"امید" (قسط نمبر 21)

376 22 4
                                    

”اسلام و علیکم۔“وہ صبح سویرے زَہرہ کو لان میں بیٹھا دیکھ کر وہیں آگیا۔اس نے چونک کر سر اٹهایا سردیوں کی صبح قدرت کو محسوس کرتے ہوۓ اسے سکون مل رہا تھا۔
”وعلیکم اسلام۔کیسا ہے اب آپکا ہاتھ؟“وہ پوری توجہ سے اسکا ہاتھ دیکھنے لگی وہ ابھی تک کھڑا تھا۔
”ٹھیک ہے اب۔بیٹھنے کا نہیں کہیں گی؟“ اذان نے زچ کرنے والے انداز میں پوچھا تو وہ شرمندہ ہوٸ۔
”اوہ سوری۔بیٹھیں“اس نےکرسی کی جانب اشارہ کیا
”سب نماز پڑھ کر سوگۓ، آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں۔“کچھ دیر بعد اذان نے کہا تو وہ مسکراٸ
”آپ بھی تو جاگ رہے ہیں۔“ وہ سر خم کرکے مسکرایا۔
”میری عادت ہے صبح اس وقت جاگنےکی“وہ اسےبتاطےلگا۔
”میری بھی عادت ہے۔“زَہرہ نے کہا دونوں ہی لان پہ نظریں چلاتے ہوۓ بات کررہے تھے۔ بہت دیر تک لفظوں کا تبادلہ نہ ہوا۔
”ویسے آپ اس
رات اتنی دیر تک جاگ رہی تھیں۔روز کا معمول ہے یا پھر۔۔۔“وہ پوچھنے لگا۔
”روز کا معمول ہے۔اور آپ بھی تو جاگ رہے تھے۔“اس نے مسکراتے ہوۓ یاد دہانی کرواٸ۔
”ہاں۔رات کی تنہاٸیوں میں اللہ سے بات منوانے کا الگ مزہ ہے۔وہ بھی مل جاتا ہے جسکا خواب و خیال میں سوچا نہ ہو۔“ وہ درختوں کو دیکھتے ہوۓ مسکرا کر بتانے لگا۔
”تو کیا مانگا آپ نے؟مطلب کیسا لگا اس چیز کا ملنا جسے آپ مانگتے تھے۔“زَہرہ نے تجسس سے پوچھا۔لمحے بھر کے لیے اذان نے اسے دیکھا پھر فوراً نظریں ہٹالیں۔
”سوری میں آپکے معاملات مکے بارے میں پوچھ رہی۔۔۔“ اذان کو خاموش دیکھ کر اس نے کہا۔
”ارے نہیں۔ایسی کوٸ بات نہیں۔ میرے لیے خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔میں اللہ سے جتنا شکرادا کروں کم ہے۔“وہ بہت پرسکون انداز میں آنکھیں موندے بتارہا تھا۔زَہرہ نے لمحے بھر کے لیے اسے دیکھا۔وہ  واقعی کسی اہم
چیز کے لم جانے پر بہت مسرور تھا۔
”بہت خوب۔بہت خاص ہے وہ آپکے لیے؟۔۔۔آپ چاہتے ہیں کسی کو؟“ زَہرہ نے کنفیوز لہجے میں پوچھا۔اسکی باتوں میں زَہرہ کی دلچسپی بڑھ رہی تھی شاید اسلیے کہ وہ سالوں پہلے اس کیفیت سے گزر چکی تھی!
”بہت خاص نہیں۔بلکہ بے حد خاص ہے وہ۔۔۔ہاں آپ کہہ سکتی ہیں کہ پسند ہے لیکن ابھی۔۔۔میں محبت کا کچھ ایکسپیرینس نہیں رکھتا۔“
وہ محبت کے کسی خوبصورت احساس میں گھرا تھا لیکن وہ خود کو کسی خوش فہمی سے دُور ہی رکھنا چاہتا تھا۔جب اسے زَہرہ کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول ہوتی دکھی تو اس نے آخری جملہ ایسا کہا کہ وہ ہنس دی۔اذان نے اسے دیکھا۔۔۔پھر نظروں نے کسی اور منظر کو دیکھنے سے انکار کیا! لیکن خود پر جبر کرتے ہوۓ وہ فوراً نظریں چراگیا۔ وہ نہیں چہتا تھا کہ وہ خود سے کیے ہوۓ کچھ وعدوں کو توڑے! جتنا اسے دیاگیا تھا وہ اللہ سے اس سے زیادہ کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔
وہ اسے روز بلکہ شام و سحر دیکھنے کو مل جاتی تھی وہ اسکے لیے بہت تھا۔
”اچھا پھر میں دعا کروں گی وہ آپکو مل جاۓ۔“زَہرہ نے اسکی حمایت میں کہا تو وہ بھرپور مسکرایا۔
”سوچ سمجھ کر دعا دیں مجھے۔“وہ تنبیہہ کرنے والے انداز میں ہنستے ہوۓ کہنے لگا۔
”سوچ لیا!“اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ  دوبارہ ہنس دیا۔
”کل صبح آپ رو رہی تھیں شاید۔“ اذان کو کل سے جو بات کھٹک رہی تھی اس نے پوچھ ہی لیا۔زَہرہ کے چہرے کی مسکراہٹ سمٹی۔
”نہیں، وہ ایسے ہی۔“ اس نے ٹالنا چاہا تو اذان نے بھی سمجھتے ہوۓ دوبارہ نہیں پوچھا۔
”مجھے لگا آپ سے بات کرنے کےلیے آپاٸنمینٹ لینا پڑے گا پہلے۔“ اذان نے زچ کرنے والے انداز میں کہا تو وہ ہنس دی۔
”جی بلکل۔ لیکن جیسا کہ آپ ہمارے خاص مہمان ہیں تو آپکو آپاٸنمینٹ لینے کی ضرورت نہیں۔“ زَہرہ نے سنجیدہ ہوکر کہا اور پھر دونوں ہی ساتھ ہنس دیے۔
”اور آپ کل کہیں جارہے تھے بہت جلدی میں۔“ زَہرہ نے پوچھا۔اب کی دفعہ وہ سنجیدہ ہوا۔
”ہاں وہ ایک ضروری کام تھا وہ پورا کرنا تھا۔“
”اچھا۔میں سکینہ آپا سے ناشتے کا کہتی ہوں باقی سب بھی اٹھنے والے ہوں گے۔“وہ اٹھ کر سوٸٹر کی جیڈوں میں ہاتھ ڈالے اندر کی جانب بڑھ گٸ اور وہ وہیں بیٹھا رہا۔
-------------------
دل توڑنے والے کیا جانیں
جُڑے ہوۓ دل کی اہمیت
اُجالوں میں رہنے والے کیا جانیں
اندھیروں کی اہمیت
خوشیوں میں جینے والے کیا جانیں
لذتِ غم کی اہمیت
ہر دفعہ قبول ہوجانے والے کیا جانیں
ٹھکراۓ جانے کی اہمیت
مایوسیوں میں گِھرے رہنے والے کیا جانیں
احساسِ امید کی اہمیت
چاہتوں کا ڈھونگ رچانے والے کیا جانیں
پرخلوص محبت کی اہمیت
مل جاۓ جسے بن مانگ آب،
سیراب ہونے کے لیے وہ کیا جانیں
قطرہ قطرہ جمع کیے ہوۓ پانی کی اہمیت
دھوکہ دینے کی عادت ہو جنہیں وہ کیا جانیں
اعتبار کی مظبوط جڑوں کی اہمیت
اپنی غرض کی خاطر دوسروں کو دُکھ دینے والے کیا جانیں
دوسروں کے لیے جینے کی اہمیت
دل توڑنے والے کیا جانیں
جُڑے ہوۓ دل کی اہمیت
(ایمن انیس)
سورج طلوع ہوچکا تھا ہر طرف اجالا تھا سواۓ اسکے کمرے اور اسکے دل کے۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اپنی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے کیا کرے۔وہ رات سے رورہا تھا۔زندگی میں کبھی اس نے ریجیکٹ ہونا نہیں سیکھا تھا، اپنے لیے کبھی انکار نہیں سنا تھا۔اور اب۔۔۔ اب تو کسی ایسے انسان نے یہ سب کچھ کیا تھاجسے اس نے خود سے زیادہ چاہا تھا!اعتبار کیا تھا۔سب کچھ فراموش کرکے یوں آگے بڑھ جانا اسکےلیے آسان نہیں تھا۔
”زکی“ ابراہیم نے ناشتے کی ٹرالی کو اندر کمرے میں دھکیلا۔زکریا سورہا تھا یا جاگ رہا تھا وہ کچھ اخذ نہیں کرسکا، اسکے بیڈ کے پاس جاکر بلینکٹ چہرے پر سے ہٹایا تو وہ آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ابراہیم دنگ رہ گیا۔
”تُو رات بھر روتا رہا ہے زکی!“ اسے دکھ پہنچا تھا۔ابھی تو زکریا کے ہاتھ کے زخم بھی مندمل نہیں ہوۓ تھے اور پیر میں جو کانچ کے ٹکڑے کھبے تھے وہ بھی ٹھیک نہیں ہوۓ تھے اور ایکسیڈینٹ کے باعث جو سر پہ چوٹ تھی اسکی بھی پٹی بندھی تھی۔اور اب اسکی گوری رنگت پہ اسکی ہلکی ہلکی سرخی ظاہر کرتی سوجی ہوٸ آنکھیں! ابراہیم کو صدمہ پہنچا۔ابراہیم اسیے برابر میں بیٹھ گیا۔وہ جانتا تھا زکی جواب نہیں دے گا۔اسلم چچا اندر فرسٹ ایڈ بکس دینے آۓ تو زکریا کو اس حالت میں دیکھ کر خامںشی سے واپس چلے گۓ۔گھر کے سبھی لوگ یہی کررہے تھے۔معیز صاحب آج صبح ہی میٹنگ کے سلسلے میں اسلامآبا گۓ تھے احمد صاحب کو بھی تمام حالات کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری تھا۔اور سب سے ضروری کہ انہیں اپنے لاڈلے بیٹے کو اس حالت میں دیکھنا خاصا دشوار لگ رہا تھا۔اسلیے کچھ دنوں کے لیے اپنے بھاٸ کے پاس چلے گۓ وہاں سے کوٸ ٹھوس فیصلہ کرکے ہی واپس کراچی آنے کا مصمم ارادہ انھوں نے کرلیا تھا۔
مومنہ بھی خاموشی سے اپنے کمرے میں رہتیں، ابھی وہ اسے کچھ وقت دینا چاہتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ اسکےدوست اسے بخوبی سنبھال لیں گے۔ ابراہیم اور حذیفہ ہی تھے جو اسکے پاس بیٹھ رہے تھے جاتے اور  باتیں کرنے لگتے۔
”عابی “زکریا اسکے گلے لگ گیا۔
”مجھ سے تکلیف برداشت نہیں ہورہی ،دل بہت دکھر رہا ہے  یار۔بہت تکلیف ہورہی ہے اس دل میں! و وہ اتنی خودغرض کیوں ہے۔میری تو ساری امیدیں اس سے تھیں،سرا بھروژہ ساری چاہتیں اسکے لیے تھیں۔میں نے کچھ بُرا نہیں کیا پھر بھی مجھےیہ سب سزا کے طور پر ملا۔کسیکو چاہنے کی یہ سزا ہوتی ہے عابی؟“ اندھیرے کمرے میں ہلکی ہلکی سسکیوں میں آواز گونج رہی تھی۔ابراہیم کا دل بیٹھے جارہا تھا،اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ زکریا کو کیسے سنبھالے،صبح فجر کی نماز کے بعد بھی وہ زکی کے لیے کتنی دعاٸیں کررہا تھا،حذیفہ کی بھی کچھ دیر پہلے کال آٸ تھی اس نے بھی تسلی دی تھی۔لیکن زکریا کو یوں دیکھ کر اس سے دکھ برداشت نہیں ہوپا رہا تھا۔
”بس کر یار زکی،وہ تجھے ڈیزروو نہیں کرتی۔وہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس پہ بھروسہ کیا جاۓ اسے چاہا جاۓ۔تم مرد ہو،ایسے کمزور نہیں بنو ہمت کرو،مرد ایسے روتے ہوۓ اچھے نہیںں لگتے۔“وہ ابراہیم سے گلے لگے رورہا تھا اور ابراہیم اسکے کمر کسی چھوٹے بچے کی طرح تھپتھپا رہا تھا۔زکریا ایک جھٹکے سے اس سے الگ ہوا۔
”کیوں؟۔۔۔مرد انسان نہیں ہوتا؟ یا اسکے پاس دل کی جگہ پتھر ہوتا ہے کہ اس میں کوٸ احساس نہیں ہوتا۔“ وہ غصے بھری آواز میں چلانے لگا۔ابراہیم اسے دکھ سے دیکھنے لگا۔
”زکی! خود کو سنبھال۔یوں ٹوٹ جاٶ گے تو لوگ تماشہ دیکھنا پسند کریں گے۔مضبوط کرو خود کو! کسی کے زندگی سے، اچانک یوں چلے جانے پر زندگی رُک نہیں جاتی۔جب تک سانسیں باقی ہوتی ہیں ہم سب کو ہی جینا پڑتا ہے! پھر یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم خوش ہوکر زندگی جیٸیں یا دکھوں کا ماتم کرتے ہوۓ۔ جانے والے چلے جاتے ہیں انھیں محض ایک بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرلو تم۔اللہ نے تمہارے لیے کچھ بہت بہتر سوچا ہوگا۔اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے!اگر ایسے روگے اور اللہ سے شکوے کرتے رہوگے تو کیا پتہ اللہ کو بُرا لگ جاۓ،اب منہ ہاتھ دھوکر آٶ جلدی سے اور ناشتہ کرو اور دواٸ لو۔۔۔“ ابراہیم کاسے سمجھا کر چب ہوا تو زکریا نے اسے دیکھا۔
”اور اپنی شکل دیکھو افریقی ہوتے جارہے ہو۔اٹھو اب جلدی سے فریش ہوکر آٶ۔“ ابراہیم نے اسے ہنسانے کے لیے کہا تو وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوا،زکریا کوشش کے باوجود محض مسکرا سکا۔اور پھر بے دلی سے اٹھ کر فریش ہونے چلاگیا۔
کوشش ایک اہم چیز ہے۔
اللہ نے آپ سے ہمیشہ کوشش مانگی ہے!
نتیجہ نہیں! اسلیے کبھی بھی کوشش ترک نہیں کرنا چاہیے۔اللہ جانتا ہے کہ آپ کب کس وقت اور کس تکلیف سے گزر رہے ہیں اور اس تکلیف میں کتنی کوشش کررہے ہیں۔
اللہ پہ بھروسہ رکھیں اور کوشش جاری رکھیں۔ انجام تک پہنچانے والی اور بہتر سے بہترین نتیجہ دینے والی ذات اللہ ہے!
---------------
”دادو یہ سوٹ کیسا رہے گا۔“ پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ ناصرہ بیگم کا دماغ کی دہی کررہی تھی۔پوری الماری کی حالت بگڑ چکی تھی۔مزمل صاحب نے آج سب کو ڈنر پر جانے کے لیے تیار ہونے کا کہا تھا اور انزلنا کو اپنی تیاری کی فکر لاحق ہوگٸ تھی۔حنا بیگم بھی صوفے پہ بیٹھے خشک میوے کھاتے ہوۓ اسکی کارواٸ دیکھ رہی تھیں۔
”ارے بھٸ کوٸ سا بھی جوڑا پہن لو۔تم پیاری لگوگی میںری لاڈلی۔“ ناصرہ بیگم نے پیار بھرے لہجے میں اسے تسلی دی۔
”خالہ اماں اسکی تیاری کبھی مکمل نہیں ہوگی۔آپ چھوڑیں اسے اور یہ کھاٸیں۔“ حنا بیگم نے کہتے ہوۓ خشک میوں سے بھری پلیٹ ناصرہ بیگم کے سامنے بیڈ پر رکھی۔
”یہ غلط بات ہے دادو۔امی جان کو ہمیشہ زوہی کی پسند اچھی لگتی ہے اور میری کبھی نہیں۔“اس نے خفگی سے کہا تو وہ ہنس دیں۔
جبکہ حنا مسکراتے ہوۓ کپڑے دوبارہ طے کرکے الماری میں سیٹ کرنے لگیں۔
”ایسی بات نہیں ہے میری لاڈلی۔تم دونوں اپنی اپنی جگہ بہت پیاری اور اور تم دونوں کی پسند بھی۔اور یہ تمہارے امی ہمیشہ تنگ کرنے کے لیے کہتی ہے ایسی باتیں تاکہ تم جلد ہی پسند کرلو۔تم دل پہ مت لو اسکی باتیں،ادھر میرے ساتھ بیٹھو اور یہ کھاٶ “انھوں نے اسے اپنے پاس بلایا تو وہ بھی فوراً انکے برابر میں جم کے بیٹھ گٸ،اب موڈ خاصا اچھا ہوچکا تھا دادو نے تسلی جو دے دی تھی۔دو دن میں زَہرہ اور اسکی دادو سے گہری دوستی ہوگٸ تھی۔ اور گھر کے بزرگ تو گھر کی رونق ہوا کرتے ہیں۔
”دادو سوپ بناکر لے آٸ ہوں میں۔اب آپ ان چیزوں کو چھوڑیں اور سردی کے ٹھنڈے ٹھنڈے موسم میں گرما گرم سوپ کے مزے لیں۔“ زَہرہ اپنی ٹون میں کہنے لگی تو وہ تینوں ہنس دیں۔زَہرہ بھی ان تینوں کو دیکھ کر مسکرادی۔پھر میوں کے پلیٹ اٹھا کر انزلنا کو تھماٸ اور خود سوپ کا پیالہ پکڑے بیڈ پہ دادو کے سامنے بیٹھ گٸ۔
”تم دونوں ماں بیٹی کو سکون نہیں ہے۔“وہ ہنستے ہوۓ کہنے لگیں۔تو وہ انکے گلے لگ گٸ۔
حنا بھی انزلنا کے لیے سوٹ نکال کر صوفے پر اسکے ساتھ بیٹھ گٸیں۔
”آپ اپنا خایل رکھا کریں۔اسامہ اور اذان نے  آپکا خیال کیسے رکھا ہے کمزور ہوچکی ہیں آپ اتنی۔اب جلدی سے یہ ویجیٹیبل سوپ پی لیں۔“ اس نے فکرمندی سے باٶل انھیں پکڑاتے ہوۓ کہا تو وہ تینوں مسکرادیں۔
”زَہرہ،اذان سے پوچھو کب تک واپسآۓ گا۔دو گھنٹے بہونے کو آۓ ہیں۔ کچھ دیر کا کہہ کر گیا تھا۔ڈنر پر بھی جانا ہے مغرب ہونے والی ہے۔اور یہ اسامہ تو ٹک کر بیٹھتا ہی نہیں ہےاذان کے ساتھ ہی گھومتا رہتا ہے۔“وہ برتن ٹرے میں رکھ کر واپس لے جانے لگی تو ناصرہ بیگم اپنے دونوں لاپرواہ پوتوں کے بارے میں کہنے لگیں۔وہ سر اثبات میں ہلاکر چلی گٸ۔
-----------------
”زکی بیٹا کوٸ اذان صاحب ملنے آۓ ہیں“ اسلم چچا نے دروازہ کھٹکھٹا کےاسے بتایا۔غصے کی ایک لہر اسکے چہرے پر واضح ہوٸ۔کچھ سوچ کر و خاموش ہوگیا اور بھر اندر بلانے کو کہا تو وہ پیغام دینے چلے گۓ۔
اذان جو کہ اسامہ کے ساتھ گیسٹ روم میں بیٹھا تھا۔ابراہیم کے اندر داخل ہونے پر گرم جوشی سے اس سے گلے ملا،ابراہیم بھی گلے ملا لیکن وہ کنفیوز دکھنے لگا۔
”آپ کون؟“ ابراہیم نے پوچھا۔
”یادداشت کمزور ہے تم دونوں کی۔“ ابراہیم اذان کے کہنے پر ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں سمجھا نہیں۔
”پہلے زکی سے ملنے دو پھر بتاٶں گا کون ہوں۔“ اذان نےمسکراتے ہوۓ کہا تو پہلے ابراہیم کو حیرت ہوٸ پھر خاموشی سے اسلم چچا کو بھیجا تھوڑی دیر بعد وہ پیغام لےکر آۓ تو دذان اٹھ کر اوپر سیڑھیاں چڑھتا ہوا اسکے کمرے میں چلاگیا۔
تھوڑی دیر بعد اسامہ بھیاس سے حال احوال پوچھنے کے بعد اپنے  کسی دوست سے ملنے چلاگیا۔ابراہیم سے اس نے کوٸ بات نہیں کی کیوں کہ اذان نے ہی کچھ نہیں بتایا تووہ خاموش رہا۔
”زکی!“ اذان نے کمرےمیں جھانکتے ہوۓ اسے پکارا لیکن اسے دیکھتے ہی وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ابھی پانچ دن پہلے تو وہ ہسپتال میں اس سے مل کر گیا تھا تب تو صرف اسکے سر پر پٹی بندھی تھی لیکن اب تو وہ مزید کمزور اور زرد محسوس ہورہا تھا۔
”کیا ہوا تجھے زکی۔“ اذان دکھ کے عالم میں گویا ہوا۔ابھی وہ اسکا بازو پکڑنے والا تھا کہ زکریا غرایا
”دُور رہو مجھ سے۔“اسکے انداز پر اذان حیران رہ گیا اور پھر اسکی طبیعت کی ناسازی سمجھ کر خاموشی سے کرسی دھکیل کر بیٹھ گیا۔
”یہ سب کیسے ہوا؟  تو نے بتایا بھی نہیں، چھ سالوں میں،میں اتنا اجنبی ہوگیا تیرے لیے۔“اذان نے مسکراتے ہوۓ کہا تو زکریا اٹھ کر بیٹھنے لگا اذان سہارا دینے کے لیے آگے بڑھا لیکن زکریا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا،اذان کو اسکے رویے کا بدلاٶ محسوس ہوا لیکن کچھ کہنے سے گریز کیا۔
”کالج اور یونیورسٹی۔۔۔چھ یا سات سال کا فرق آیا اور تم نے مجھے غیر بنادیا تم نے میری دوستی کو اہمیت دینا ضروری نہیں مسجھا اذان۔“ زکریا نے اس سے نظریں ملاۓ بغیر فرش کو گھورتے ہوۓ کہا تو وہ مسکرادیا۔
”اوۓ تُو اور تیری دوستی میرے لیے ہمیشہ سے اہم تھی اور رہے گی۔۔۔اور تو غیر نہیں ہے زکی!ایسی باتیں کیوں کررہا ہے۔“ اذان نے بھرپور اپناٸیت سے کہا۔
”اہم؟ ہونہہہ!“ زکریا استہزاٸیہ ہنسا۔
”زکی۔۔۔“اذان نے اسے پکارا لیکن زکریا نے اسے خاموش ہونے کا اشارہ کردیا۔
”تو وہ چپ ہوگیا۔
”جب دوست ہی دوست کی کمر میں خنجر کھوب دے تو غیروں سے کیا گلہ کرنا کو دنیا بُری ہے!“ زکریا طنزیہ ہنسا،وہ دکھی تھا تکلیف میں تھا لیکن ظاہر کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔اذان اسی بات کا مطلب سمجھتے ہوۓ اسے دیکھنے لگا۔
”میں نے ایسا کچھ۔۔۔“وہ کہنے لگا۔
”اگر تم اسے پسند کرتے ہو یا اس سے محبت کرتے ہو تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟“ زکریا نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔اذان نے پہلے اسے حیرت سے دیکھا پھر زور سے ہنسا۔
”کم آن زکی۔محبت کا تو کوٸ علم نہیں مجھے۔لیکن ہاں! پسند ضرور کرتا ہوں اُسے خود سے بھی بہت زیادہ۔ اور تم اتنی سی بات کو لے کر اتنا غصہ اور خفگی دکھا رہےہو یار۔“اذان مسکراتے ہوۓ بتانے لگا ذہن کے پردے پر ایک چہرہ ابھرا تو مسکراہٹ مزید گہری ہٸ پھر اس نے زکریا سے شکوہ کیا۔
”اتنی سی بات!!! زندگی اجیرن کردی ہے میری، تمہاری اتنی سی بات کے چھپانے کی وجہ سے“ زکریا نے چلاتے ہوۓ کہا اور خاموش ہوا۔ابراہیم جو زکریا کی دواٸ لے کر کمرے کی طرفآرہا تھا آوازیں سن کر دروازے کی آڑ میں رک گیا۔او جو سنا تو ساکت رہ گیا۔یہ ہاقعی اذان تھا۔اذان وقاص! ابراہیم کو اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔
”زکریا میں خود تمہیں بتادیتا لیکن میں نے خود اس سے بات نہں۔۔۔“ اذان کہنے لگا،لیکن زکریا کے جملے نے اسے ساکت کیا۔
”لیکن تم نے سوچا پہلے میں اپنی جگہ کلیٸر کرلوں۔زکی کو تو میں آسانیسے بےوقوف بنادوں گا۔وہ تو کچھ جانتا ہی نہیں ہے۔ہے ناں؟“ زکریا کے سخت لفظوں نے اسے حیران کردیا۔
”زکی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔کیا ہوگیا تمہیں؟پوری بات تو بتاٶ،دوستی کو کیوں بلیم کررہے ہو یار۔“ اذان نے جھنجھلانے والے انداز میں دکھی لہجے میں کہا۔
”کچھ نہیں بچا ایسا جسے ڈسکس کیا جاۓ اذان! تم نے مجھ سے اسے چھینا جسے میں نے خود سے زیادہ چاہا اذان۔۔۔تمہاری وجہ سے میں آج اس حال میں ہوں، تم لوگوں کی وجہ سے میرا دل ٹوٹا ہے ہے،اس نے مجھ پر تمہیں فوقیت دیتمہیں چاہا اس نے!تم نے سب کچھ ختم کردیا۔کیوں کیا تم نے ایسا؟ دوست کہتے تھے اور خود نے ہی اپنے دوست کی راہ میں کانٹے بچھادیے۔“ وہ چلانے لگا تھا اور اذان اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنی جگہ منجمد ہوگیا۔کیا ودقعی قسمت اسکے ساتھ کھیل کھیل رہی تھی؟ابھی تو دل نےاسے دیکھنےپر بھی شکرادا کیا تھا۔وہ تو لاجواب تھی! لیکن کیا واقعی زکریااسے چاہتا تھا؟اور کیا واقعی اس نے اپنے دوست کا دل توڑ دیا تھا؟“ اذان دکھ سے اسے دیکھتے ل ہوۓ سوچنے لگا،جب کو زکریا کی نیلی آنکھوں میں اسکے لیے صرف اور صرف غصہ تھا اور ناچاہتے ہوۓبھی اسکی آنکھیں جلن ہونے کے سبب نم ہونا شروع ہوگٸ تھیں۔
”کیا واقعی تم اسے چاہتے ہو زکی؟۔۔۔(وہ کچھ لمحے کے لیے رکا یہ کہتے ہوۓ بھی اسے جس تکلیف سے گزرنا پڑ رہا تھا یہ صرف اذان جانتا تھا پھر اس نے کہنے کے لیے الفاظ ترتیب دیے)
کیا واقعی تم اسے محبت کرتے ہو زکی؟لیکن ز۔۔۔“ اذان ابھی اسکے نام کا پہلا حرف بھی بمشکل کہہ پایا تھا تھا کہ زکریا کیآنسوٶں بھری چلاتی آواز پر اسے دیکھا۔وہ خود بھی کتنی تکلیف سے گزر رہا تھا زکریا کو کیا کہتا؟ ابراہیم اندر داخل نہیں ہوا بلکہ باہر ہی کھڑا رہا، چھپ کر باتیں سننا غلط بات ہے لیکن اسے حقیقت جاننا تھی وہ اپنے دو بہترین دوستوں کو آپسمیں یوں لڑتے ہوۓ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔اسلیے یہ کرنا ضروری تھا۔
”ہاں! اپنی پوری زندگی میں میں نے اسے سب سے بڑھ کر چاہا تھا، زندگی کا نام دیا تھا میں نے مِناہل کو۔۔۔اور تم نے ناجانےایسا کیا کیا کہ وہ  نکاح سے دو ہفتے پہلےہی انکار کرکے چلی گٸ۔توڑ کر رکھ دیا ہے مجھے اُس خودغرض انسان کی چاہت نے اور تمہاری اس خودغرض دوستی نے۔تم اسے انکار کرسکے مجھ پر احسان کرسکتے تھے۔۔۔یا مجھے پہلے ہی تیں سال پہلے بتادیا ہوتا تو میں تب ہی اس سے کوٸ تعلق نہیں جوڑتا۔تم۔۔۔تم سب نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔میری اچھاٸیوں کا فاٸدہ اٹھایا ہے۔سُنا تم نے اذان؟! یہی تھی تمہاری دوستی جو تمہارے نزدیک سب سے اہم تھی۔“زکریا جب تیز آواز میں ساری حقیقت کہتے کہتے چپ ہوا تو فوراً آنکھوں سے نکلنے والی نمی کو صاف کیا لیکن اذان دیکھ چکا تھا۔
اسکے خاموش ہونے کے چند سیکینڈز بعد بھی اذان اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔
پھر اچانک دل مسکرایا۔۔۔شکر ادا کیا کہ شکر وہ کسی اور کےلیے نہیں تھی! دل کو سکون ملا تھا۔۔۔اور وہ امید اللہ سے بندھی تھی جو کمزور پڑتی جارہی تھی وہ دوبارہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے بندھ گٸ تھی۔دل نے بارہا شکرادا کیا تو دماغ نے افسوس کیساتھ سر جھکایا۔
”(آخر کیوں؟ جتنی نفرت کروں اور زیداہ نفرت کی وجہ سامنے آجاتی ہیں۔)“ اذان سوچتا رہ گیا۔
”لیکن زکی پہلے میری بات سن لو پھر جو چاہے کہ دینا مجھے منظور ہے“ اذان نے اسکے برابر میں بیٹھتے ہوۓ اسے پرسکون کرنےوالے انداز میں کہا لیکن زکریا ہتھے سے ہی اُکھڑ گیا۔
”اسٹا اٹ اذان۔تمہیں یہ سب دھوکہ دینے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا“ زکریا کھڑا ہوا تو اذان بھی ساتھ ہی کھڑا ہوا وہ کچھ کہتا کہ زکریا نے اپنی بات کہتے ہوۓ اسے پرے دھکیلا تو اذان توازن قاٸم رکھنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی دو تین قدم پیچھے کو ہوا،پھر بےیقینی سے زکریا کو دیکھا۔
”زک میری بات-“ وہ کہنے لگا
”گیٹ لاسٹ۔اینڈ نیور کم آگین انٹو ماۓ لاٸف،وی آر نوٹ بیسٹ فرینڈز اینی مور۔ناٶ گو۔“ زکریا کھڑے کھڑے غرایا تھا۔اب اسکے پاٶں سے خون رسنے لگا تھا لیکن اس نے دھیان نہیں دیا تھا۔اذان نے اسے اتنے غصے میں پہلے بھی دیکھا تھا لیکن آج نفرت اسکے الفاظ اور رویے سے واضح ہورہی تھی۔زکریا نے اسے کہا اور دروازے کے طرف اشارہ کیا۔
”تمہیں ایک دن اپنا یہ دوست بہت یاد آۓ گا زکریا! خدا حافظ۔“ وہ کہہ کر رکا نہیں اور چلاگیا اور زکریا بیڈ پر گرنے والے انداز میں ڈھہ گیا۔
”اذان۔۔۔۔۔“ ابراہیم نے اسے پکارا تو وہ پلٹا ں”کیوں کیا یار تم نے ایسا؟دوست تھے تم تو“ ابراہیم نے دھیمے لہجے میں کہنے لگا
”اس سوال
کا جواب میں ضرور دوں گا۔اسکی غلط فہمی اسے ایسا کرنے پر مجبور کررہی ہے۔تم خیال رکھنا اسکا اوکے۔“ اذان نے بھرپور مسکاہٹ کے ساتھ کہا اور چلاگیا۔ ابراہیم اسکے جملوں کا مطلب سمجھتے ہوۓ اندر آیا تو زکریا کو دیکھ کر فوراً بینڈج لگانا شروع کی۔اتنے میں زکریااسکے گلے لگا گیا۔کمرے میں اسکی چند سسکیاں ابھریں اور ابراہیم اسے تھپتھپاتا رہ گیا۔
”تم نے میرے دوست کو مجھ سے دُور کیا ہے مِناہل۔اپنی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہو۔بہت غلط کیا ہے تم نے مجھ چاہ کے!
اذان وقاص کسی کو اس بات اجازت نہیں دیتا کہ کوٸ اسے چاہے! تمہیں اب اپنے کیے کی قیمت چکانا پڑے گی۔“  اذان نے ایک کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
ابھی ڈراٸیو کرتے ہوۓ تھوڑی دیر گزری تھی کہ موباٸل واٸبریٹ ہونے لگا۔
کلر آٸ-ڈی کو دیکھ کر وہ اپنی ساری پریشانی اور اداسی کو بالاۓ طاق رکھ کر بات کرنے لگا۔
”ایک تو آپ بہت پریشان ہوجاتی ہیں۔دوست سے ملنے گیا تھا محاذ پر نہیں۔اتنا یاد کریں گی تو میری ہونے والی بیوی مجھ سے ناراض ہوجاۓ گی۔“ اذان نے شوخ لہجے میں دادو سے کہہ کر چپ ہوا اور اب وہ "ہاں تم میرا یہ خواب پورا ہی کب ہونے دوگے" یا "اچھا اب یہ خیالی پلاٶ پکانا بند کرو" سننے کے موڈ میں جواب کا منتظر تھا۔
”آپ گھر کب تک آٸیں گے؟ ڈنر پہ بھی جانا ہے“ اور ایک لمحہ بعد ہی وہ آواز پہچان گیا تھا اور مارے شدمندگی کے اس کا دل چاہا اپنا سر اسٹیرنگ میں مار دے۔ یعنی کال دادو کے موباٸل سے آٸ تھی لیکن مخاطب کرنے والے دادو نہیں تھیں۔
” ج ج جی؟“ وہ گڑبڑاگیا۔زَہرہ کا لہجہ بھی اسے بیویوں والا لگا تو ایک بھرپور مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا۔
”میں زَہرہ بات کررہی ہوں۔۔۔اذان! آپ کب تک گھر آٸیں گے ڈنر پر بھی جانا ہے۔دادو پریشان ہورہی ہیں“ زہرہ نے جھنجھلاتے ہوۓ وضاحت دی۔تو وہ مزید مسکرا اٹھا۔وہ کچھ سیکنڈز خاموش رہا۔کتنا نرم لہجہ تھا اسکا۔۔۔وہ اسکی زبان سے اپنا نام سن کر ہی بےچین ہوگیا تھا۔ دل اپنی جگہ اتھل پتھل ہونے لگا تھا۔وہ خاموش رہا۔دوسری طرف وہ اسیے جواب کی منتظر تھی۔لیکن اذان کی خاموشی پر اسے شک ہوا کہ کہیں غلط نمبر ڈاٸل تو نہیں کردیا۔موباٸل کو کان سے دُور کرکے ایک دفعہ اسکرین کو گھورا وہ اذان کا ہی فون نمبر تھا۔
”اذان؟!“ زَہرہ نے الجھن بھری آواز میں اسے پکارا اور دوسری طرف اس کا دل چاہا وہ اسے سامنے آجاۓ۔دل سینے سے باہر آنے کو تھا۔
”(جی اذان کی زندگی! کہیں میں سُن رہا ہوں آپکو۔)“ وہ یہ کہنا چاہتا تھا لیکن چپ رہا
”(توبہ ہے اذان۔)“ اسنے خود کو سرزنش کی۔
”جی کہیں۔آٸ مین میں آرہا ہوں تھوڑی دیر میں۔“اس نے بات سنبھالتے ہوۓ کہا۔
”اوکے جلدی پہنچیں۔“ زَہرہ نے تنبیہہ کرتے ہوۓ کال کاٹی تو ایک جاندار مسکراہٹ اسکے لبوں پہ دوڑی۔
”آج تجھے ہرٹ اٹیک ہوجاتا اذان۔۔۔اللہ آپ نے بچالیا مجھے۔“ وہ اوپر کی جانب دیکھتے ہوۓ دل پر ہاتھ رکھ ہمکلامی کرنے لگااور پھر خود ہی ہنس دیا۔
کچھ منٹ بعد اسامہ کی کال آٸ تو وہ اسے پک کرنے چلاگیا۔
             *****************
 

اسلام و علیکم۔
کیسے ہیں آپ سب؟
تو یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ میں نے  ایک کے بعد دوسرا ایپیسوڈ ایک دن کے وقفے سے دے دیا۔تو اب آپ سب نے ووٹ ضرور دینا ہے! اور فیڈ بیک(اظہارِ خیال) ضرور کرنا ہے کمنٹس میں۔
مجھے انتظار رہے گا۔😇
اور مجھے بہت خوشی ہوٸ وہ تمام لوگ جنہوں نے ایپیسوڈ پڑھ کر ووٹ اور فیڈبیک دیا۔ جزاک اللہ آپ سب کی سپورٹ کے لیے💛
اگلی قسط انشا۶اللہ طویل ہوگی تو ضرور بتاٸیں کہ آپکو کیا لگتا ہے آگے کیا ہونے والا ہے؟
خوش رہیں
والسلام💛


 "امید"    Kde žijí příběhy. Začni objevovat