"امید" (قسط نمبر 5)

218 19 9
                                    

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ریسٹورینٹ کے سامنے موجود تھیں۔
”تم جاٶ۔میں 2 منٹ میں کار پارک کر کے آتی ہوں۔“
”اوکے میں پارکنگ ایریا کے باہر تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔“انزلنا اس کی بات کا جواب دیتے ہوۓ چلی گٸی۔
زَہرہ نے گاڑی لاک کی اور اب وہ ایک ہاتھ سے اپنا موباٸل پکڑے اور دوسرے ہاتھ میں ابایا تھامے چل رہی تھی کہ اچانک کسی پتھر سے ٹکرانے کی آواز آٸی
"ٹَک" اور یقیناً یہ اس کی ہیل ٹوٹنے کی آواز تھی۔
زَہرہ کے لیے توازن قاٸم رکھنا مشکل ہوگیا اور موباٸل ہاتھ سے چُھوٹا وہ گرنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔
" اَنزُووووووو۔۔۔" زَہرہ کی زوردار آواز نکلی اور اُسے ہی لگا کہ اگلے لمحے وہ زمین بوس ہوجاۓ گی۔
"ارےےے سنبھل کے" کسی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراٸی۔ اور پیچھے سے کسی نے اُسے کا سیدھا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔
" اوہہہہ شکر ہے انزو تم آگٸیں۔۔۔۔۔" ابھی وہ سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور جیسے ہی پیچھے مُڑی۔۔۔ آنکھیں تحّیُر سے پَھٹ گٸیں اُسکا ہاتھ ابھی بھی سامنے موجود شخص کے ہاتھ میں تھا۔
"ج۔ج۔ججی۔۔۔ آ۔آ۔آپ۔۔۔" حیرت کے مارے وہ پوری کپکپانے لگی اور اب زبان بھی ساتھ نھیں دے رہی تھی۔
"I'M SoRRy but i'm not your ANZU"
سامنے موجود شخص کے لیے مسکراہٹ پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا اور زَہرہ کی سانسیں حلق میں اٹکی ہوٸی تھیں، سامنے موجود شخص کو دیکھ کر۔۔۔ایک بہت عرصے بعد۔۔۔۔۔
"آر یو آل راٸٹ؟" سوال پوچھا گیا۔
لیکن زَہرہ کی آنکھوں کی سُوٸیاں اُس چہرے پر اٹکی ہوٸی تھیں جو اب پریشان سا اس سے پوچھ رہا تھا۔
"آپ ٹھیک تو ہیں؟ چوٹ تو نہیں لگی آپ کے؟ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں؟"
دوسری دفعہ کے سوال پر جیسے ہی اُس لڑکے نے زَہرہ کی طرف دیکھا۔۔۔زَہرہ گو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو لمحہ بھر میں نظریں جُھکا لیں۔ ہزاروں لوگوں کے درمیان زَہرہ جس چہرے کو پہچان سکتی تھی وہ چہرہ ابھی صرف اُس کے لیے پریشان نظر آرہا تھا۔
”جج جی میں ٹھیک ہوں۔“
اُس نے گھبراتے ہوۓ جواب دیا۔
”اوہ اچھا میں پریشان ہوگیا، آپ کے کہیں زیادہ چوٹ نہ آٸی ہو۔“ لہجے میں فکر کا عنصر شامل تھا۔
”اوکے، میں ٹھیک ہوں۔ جزاک اللہ“
وہ کچھ بھی محسوس نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ناجانے احساسات سر اٹھا رہے تھے۔فوراً سوچوں کو جھٹکا۔
پریشان لہجے میں کہتی ہوٸی وہ آگے بڑھ گٸی نقاب ابھی بھی اُس کے چہرے پر تھا۔ پیچھے سے اس شخص نے پکارا۔
"سُنیں۔۔۔" اور وہ فوراً پلٹی۔ "یس۔۔؟"
"آپ کا موباٸل، اسے تو ریپیٸر کروانا ہوگا۔بہت زور سے گرا ہے یہ تو۔" وہ ایک پیر کھڑا کیے اور دوسرا پیر زمین پر ٹکاۓ موباٸل کو بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
”اگر آپ کہیں تو میں ریپیٸر کرواسکتا ہوں۔
I MEAN IF YOU DON'T HAVE ANY PROBLEM
تھینک یو! لیکن میں خود کروالوں گی“
زَہرہ کی نظریں اسی پر ٹکی ہوٸی تھیں دوبارہ جیسے ہی اس شخص نے اُسے دوبارہ دیکھا تو وہ سٹپٹا گٸی اور بہت سنجیدہ انداز میں جواب دیا۔
"اوکے جیسے آپ چاہیں۔" اس شخص نے بھی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
"کیسی لڑکی ہے؟ اتنی زیادہ سیریس!!" خود سے سرگوشی کرتے ہوۓ وہ لڑکا بھی آگے بڑھ گیا۔ اور زَہرہ بھی اندر ریسٹورینٹ میں جاچکی تھی۔
               ---------------------
"او اللہ کہاں رہ گیا یہ عابی۔ بنانے بیٹھ گیا ہے کیا پیزا؟" پچھلے 20 منٹ سے زکریا کا بھوک کے مارے حال برا تھا۔ اور اب وہ حذیفہ کی طرف دیکھ کر غصّہ کر رہا تھا۔ کیوں کہ حذیفہ نے ہی اُسے بھیجا تھا۔
" آجاۓ گا وہ ، اطمینان رکھ زکی!" حذیفہ نے اس کی شکل دیکھ کر کہا جو بھوک کے مارے لال ہونے والی تھی۔
”پچھلے 20 منٹ سے یہی سُن رہا ہوں۔اتنی دیر سے اب تک پہنچا نہیں ٹیبل تک"
زکریا کا غصّے سے برا حال ہورہا تھا اور حذیفہ اب اُس کی بات پہ ہنس رہا تھا۔
"میں ہی دیکھ کر آٶں کہاں رہ گیا ہے"
زکریا غصے سے کہتا ہوا اٹھ کے چلا گیا
                 --------------------
"انزو پلیز جاکے دیکھ لو پیزا ریڈی ہوا کہ نہیں آج تو ویٹڑرز ھی نہیں آرہے آرڈر لینے۔میرے پیر میں موچ آگٸی ہے تم دیکھ لو جاکر"
زَہرہ نے انزلنا سے انتہاٸی سنجیدہ ہوکر کہا اور اب انزلنا منہ بگاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔
”آپی پلیز ابھی نہیں، ابھی اتنی اچھی تصویریں آرہی ہیں۔میں نہیں جارہی۔“ انزلنا نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا
”انزلنا، آج تم بہت پیاری لگ رہی ہو، بہت خوبصورت اور تمہارے بال تو۔۔۔“
”۔۔۔میرے بال بہت سلکی اور اچھے لگ رہے ہیں۔مجھے معلوم ہے زوہی اب مکھن نہیں لگاٶ میں جا رہی ہوں“
انزلنا نے خود کی تعریف کرتے ہوۓ کہا اور آخری بات پر دونوں ہنس دیں۔

ابھی وہ کاٶنٹر کی طرف جا ہی رہی تھی کہ کسی سے اچانک ٹکراٸی لمحے بھر کے لیے انزلنا کو ستارے نظر آگۓ لیکن جیسے ہی سنبھلی موباٸل ہاتھ میں جکڑا اور تیزی سے پیچھے مُڑی، مڑتے وقت اس کے بال مقابل کے چہرے سے تھوڑے سے ٹکراۓ اور وہ بری طرح جھنجھلا گیا۔
”او ہیلو مسٹر آنکھیں ہیں آپ کے پاس؟“
موباٸل سنبھالتے ہی انزلنا نے غصے سے کہا۔
”میں مسٹر نہیں بلکہ مسٹر ابراہیم احمد ہوں۔“
”او اچھا تو مسٹر ابراہیم احمد دیکھ کر چلا کریں اور اگر دیکھ کر چلنے میں کوٸ تکلیف ہے تو بیشک چشمہ لگوالیں۔ آپ کا فاٸدہ بھی ہوگا اور دوسروں کا بھی“
” اوکے آپ کا حکم سر آنکھوں پر“
ہاتھ میں ٹرے پکڑے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ ابراہیم نے انزلنا کو دیکھ کر کہا۔
وہ غصے میں جلتی بھنتی آگے بڑھ گٸ۔
      -----------------------
" بڑی دیر کردی۔۔۔ مہرباں آتے آتے۔"
ابراہیم کو دور سے ہنستا ہوا آتا دیکھ کر زکریا نے غصّے سے کہا
”اچھا اب لیکچر شروع نہیں کرنا۔آگیا ہے پیزا اب کھالو آکر"
ابراہیم ہنستا ہوا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
"اب اس کی بتّیسی کیوں نکلی ہوٸی ہے، معلوم کرنا پڑے گا"
زکریا سوچتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
       ------------------------
کھانا کھانے کے بعد بِل پے کرنے کے بعد اب وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں اور زَہرہ کے دماغ میں مسلسل ایک ہی سوچ تھی۔
”(وہ اور یہاں؟؟ مجھے بھی سنبھل کر چلنا چاہیے  اور میرا کیا ریٸکشن تھا، شرمندگی اٹھانی پڑی مجھے۔
سوری اللہ تعالٰی! مجھے نہیں معلوم تھا کہ پیچھے کوٸی نامحرم ہے۔ مجھے دھیان رکھنا چاہیے، اگلی بار انشا۶اللہ کوٸی ایسی غلطی نہیں کروں گی)“
ساری بات سوچتے ہوۓ زَہرہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے، آنسو ٹپکنے سے پہلے ہی اُس نے صاف کرلیے۔

ہاں میں ہوں ایک عام سی لڑکی
مگر جذبے صاف رکھتی ہوں
میں محبّت پاک کرتی ہوں
کسی نامحرم سے میں ہنس کر ملا نھیں کرتی
کسی انجان پہ میں جلد بھروسہ نہیں کرتی
دنیا کیا سوچتی ہی میں اُس کی پرواہ نہیں کرتی
ہوجاۓ جس سے میرا ربّ خفا
میں ایسی بات نہیں کہتی
کیا ہوگا کل ؟ یہ سوچ کر
میں اپنا آج برباد نہیں کرتی
میں ہوں ایک گنہگار، میں مانتی ہوں یہ
مگر اپنے روّیوں سے، کسی کا دل توڑا نہیں کرتی"
وہ جو میرا ہے۔ وہ صرف میرا ہے۔
منفی سوچوں کو میں خود میں پناہ دیا نہیں کرتی
ہاں میں ہوں ایک عام سی لڑکی
مگر جذبے صاف رکھتی ہوں
میں محّبت پاک کرتی ہوں
             -ایمن

"زوہی چلو۔" انزلنا کی آواز پر وہ سوچوں سے باہر نکلی اب وہ گھر کے لیے نکل گٸی تھیں۔ 
              ***************

 "امید"    Where stories live. Discover now