بہت دیر تک فریج کو کھول کر دیکھتے رہنے کا شغل پورا کرکے وہ فریج بند کرچکا تھا۔فریج میں بہت سی چیزیں رکھی ہٶٸ تھیں آٸس کریم، چاکلیٹ، کباب ، سینڈوچز، یہ سب چیزیں اُسی کی فرماٸش کے مطابق ہر وقت فریج میں موجود ہوتی تھیں۔آخر بہت دیر سوچنے کے بعد فریج میں سے اُسنے دو انڈے نکال لیے۔
پھر اوون میں دودھ گرم کرنے کے لیے رکھا۔
پھر انڈوں کے ساتھ ہری مرچیں۔۔۔چیز۔۔۔نمک نکال کر کٹنگ بورڈ پہ رکھ دیں۔انڈوں کو پھینٹا، دو تین ہری مرچیں چوپ کیں۔نمک ملایا اور پھر فراٸینگ پین کو چولھے پہ رکھ کر تیل ڈال کے اسکے گرم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔پھر جب تک دودھ کا گلاس نکال لیا۔ٹوسٹ مشین میں دو بریڈ کے سلاٸس ڈالے اور تب تک تیل گرم ہوچکا تھا۔اب اس نے انڈہ ڈال دیا اور خود کافی قدم کے فاصلوں پر کھڑا ہوگیا۔پھر جب تک آملیٹ تیار ہونے کے قریب تھا تو چیز بھی ڈال دی۔اسے تیل کی گرم چھینٹوں سے ڈر لگتا تھا۔کافی فاصلے پر کھڑے ہونے کے باوجود بمشکل فراٸنگ پین تک ہاتھ پہنچ رہا تھا۔آملیٹ کو پلٹنا بھی تو تھا ہمت کی اور پلٹنے کے لیے چمچے سے پلٹنے لگا۔۔آملیٹ پلٹا تو تھا لیکن دو چار گرم تیل کی چھینٹیں اسکے ہاتھ پہ ضرور گریں تھیں۔ایک سسکی ابھری پھر چولھا بند کرکے ہاتھ پہ پھونک مارے لگا۔ٹوسٹ نکالے اور آملیٹ کو پلیٹ میں رکھ کر تمام ناشتے کو ٹرے میں رکھ کر وہ ماما کے کمرے کی طرف بڑھا۔ ہاتھ پہ جلن محسوس ہورہی تھی۔اور کونسی دواٸی لگانی ہے فی الحال اتنا اسے معلوم نہیں تھا۔
”ماما بریک فاسٹ کرلیں۔۔۔“ دروازہ ناک کرکے اس نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔دو دفعہ کی ناک کے بعد دروازہ کھلا تھا۔
شلوار قمیض سر پہ دوپٹہ اوڑھے اسکی ماما مومنہ سامنے ہی کھڑی تھیں۔
”کیا بات ہے میری جان نے آج میری لیے ناشتہ بنایا ہے!!۔“ وہ محبت پاش لہجے میں حیرت سموۓ تاثر سے کہتے وہ جلدی جلدی بالوں کو اچھی طرح کیچر میں جکڑے لگیں۔وہ وہیں کھڑا اپنی ماما کو دیکھتا رہا۔گہری بھوری آنکھیں اور خوب گوری رنگت اسکی ماما اسے بےحد خوبصورت ہستی لگتی تھیں۔یہ نین نقش خوبصورتی سب اپنی ماما سے ملیں تھیں۔جبکہ قد،دوستانہ مزاج۔۔۔ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ رکھنا یہ سب بابا کی طرف سے تھیں۔ہاں اسے ایک بے حد وجیہہ انسان کہنا درست تھا۔
"کیا ہوا میرے شہزادے اتنی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی کبھی آپ نے؟۔“ گفتگو میں مزاح کی چاشنی بھرتے اسے پکارتے وہ گویا ہوٸ تھیں
”نہیں۔۔۔آپ بے حد خوبصورت ہیں!۔“ وہ بھی پیار بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا۔وہ مسکرا اٹھیں اور اسکے ماتھے پہ بوسا دے کر کچن کی طرف چل دیں۔
”زکی۔۔۔“ کچھ سوچ کر وہ ٹھٹکیں تھیں پھر یکدم مڑیں۔اس نے الجھے ہوۓ انداز میں انھیں دیکھا۔وجہ جاننا چاہی پکارنے کی۔
”کیا ہوا؟“ وہ اسکی طرف تیزی سے بڑھی تھیں۔
”وہ۔۔۔بس۔۔تھوڑی سی۔۔۔گرم تیل کی چھینٹیں گر گٸ تھیں۔۔۔“ وہ شرمندہ سا بتانے لگا۔زیادہ تکلیف کی باعث اسکی نیلی رنگ آنکھوں میں پانی ابھر رہا تھا۔لیکن اس نے بتایا نہیں۔اسلیے وہ اچانک چونک گٸ تھیں۔
”تو مجھے بتانا تھا ناں میری بچے۔۔۔ابھی خدانخواستہ اگر چھالے پڑ جاٸیں تو تکلیف زیادہ ہوگی۔۔۔ہر تکلیف اپنے تک نہیں رکھی جاتی بیٹا۔۔کبھی کسی قابل اعتبار شخص سے اپنی تکلیف شیٸر کرلینے میں کوٸ حرج نہیں ہوتا زکریا۔“ وہ جیسے دکھ سے اسے سمجھا رہی تھیں۔
”اچھا ناں! آپ یوں پریشان نہ ہوں۔“ وہ فوراً سے انھیں گلے لگا گیا تھا۔
وہ آٸینٹمنٹ لے کر آٸیں۔کچن کے باہر دیوار سے لگے اسٹولز میں سے ایک کی طرف اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے مسکراتا بیٹھ گیا۔
”دھیان سے کام کیا کرو زکی۔ورنہ میں پابندی لگادوں گی تمہاری کچن میں آنے پر۔“ مومنہ نے تھوڑی ناراضگی سے کہا۔
"کچھ نہیں ہوا مجھے۔اور مومنہ صاحبہ آپ تو خوامخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ بلکل تھوڑا سا ہی درد ہوا ہے اور تو کچھ بھی نہیں ہوا۔"
وہ چہرے پر ناراضگی سجاۓ کہہ رہا تھا کہ غصّے میں اچانک مومنہ صاحبہ کی ہنسی نکل گٸ۔
"اوہ اچھا! اب آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟"
اس کے معصومیت بھرے انداز میں کہنے پر مومنہ صاحبہ کو بہت پیار آیا
”تم بہت پیارے لگ رہے تھے کہتے ہوۓ اسلیے مجھے ہنسی آگٸ۔
آخری بات بولتے ہوۓ انھوں نے اس کے گال کو تھپتھپایاتو اس نے جواب دیا
"ہاں ماما وہ تو مجھے معلوم ہے۔آخر بیٹا کس کا ہوں؟“ فرضی کالر جھاڑتے وہ لاپرواہی سے بولا تھا۔مومنہ ہنسے لگیں۔
پھر فریش ہوکر کر دونوں ناشتہ کرنے بیٹھے۔
"ماما، آٸ ایم سوری ! آپکو تو معلوم ہے مجھے یہ گرم آٸل سے ڈر سا لگتا ہے اور میں نے آپکو تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ہاتھ سلپ ہوگیا تھا۔“
دودھ کے گلاس سے گھونٹ بھرتے اس نے شرمندگی کے باعث سر جھکاۓ کہا۔اسے یہ بات تکلیف دیتی تھی کہ کوٸ اسکی وجہ سے دکھ یا تکلیف میں ہو۔۔۔وہ کسی نفس کے لیے پریشانی کا باعث بنے یہ بات اسے اداس کردیتی تھی۔
"کوٸ بات نہیں بیٹا، غلطیاں تو سب سے ہی ہوتی ہیں۔اور اچھا انسان تو وہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرلے۔اور آپ نے تو ویسے بھی نقصان پہنچانے کے لیے نہیں کیا۔اٹس اوکے غلطیاں ہم سب کرتے ہیں زکریا۔“
اب وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوۓ شفقت سے مسکراٸ تھیں۔
”وہ نیند کا نشٸ نہیں اٹھا ابھی تک؟“ زکریا نے لقمہ منہ میں ڈالتے پوچھا تھا۔مومنہ ہنس دیں۔
”تم بھی اسی کی طرح سوتے ہو بچے۔آج ہفتے میں ایک دفعہ جوگنگ پہ چلے گۓ تو پیر زمین پہ نہیں ٹک رہے ہاں؟!“ وہ بھی اسے زچ کرنے کی موڈ میں تھیں۔
”یار مما کبھی تو میری ساٸیڈ لیا کریں آپ۔“ وہ دکھی لہجے میں گویا ہوا۔
”ہاں ہاں جیسے تم تو بہت شریف ہو ناں!۔“ وہ پھر مسکراہٹ دباۓ اسے تنگ کررہی تھیں۔
”آپکو کوٸی شک ہے؟“ وہ بڑے فخر سے بولا تھا۔
”تمہارے کرتوت پہ نظر رکھتی ہوں۔“ وہ جتاتے ہوۓ بولیں تو وہ اچانک ہی ہنس دیا۔ہنستے ہوۓ اسکے ڈمپل واضح ہوۓ تھے۔
”اچھا بھٸ!!!آپ جیت گٸیں۔“ اسنے جیسے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ناشتہ کرکی وہ دعا پڑھ کر اٹھ گیا تھا۔مومنہ بےاختیار مسکرادیں۔
”اٹھا دو اُسے بھی۔میں تمہارے بابا کو جگادوں تاکہ یہ دونوں بھی ناشتہ کرلیں۔“ وہ لاٶنج میں رکھے صوفوں میں سے کسی صوفے پہ پڑا اپنا موباٸل اٹھا رہا تھا تب ماما نے کہا۔
”جی اٹھا دیتا ہوں۔۔۔۔اچھا۔۔۔ماما ویسے آملیٹ کیسا بنا؟“ وہ کہہ کر یاد آنے پر بڑے تجسس سے پوچھنے لگا۔
”اہیم اہیم!۔۔۔۔“ وہ گلا کھنکارنے لگیں۔
”افففف!۔“ وہ جیسے اپنی تعریف سننے کے لیے بےچین ہورہا تھا۔
”نمک تھوڑا کم تھا۔!“ وہ مسکراکر کہتے ہوۓ برتن سنک میں ڈالنے لگیں۔
”آپ بھی ناں ماما۔۔۔مجھے اندازہ نہیں ہوپاتا ٹھیک سے۔نیکس ٹاٸم کوشش کروں گا ٹھیک رہے“ وہ بھی پرسوچ انداز میں اپنی غلطی یاد کرتے ہوۓ کہنے لگا۔مومنہ کام میں مصروف ہوگٸیں۔وہ موباٸل کی اسکرین پہ میسج دیکھ کر مسکراتا ہوا سیڑھیاں چڑھتا اپنے روم کی طرف چلاگیا۔
------------------------
سیّد ہاٶس بہت عالیشان طرز کا تھا۔ زکریا کے والدین اس کی ماما مومنہ صاحبہ اور والد سیّد معیز صاحب تھے۔ زکی اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔لیکن اس گھر میں ان تین کے علاوہ ایک اور چلتا پھرتا ریڈیو اسٹیشن بھی رہتا تھا۔جو کبھی تب ہی خاموش ہوتا جب سویا ہوتا۔اور اسی لیے ابھی گھر میں ہر طرف سکون تھا۔نوکر چاکر سارا دن اِھر اُدھر گھر کو صاف رکھنے اور کاموم میں مصروف نظر آتے۔ معیز صاحب کی اپنی کمپنی تھی، جو کہ پہلے صرف کراچی میں کاروبار میں تھی۔ لیکنسالوں کی محنتیں اور اللہ کی عطا کی گٸ برکت نے ان کی کمپنی کو ملٹی-نیشنل کمپنی بنا دیا تھا، اور اب پہلے سے بھی زیادہ خوشگواری ان کی زندگی میں آگٸ تھی۔
-----------------------------
پردے ہٹاکر اس نے صبح کی تازہ دھوپ کی کرنوں کو کمرے میں بکھرنے کا راستہ دیا تھا۔اس وجود کو سوتا دیکھ کر یوں معلوم ہوتا جیسے وہ کوٸ سو نہیں رہا بلکہ شاید مرچکا ہے۔
”شہنشاہ بستر۔۔۔۔رونق گھر۔۔۔سست اور کام چور بادشاہ سلامت۔۔۔۔اٹھ جاٸیے۔“ ایک دو اور تین۔۔۔تین کشن اسنے ایک کے بعد ایک اس کے منہ پر مارے تھے۔وہ جو پرسکون دنیا سے بیگانہ سورہا تھا۔اچانک حملے پر بوکھلا گیا تھا۔
”ذلیل انسان۔۔۔!۔“ پہلے الفاظ یہی تھی۔
”بہت شکریہ۔۔۔اب اٹھ جاٸیں اور ماما نے پیغام بھجوایا ہے ناشتہ کرلو۔“ زکریا نے اسکی کے تعریفی کلمات کو قبول کرتے ہوۓ کام کی بات کی تھی۔
”یار سنڈے کو تو سونے دیا کر۔“ وہ بہت بےزاری سے کہہ کر اٹھ کر بیٹھا آنکھیں مسل رہا تھا۔
”رات کو کیا ہل چلا کر آیا تھا؟“ زکریا نے جملہ کسا تھا۔
”کیوں؟“ وہ نیند میں تھا تو سمجھ نہیں سکا۔
”بال دیکھ اپنے۔۔۔ایسا لگا ہے بکرے دنبے مرغے اچھل اچھل کر بھاگے ہیں۔“ زکریا نے کہا تو اس نے منہ بسورا۔پھر ہاتھوں سے ہی بال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
”میں ویسے بھی اتنا ہی ہینڈسم لگ رہا ہوں۔جلا مت کر مجھ سے۔“ ابراہیم نے بھی بدلے کے طور پر جملہ کسا تھا۔
”خوش فہمیاں اپنے پاس رکھ بھاٸی۔میں اور تجھ سے جلوں گا۔“ وہ مذاق اڑاتا کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ابراہیم نے بےزاری سے آنکھیں پھیریں۔
”صبح صبح میرے کمرے میں شیطان بن کر نازل نہ ہوا کر۔مجھے سختت کوفت محسوس ہوتی ہے۔“ابراہیم کبرڈ سے جینز اور ٹی شرٹ نکالتا اکتاۓ ہوۓ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”اوہووو۔تو بھی کوٸ دنیا کا حسین انسان نہیں جو مجھے صبح صبح تجھے دیکھنے کی ضرورت پڑے۔۔۔بس آٸینہ دیکھ لیتا ہوں بہت ہے میرے لیے“ وہ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا۔
”ہونہہ خشک فہمیاں حسین اور تو؟!!! مجھے سوچ کر ہی دل متلی ہوتا شروع ہورہا ہے۔“ ابراہیم نے بےزاری سے کہا۔
”ہاں آخر بھاٸ کس کا ہوں؟“ زکریا نے توپ کو الٹا اسکی طرف وار کرنے کے لیے گھما دیا۔
”استغفراللہ استغفرااللہ۔۔۔اے اللہ محفوظ رکھنا اس لڑکی کو جو اس سے محبت کرے۔“ ابراہیم باقاٸدہ اوپر سیلینگ کی طرف دیکھتے ہاتھ اٹھاتے بلند آواز میں کہنے لگا۔
اور زکریا کا ہنسی کا فوارہ کھل گیا۔وہ ابراہیم کی بات پر بہت دیر تک ہنستا رہا یہاں تک کہ اسکے نیلی آنکھوں میں ہنسنے کے سبب پانی بھر گیا تھا۔ابراہیم مسکراتا ہوا شاور لینے چلا گیا۔
پھر وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلاگیا۔
*****************