ نے خداحافظ کہہ کر کال کاٹ دی۔
پھر اپنے بستر پہ جاکر ہوسگٸ۔
***************
