"امید" (حصّہ اوّل)

870 30 7
                                    

صبح ہونے میں صرف تھوڑی دیر ہی باقی تھی۔لان میں بڑے بڑے درخت اور اُن پر آویزاں چھوٹی چھوٹی روشنی بکھیرتی لاٸیٹیں،جگنو کی مانند پورے لان میں مدھم سی روشنی پھیلایَ ہوی تھیں۔
سیّدہاٶس میں ہر طرف سکون اور خوشگواری پھیلی ہوٸ تھی کہ اچانک ہی سے گھر کے بیرونی دروازے پر گاڑی کے ہارن کی آواز سناٸ دی۔اسلم چچّا ابھی اپنے کاٹیچ سے باہر نکلے تھے،لان میں پودوں اور درختوں کو پانی ڈالنے کے لیے کہ ہڑبڑا کر فوراً دروازے کی طرف بھاگے،صبح کی ٹھنڈی ہوا اور ماحول میں تازگی ایک الگ سماں پیش کر رہی تھی۔طلوعِآفتاب کچھ ہی دیر میں ہونے والا تھا۔اسلم چچّا بَخوبی واقف تھے کہ دروازے کے باہر گاڑی میں موجود کون شخص ہے جو ہارن پہ ہاتھ رکھ کر ہٹانا ھی بھول گیا ہے۔اس لیے فوراً دروازہ کھولنے کے لیے دوڑے جیسے ہی دروازہ کُھلا کالے رنگ کی چمچماتی گاڑی  اندر داخل ہوٸ اور پھر تھوڑی دیر بعد دروازہ کُھلنے کی آواز آٸ اور اسلم چچّا گاڑی کا گیٹ کھولنے آۓ، اتنے میں ایک شخص گاڑی سے باہر نکلا
جوگنگ سوٹ میں ملبوس کانوں میں اٸیرپوڈز لگاۓ کھلتی رنگت اور چھ فٹ دراز قد والا وہ شخص زکریا تھا۔
مسکراہٹ دباۓ وہ اسلم چچا سے معذرت کررہا تھا۔
"اسلم چچّا ! آٸ ایم سوری، مجھے معاف کردیں،مگر میں کیا کروں؟ مجھ سے انتظار ہی نہیں ہوتا"۔
وہ چہرے پر زمانے بھر کی سنجیدگی سمیٹے ہوۓ اسلم چچّا سے مخاطب ہوا جو ابھی اپنا سانس بَحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس کے چہرے کی سنجیدگی کو خاطر میں نا لاتے ہوۓ خفگی سے بولے
"زکی بابا! میں تم سے سخت ناراض ہوں،تم اس عمر میں بھی مجھے تنگ کرتے ہو،اب میری اتنی ہمّت نہی کہ میں ادھر ادھر دوڑیں لگاٶں۔میری زندگی کے کچھ ہی دن تو باقی ہیں۔تم نہیں سدھرنے والے۔“
وہ بات کو دوسری طرف چہرہ پھیر کر خفاخفا سے انداز میں کہہ ہے تھے۔زکریا جو اتنی دیر سے ان کی باتوں کو مزے سے سُن رہا تھا۔
یکدم آگے بڑھا اور اسلم چچّا کا گلے لگا لیا، وہ جانتا تھا کہ اُن کی آنکھوں میں آنسُو تیرنے لگے ہیں،اس لیے اُنھیں فوراً اپنی طرف موڑ کے گلے لگا لیا اور آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا: ابھی تو آپ نے مجھ جیسے نکمّے کےساتھ ہی رہنا ہے۔مجھے تو برداشت کرنا ہی پڑے گا اور خبردار! اب اگر آپ نے ایسی باتیں کی تو میں آپ سے ناراض ہو جاٶں گا۔" وہ اسلم چچّا سے ہنوز سنجیدگی سے بات کرتے ہوۓ بولا۔
"اور ابھی تو آپ نے اپنے پوتا،پوتیوں کے ساتھ بھی کھیلنا ہے" آخری بات پہ اسلم چچّا نے گردن اُٹھا کر اُسے گھُورا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔اُس کے دونوں گالوں پر پڑتے ڈمپل یعنے جسے اسلم چچا گَڈّے کہتے تھے اُسے یقیناً پُرکشش اور خوبصورت بناتے تھے۔نیلی آنکھوں میں سنجیدگی کی جگہ ایک اور بار شرارت نے لے لی تھی۔ اسلم چچّا نے اس کے سر پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوۓ کہا۔
"حد ہے بھٸ اس لڑکے سے۔ “ وہ جھریوں زدہ چہرے پر انتہا کی سنجیدگی سجاۓ افسوس سے کہنے لگے اور اسکی ہنسی چھوٹی۔ وہ پودوں کو پانی ڈالنے چلے گۓ
زکریا کی سنجیدگیسے بنتی نہیں تھی۔زکریا اور سنجیدگی دو متضاد تھے۔وہ انتہا کا خوش باش اور دوستانہ مزاج کا شخص تھا۔
یونیورسٹی کا لاسٹ ایٸر تھا۔آج اتوار کا دن تھا۔تو وہ فجر کی نماز ادا کر کے جوگنگ کے لیے چلا گیا تھا۔گیرج میں گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ اسلم چچّا کیساتھ کھڑا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ اسلم چچّا سیّدہاٶس کے سب سے بڑے اور بھروسے مند ملازم تھے۔
جب اُس نے داخلی دروازے میں قدم رکھا تو ہرسُو سکون اور اور خاموشی کی فضا۶ پھیلی ہوٸ تھی۔ سیّد ہاٶس میں کوٸ دن ایسا نہیں ہوتا،جس دن کوٸ فجر کی اداٸیگی کے لیے بیدار نہ ہو۔یقیناً ماما ذکر اذکار میں مشغول ہوں گی اور بابا تو اب تک سوچکے ہوں گے۔
بھوک بہت کھرچ کر لگ رہی تھی۔ابھی اس نے ناشتہ کرنا تھا۔اور سرونٹ کوٹیج سے کوٸی ملازم نہیں آیا تھا۔جبکہ اسلم چچا کے ذمہ یہ کچن کا کام نہیں تھا۔ماما کو تنگ کرنا اس نے مناسب نہیں سمجھا۔ایک تو ویسے ہی وہ پانی بواٸل کرلیتا تو بہت تھا۔
فیالحال بھوک مٹانے کے لیے کچھ تو کرنا تھا اور اسی سوچ کے تحت وہ کچن میں قدم رکھ چکا تھا۔۔۔
           ************

Assalam a alikum...kese hen ap log... Mujhe maloom hai ye bohut he short epi tha Lekin meri urdu typing bilkul achi NAI. agar apko ye epi acha laga to votes coments to zaroor dega...phir next epi k saath mulaqat hogi insha'Allah...
Tab tak k leye
Apna khayal Rakhen💛
Tab tak k leye

 "امید"    Where stories live. Discover now