"امید" (قسط نمبر 6)

251 13 7
                                    

" اوہو۔ پڑھاکو اب بس بھی کردو۔ کچھ کھاپی لو"
زَہرہ کینٹین میں ایک کونے والی ٹیبل پہ رکھی کتاب پڑھنے میں مگن تھی جب صالحہ نے دھاڑتے ہوۓ اپنی کرسی سنبھالی اور اب وہ اُس پر برسنے کے لیے تیار تھی۔
”زوہی ۔ میسج پہ ہی بتا دیتیں کہ کینٹین کے کسی کونے میں چھپ کر بیٹھی ہو۔میں تھک گٸی تمہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔تمہیں ایک ضروری بات بھی بتانی تھی، اب تم کچھ بول بھی لو۔“
زوہی کی طرف سے جواب نا پاکر اب اُسے مزید غصّہ آرہا تھا۔
” ہاں بتاٶ اب کیا بات ہے؟“ زوہی نے کتاب بند کرتے ہوۓ دیک تفتیشی نگاہ صالحہ پر ڈالی۔
”اچھا سنو۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اس مہینے کے آخر میں بھاٸی کی منگنی ہے۔ لیکن اب تایا ابّو نے ایک ہفتے بعد کی تاریخ رکھی ہے۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ منگنی نہیں بلکہ نکاح ہوگا۔"
صالحہ پُرجوش ہوتے ہوۓ پوری کہانی سُنا رہی تھی۔
”اچھا“ زَہرہ نے مختصر جواب دیا
”کیا ہوا زوہی؟ کوٸی مسٸلہ ہی کیا؟ بتاٶ مجھے“
”نہیں کچھ نہیں۔ بس باباجان کی طبیعت کی وجہ سے پریشان ہوں۔“
”وہ ٹھیک ہوجاٸیں گے تم ٹینشن نہیں لو“
صالحہ نے زَہرہ کو تسلی دیتے ہوۓ کہا۔
”اور تم بتاٶ۔ تمہارے بھاٸی کا نکاح کب ہے؟“
اب کی دفعہ زَہرہ نے اپنی پریشانی کی خاطر میں نہ لاتے ہوۓ سوال کیا۔
”اسی ہفتے کو ہے اور ہمیں خریداری کے لیے بھی جانا ہے" زہرہ کی بات کا جواب دیتے ہوۓ اُس نے چپس کا پیکٹ کھولتے ہی اُس کے ساتھ انصاف کرنا شروع کردیا تھا۔
”اوو اچھا ! تو پھر ہم اَنزلنا کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے ورنہ وہ شور مچادے گی“
زَہرہ نے دھیمی مسکراہٹ سے صالحہ کو دیکھا جو چپس کے پیکٹ پر ساری توجہ مرکوز کیے ہوٸی تھی۔
”ہاں ہاں اُسے بھی لے لیں گے اور تم دونوں بھی اپنے لیے شاپنگ کرلینا“ صالحہ نے مصروف انداز میں کہا تو زَہرہ ہنس دی۔
”تم اور تمہاری بھوک“ زہرہ نے پیکٹ کی طرف دیکھ کر افسوس سے کہا
”برداشت ہی نہیں ہوتی بھوک“ صالحہ نے پریشان نظروں سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا تو وہ ہنس دی۔
-------
"واہ بھٸی۔ تمہارے تو اچھے دن شروع ہورہے ہیں اور ایک ہمیں دیکھو۔"
وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب روانہ تھے کہ حذیفہ کی بات سُن کر ابراہیم نے انتہاٸی دُکھی اداکاری کرتے ہوںۓ کہا جس پر زکریا اور حذیفہ ہنس دیے۔
"مبارک ہو یار حذیفہ! "اب زکریا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"ویسے اتنے کم دن باقی ہیں اور تُو اپنا ویڈنگ ڈریس کب لے گا؟"
پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوۓ ابراہیم کو حذیفہ سے زیادہ فکر ہو رہی تھی۔
” آج ہی چلنا ہے ماما نے کہا تھا کہ تم نمونوں کے ساتھ چلا جاٶں۔ کیوں کہ وہ سارہ کے لیے خریداری کرنے جاٸیں گی" حذیفہ نے خوش ہوتے ہوۓ کہا۔
"ٹھیک ہے تم جب تک آرام کرلو فریش ہوجاٶ۔ میں شام میں پِک کرلوں گا۔" زکریا نے حذیفہ کے گھر کے باہر گاڑی روکی اور کہا۔
"اور ہاں یاد آیا۔۔۔" حذیفہ نے سوچتے ہوۓ اچانک کہا۔
"زکی تم موڈی کو بھی کہہ دینا۔میں اُسے کہنا بھول گیا۔ اور شام میں ٹاٸم پہ آجانا تم دونوں۔"
اب وہ تنبیہ کرتا ہوا چلاگیا۔اور وہ دونوں بھی آگے بڑھ گۓ۔
          ---------------------------
" انزو بہت مار کھاٶگی۔ جلدی تیار ہوجاٶ۔ تمہارا آٸی-لاٸنر پھینک دوں گی میں اب" وہ تینوں زَہرہ کے کمرے میں موجود تھیں جب بہت دیر سے غصہ برداشت کرنے کے بعد اب صالحہ، اَنزلنا پہ بھڑک اُٹھی تھی۔ زَہرہ تحمل سے بیٹھی ہوٸی باہر ہرے بھرے لان اور پرندوں کو اُڑتا دیکھ رہی تھی اور شاید اپنی ہی سوچوں میں گُم تھی۔

 "امید"    Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz