"امید" (قسط نمبر 14)

215 18 6
                                    

صبح کے دس بج رہے تھے۔ ابھی وہ سو کر اُٹھی تھی کہ سر میں ٹیسیں اٹھنے لگیں وہ دوبارہ لیٹ گٸ، اور کل رات والی بات سوچنے لگی۔ابھی وہ سوچوں میں گم ہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا حنا ناشتہ لے کر آٸی تھیں۔
"زوہی، طبیعت کیسی ہے اب؟" انھوں نے مسکراتے ہوۓ پوچھا
"اسلام و علیکم امّی جان، ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے؟" اس نے سرسری انداز میں کہتے ہوۓ انہی سے سوال کر ڈالا اور مسکراتی ہوٸ اٹھ گٸ۔ حنا وہیں بیڈ پر بیٹھیں بہت کچھ سوچ رہیں تھیں وہ منہ ہاتھ دھو کر آٸ تو انھوں نے ایک نظر اس کے سراپے پہ ڈالی۔ وہ بہت تھکی ہوٸ لگ رہی تھی رات کو وہ کتنی دیر تک روٸ تھی۔ وہ ناشتہ کرنے بیٹھ گٸ
"بابا جان آفس چلے گۓ؟" اسنے ناشتے کے درمیان سوال کیا
"ہاں چلے گۓ" انھوں نے بھی سرسری انداز میں جواب دیا
"اور انزو یونیورسٹی چلی گٸ یا آج پھر چھٹی کی ہے؟ اور ثاقب ٹاٸم پہ اُٹھ گیا تھا؟" وہ سرجھکاۓ سوال پہ سوال کررہی تھی
"زَہرہ۔" حنا نے اسے محبت سے پکارا
"جی امّی جان" اس نےمحبت بھرے لہجے میں کہا، اس کے چہرہ اٹھانے پر واضح ہوا تھا وہ حنا کے سامنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہی تھی۔آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے مکمل بھر چکے تھے بس نکلنے کے لیے کوٸ راستہ چاہیے تھا۔
"زَہرہ رو لو میری بیٹی۔" انھوں نے گزارش بھرے لہجے میں کہا
"کل سے رو ہی تو رہی ہوں۔" اب وہ ان سے گلے لگے آنسوٶں سے رو رہی تھی۔
"آٸ ایم سوری امی" وہ روتے ہوۓ کہ رہی تھی۔
"کس لیے زوہی؟"
"میں کب اتنی کمزور پڑگٸ مجھے معلوم ہی نہیں ہوسکا، میں ایک انسان کی محبت میں ہار گٸ، مجھے نہیں معلوم ہوسکا مجھے اس سے کب محبت ہوگٸ۔" وہ سسکیاں لیتے اپنی بات پوری کررہی تھی۔ حنا ان ماٶں میں سے تھیں جو کسی بات کا غلط مطلب نکالے بغیر اسے سنتی تھیں اور وہ حساس بھی تھی اس لیے ہر بات اپنے بابا اور امّی سے ہی کہتی تھی۔ اسے بھروسہ تھا اس کی امّی جان اسے سمجھیں گی اور اس کا ساتھ بھی دیں گی اس کے برے وقت میں اللہ کے بعد سب سے اچھی ساتھی وہ ہی تھیں۔
حنا کے آنسوگرنے لگے تھے۔ وہ اُسے بہلانا چاہتی تھیں لیکن
جب کوٸ بہت زیادہ تکلیف میں ہو اور اذیت سے گزر رہا ہو اور وہ کبھی آپکے کندھے سے لگ کر رونا چاہے تو بہتر ہے اسے خود سے گلے لگا کر رونے دیا جاۓ، جب انسان تکلیف میں ہوتا ہے تو آنسو بھی اُسی کے سامنے بہاتا ہے جس پر اُسے مان ہوتا ہے کہ یہ ہمارے آنسو صاف کردیگا، ہمیں سمجھنے کی کوشش کریگا۔ بعض اوقات رشتوں میں غلط فہمیاں بھی اسی لیے بڑھتی ہیں کہ ایک چاہتا ہے کہ اسے سُنا جاۓ جبکہ دوسرا انسان اسے سننے اور سمجھنے کے بجاۓ اُس پر نصیحتوں کی بوچھار کرنا شروع کردیتا ہے اور پھر جو انسان تکلیف میں ہو وہ بدضن ہوجاتا ہے اُس کا دل اُکھڑ جاتا ہے اور یہ سوچ ہاوی ہوجاتی ہے کہ تمام غلطی ہماری ہی تھی اور ہم اتنے غلط تھے کو کسی نے سننا بھی نہ چاہا! اور پھر یہیں سے رشتوں میں دُوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ جب کوٸ آپ سے اپنا دکھ کہنے آۓ تو اُسے سن لیا جاۓ کیا معلوم وہ اپنے اندر کتنے طوفان سمیٹتا تم تک پہنچا ہو کہ ہم اُسے سن لیں گے، رشتوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سُنا جاۓ، کبھی پہلا جھک جاۓ تو کبھی دوسرا جھک جاۓ۔ محبتیں قاٸم رکھنے میں بھلا اصول کیسے؟!
"تمہاری کوٸ غلطی نہیں ہے زوہی۔ محبت تو ہو ہی جاتی ہے، محبت کبھی غلط نہیں ہوتی، بس ہم انسان غلط راستوں کا انتخاب کرلیتے ہیں۔" بہت دیر تک رونے کے بعد جب وہ خاموش ہوٸ تو حنا نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے محبت سے سمجھایا۔ دل کا بوجھ ہلکا ہوچکا تھا۔ حنا ناشتے کی ٹرے اٹھا کر لے جانے لگیں تو اس نے انھیں پکارا۔
"امّی جان"
"ہمم بولو زوہی۔" انھوں نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"آج مجھے انگیجمینٹ میں جانا ہے تو آپ میرے لیے اپنی پسند کا سوٹ نکال دیں۔" اس نے چہرے پر اطمینان سجاۓ کہا
"زوہی جانا ضروری ہے کیا؟تم معذرت کرلو ابھی فون کرکے تمہاری تو طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے!" حنا نے افسردگی سے کہا
"نہیں امّی جان، مجھے خاص طور پہ کہا ہے اُس نے، میں کسی کو ناراض نہیں کرسکتی۔" وہ کہتے ہوۓ مسکراٸ تھی آنکھوں میں نمی برقرار تھی۔ حنا نے مزید کچھ نہ کہا اور کپڑے دیکھنے لگیں۔
                --------------------
لاٸٹوں سے چمچماتے اس وسیع اور خوبصورت لان کو اس نے تاٸیدی نگاہ سے دیکھا۔بخار اسے ابھی بھی تھا لیکن دواٸی کھالینے کی وجہ سے بہت بہتر محسوس کررہی تھی۔ زَہرہ نے آج ڈارک پرپل کلر کی لانگ میکسی پہنی تھی اور اسکے ساتھ واٸٹ کلر کا اسکارف بہت خوبصورتی سے باندھا تھا اور بہت سادگی سے تیار ہوٸ تھی۔ اب صالحہ اور وہ دونوں اس ٹیبل کیساتھ موجود اس کرسیوں پر بیٹھ گٸیں جو خاص ان سب کے لیے تھی۔ وہ اردگرد کا جاٸزہ لے رہی تھی۔
منگنی کا ایونٹ زکریا کے گھر کے لان میں ہی کیا گیا تھا۔ لان بہت وسیع تھا اور مہمان مختصر تھے۔ زکریا اور معیز صاحب کے دوست اور دیگر احباب وغیرہ اور مناہل کی طرف سے اسکے مام ڈیڈ اور چند لڑکے لڑکیاں تھھے جوکہ اس کے کزنس تھے۔
صالحہ اور وہ بیٹھی باتیں کررہی تھیں جب ابراہیم انھیں دیکھ کر وہیں چلا آیا۔
"اور بھٸ خوب تیار ہوکر آٸ ہیں دونوں محترمہ" اس نے مزے لیتے ہوۓ کہا اور وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔
"ہاں، اب تمہاری طرح منہ اُٹھا کر نہیں آسکتے تھے اسلیے" صالحہ نے بھی اسی کے مطابق جواب دیا۔
"کیا مطلب؟ میں یعنی کہ اتنا ہینڈسم انسان تمہیں بغیر تیاری کے دکھ رہا ہوں۔" اس نے بالوں کو سیٹ کرنے والے انداز میں کہتے ہوۓ تھوڑا خفگی سے کہا تو وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دیں۔
تھوڑی دیر بعد زکریا اور مناہل ھی اسٹیج پر پہنچ گۓ تو وہ سب بھی وہاں سے اُٹھ کر اسٹیج کی جانب چلے گۓ، وہاں مناہل کے کزنس وغیرہ بھی کھڑے تھے تو وہ اسٹیج پر جانے کے بجاۓ تھوڑا دور کھڑے ہوکر سب دیکھنے لگی۔ زکریا نے بلیک تھری پیس سوٹ پہنا تھا۔ دونوں ہی تمام لوگوں سے بے نیاز اپنی باتوں میں مگن تھے۔ پھر انگوٹھی پہناٸ گٸ، وہ آنسو ضبط کیے کھڑی تھی۔ زکریا نے مناہل کو ڈاٸمنڈ رنگ پہناٸ۔ اس وقت زکریا کی خوشی دیدنی تھی وہ بہت زیادہ خوش تھا۔
آنسو ابھی گرنے ہی والے تھے کہ اتفاقاً زکریا کی نظر اُس پر پڑی اور آنسو حلق میں اٹکے رہ گۓ، نہ وہ مسکرا پارہی تھی اور نہ ہی وہ رو سکتی تھی۔ زکریا کو بہت عجیب محسوس ہوا۔ اتنے خوشی کے موقع پر زوہی کی آنکھوں میں آنسو بہہ رہے تھے وہ سمجھ نہ سکا بس ایک گہری مسکراہٹ سے زوہی کو دیکھا اور وہ بس مسکرا کر رہ گٸ۔۔۔۔۔
سب تصویریں وغیرہ کھینچنے لگے اس نے بھی دو تصویریں کھینچیں ایک تصویر میں وہ اُسی کی طرف دیکھ کر بھرپور مسکرا رہا تھا۔ صالحہ بھی اسٹیج پر مناہل کے ساتھ تھی وہ وہیں موجود کرسی سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگٸ اور تصویریں دیکھنے لگی۔ تصویروں پر نظریں جماۓ وہ بہت سی سوچوں میں غرق تھی کہ اچانک اپنے آپ پر کیمرہ کا فلیش جلنے پر وہ سوچوں سے باہر آٸ۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا وہاں کوٸ نہیں تھا۔ وہ اسے اپنا وہم سمجھ کر خاموشی سے اپنی کرسی پر جاکے بیٹھ گٸ۔ اس کے سامنے والی کرسیوں میں سے دو پر ابراہیم اور حذیفہ بیٹھے دو خواتین کی طرح باتوں میں مصروف تھے۔
کھانے سے فارغ ہوکر تمام مہمان جاچکے تھے، بس وہ ہی سب ہی گۓ تھے۔ زکریا کے کہنے کے مطابق سب کو ساتھ کھانے کے لیے بولا گیا تھا لیکن سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اس کے بخار میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔صالحہ بھی ابھی اسٹیج پر مصروف تھی۔اس کے سامنے والی کرسی پر زکریا بیٹھ گیا اور اب ان تینوں دوستوں نے خواتین  کی طرح باتیں کرنی تھیں۔آنسوٶں کو نکلنے کا بہانہ چاہیے تھا لیکن ضبط کرنا پڑرہا تھا۔۔۔۔
”اور کیسی ہو زوہی؟“ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں بات کی۔زہرہ نے محسوس کیا وہ ہنسمک تھا،ہر ایک سے خوشمزاجی سے ملاتا، غصے سے تو اس کی بنتی ہی نہیں تھی!۔
”ٹھیک، تم کیسے ہو؟“ اس نے بہت سرسری انداز میں پوچھا۔جس انسان کے لیے وہ کل رات سے رو رہی تھی اسے مانگ رہی تھی، آج اس کے سامنے ایسے بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ زکریا کو اب فراغت ملی تھی تو وہ بھی ان سب سے باتیں کرنے بیٹھ گیا۔
”میں بالکل ٹھیک۔ اور کیسا لگ رہا ہوں میں؟“ اس نے ہنستے ہوۓ ٹاٸ کی ناٹ ٹھیک کرتے ہوۓ پوچھا جس کے جواب میں اس نے چاہا کہ کہہ دے وہ سب سے وجیہہ اور بے مثال لگ رہا ہے، لیکن وہ کہہ نہ سکی۔
”اچھے لگ رہے ہو۔“ اس نے مختصر کہتے ہوۓ سامنے رکھے اپنے موباٸل کی اسکرین پر انگلی پھیرنا شروع کردی
”صرف اچّھا؟“ اس نے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا مسکراتے ہوۓ اس کے ڈمپل واضح ہوۓ تھے، زَہرہ نے اسے دیکھا ابھی وہ کچھ کہتی کہ اس سے پہلے ابراہیم بول اُٹھا
”ان صاحب کو کوٸ ایسا چاہیے جو ہر وقت اِسے سراہتا رہے“ ابراہیم نے بےزاری والے انداز میں کہا تو وہ کُھل کر ہنس دیا۔
”اچھا ابرہیم تم جیلس نہیں ہو، مجھے معلوم ہے  اچھا لگ رہا ہوں اور بہت ہینڈسم بھی، ہیں ناں زوہی؟“ اس نے عابی کو چڑانے
والے انداز میں کہا اور آخری جملہ کہتے ہوۓ اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کا جواب لینا ضروری سمجھا، حذیفہ ان دونوں کی باتوں پر بیٹھا ہنس رہا تھا اب وہ تینوں زوہی کے جواب کے منتظر تھے۔
وہ گڑبڑاگٸ اُسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے؟ وہ زکریا کی ساٸیڈ لے؟اور ابراہی اتنی جلدی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہے! اس کا دل چاہا ابراہیم کو گلاس اٹھا کر دے مارے اسی کی وجہ سے اسے جواب دینا تھا کتنا اچھا ہوتا کہ اگر وہ بیچ میں نہ کہتا اور بات وہیں ختم ہوجاتی۔
”ہاں ٹھیک کہا۔“ زَہرہ نے جبراً مسکرا کر ہار مانتے ہوۓ کہہ ہی دیا،مزید خطرے کی گھنٹیاں اسے اپنے گلے میں نہیں باندھنی ۔زکریا اُس کی بات پر بھرپور مسکرایا جبکہ ابراہیم نے تھوڑا خفگی اور حذیفہ نے کچھ حیرت سے اُسے دیکھا اور پھر کچھ دیر بعد وہ چاروں ہنس دیے۔
تھوڑی دیر بعد صالحہ اور مِناہل آتی دکھاٸ دیں، وہ بس خاموشی سے دیکھتی رہی۔ مناہل نے گھیر والی میکسی پہنی تھی اور مشرقی لباس کم پہننے کی وجہ سے اس سے چلنے میں مسٸلہ ہورہا تھا کہ زکریا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بیٹھایا۔ ضبط کی انتہا ہورہی تھی کو اب دوبارہ زکریا نے اُسے پکارا۔
”زوہی، ہم دونوں کی ایک کپل فوٹو کھینچ دو پلیز“ اس نے اپنا موباٸل زَہرہ کو تھماتے ہوۓ کہا اس نے بنا کچھ کہے جھوٹی مسکراہٹ سے موباٸل لے لیا، زَہرہ کی گرفت موباٸل پر مضبوط ہوگٸ جب اُس نے دیکھا کہ مناہل نے زکریا کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور یہ پہلا آنسو تھا جو اس کی آنکھ سے گرا تھا اور پھر دوسرا آنسو بھی موباٸل کی اسکرین پر گرا، اس سے پہلے کہ تیسرا آنسو گرتا اور پھر وہ ضبط کھودیتی اس نے تصویر کھینچی دونوں مسکراتے ہوۓ ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تصویر کھینچ کر اس نے موباٸل فوراً زکریا کو دیا اور پھر خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔اب اسے گھر جانا تھا رات ہونے کے ساتھ ساتھ بخار کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا۔موباٸل پکڑتے ہوۓ زکریا کو اسکرین پر نمی محسوس ہوٸ،لمحے بھر کے لیے اُسے لگا کہ زوہی روٸ ہے اور اسی خیال کی تحت اس نے زوہی کو دیکھا۔ وہ چہرہ جھکاۓ  بےآواز آنسو بہارہی تھی اور ہاتھ میں پکڑے ٹشو پیپر سے باربار آنکھوں کی نمی کو صاف کررہی تھی۔ سب لوگ اپنی اپنی باتوں میں مگن تھے اور اگر کوٸ زیادہ غور کرتا اُسےتب ہی معلوم ہوتا کو زوہی بغیر آواز آنسو بہارہی ہے۔وہ ٹھٹھک گیا،ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ بلکل ٹھیک تھی تو پھر اب؟ وہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن ابھی وہ کچھ کہتا کہ زوہی کی نظر اس پر ہی تھی اور تب اس نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں بہت نمی تھی۔وہ سب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے پوچھ نہ سکا اور خاموشی سے کھانا کھاتا رہا۔وہ سب کا بہت خیال رکھتا تھا اور ھل مل کے رہتا تھا لیکن ابھی اسے زوہی کے آنسوٶں سے تکلیف ہوٸ تھی اور ابھی ناجانے اُس نے کتنی تکلیفیں سہنی تھیں۔۔۔

 "امید"    Where stories live. Discover now