"امید" (قسط نمبر 11)

211 15 8
                                    

”سارہ“ حذیفہ کے کہنے پر اس نے گردن کو تھوڑا اسکی طرف موڑ کر دیکھا
”ہاں بولو“
”تم سے تھوڑا  صبر نہیں ہورہا تھا یا مجھے کھونے کا ڈر تھا؟“
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ ہاں؟“ سارہ نے بھی سرگوشی کرتے ہوۓ کہا۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوٸ نہ کوٸ آکر ان دونوں کی تصاویر کھینچ رہا تھا اور وہ دونوں زبردستی مسکرارہے تھے خاص طور پر سارہ کیوں کہ حذیفہ اسے زچ کررہا تھا۔
”یہی کہ ایک سال اور صبر کرلیتیں پھر میری پڑھاٸی مکمل ہوجاتی لیکن تمہاری وجہ سے مجھے شادی کے لیے  ہامی بھرنی پڑی۔ اور بابا کو بھی تم نے ہی ورغلایا ہوگا جسکی وجہ سے انھوں نے میری بات سننے سے انکار کردیا۔“
حذیفہ کے لیے اپنی ہنسی  پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا جبکہ سارہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ میز پر رکھا گلدان اسے دے مارے۔
”استغفراللہ! خوش فہمیاں تو دیکھو تم اپنی۔میں نے ہاں نہیں کی تھی اور میں نے چاچو سے بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ سب مام، ڈیڈ، چاچو اور چچی جان کا فیصلہ تھا۔ میں نے تو منع بھی کیا تھا لیکن مام نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا اور تمہاری ہی نہیں میری بھی پڑھاٸی ڈسٹرب ہوٸی ہے۔ اب مجھے تمہارے ساتھ یونیورسٹی جانا پڑے گا۔ کتنا اچھا ہوتا میں اپنا فاٸنل اٸیر کینیڈا سے ہی کمپلیٹ کرکے آجاتی۔“ اب سارہ نے بولنا شروع کیا تو وہ انتہاٸی غور اور دلچسپی سے اس کی باتیں سُن رہا تھا۔
”تو میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سب چھوڑ چھاڑ کر مجھ سے نکاح کے لیے ہامی بھرلو“ حذیفہ نے جتاتے ہوۓ کہا جس پر سارہ اُسے گھورنے لگی۔
”اچھا اچھا۔ اب اتنا گُھور گُھور کر نہیں دیکھو۔ مجھے معلوم ہے آج  زیادہ اچھا لگ رہا ہوں۔یونیورسٹی میں ایسے نہیں دیکھنا ورنہ کلاس سے باہر نکال دی جاٶگی“ اب کی دفعہ حذیفہ کُھل کرہنسا تھا۔
”اتنا فارغ وقت نہیں ہے میرے پاس۔اور ویسے بھی آج تمہیں یونیورسٹی بڑی یاد آرہی ہے! خیر تو ہے؟“ سارہ نے ترچھی نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ مسکرادیا
”تم ابھی سے مجھ پر شک کر رہی ہو ماۓ ڈیٸر واٸف!“ حذیفہ نے معصومیت بھرے لہجے میں کہا تو وہ ہنس دی۔
”ماۓ ڈیٸر ہزبینڈ۔مجھے معلوم ہے تم اتنے بھی شریف نہیں ہو۔۔۔۔“
سارہ کے کہنے پر وہ مسکرادیا۔
آج وہ بہت خوش تھا کہ اللہ نے سارہ جیسی لڑکی کو اللہ اس کی زندگی کا حصہ بنادیا تھا۔
               ---------------------
”اور کتنا دیکھیں گے ہماری پیاری بہن کو؟“ عنزہ کی بات پر حذیفہ ہنس دیا۔ اب عنزہ اور انابیہ اسٹیج پر موجود تھیں۔
”کیوں بھٸی؟ آپکی پیاری بہن میری زوجہ ہیں چاہے جتنا مرضی دیکھوں۔“ حذیفہ نے لفظ زوجہ پر زور دے کر کہا تو وہ تینوں ہنس دیں۔
”یوسف کہاں ہے؟ وہ ابھی تک نہیں پہنچا؟“ حذیفہ نے سوال کیا
”ہاں وہ پہنچنے والے ہوں گے۔ تیار ہونے میں دیر کردی تھی تو ہم آگۓ بھاٸی کو چھوڑ کر“
انابیہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔
”نام لیا،شیطان حاضر۔ بھاٸی آگۓ“ عنزہ نے ہال کے داخلی دروازے کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ سب ہنس دیے۔
---------------
”اتنی جلدی بھول گٸیں کیا!“ یوسف نے گلا کنکھارتے ہوۓ کہا تو صالحہ نے اُسے گھورا
”اوہو آخر موصوف وقت نکال کر آہی گۓ“
صالحہ نے چڑتے ہوۓ کہا تو وہ  ہنس دیا
”اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ نہیں لاۓ آپ؟“ اب کی دفعہ اُس نے طنز کیا تھا
”توبہ توبہ صالحہ کیسی باتیں کررہی ہو۔ سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتیں کہ تمہیں اُس سے جلن ہورہی ہے“
”میں کیوں جلوں گی اُس چھپکلی سے!“ صالحہ نے ابرو اٹھا کر سوال کیا
”کیوں کہ میں اُسے پسند کرتا ہوں“ یوسف نے اُسے زچ کرنے کے لیے کہا اور وہ یہ بات سن کر جل بھن کے راکھ ہوگٸ۔
”ہاں تو اُسی کے پاس رہتے ناں کینیڈا میں! آفس میں ہی کھانا پکا کر دے دیتی، کوٸی کام تو ہوتا نہیں اُس چھپکلی کے پاس  بس ہر وقت آپکے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہے۔ اور یقیناً یہ جوڑا بھی اُسی کی فرماٸش کا پہنا ہوگا۔“ صالحہ کا بس نہیں چلتا کہ وہ اُس لڑکی کا خون کردیتی۔
یوسف کا دل چاہا وہ قہقہہ لگا کر ہنسے لیکن صالحہ کی حالت دیکھ کر وہ اور سنجیدہ ہوگیا
”ایسے نہیں کہتے کسی کو۔“ وہ کہہ چکا تھا۔
وہ پچھلے دو سال سے اس بات کو حقیقت سمجھ بیٹھی تھی اور یوسف کو اس بات کی خبر تک نہ تھی۔
”ٹھیک ہے، معذرت۔ میں آٸندہ آپ سے کچھ نہیں کہوں گی۔“کہتی ہوٸ وہ تیزی سے چلی گٸی۔آج  پھر یوسف نے اُسے رلا دیا تھا ناراض کردیا تھا۔جب کہ وہ ایسا کبھی نہیں چاہتا تھا۔اسکی نظروں نے صالحہ کا دور تک تعاقب کیا۔
-------------
ابھی ابراہیم اور زکریا بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ مِناہل وہاں آکر کھڑی ہوگٸی۔
”زکی۔“ مناہل کے کہنے پر وہ اسکی طرف متوجہ ہوا
”ہاں بولو“
”آٸی ایم سوری مجھے جانا پڑے گا۔وہ ایٸرپورٹ پر میرا انتظار کررہا ہے پھپھو کا فون آیا تھا۔وہ اسلام آباد سے واپس آگیا ہے“ مِناہل نے جلدی جلدی وضاحت دی، اس کا کزن آج رات کی فلاٸٹ سے کراچی آیا تھا
”ٹھیک ہے۔۔۔“ زکریا نے تھکن سے چور لہجے میں کہا
”میں چلوں تمہارے ساتھ؟ ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں یا پھر ابراہیم اُسے گھر ڈراپ کردے گا۔“ زکریا نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا جب آخری بات پر اس نے ابراہیم کی جانب دیکھا تو ابراہیم نے اُسے گھورا۔
”نہیں نہیں تم سب یہیں رکو میں چلی جاٶں گی۔ باۓ“ اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر  چلی گٸی اور زکریا صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا
”دیکھا زکی تم نے۔ موڈی تمہارا جواب سنے بغیر ہی چلی گٸی“ ابراہیم نے شکی انداز میں کہا تو زکریا سیدھا ہوکر بیٹھا
”ابراہیم بس کر یار اس پاک بھارت جنگ کو ختم بھی کردو۔ “ زکریا نے دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا تو ابراہیم ہنس دیا۔
        --------------------
رخصتی کے بعد سب لوگ حذیفہ کے گھر موجود تھے۔ عنزہ اور انابیہ نے بہت رونا دھونا مچایا اور سارہ بھی رخصتی کے وقت بہت روٸی۔ ایک طرف یوسف نے اُسے سنبھالا تو دوسری طرف حذیفہ اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا دونوں ہی اُسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ سب سے ملتے وقت وہ بہت روٸی۔ اور جب گاڑی میں بیٹھ کر بھی اس کی ہچکیاں اور آنسو بند نہیں ہوۓ تو آخر حذیفہ کو بولنا ہی پڑا
”اب بس بھی کرو سارہ۔تمہارا میک اپ خراب ہوجاۓ گا، پہچاننے میں نہیں آٶگی۔“ حذیفہ گاڑی خود ڈرایو کرکے لے جارہا تھا مسکراتے ہوۓ اُس نے سارہ کی طرف دیکھا تو وہ اپنے آنسو بھلا کر اُسے دیکھنے لگی
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں کیا چڑیل جیسی دکھتی ہوں؟“ اس نے مصنوعی ناراضگی سے سوال کیا تو وہ مسکرادیا
”ارے نہیں زوجہ صاحبہ اگر آپ روتی رہیں گی تو میرا دھیان آپ پر ہی لگا رہے گا اور میں کار ڈراٸیو نہیں کرپاٶں گا“ اس نے  بہت ڈرامٹک لہجے میں کہا تو وہ مسکرادی۔
”اور ویسے بھی ابھی ہم گھر پہنچیں گے تو چڑیا گھر دیکھنے کو ملے گا“ اُس نے افسردہ لہجے میں کہا تو سارہ ہنس دی۔
سمیرہ تاٸی اور ارسلان تایا سمیت زَہرہ کی فیملی اور زکریا کے ماما بابا بھی وہیں موجود تھے۔ سب باتوں میں مصروف تھے
حذیفہ کا خیال تھاکہ ابراہیم اور زکریا بھی وہیں موجود ہونگے لیکن وہ دونوں لاٶنچ میں نہ دکھے، شاید ابھی تک گھر نہیں پہنچے تھے۔ حذیفہ بھی اپنے کمرے میں چلاگیا
               -----------------------
وہ کمرے میں پہنچا تو سارہ پہلے ہی کپڑے تبدیل کیے بیٹھی تھی اور ہاتھ میں چپس کا پیکٹ پکڑے چپس کے ساتھ انصاف کرنے میں مگن تھی
”اوہ اللہ۔ سارہ یہ کیا حالت بنارکھی ہے تم نے اپنی اور کمرے کی؟
”تو کیا کروں؟ کسی نے جھوٹے منہ کھانے کا  بھی نہیں پوچھا۔اب خود کھانا نکال کر لاٶں میں؟“ بھوک کی وجہ سے غصہ اسکے دماغ پر سوار تھا۔اُس کی بات سن کر وہ مسکرادیا اور الماری سے ایک بکس نکال کر لایا اور اُس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
”یہ کیا ہے؟“ سارہ نے تجسس سے پوچھا
”لگتا ہے کینیڈا میں رہ کر سب بھول گٸی ہو، چاکلیٹ ہے یہ۔“ اس کے سوال پر حذیفہ کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے
”اوہ اچھا!“ سارہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا تو وہ بس اُسے دیکھتا رہ گیا
اس کے باٸیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں حذیفہ نے ڈاٸمنڈ رِنگ پہناٸی۔ اور اُس کے سامنے بیٹھ کر بالوں کو کو کان کے پیچھے کرتے قریب جاکر دھیمی آواز میں کہا
”میری محبت کا چھوٹا سا نظرانہ میری شریکِ حیات کے لیے۔ کیا آپ نے قبول کیا؟“ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اُس کا ہاتھ تھامے وہ گویا ہوا تھا۔
”قبول ہے۔“ سارہ نے دھیمی آواز میں جواب دیا تو  وہ نازاں ہوا اور اُس کی پیشانی کو چوما۔
اجازت ہو تو بنالوں دل کا سکون تجھے
اپنا فخر اپنا آرام ، اپنی زندگی تجھے
رب نے جو دیا تمہارا ساتھ کسی نعمت کی طرح
اجازت ہو تو تیرے ساتھ شکر ادا کروں ایسے
نہ دوں کوٸی غم، رکھوں ہر دم چھاٶں میں تجھے
کروں ہر دم دعا قدم بہ قدم تیرے ساتھ چلنے کی
کچھ اس طرح سے بھی میں مانگ لوں تجھے
گِڑگِڑا کر کسی معصوم بچے کی خواہش کی طرح
ہر خواب، ربّ سے حقیقت بنواکر دے ڈالوں تجھے
اجازت ہو تو بنالوں دل کا سکون تجھے
                    -ایمن
            ------------------------
رات کے ڈھاٸی بج رہے تھے سب اپنے اپنے کمروں میں مزے کی نیند سورہے تھے کہ صالحہ کی آنکھ کُھل گٸی
”زَہرہ زَہرہ اٹھو یار!“ صالحہ نے چوروں کی طرح بات شروع کی جیسے اگر کسی نے سُن لیا تو سب اُٹھ جاٸیں گے
”ہمممم بولو“ زَہرہ نے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوۓ نیند میں پوچھا
”زوہی مجھے پیاس لگی ہے۔ نیچے چل لو کچن سے پانی لے آٸیں۔“
”ہاں تو لے آٶ تم صالحہ“ زَہرہ نے نیند میں جواب دیا
”مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ صالحہ کی بات پر وہ ناچاہتے ہوۓ بھی اُٹھ کر بیٹھ گٸی
”چلو۔ تم سونے نہیں دینا سکون سے“ زَہرہ نے دوپٹہ سر پہ اوڑھا اور کمرے سے باہر نکلتے ہوۓ کہا تو وہ بھی کھسیانی سی ہوکر اُس کے پیچھے چل دی۔
      کچن میں پہنچ کر وہ پانی پینے لگی تو زَہرہ بھی ڈاٸننگ ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گٸی۔
”صالحہ۔“ زَہرہ نے اُسے پکارا
”ہاں بولو“
”کچھ کھانے کے لیے رکھا ہے کیا فریج میں؟“ زَہرہ نے آس لگاتے ہوۓ پوچھا۔اُسے بھوک لگنا شروع ہوگٸ تھی۔اُس کے کہنے پر صالحہ نے فریج کھولا۔
”اور کچھ تو نہیں، یہ کیک رکھا ہے۔آٸس چاکلیٹ۔“
صالحہ نے اُس کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا تو اُس نے صالحہ کے ہاتھ سے لے کر اپنے سامنے ٹیبل پر رکھا اور پھر دونوں کھانے کے لیے ساتھ بیٹھ گٸیں
”تمہیں یاد ہے صالحہ!“ اس کے کہنے پر صالحہ نے اُسے دیکھا۔
”میری کتنی اچھی یاد جُڑی ہے چاکلیٹ کیک سے“ وہ ابھی بھی نیند میں تھی لیکن یہ بات کہتے ہوۓ اُس کی آنکھوں میں آنسو جمع ہوگۓ۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ آج کی رات اُن خوبصورت دِنوں کے نام“ صالحہ نے کہا اور دونوں مُسکرادیں۔آج ان دونوں نے گزری ہوٸی بہت سی باتیں کرنی تھی جس کے لیے رات بھی کم تھی۔
      ****************

 "امید"    Where stories live. Discover now