"ارے زوہی۔ تم یہاں!" ابراہیم اسے وہاں دیکھ کر حیران ہوا
"ابراہیم۔ اس کا نام زَہرہ ہے، زوہی نِک نیم ہے۔"صالحہ نے اسے آگاہ کیا۔
"اچھا۔تمہیں سال بعد دیکھا ہے" اس نے تشویش سے کہا تو وہ دونوں ہنس دیں۔
"نہیں۔ میں تو آتی جاتی رہتی ہوں۔ تم نے شاید آج دیکھا ہے۔"
"اچھا"
"تم اتنی صبح، فجر کے وقت یہاں؟"صالحہ نے سوال کیے۔
"ہاں یار۔ وہ بس زکی کو رات میں بہت تیز بخار ہوگیا تھا پھر اسے ہسپتال لے کر گیا دواٸی لے کر آۓ۔ بخار جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا پھر میں نے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں، اور جب بخار تھوڑا کم ہوا تو ہم یہاں آگۓ، ورنہ حوذی ناراض ہوجاتا۔ بڑی ماما کو بھی نہیں بتایا ورنہ انکی بھی نیند خراب ہوتی۔" اس نے تفصیل سے پوری بات بتاٸی۔
"اوہ اچھا۔ اب کیسی طبیعت ہے زکی کی؟" صالحہ نے ایک نظر زَہرہ کو دیکھ کر اس سے سوال کیا۔
" اب بہتر ہے۔ اچھا پلیز ایک کپ Coffee بنادو۔" اس نے دواٸ کے یاد آنے پر کہا
"لیکن زکی coffee تو نہیں پیتا، اس نے خود بتایا تھا۔" صالحہ نے کنفیوژ ہوتے ہوۓ کہا۔
"ہاں۔ لیکن اب بہت شوق سے پیتا ہے coffee۔" ابراہیم نے مسکراتے ہوۓ زَہرہ کو دیکھ کر کہا۔ وہ خاموشی سے کوفی بنانے لگی۔
تھوڑی دیر بعد وہ کوفی لے کر شکریہ ادا کرتا ہوا چلاگیا۔
زَہرہ اپنی جگہ خاموش خاموش سی کھڑی تھی۔
"زوہی۔" صالحہ اس کے برابر میں کھڑی ہوگٸ۔
"ہممم بولو۔"
"تم جاکر اُسے سب کچھ بتا کیوں نہیں دیتیں۔اور اس میں تمہاری بھی بھلاٸی ہے"
"صالحہ پلیز۔ کیا تم نے سنا نہیں؟ طبیعت خراب ہے اس کی، ہسپتال سے آیا ہے وہ۔۔۔" کہتے ہوۓ آواز بھر آٸی تھی۔
"اور میں خودغرض نہیں ہوں۔"اس نے صاف گوٸ سے کہا تو صالحہ لمحے بھر کی لیے اسے دیکھتی رہی۔
"لیکن محبت خودغرض ہوتی ہے۔ اس انسان کا ساتھ ہمیں کسی اور کے ساتھ برداشت نہیں ہوتا زوہی۔۔۔" اس نے سمجھانا چاہا،وہ جانتی تھی کہ زَہرہ مزمل کے پاس ہزاروں دلیلیں موجود ہیں۔
"محبت خودغرض نہیں ہوتی۔ اور جہاں خودغرضی ہو وہاں محبت نہیں ہوتی۔" اس نے خالی خالی نظروں سے صالحہ کو دیکھ کر کہا۔
"زوہی مجھے تکلیف ہوتی ہے تمہیں ایسے دیکھ کر۔"صالحہ نے ہمدردی سے کہا صالحہ کی آنکھیں نم ہوگٸ تھیں۔
"لیکن مجھے تکلیف نہیں ہوتی اُسے کسی اور کے ساتھ دیکھ کر۔" اس نے سپاٹ لہجے میں کہا، صالحہ کو غصہ آنے لگا
"زوہی جھوٹ نہیں بولو۔کم از کم مجھ سے"
"تو پھر میں سچ بھی نہیں کہوں گی۔" صالحہ کو اس کی بات سن کر غصہ آرہا تھا، شاید غم سے بھرا غصہ۔۔۔زَہرہ کچن سے باہر جانے لگی۔ فجر کا وقت تھا نماز پڑھنی تھی،کہ صالحہ کی آواز کانوں سے ٹکراٸی۔
"کیا تمہیں کبھی محبت ہوٸی تھی زَہرہ مزمل؟" صالحہ نے آنسو صاف کرتے ہوۓ طنز کیا تھا،وہ ایسا لہجہ رکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن شاید ضروری بھی تھا۔
"ہاں۔۔۔۔شاید۔۔۔۔۔!" اس نے آنسو پونچھتے ہوۓ پلٹ کر جواب دیا۔
"خودکو اذیت مت دو زوہی۔" وہ اس کے پاس کھڑی ہوگٸ۔دونوں کچن کے داخلی حصے میں موجود تھیں۔
وہ چلی گٸ جب کہ صالحہ وہیں کھڑی خاموشی سے روتی رہی۔
آج اللہ سے ڈھیروں باتیں کرنی تھیں۔ بے حساب باتیں! یہ صرف آج کی انوکھی بات نہیں تھی۔ پانچ نمازوں کے علاوہ بھی اس کا دل اللہ سے ہی امید رکھتا تھا۔ اللہ ہی تو ہے جو دیتا ہے خوشیاں،محبتیں،آسانیاں ،آساٸشیں اور تکلیف میں سب سے زیادہ ساتھ بھی اللہ ہی دیتا ہے!
----------------------
فجر کی نماز ادا کرکے وہ جاۓ نماز پہ بیٹھی دعا مانگ رہی تھی کہ بہت سی باتیں یاد آنے لگیں،آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں جاری ہونے لگیں دعا انداز الگ تھا۔۔۔
وہ بہت خاموشی سے ہچکیوں کو چھپاتے ہوۓ اللہ کی حضور سب کچھ مانگ لیا کرتی تھی، وہ سب کچھ جانتا تھا۔ اور وہ (اللہ) عطا بھی کردیتا تھا۔
ربّ سلامت رکھے ہمیشہ مسکراہٹ اس کی
نہ بھٹکے کوٸ دکھ یا غم اس کے قریب
وہ چاہے جسے وہ مل جاۓ اُسے
نہ ہو کبھی نمی آنکھوں میں اس کی
نہ ہو کوٸ گلہ شکوہ اُسے مقدر سے
بن مانگے ڈال دی جاٸیں جھولی میں خوشیاں اس کی
رہے ہر تکلیف سے وہ دُور ہمیشہ
زندگی رہے ہمیشہ بہار جیسی اُس کی۔
ربّ سلامت رکھے ہمیشہ مسکراہٹ اس کی
-ایمن