زکریا کے دو دوست ابراہیم احمد اور حذیفہ نعمان تھے۔ابراہیم اسکے چاچو کا بیٹا تھا۔معیز اور احمد صاحب کمپنی کے دو اونرز تھے۔ابراہیم اور زکریا تو بچپن ہی سے ساتھ ساتھ رہے تھے جبکہ حذیفہ سے ان دونوں کی دوستی کالج میں ہوٸی تھی۔
تینوں کی یونیورسٹی کا لاسٹ اٸیر تھا اور اُس کے بعد تینوں دوستوں کے لیے خوشی کا موقع تھا۔ لاسٹ اٸیر کا فرسٹ سیمسٹر مکمل ہوچکا تھا۔سیکنڈ سیمیسٹر چل رہا تھا۔زکریا اور ابراہیم کو حذیفہ کی منگنی کی تیاریاں کرنی تھیں
---------------------------
وہ کچن کی خادمہ کو صفاٸی کے بابت آگاہی دے رہی تھیں۔
"ہمیں بھی کچھ حکم دے دیں،ہم بھی آپ کی حکمرانی میں ہیں۔"
دھیما لہجہ اور نرم آواز سنتے ہی مومنہ صاحبہ پلٹیں۔ اور معیز صاحب کرسی سنبھال کربیٹھ گۓ تو مومنہ صاحبہ نے بہنویں اُچکا کر معیز صاحب کو دیکھا۔
" کیا بات ہے آج تو بڑے خوش لگ رہے ہیں۔"
مومنہ نے پوچھا تو معیز صاحب نے کہا
”جس کی بیوی اتنی اچھی ہو بھلا وہ مُسکرانے کی کوٸ اور وجہ ڈھونڈ سکتا ہے۔“
معیز صاحب کی بات پر مومنہ صاحبہ مُسکرادیں۔اور وہ دونوں ناشتے کے لیے ڈاٸننگ ٹیبل پر بیٹھ گۓ۔ تھوڑی دیر بعد زکریا اور ابراہیم بھی سیڑھیاں اُترتے ہوۓ نیچے آگۓ۔
"اسّلام علیکم بابا۔"زکریا نے سلام کیا
”سلام بڑے بابا۔“ ابراہیم بھی سلام کرکے ناشتے کے لیے ٹیبل پر بیٹھا۔
"وعلیکم اسّلام۔بڑی جلدی اٹھ گۓ ابراہیم؟“ وہ حیرت سے پوچھ رہے تھے۔
”یہ اِس نے جگایا ہے۔سکون نہیں ہے اسے بڑے بابا۔“ ابراہیم کو پھر صبح جلدی جاگ جانے کا دکھ تازہ ہوا تھا۔
”یہ تو شیف بن رہا ہے۔۔۔تم بھی کچھ سیکھ اس سے۔۔۔کیسے نمک کے بغیر کھانا بناتے ہیں۔“ زکریا جو کان لگاۓ اپنے لیے چند تعریفی لفظوں کا منتظر تھا۔اچانک بات پلٹنے پر بابا کو دیکھا۔
”بابا!“ وہ جیسے تنگ ہوا تھا۔
باقی سب اسکے کہنے پر ہنس دیے تھے۔
----------------------
"کیا ہوا تجھے حذیفہ؟ کیوں نہیں آرہا؟ میں ناراض ہوجاٶں گا تجھ سے۔“ اسے غصہ آنے لگا تھا۔
وہ بالکونی میں چیٸر پہ بیٹھا، پیر پھیلاۓ، لیپ ٹاپ سامنے رکھے ہوۓ ویڈیو کال پہ حذیفہ سے بات کررہا تھا ابراہیم یہاں وہاں ٹہلتے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔اور تینوں نے پلان بنایا تھا کہ سَنڈے کو ڈنر ساتھ کریں گے۔ اور اب حذیفہ انکار کررہا تھا۔
”یار۔۔۔۔صالحہ کو شاپنگ پہ جانا ہے میں نے منع کیا تھا میں لے کر نہیں جاٶں گا اس نے بابا سے شکایت لگادی۔“ حذیفہ اپنا دکھ سنا رہا تھا۔زکریا کو ہنسی آگٸ۔
”تو وہ کسی دوست کے ساتھ چلی جاۓ گی یا آنٹی کے ساتھ۔“ زکریا نے حل پیش کیا۔
”جیسے میں نے کہا نہ ہو۔میرا والیٹ ہلکا کروانا ہے اس نے۔“ حذیفہ نے دہاٸ دی۔
”بھاٸ شام میں تیار رہنا اور۔۔۔۔۔۔“ کسی کی تیز آواز آٸی تھی۔ حذیفہ پیچھے مڑا۔
”صالحہ۔۔۔“زکریا نے اسے پکارا۔
”ہاں۔۔۔اوہ اسلام و علیکم۔“ وہ جیسے لیپ ٹاپ کی اسکرین کے سامنے آٸی تھی۔سر پر دوپٹہ بھی پہنا تھا۔
”وعلیکم اسلام۔۔۔تم آنٹی یا کسی دوست کے ساتھ چلی جاٶ۔ہمیں ڈنر پہ جانا ہے۔“ زکریا نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
”نہیں!“ اس نے دوٹوک کہا۔زکریا اور ابراہیم کو حیرت ہوٸی پھر اچانک ہنس دیے۔
”دیکھو یار بہن ہو ناں ہماری۔پلیز اسے آنے دو۔۔تم پھر کبھی چلے جانا“ابراہیم نے کہا تھا۔
”اممم اچھا۔۔۔ٹھیک ہے جاٶ بھٸ میری بلا سے۔۔۔میوں بعد میں چلی جاٶں گی۔“وہ تینوں کودفعہ کرتی چلی گٸ۔تینوں مسکرادیے۔
”الگ ہی دوستی ہے تم دونوں بہن بھاٸ کی۔۔“ابراہیم نے کہا جبکہ حذیفہ اور زکریا ہنس دیے۔
"تم دونوں شام میں مجھے پِک کرلینا۔اور ٹاٸم یاد رکھنا شارپ 9 اوکے؟"
وہ موباٸل کی اسکرین پر کچھ ٹاٸپ کرتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ پھر ابراہیم حذیفہ سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔جبکہ زکریا موباٸل پو مصروف ہوچکا تھا۔
*********
”اسلام علیکم امّی۔ بابا جان کی طبیعت کیسی ہے اب؟ آپ نے جو دواٸ منگواٸ تھی۔وہ میں لے آٸی، یہ لیں“
اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر بیگ آگے بڑھایا جسے انھوں نے تھام لیا
”جی آپ کے بابا جانی کی طبیعت اب بہتر ہے دواٸی لینگے تو ان شاء اللہ جَلد ہی ٹھیک ہوجاٸیں گے۔“ انھوں نے اسے تسلی دی۔
”اب آپ اپنے کمرے میں جاٶ اور فریش ہوجاٶ، میں کھانا لگوادیتی ہوں سکینہ آپا سے کہہ کر---“
”بیٹا“ ابھی وہ مڑ کر جانے ہی لگی تھی کہ حنا بیگم نے آواز لگاٸی۔
"جی امّی جان؟" وہ تھکے تھکے قدموں سے پلٹی
”انزلنا اور ثاقب کو بھی کھانے کا کہہ دینا۔ انزلنا تو تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی اور ثاقب کالج سے آکر سوگیا تھا۔"
"اوکے امّی۔ میں اُٹھا دیتی ہوں ثاقب کو"
حنا بیگم ہدایت دیتے ہوۓ کچن کی جانب بڑھ گٸیں اور اُس نے تھکے ہوۓ لہجے میں جواب دیتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے۔
کمرے کا دروازہ کھلتے ہی اُس نے اے-سی آن کیا اور اب خود آٸینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگٸی اور اپنا جاٸزہ لینے لگی۔ گرے رنگ کے اسکارف کے ساتھ نقاب کیے ہوۓ، ابایا پہنے دبلی پتلی نازک سی دِکھنے والی زہرہ خان تھی۔ اب اس نے نقاب اُتارا تو آنکھوں کے نیچے نیند نہ پوری ہونے کی وجہ سے حلقے بن چکے تھے۔ آج اُس کی مغرب کی نماز قضا ہوگٸی تھی۔ اس لیے ابایا اُتارنے کے بعد وہ فوراً وُضو کرنے چلی گٸی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ باہر آٸی تو گرے کلر کی کُرتی اور پاجامہ پہن رکھا تھا۔ اب بال باندھتے ہوۓ اس کی نظر سامنے آٸینے پر پڑی تو دیکھا آج گرے کلر اُس پہ اچھا لگ رہا تھا۔ گندمی رنگ اور خوبصورت ایلمنڈ براٶن آنکھیں جو اَب نیند کے باعث ہلکی ہلکی لال ہونے لگی تھیں اور شاید بہت رونے کے سبب بھی۔۔۔
نماز ادا کرنے کے بعد اب وہ جاۓ نماز پہ بیٹھی دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھاۓ ہوۓ تھی۔ اور آج اُس نے دعا ایک الگ انداز سے شروع کی تھی۔
"اے اللہ ! میری مدد کر۔ میرے بابا جانی جلد از جلد ٹھیک ہوجاٸیں (آمین)۔ میں ابھی آپ سے کسی چیز کے لیے ضِد نہیں کرتی، بس آپ میرے بابا کو صحت یابی عطا کردیں (آمین)۔ "
اب اُس کی آواز لڑکھڑانے لگی تھی۔ آنسو ٹِپ ٹِپ کر کے اس کی آنکھوں سے ہتھیلیوں پر گر رہے تھے۔ ہر دعا میں آمین کہتے ہوۓ وہ اللہ کو محبت سے پکار رہی تھی۔ اب وہ جاۓ نماز رکھ کر آنسو صاف کرتے ہوۓ اُٹھ گٸی۔ 7 بج چکے تھے اور اس نے دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آنکھیں بھی اُس کو نیند کے سبب دُہاٸی دے رہی تھیں۔ اب وہ اپنے کمرے سے باہر آکر انزلنا کے کمرے کی طرف چل دی۔
--------------------------
مزمل صاحب کا شمار شہر کے ایک بہت بہترین بزنس مین میں ہوتا تھا۔ لیکن پچھلے دو ہفتوں میں ان کے کاروبار کو بہت نقصان پہنچا، دو ہفتے پہلے مزمل صاحب کا کار ایکسیڈینٹ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ان کا سیدھا پیر فریکچر ہوا تھا۔انکے ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ شیٸرز بھی تھے لیکن اسلامآباد میں وہ آفس تھا لیکن انکے دوست سید احمد نے سب کچھ باآسانی ہینڈل کرلیا تھا اور مزمل صاحب کو بہت تسلی دی تھی۔ اور اب وہ کافی بہتر ہوچکے تھے لیکن مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں ابھی دو ہفتے باقی تھے۔ ڈاکٹرز نے انھیں مکمل بیڈ ریسٹ کرنے کے کہا تو۔حنا صاحبہ نے ان کا مکمل طریقے سے خیال رکھا۔ ایکسیڈینٹ ہونے کے بعد مزمل صاحب پورے ایک ہفتے آفس نہیں جا سکے جس کی وجہ سے اُن کی کمپنی کا بہت نقصان ہوا۔ لیکن ایک ہفتے بعد زَہرہ نے ہمت کی اور بابا جانی کا مضبوط کندھا بننے کا خیال امّی اور بابا جان کے سامنے رکھا۔
”بابا جان اگر آپ اجازت دیں تو میں کل سے آفس چلی جاٶں؟ جب تک آپ مکمل صحت یاب نہیں ہوجاتے۔ اور ویسے بھی کمپنی کا زیادہ نقصان ہونے سے بہتر ہے کہ آپ کچھ دن کے لیے کام میرے ہینڈ-اوور کردیں۔ میں پوری کوشش کرونگی آپ کو پریشانی کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔“
مزمل صاحب نے جب بیٹی کے منہ سے یہ بات سُنی تو آنکھیں آنسُوٶں سے جھلملا گٸیں کہ ان کی بیٹی ان کی خاطر کیا کیا کر سکتی ہے لیکن، معاشرے کے حالات کو مّدِنظر رکھتے ہوۓ وہ خاموش رہے لیکن حنا بیگم کے حوصلہ دینے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے کے بارے میں کہہ کر انھوں نے مزمل صاحب کو مطمٸن کیا اور پھر دونوں نے ہی زہرہ کو اجازت دے دی اور اب زَہرہ خان کو آفس میں کام کرتے ہوۓ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔اسے آفس کے بارے اتنا کچھ نہیں پتا تھا۔لیکن کال پہ بابا سے بہت ساری باتوں اور کاموں کے متعلق پوچھ لیتی تھی۔
آج چونکہ اتوار تھا تو وہ اپنی دوست کے گھر نوٹس لینے چلی گٸی اور پورے دن دونوں بیٹھ کر اساٸنمنٹ تیار کر رہی تھیں کھانا کھانے کا خیال ہی نہیں رہا اور جب عصر کی آذان کی آواز سنی تو زَہرہ گھر کے لیے نکلی۔صالحہ کے مسلسل روکنے کے باوجود وہ یہ کہہ کر نکل آٸی کہہ ”بابا جان کی دواٸی لے کر جاٶنگی اور امّی بھی پریشان ہو رہی ہوں گی۔“
****************