"امید" (قسط نمبر 16)

230 15 7
                                    

"کیا ہوا ابراہیم؟ کل سے بہت خاموش ہو کوٸ بات ہوٸ ہے کیا؟" زکریا نے ابراہی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو ابراہیم نے اُس کی جانب دیکھا۔
"کچھ نہیں بس سر میں درد ہے کل سے،" اس نے بہانہ تراشا پھر خاموش ہوگیا۔ گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی اور اسٹیرنگ پر ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوگٸ۔کچھ دیر بعد گاڑی تیز رفتاری سے منزل کی طرف رواں تھی۔ زکریا تمام صورتِ حال دیکھ رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے گاڑی کا اسٹیرنگ ابھی باہر نکل کے آجاۓ گا۔
"عابی بتاٶ یار کیا ہوا ہے؟ انزلنا سے دوبارہ لڑاٸ ہوٸ ہے کیا؟" زکریا نے تھوڑی تشویش سے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔کچھ دیر تک گاڑی میں خاموشی چھاٸ رہی پھر ابراہیم نے کہنا شروع کیا۔
"میں اُسے پسند نہیں ہوں۔۔۔۔۔ اور وہ کسی اور کو چاہتی ہے۔"وہ سپاٹ لہجے میں کہہ گیا تھا۔۔زکریا نے دیکھا ابراہیم غصہ ضبط کیے گاڑی ڈراٸیو کررہا تھا۔
"اُس نے خود کہا ہے تم سے؟" زکریا نے سوال کیا۔
"ہاں" مختصر جواب دیا۔
"میں اب مزید اُس سے کچھ نہیں کہوں گا، ملنا ہوگا تو مل جاٸیں گے۔"ابراہیم نے بات پوری کر کے خاموشی اختیار کرلی زکریا سوچ میں پڑگیا تھا آج ابراہیم غلطی سے بھی نہیں مسکرایا تھا۔آج اس کے چہرے پر صرف غصہ اور تکلیف تھی۔
"گاڑی دھیرے چلاٶ عابی ، مجھے ابھی گھر جانا ہے تم ہسپتال لے کر جانا چاہتے ھو کیا؟" زکریا نے خفگی سے مسکرا کر کہا تو ابراہیم نے اسے دیکھا۔
"اوکے تم سیٹ بیلٹ باندھ لو بس۔" ابراہیم نے مصنوعی مسکراہٹ سے کہا۔
حذیفہ کی کال آرہی تھی۔ ابھی وہ دونوں کسی کام کے سلسلے میں حذیفہ کے پاس جارہے تھے۔ جلد بازی میں کال اٹینڈ کرنے کے چکر میں ابراہیم کے ہاتھ سے موباٸل چُھوٹ گیا۔زکریا کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ نیچے سے موباٸل اٹھانے کے لیے جھکا۔ دو تین دفعہ ادھر ادھر دیکھنے پر بھی موباٸل نہیں مل پارہا تھا
"عابی سنبھل کے۔۔۔۔۔" آخری آواز جو اُس کے کانوں میں گونجی تھی کسی چیز سے ٹکرانے کی زوردار آواز آٸ تھی، اُس سر اُٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی لیکن اسٹیرنگ زور سے اُس کے سر کے پچھلے حصے پر لگا۔خون کے قطرے ابراہیم کیے ہاتھوں پر بہہ رہے تھے۔ اُس نے ایک اور دفعہ سر اٹھا کر دیکھنا چاہا لیکن کانچ کا کوٸ ٹکڑا اس کے سر کے پچھلے حصّے میں کُھب گیا۔اب خون کی دھار سر سے بہہ رہی تھی اور ہاتھ اور پاٶں خون کی ضد میں آچکے تھے۔ چند اُکھڑتی ہوٸ سانسیں لے کر گردن تھوڑی موڑی تو زکریا کا لہو لہان چہرہ وہ بمشکل ہی دیکھ سکا اور پھر ہر منظر دھندھلا گیا۔۔۔
               --------------------
"زوہی coffee پی لو ٹھنڈی ہورہی ہے۔" صالحہ کے کہنے پر وہ اس کی طرف متوجہ ہوٸ۔ وہ دونوں کیفے میں بیٹھی سرد موسم کے آغاز میں coffee پی رہی تھیں۔آج موسم بہت خوشگوار تھا اور آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔صالحہ نے محسوس کیا تھا زَہرہ آج صبح سے ہی خاموش خاموش تھی اس لیے وہ اُسے اپنے ساتھ آٶٹنگ پہ لے آٸ تھی۔
"تم جانتی ہو ناں صالحہ وہ ڈیڑھ سال کیسا گزرا تھا!" زَہرہ نے دھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے کچھ یاد دلانا چاہا۔
"ہاں بلکل،وہ وقت میں کبھی نہیں بھول سکتی۔تمہیں ایسے تکلیف میں دیکھنا میرے لیے دشوار تھا۔اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں تمہیں وہ سب کچھ تمہارے لیے کرتی جس سے تمہاری خوشی جڑی تھی۔"صالحہ کچھ یاد کرکے کہنے لگی۔
"تمہیں معلوم ہے صالحہ وہ وقت یقیناً بہت مشکل تھا میرے لیے۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ ساری پریشانیاں اور مصیبتیں میرے لیے ہی لکھ دی گٸ ہیں۔اسے اللہ سے رو رو کر مانگنا میری عادت ہوگٸ تھی۔مجھے سارے شکوے اللہ سے ہی ہوتے تھے(یہ بات کہہ کر وہ اپنے جاری ہونے والے آنسو صاف کرنے لگی جو کہ اس کے نقاب میں جذب ہورہے تھے) میں سب کچھ بھول چکی تھی یہاں تک کہ یہ بات بھی کہ اللہ سے زیادہ کوٸ میرا بھلا نہیں چاہ سکتا۔ جسے اللہ آپکے لیے لکھ دے وہ آپ سے چاہے کتنا ہی دُور کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ آپ کا ہی رہتا ہے۔" اپنی بات مکمل کرکے اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔
"ٹھیک کہا تم نے۔انسان شکوے بھی تب ہی کرتا ہے جب وہ حقیقت سے منہ موڑ لیتا ہے۔اگر ہم حقیقت کو قبول کرنا سیکھ لیں تو اتنی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔"صالحہ نے کوفی کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔
"ہم سمجھتے ہیں کہ تکلیفوں،پریشانیوں اور مصیبتوں سے صرف ہم ہی گزر رہے ہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا، ہر انسان اپنے اندر ایک جنگ لڑرہا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ اسے دوسروں پر ظاہر کردیتے ہیں،اور بعض سب لوگوں سے چُھپا کر رکھتے ہیں۔
میں جب بھی راتوں کو روتی تھی میں اللہ سے شکوے ہی کرتی تھی۔لیکن میں غلط تھی۔ ہر انسان کے پاس کوٸ نہ کوٸ ایسا شخص ضرور موجود ہوتا ہے جو اُس کے اچھے عمل پر خوش، اور برے عمل پر اُسے سمجھاتا ہے۔اُس دن جب میں یونیورسٹی سے واپس آٸی تھی تو امّی جان اپنے کمرے میں جاۓنماز پر بیٹھیں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں۔ وہ ہر ایک آیت پڑھنے کے بعد اُس کا ترجمہ بھی پڑھتیں، اور اس قرآن میں تفسیر بھی لکھی تھی جوکہ آیت کا مقصد بتاتی تھی۔
میں اپنے کمرے میں بند بیٹھی رورہی تھی۔اُس کی منگنی کو ایک سال گزر چکا تھا اور میرے رونے کی شدت میں کمی نہیں آٸ تھی اور نہ میں نے اسے مانگنا چھوڑا تھا۔میں روز راتوں کو بیٹھی روتی رہتی اور اسے مانگتی تھی اور اللہ سے گلے شکوے بھی کرتی۔صالحہ مجھے ایسا لگتا تھا میں واقعی اس کے بغیر نہیں رہ سکتی،ہر دن اداس لگتا تھا یا شاید یہ سب میرا اپنا کیا دھرا تھا۔میں عصر کی نماز پڑھ کر امّی جان کے کمرے میں بیڈ کے کنارے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند کر بیٹھ گٸ۔امّی جان کو سب معلوم تھا! تو وہ تلاوت کرتی رہیں،اور میں آنکھیں بند کیے ان آیات اور ان کا ترجمہ سنتی رہی۔۔۔" اپنی بات ادھوری چھوڑ کر زَہرہ سسکیوں سے رونے لگی۔ آواز اتنی تھی کو صالحہ ہی بمشکل سن سکی تھی۔بہت دیر سے صالحہ اس کی باتیں سُن رہی تھی اور اب اس کا چہر دیکھںنے لگی۔
"تمہیں معلوم ہے! وہ آیت کیا کہہ رہی تھی مجھ سے؟اللہ تعالٰی مجھے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا؟" زَہرہ نے آنکھوں کے کٹوروں میں آنسو لیے صالحہ سے پوچھا تو اس نے سوالیہ نظروں سے اس سے پوچھا۔
"اُس دن یعنی آج سے ڈیڑھ سال پہلے امّی جان سورة النسا۶ کی تلاوت کررہی تھیں جب میں نے وہ آیت سنی۔
ترجمہ: "اللہ ایک ذرّہ بھر ظلم نہیں فرماتا اور اگر کوٸی نیکی ہو تو اُسے دوگنی کرتا ہے اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔"
(سورةالنسا۶ آیت نمبر ٤٠)
اور یہ آیت سنتے ہی میری آنکھوں کا نمکین پانی زاروقطار بہنے لگا مجھے ایسا لگا جیسے اللہ نے یہ بات خاص طور پر مجھ سے کہی ہے۔صالحہ! اس دن میرے ربّ کی جانب میرا پہلا قدم تھا۔
زندگی کی بےشمار پریشانیاں اور مشکلات ہم انسانوں کی اپنی ہی پیدا کی ہوٸ ہوتی ہیں۔اور ہم ذمہ دار اللہ کو ٹہراتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کسی انسان پر ظلم نہیں کرتا اللہ اگر تکلیف دیتا ہے تو یہ دیکھنے کے لیے کہ اُس کا بندہ اس پر کتنا بھروسہ کرتا ہے! چاہے پوری دنیا ہمارا ساتھ چھوڑ دے، اللہ کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا! اور ہمارے ہر اچھے عمل اور نیکی پر ہم سے مزید محبت کرتا ہے۔"
زَہرہ کوفی کی آخری سپ لینے کے بعد خالی کپ کو دیکھنے لگی۔صالحہ بھی اسے سن رہی تھی وہ جانتی تھی جب وہ اس دن زَہرہ کے گھر اس سے ملنے گٸ تھی تو وہ مغرب کی نماز پڑھ کر کیسے بچوں کی طرح رورہی تھی! صالحہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہی اسے گلے لگایا تھا اور اس کے ہچکیاں مزید بڑھ گٸ تھیں۔ تب زَہرہ نے اُسے ایک آیت کا ترجمہ بتایا تھا جسے اس نے اُسی دن امّی جان سے سنا تھا اور انھوں نے اُس کے کہنے پر تفسیر بھی بتاٸ تھی۔
                -------------------
ترجمہ: اے سننے والے تجھے جو بھلاٸی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بُراٸی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے"
(سورةالنسا۶ آیت نمبر ٧٩)
"صالحہ، اللہ ٹھیک کہتا ہے! وہ بالکل ٹھیک کہتا ہے! میں غلط ہوں صالحہ۔" اس دن زَہرہ دو سال کے بچے کی طرح رو رہی تھی لیکن آج وہ آنسو کسی انسان کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے فرمان کی وجہ سے تھے۔ اور اب زَہرہ نے منہ زبانی بتانا شروع کیا۔
"تمہیں معلوم ہے صالحہ! آپﷺ کے زمانے میں ایسے بہت سے لوگ تھے جنہوں نے صرف منہ زبانی ہی کلمہ پڑھا تھا۔ وہ لوگ آپﷺ کے پیٹ پیچھ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ منافقین تھے،کفار اور مشرکین سے دوستی رکھتے تھے، ان کی محفلوں میں بیٹھتے تھے۔ اور تمہیں معلوم ہے ان منافقین کی سب سے بڑی منافقت کیا تھی؟" زَہرہ نے صالحہ سے پوچھا تو صالحہ نے اس سے پوچھا تو وہ آنسو صاف کرکے جاۓنماز پہ ہی بیٹھ کر اسے بتانے لگی۔
"ان منافقین کا ردِعمل یہ تھا کہ جب بھی کوٸ مصیبت یا پریشانی پیش آتی تو یہ کہتے کہ(معاذاللہ) یہ مصیبت آپﷺ کی طرف سے ہے۔اور میں نے بھی کچھ ایسا ہی کیا! میں نے اپنی ہر پریشانی اور مصیبتوں کا ذمہ دار اپنے ربّ کو ٹہرایا۔میں نے بھی منافقت کی، ان منافقین نے ربّ کے محبوبﷺ کو اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار ٹہرایا اور میں نے اُس پیارے نبیﷺ کے رب کو اپنی مصیبتوں اور تکالیف کا ذمہ دار ٹہرایا۔ سب کچھ میرے اپنے اعمال اور فہم و گمان سے تھا۔ قصور سب میرا تھا! اور جب مجھے کوٸ خوشی ملی تو میں نے یہ کیوں نہ سوچا کہ یہ میرے اللہ کی محبت اور مہربانی ہے!
ایک انسان سے محبت میری پسند تھی،میں نے یہ راستہ خود چنلیا اپنے لیے خود تکلیف دکھ جمع کیے۔ وہ راستہ جس پر میں نے تمام محبتوں پر نامحرم کی محبت کو چاہا تھا،وہ غلط راستہ میری اپنی پسند تھا۔اللہ ہمیشہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اور ربّ سے محبت کرنے والے بندے کا شیوہ یہ ہے کہ جب اُسے کوٸ پریشانی،تکلیف یا مصیبت پہنچے تو وہ اسے اپنے برے اعمال کی ایک چھوٹی سی سزا یا پھر ایک معمولی سی تکلیف۔۔۔آزماٸش سمجھ لے۔اور جب بھی کوٸ خوشی یا راحت ملے تو اسے اپنے ربّ کی محبت سمجھ کر خوشدلی سے قبول کرے اور شکرادا کرے۔اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے صالحہ! اور ایسا نہیں کو ہم ہر آنے والی تکلیف اور پریشانی کو اپنی بداعمالیوں کی سزا سمجھ لیں،نہیں! بلکہ یہ سوچ لیں کہ اس روز جب نفسانفسی کا عالم ہوگا، اس دن کی چھوٹی سے چھوٹی سزا بہت بڑی ہوگی،تو اس دن کی تکلیف سے لاکھ بہتر ہے کہ ہم آنے والی ہر پریشانی کو ایک چھوٹی سی تکلیف سمجھ لیں یا بداعمال کی ایک حقیر سزا۔ دراصل جب ایک بندہ اپنے ربّ سے محبت کرتا ہے تو وہ ہر پریشانی اور تکلیف میں یہ ضرور سوچتا ہے کہ اُس کی غلطی کہاں تھی؟ اور ربّ سے محبت کرنے والے اپنی تکلیفوں کا ذمہ دار ربّ کو نہیں ٹہراتے بلکہ وہ رب کی عنایتوں کو یاد کرکے اس کی بارگاہ میں شکرادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے اتنے برے اعمالوں کے باوجود بھی ہمیں صرف حقیر سی تکلیف سے گزارا اور اس میں بھی اللہ ہمارے ساتھ رہا۔ اور ہر تکلیف سزا نہیں ہوتی، بہت سی آزماٸشیں بھی ہوتی ہیں تاکہ اللہ دیکھ سکے کہ اُس کا بندہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے اور کتنی شکر گزاری کرتا ہے۔"اور یہ تمام باتیں کہہ کر اس کا دل ہلکا ہوگیا تھا اور اب وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ رو رہی تھی۔اس دن صالحہ کو اپنی دوست پر بہت پیار آیا تھا۔
اور اپنے ربّ کی طرف واپسی پر بڑھنے والا زَہرہ کا یہ پہلا قدم تھا۔
              ---------------------------
"صالحہ مجھے معلوم ہے تم کیا سوچ کر مسکرا رہی ہو۔" زَہرہ کے کہنے پر صالحہ اس کی طرف متوجہ ہوٸ۔ صالحہ نے بھی Coffee پی لی تھی۔
"ہاں بلکل وہ سب باتیں سوچ رہی تھی جو تم نے ڈیڑھ سال پہلے کی تھیں۔اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ اب تم بہت مضبوط اور بہادر ہوگٸ ہو،کیوں کہ اب تم بات بات پہ روتی بھی نہیں ہو۔" صالحہ بھی آج اسے ہنسنے پر اکسا رہی تھی اس کی بات پر زَہرہ مسکرا دی۔
"صالحہ گھر کے لیے نکلتے ہیں۔مغرب کا وقت ہورہا ہے۔"
"اوکے، تم گاڑی میں جاکر بیٹھو میں پیسٹریز لے کر آتی ہوں۔" اس کے کہنے پر زَہرہ ہنس دی، ایسا کبھی ہوسکتا تھا کہ وہ دونوں کہیں باہر جاٸیں اور صالحہ کوٸ کھانے کے چیز نہیں لے۔

 "امید"    Where stories live. Discover now