ّ"بھابھی جلدی آجاٸیں،آپکے میکے والے آپکو یاد کررہے ہیں۔" صالحہ نے تیز آواز میں ہانک لگاٸ تو سارہ جو حذیفہ کو آفس کے لیے خداحافظ کرنے بیرونی دروازے کی جانب کھڑی تھی مسکرادی۔جبکہ حذیفہ نے اپنی شریف صورت بہن کو گھورا۔
"جب تک تم بات کرلو،مجھے اپنی بیوی سے بات کرنےدو۔ پورا دن اتنی محنت کرتا ہوں اور صبح صبح تم نے کچہری لگالی ہے۔" حذیفہ نے ناک سکوڑتے ہوۓ کہا تو سب ہنس دیے۔
"خیال رکھنا اپنا۔" حذیفہ نے سارہ کو خود سے لگاتے ہوۓ ماتھے پہ بوسے دے کر کہا تو وہ جھینپ گٸ
"حذیفہ۔۔۔" سارہ نے اسے گھورا
"جی زوجہصاحبہ کہیے۔" حذیفہ نےاسے مزیر خود سے قریب کرتے ہوۓ کہا تو وہ اسکی ڈھٹاٸ پہ سر پیٹتی رہ گٸ وہ ہنس دیا۔پھر حذیفہ اور نعمان صاحب آفس کے لیے نکل گۓ اور وہ اپنے کام سمیٹ کر صالحہ کے برابر میں صوفے پر دھپ سے بیٹھ گٸ۔
"ہیلو ماۓ چڑیلز کیسی ہو دونوں؟" صالحہ نے کہا تو وہ تینوں ہنس دیں۔
صالحہ نے کچھ دیر بعد خود ویڈیو کال کی تھی۔اتنا ٹاٸم ہوچکا تھا ان سب نے تسلی سے بات نہیں کی تھی،جب کبھی فون آتا تو خیر خیرت کے علاوہ اور کوٸ بات نہیں ہوپاتی۔
"بالکل فٹ، اور تم دونوں کیسی ہو۔۔۔آپی آپکی یاد آرہی ہے یار۔" عنزہ نے بھی جوش سے کہا پھر سارہ کو دیکھ کر اداسی سے کہا
"تو تم دونوں آجاٶ ناں ویسے بھی انابیہ بھی یونی سے فارغ ہوچکی ہے اب آسانی سے آسکتی ہو۔بابا کو بولو یا پر یوسف سے کہہ دو وہ فلاٸٹ بک کروادے۔" سارہ خوشی خوشی حل پیش کرنے لگی۔
"یار آپی بابا بزی ہیں بہت اور یوسف بھاٸ سنتے ہی کب ہیں۔بول بول کہ تھک گۓ۔"
"ہاں تمہارے بھاٸ پر گوروں قا رنگ چڑھ گیا ہے۔ہم لوگ کیوں یاد آٸیں گے اسے! دل تو اسکا وہاں لگا ہوا ہے۔" صالحہ نے غصے کو آخری حد تک قابو کرتے ہوۓ کہا تو وہ تینوں ہی اسے دیکھ کر مسکرادیں۔
"صالحہ تمہاری لڑاٸ ہوٸ ہے کیا بھاٸ سے؟" عنزہ نے مسکراہٹ چھپاتے پوچھا۔
"ان دونوں کی صلح ہوتی ہی کب ہے۔" انابیہ ن کہا تو عنزہ اور سارہ ہنس دیں۔
"ہونہہ، تمہارے بھاٸ کی حرکتیں ہی لڑاٸ والی ہوتی ہیں۔" صالحہ نے لاپرواہ انداز میں کہا۔تو وہ تینوں ہنسنے لگیں۔پھر وہ ان دونوں سے ایکسکیوز کرتی اٹھ گٸ، زَہرہ کی کال آرہی تھی تو اس سے بات کرنے لگی، کافی دیر بعد بات کرنے کے بعد اس نے دیکھا تو سارہ کلثوم کی سب سے بات کرواچکی تھی اور خود بھی گفتگو کے آخری مرحلے پہ تھی تو صالحہ بات کرکے لاٶنج میں وہیں رکھے صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گٸ، سارہ اسے لیپ ٹاپ تھما کر تھوڑی دیر آرام کرنے اپنے کمرے میں چلی گٸ۔اس نے بے دھیانی میں لیپٹاپ پکڑا اور جیسے ہی اسکرین پہ مسکراتے ہوۓ چہرے پر نظر پڑی،وہ جل بھن گٸ۔
"اسلام و علیکم۔۔۔کیسی ہو میری پیاری۔۔۔سوٸیٹ کزن؟" یوسف نے بھی مکھن لگانےمیں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ ہنستے ہوۓ کہنے لگا۔
"وعلیکم اسلام۔" صالحہ روکھا پھیکا جواب دے کر خاموش ہوگٸ
"کیا ہوا موڈ آف کیوں ہے؟" یوسف نے دوبارہ اسے جلانے کے لیے ہنستے ہوۓ پوچھا۔
"ہاں تو؟ آپکی طرح بتیسی نکال کر بات کروں۔" صالحہ نے ٹکا سا جواب دیا۔یوسف نے پہلے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر قہقہہ بلند ہوا۔
"ہاں تو اور کیا! زندگی کا کیا پتہ کل کو تمہارے پاس ہنسنے کے لیے دانت ہی نہ بچیں۔
ویسے بھی اتنی سڑی ہوٸ رہتی ہو۔" لاپرواہ لہجےمیں کہتے ہوۓ وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور جوابی کارواٸ کا انتتظار کرنے لگا،اور وہ اسکرین کو خاموشی سے دیکھنے لگی۔
"میں ہوں ہی ایسی۔ تمہیں سڑی ہوٸ لگتی ہوں تو میں خود کو بدل نہیں سکتی۔
اور ویسے بھی جب سامنے والے کو آپکی اچھاٸیوں سے چاہتوں سے فرق نہ پڑے تو کوشش کرنا بےکار ہے۔" اس نے بھی لاپرواہ لہجے میں اسے طنز کیا تو وہ کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
"اللہ! کیسی باتیں کررہی ہو صالحہ سر پہ سے گزر رہی ہیں" یوسف نے جان بوجھ کر ناسمجھ آنے والے انداز میں کہا تو غصے صالحہ کی ناک پہ بیٹھ گیا۔اس نے غم و غصے کے ملے جلے تاثرات سے یوسف کو دیکھا۔
"ہاں میری باتیں سر پہ سے ہی گزریں گی تمہارے۔ دفعہ ہوجاٶ تم۔ جاٶ اس سفید چھپکلی کے پاس تم بدتمیز۔۔۔" غصے سے کہتے ہوۓ اس نے کال ڈسکننکٹ کردی لیکن یوسف کا فلک شگاف قہقہہ ضرور سنا تھا اور دل ہی دل میں خوب صلواتیں بھی سناٸیں۔
ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک اور ویڈیو کال آنے لگی،نام دیکھتے ہی اسکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی۔
"زہے نصیب! آج پاکستان والوں کو ہماری ۶اد کیسے آگٸ" یوسف نے شوخ لہجے میں کہا
"ہاں جیسے خود تو روز کالز کرتا ہے بےوفا انسان۔"اس نے چڑ کر کہا تو یوسف ہنسا۔
"اچھا یار دیکھ اب لڑ نہیں ویسے ہی ہفتوں بعد بات ہورہی ہے اور تجھے ابھی بھی لڑنا ہے!۔" یوسف نے اپنا دفاع کرتے ہوۓ کہا۔
"اچھا جا معاف کیا کیا یاد کرے گا اذان وقاص کی دوستی بھی نصیب والں کو ملتی ہے۔" اذان نے بھرپور اداکاری کی تو یوسف نے منہ بسورا۔
"ہاں بڑا آیا! کتنے میسجز کالز کیے لیکن محترم اپنے ہمسفر کو ڈھونڈنے جو نکلے تھے تو میری یاد کیسے آجاتی؟ ہونہہ" یوسف نے کہا تو اذان مسکرادیا۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے،کینیڈا میں ایک واحد دوست تم ہی تھے تمہیں کیسے بھول جاتا۔ اور ویسے اتنا کھکھلا رہے ہو، دوبارہ جھگڑا کیا ہےکیا؟ یوسف تجھے کسی حال میں سکون نہیں ہے"
اذان نے خوش لہجے میں کہتے ہوۓ پھر بےزاریت سے کہا تو یوسف ہنس دیا۔
"سخت ناراض ہے یار وہ۔اس دن تو نے بھی تو کال پہ جس طریقے سے بات کی تھی ناں،اس نے کال سے دور میری باتوں سے یہ اخذ کرلیا کہ میں کسی میں انٹرسٹڈ ہوں، اور تیری آواز خراب تھی ایسا لگ رہا تھا وافعی کسی لڑکی کی آواز ہے۔" یوسف نے بتایا اور پھر زچ کرتے ہوۓ اس دن والی بات یاد دلاٸ تو اذان نے منہ بسورا اور کچھ دیر بعد دونوں ہی ہنس دیے۔
"چل کوٸ بات نہیں! ہم بھی کچھ کم نہیں۔ سرپراٸز دیں گے۔تو بس جلدی سے پاکستان آجا بھاٸ بہت مس کررہا ہوں تجھے۔"اذان خوشی سے بات کرتے کرتے اداس ہوا، زکریا کے رویے سے اسکا دل بہت دکھا تھا۔
"ہاں انشا۶اللہ جلد ہی آرہا ہوں اور۔۔۔۔۔زکی سے ملاقات ہوگٸ تھی؟ گھر مل گیا تھا آسانی
سے تجھے؟ میں نے اسامہ کو اچھی طرح ایڈریس سمجھا دیا تھا۔" یوسف یاد آنے پر پوچھنے لگا۔
"ہاں یار۔۔۔بہت کچھ بدل گیا ہے! تو آجا یہاں پھر بات کریں گے۔" اذان نے ایک لمبی
سانس خارج کرتے ہوۓ کہا۔ وہ اپنی دوستی کو اس طرح داٶ پہ لگنے نہیں دینا چاہتا تھا اسے زکریا یاد آرہا تھا۔
"کیوں کیا ہوا؟ بتا جلدی سے مجھے۔" یوسف نے حیران ہوکر پوچھا۔
"نہیں رہنے تو آ جا ناں! پھر بات کریں گے۔" اذان نے گزارش والے لہجے میں کہا۔
"اذان منہ توڑ دوں گا میں تیرا ۔زیادہ اداس ہونے کی ضرورت نہیں ہے تجھے۔ بتا اب شرافت سے کیا بات ہوٸ ہے۔ ورنہ میں بات نہیں کروں گا۔" یوسف نے اسے دھمکی دی تو وہ مسکرادیا۔پھر اسنے ساری تفصیل بتاٸ سواۓ زَہرہ کے متعلق باتوں کہ۔ اذان نے اسے پاکستان آنےسے پہلے بتایا تھا وہ کسی کو چاہتا ہے اور یوسف کے ہزار بار پوچھنے پر بھی وہ نہیں مانا تھا اور نام نہیں بتایا تھا۔ابھی بھی وہ چاہتا تھا کہ پہلے یوسف پاکستان آجاۓ پھر اسے زَہرہ کے متعلق بھی بتادے گا۔یہی سوچ کر وہ خاموش ہوگیا۔
"میرے دونوں دوستوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا اس نے۔کچھ سوچنا پڑے گا اب اسکے بارے
میں۔" یوسف نے
پوری بات سن کر کہا تو وہ محض مسکرادیا۔پھر تھوڑی دیر بعد بات کرکے کال منقطع کردی۔
---------------
"امی جان ثاقب کدھر ہے؟" زَہرہ نے کمرےمیں آتے ہی پوچھا۔
"تینوں لڑکے باہر گۓ ہیں سیر سپاٹے کرنے۔" حنا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"اسلام و علیکم بابا جان۔کیسی ہے آپکی طبیعت۔" مزمل صاحب پہ نظر پڑتے ہی وہ بیڈ پر ان سے لگ کر بیٹھ گٸ۔
"وعلیکم اسلام میں بلکل ٹھیک ہوں۔اور میرا بیٹا کیسا ہے؟ ناشتہ کیا آپ نے؟" مزمل صاحب نےاسکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ پوچھا تو وہ مسکرادی پھر سر اثبات میں ہلادیا۔
"زَہرہ،انزلنا کو کہہ دیا تھا؟" حنا بیگم نے پوچھا۔
"جی وہ آتی ہوگی تھوڑی دیر میں۔"
"اور آپکی دادو اٹھ گٸی؟" مزمل صاحب نے پوچھا۔
"جی وہ ناشتہ کرکے آرام کررہی ہیں اپنے کمرے میں۔" زَہرہ نے بتایا،اور انزلنا کمرے
میں داخل ہوٸ تو تینوں نے اسے بغور دیکھا۔
جینز اور ٹی شرٹ کے اوپر اسنے دوپٹے کوشال کی طرح اوڑھا تھا۔وہ مشرق مغرب کا ملاپ سی ہوگٸ تھی، اور اسے دیکھ کر تینوں کا دل چاہا ہنس دیں لیکن ہنسی کو قابو رکھا۔
"اسلام وعلیکم۔ آپ نے بلایا مجھے باباجان؟" اس نے حنا کے برابر والی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
"انزلنا بیٹا۔آپکی امی اور میں کبھی آپکا برا نہیں چاہیں گے۔آپکو ہم پر بھروسہ ہے؟" مزمل صاحب نے کہا، وہ جانتے تھے وہ بات کا آغاز اسطرح سے کریں گے تو وہ انکار نہیں کرسکے گی۔انزلنا نے ناسمجھی سے ان دونوں کو دیکھا۔
"جی بابا جان خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے آپ دونوں پر" اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ دونوں بھی مسکرادیے جبکہ زَہرہ دلچسپی سے اگلی بات کا انتظار کرنے لگی۔انزلنا کا ری ایکشن دیکھنے کے لیے۔
"آپکی امی اور میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔" انھوں نے بتایا
"کیسا فیصلہ؟" اس نے حنا کودیکھ کر پوچھا بابا کے سامنے اسکی زبان کو خود بخود بریک لگ جاتی تھی اور حنا سے بےدھڑک بول دیا کرتی تھی۔
"ہم نے آپکی شادی کا فیصلہ کیا ہے۔میرے ایک خاص دوست کے بیٹے سے! وہ اسلامآباد میں رہتے ہیں۔اور شادی سے آپکی پڑھاٸ پہ کوٸ فرق نہیں پڑے گا۔ان لوگوں کو کوٸ اعتراض نہیں ہے۔ہمیں امید ہے آپکو ہمارا فیصلہ قبول ہوگا بیٹا۔" مزمل صاحب نے اپنی مخصوص دھیمی آوازم میں نرمی سے سمجھا اور وہ ہونقوں کی طرح انکا چہرہ دیکھ رہی تھی جب کو زَہرہ مسکراہٹ دباۓ بیٹھی تھی۔
"لیکن بابا۔۔۔امی۔۔۔یہ یہ سب اتنی جلدی؟" وہ اتنا ہی کہہ سکی۔
"آپکی یونی کا تھرڑ ایٸر اسٹارٹ ہوچکا ہے اور ہم اپنے فرض کی اداٸیگی جلد از جلد چاہتے ہیں۔"مزمل صاحب نے کہا تو وہ چپ ہوگٸ۔ وہ سب کیسے بتاتی؟ مزمل صاحب کے سامنےکہنے کا تو تصور ہی نہیں تھا۔
"لیکن بابا۔۔۔میں۔وہ۔۔۔" وہ کہنا چاہ رہی تھی لیکن لہجے کی نمی سے آواز لڑکھڑاگٸ۔
"کیا تمہیں کوٸ پسند ہے انزو؟" حنا نے پوچھا تو اسے لگا آج ساری توپوں کا رخ اسکی طرف ہے۔اب وہ کیا کہے؟۔
"ن نن نہیں۔۔۔و وہ مگر۔۔۔" وہ کہنے لگی۔
"اگر مگر کچھ نہیں۔بس اب آپکے بابا نے فیصلہ کردیا ہے۔اس مہینے کے آخر میں آپکا نکاح ہے۔اب مزید کوٸ بحث نہیں۔ اب آپ جاسکتی ہو۔"حنا نے کہا تو اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے سر پر بم پھوڑ دیا۔
"جی۔۔۔" وہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب تقریبا بھاگی۔
"اس گڑیا کو سمجھانا اتنا مشکل کام نہیں تھا ویسے۔" مزمل صاحب نے کہا تو وہ دونوں ہنس دیں۔
"بابا اگر آپ اسے نام بتادیتے تو اسے زیادہ خوشی ہوتی۔" زَہرہ نے شرارتی لہجے میں کہا تو وہ دونوں ہنس دیے
"چلو اب آپ جاکے دیکھو اسے۔ اور سمجھا بھی دینا۔"مزمل صاحب نے قہا تو وہ فرمانبرداری سے اٹھ کر انزلنا کے کمرے کی طرف سیڑھیاں چڑھنے لگیں۔
---------------
"یار زوہی مطلب سب کچھ! ایسے کیسے؟! مجھے بتایا بھی نہیں! اور۔۔۔پتا نہیں کون ہے؟ کیسا ہے؟ کس نیچر کا ہے؟ اور تم بھی کچھ نہیں کہا بس گاۓ کی طرح سر ہلا رہی تھیں" کمرے میں یہاں وہاں ٹہلتے ہوۓ وہ جھنجھنلاہٹ سے کہنے لگی تو زَہرہ نے اسکی آخری بات پر منہ بسورا۔
"تو میں کیا کہتی بابا کو؟ یہہی کہ تم ابراہیم کو پسند کرتی ہو؟" زَہرہ نے کہا
"ہاں۔۔۔میرا مطلب کہتیں کہ اتنی جلدی نہیں۔۔۔۔میرے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔" انزلنا نے غصے میں کہا۔
"اب کیا کرسکتے ہیں؟ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔" زَہرہ نے اپرواہ بنتے ہوۓ کہا تو اسے مزید غصہ آیا۔
"کیا مطلب جو ہونا تھا وہ ہوگیا؟ میں پسند کرتی ہوں ابراہیم کو اور۔۔۔" اس نےغصے میں بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ کہا پھر زَہرہ کے دیکھنے پر اسے احساس ہوا کہ کیا کہہ دیا ہے۔
"اچھاااااااا۔" زَہرہ نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔
"ہاں مطلب وہ۔۔۔تھوڑا سا۔۔" انزلنا نے جھینپتے ہوۓ کہا تو زَہرہ مسکرادی۔
"لیکن اب تو کچھ نہیں ہوسکتا تم نے دیر کردی۔"زَہرہ نے ایک دفعہ پھر لاپرواہ انداز سے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گٸ۔ اور انزلنا غصے سے جل بھن کر بیٹھی رہ گٸ۔
---------------
"زَہرہ میری جان! رو نہیں۔سب ٹھیک ہوجاۓ گ انشا۶اللہ ۔کوٸ بات نہیں اگر اسنے ایسا کہہ دیا تو۔ابھی غصہ ہے تم زیادہ ٹینشن نہیں لو۔" پرسوں صبح والے واقعے کو سن کر حنا اسے تسلی دینے لگیں،وہ خود بھی اسکے رویے کو سن کر حیران تھیں۔
"امی جان میں نے کچھ غلط نہیں سوچا تھا پھر بھی یہ رویہ!۔۔۔" وہ حنا کی گود میں سر رکھے کہنے لگی۔
"ایسا ہوجاتا ہے زوہی۔انسان کو جس سے چاہت ہوتی ہے جس پہ بھروسہ ہوتا ہے اسی کے سامنے وہ اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے اسی سے تو ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔اور جب چاہت ہی نہ ہو تو غصے او ناراضگی کے اظہار کا تو کوٸ جواز ہی نہیں بنتا ناں۔" وہ پیار سے اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں۔وہ آنسو پونچھ کے اٹھ کر بیٹھی۔
"اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا(القرآن)۔ تمہیں یاد ہے ناں یہ آیت۔" انھوں نے اس سےکہا تو اس نے جلدی جلدی سر کو اثبات میں ہلایا تو وہ مسکرادیں۔
"مناہل نے تمہیں برا ظاہر کا تو کوٸ بات نہیں۔ اللہ تو تمہاری نیت کو جانتا ہے ناں کیا سوچ کر تم نے ساری باتیں اس سے چھپاٸیں۔ اور اللہ پہ بھروسہ رکھو۔اللہ تعالی حقیقت جلد ہی سامنے لے آۓ گا، تم خود کو یوں ہلکان نہیں کرو۔" وہ اسے دیکھتے ہوۓ کہنے لگیں۔
"جی امی جان۔مجھے بھروسہ ہے اللہ پر انشا۶اللہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔" وہ حنا کے گلے لگتے ہوۓ پرسوچ انداز میں بولی۔
"شاباش، اور زکریا تو ویسے ہی اتنا اچھا بچہ ہے جب سکا غصہ ٹھنڈا ہوجاۓ گا اور دکھ کم ہوگا تو وہ خود تم سے اپنے رویے کی معذرت کرلے گا۔میری بیٹی بہادر ہے ناں۔زندگی میں ایسے بےشمار مواقع آتے ہیں جب انسان کو اپنوں کے رویے لہجے بےتحاشہ تکلیف دیتے ہیں اور تب وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ہم خود کو اللہ سے قریب کرتے ہیں یا پھر اس سے شکوے کرکے غلط فیصلے کرکے اللہ سے دوُری اختیار کرلیتے ہیں! فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔" حنا بیگم نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوۓ کہا تو وہ مسکرادی،امّی جان تو اسکی باتیں بغیر کہے سمجھ جاتی تھیں۔تو وہ تو پھر بھی ربّ ہے!
اور خدا دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے(القرآن)۔
اسے سمجھ آگیا تھا اسے خود کو یوں اداس نہیں کرنا تھا۔کیا ہوا اگر زکریا نے تلخ کلامی سے بات کی تو کوٸ بات نہیں۔
ہمیں اچھاٸیاں بھی تو یاد رکھنے چاہییں، ہمیں جب بھی کوٸ دکھ دے تو ہمیں فوراً اسکی براٸیاں یاد آجاتی ہیں ہم اچھاٸیاں تو بھول ہی جاتے ہیں۔
"اور اللہ سے بڑھ کر ہمارا کوٸ اپنا نہیں ہوتا!۔" زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ کہا تو انھوں نے بھی سر اثبات میں ہلایا۔
"امّی جان۔"
"ہممم بولو"
"آپ میرے لیے بات کرسکتی ہیں۔آپکا جو فیصلہ ہوگا وہ ہی میرا فیصلہ ہوگا۔" اس نے جھجھکتے ہوۓ کہا، یہ فیصلہ بھی اس نے ناجانے کتنی ہمت جمع کرکے کیا تھا۔
"ک کیا و واقعی سچ؟ سچ میں زوہی۔" وہ اسکی بات سنتے ہی خوشی سے چہک اٹھیں۔ اس نے سر کو جنبش دی تو حنا نے اسے گلے لگایا۔
"تم نے مجھے خوش کردیا زَہرہ بیٹا! تم آرام کرو۔" وہ اس سے کہتے ہوۓ وہ چلی گٸیں۔
اسکے لیے اپنی امی جان کی خوشی زیادہ اہم تھی۔اور اب وہ مزید کوٸ بہانہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔اور اسکا رویہ دیکھ کر ہی زَہرہ خاموش ہوگٸ تھی۔
زکریا کی طرف سے اسنے کوٸ امید نہیں باندھی تھی۔وہ جانتی تھی نتیجتاً اسے ہی تکلیف ہوگی۔
"اور یہ فیصلہ کرکے اسے تسلی ہوگٸ تھی۔سب کچھ اللہ پہ چھوڑ دیا تھا۔ظہر کی نماز ادا کرکے قرآن کی تلاوت کرکے وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گٸ،وہ مزید کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی۔اب زَہرہ نے خود کو ہوا کے بہاٶ پہ چھوڑ دیا تھا۔آج آخری دفعہ وہ اسے تفصیل سے سوچ رہی تھی۔آج کے بعد وہ اسے یوں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔اُس نے فیصلہ کرلیا تھا۔
اور جب بھی میں اُسے یاد کروں
تو ربّ سے ڈھیروں دعاٸیں کروں
وہ کامیاب ہو ہر مشکل میں،
ہر امتحان میں، ہر راہ میں،
جس راہ پہ چلے وہ زندگی کی
کانٹے ہٹادیے جاٸیں اُس راہ سے
اگر ہو کوٸی خواہش
تو پوری ہوجاۓ وہ
اگر ہو کوٸی آزماٸش
تو اس میں کامیاب ہوجاۓ وہ
اور جب بھی میں اُسے یاد کروں
تو اُسکی خوشیوں کی،میں دعا کروں۔
(ایمن انیس)
---------------
(تین دن بعد)
"جی کہیں بھابھی کیا بات ہے؟" حنا بیگم نے فون کے دوسری جانب مومنہ صاحبہ کا پریشان لہجہ بھانپتے ہوۓ پوچھا۔ وہ دونوں کچن میں دن کے کھانے کی تیاری کررہی تھیں۔زَہرہ سکینہ آپا کے ساتھ کام نمٹارہی تھی۔
"حنا تمہیں معلوم ہوگا زکریا کا رشتہ ختم ہوگیا ہے۔" وہ جھجھکتے ہوۓ بتانے لگیں۔
"جی مجھے بہت افسوس ہوا لیکن انشا۶اللہ سب بہتر ہوگا۔" وہ تسلی دینے والے انداز میں کہنے لگیں۔
"ہاں انشا۶اللہ۔ میں نے مِناہل کی ماما سے بات کی تھی لیکن وہ ہمشہ کی طرح اکھڑ رویے سے پیش آٸیں۔معیز نے بھی دونوں سے بات کی تو ان لوگوں نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ وہ انکی اکلوتی بیٹی ہے اور اس کا فیصلہ انھیں منظور ہے۔ اور وہ لوگ مزید بحث نہیں کرنا چاہتے۔ اسکے بعد کسی بات کی گنجاٸش نہیں رہی،اور آپکو تو معلوم ہے زکریا کا۔وہ نارمل لاٸف کی طرف آہی نہیں رہا۔ایک ہفتہ ہوچکا ہے اس بات کو۔ابراہیم اور حذیفہ ہی اسے بہلانے میں لگے رہتے ہیں۔بس آپ دعا کریں سب پہلے کی طرح ٹھیک ہوجاۓ۔" وہ تفصیلاً بتانے لگیں۔
"آپکو تو اندازہ ہوگا زندگی میں ایسے بےشمار لوگ آتے ہیں جنہیں صرف اپنی خوشیوں سے مطلب ہوتا ہے۔بہرحال آپ زیادہ سوچیں نہیں۔زکریا ویسے بھی اتنا پیار کرنے والا چاہنے والا ہے۔ابھی یہ سب اسکے لیے مشکل ہے تھوڑا وقت لگے گا لیکن سب انشا۶اللہ ٹھیک ہوجاۓ گا۔" حنا کہنے لگیں۔زَہرہ نے سرسری سی نظر حنا کو دیکھا پھر اپنے کام میں مشغول ہوگٸ۔
"ایک تو تم ہی دوست ہو میری اتنے عرصے سے ڈھیروں باتیں ہیں میرے پاس اور تم سے بات کرنے میں اچھا بھی لگتا ہے اسلیے باآسانی کہہ دیتی ہوں۔" مومنہ نے دوستانہ انداز میں کہا تو حنا ہنسیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے کالج کی دوستیں باتیں کررہی ہوں۔
"حنا، میری معیز سے بات ہوٸ تھی ،آج صبح ہی اسلامآباد گۓ ہیں۔ابھی کچھ دیر پہلےفون آیا تھا۔احمد بھاٸ اور معیز کہہ رہے ہیں کہ نکاح ایک مہینے کے بجاۓ دو ہفتوں بعد رکھ لیتے ہیں۔اس طرح ان بچوں کو بھی تھوڑا اچھا ماحول مل جاۓ گا۔کیاخیال ہے تمہارا؟ مزمل بھاٸ سے پوچھ کر مجھے رات کو ہی جواب دے دینا تاکہ میں اپنی چلبلی سی بہو کے لے تیاریاں کرسکوں۔" مومنہ نے تفصیل سے آگاہ کیا۔
"یہ بھی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ ویسے بھی ابھی یہ مھینہ شروع ہوا ہے۔اسی مہینے کی تیرہ چودہ تاریخ رکھ لیں گے میں ان سے بات کرکے بتاتی ہوں۔ تاکہ میں بھی اپنے داماد کے لیے تیاریاں کرسکوں۔" حنا نے آخری بات مومنہ کے لہجے میں کہی تو وہ ہنس دیں۔پھر توھڑی دیر بات کرنےکے بعد فون بند کیا۔
"امی جان چار بج رہے ہیں۔آپ دیکھ رہی ہیں ٹاٸم دن کا کھانا نہیں اب شام کا کھانا کھاٸیں گے اور یہ ثاقب فون بھی نہیں اٹھا رہا۔" ایک نظر سارے لوازمات دیکھ ک وہ جھنجھنلاتے ہوۓ کہنے لگی۔
"پہنچنے والے ہوں گے بس، ثاقب کا فون آگیا تھا مومنہ سے پہلے۔اور ہاں مومنہ کہہ رہی تھی کہ نکاح ایک مہینے کے بجاۓ دو ہفتے بعد رکھ لیتے ہیں،تم بچوں کو بھی اچھا ماحول مل جاۓ گا۔پتہ نہیں کیا کچھڑی پک رہی ہے تم سب کے درمیان۔" حنا نے تسلی دیتے ہوۓ آخری جملہ ہنستے ہوۓکہا تو وہ مسکرادی۔
"میں فریش ہوکر آتی ہوں۔آپ کھانا لگوادیں اب پلیز۔" وہ کہ کر اپنے کمرے میں چلی گٸ۔
"حنا بیٹی آپکو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔" سکینہ آپا نے آکر بتایا تو وہ انھیں کھانے کا کہہ کر چلی گٸیں۔
---------------
"یار جلدی گھر چلو،ہم کب سے باہر ہیں اور کھانے کا ٹاٸم بھی ہوگیا ہے۔اچھا نہیںلگتا سب ناراض ہوں گے۔" اذان نے موباٸل میں ٹاٸم دیکھا تو کہا۔اسامہ نے بیک ویو مرر سے اسے ذومعنی نظروں سے دیکھا تو اذان کا دل چاہا اسکا سر پھاڑ دے۔
"ہاں یار ثاقب جلدی چلو گھر۔" اسامہ نے اسکی نقل کرتے ہوۓ کہا۔
"ہاں بس یہ گھر والا راستہ ہی ہے۔دس منٹ میں پہنچ جاٸیں گے۔۔۔۔اوہ یار آپی کی بھی کال لگی ہے اب بہت غصہ کریں گی۔" اس نے ڈراٸیو کرتے ہوۓ موباٸل میں ٹاٸم دیکھا تو اچانک نظر پڑی۔
"کیوں بھٸ؟ اور زَہرہ بھی غصہ کرتی ہے کیا؟" اسامہ ہنستے ہوۓ پوچھنے لگا۔
"ہاں! ایسا ویسا غصہ۔ابھی آپ لوگوں نے آپی کا غصہ دیکھا ہی کہاں ہے۔" ثاقب نے کہا تو اسامہ ہنسا۔جبکہ اذان کو اس شام والی کال یاد آگٸ۔ وہ سوچنے لگا۔
"اچھااا" اسامہ نے تیز آواز میں کہا تو اذان نے اسے گھورا۔
"ہاں ابھی کچھ دیر پہلے آپی کی ہی کال آٸ تھی میں نے اٹینڈ نہیں کی۔آپی کو سب سے زیادہ غصہ تب آتا ہے جب کوٸ آپی کے میسج یا کال کا رسپانس نہ کرے۔اب امی جان سے بھی شکایت کریں گی۔" وہ ہنستے ہوۓ بتانے لگا۔تو وہ دونوں بھی ہنس دیے۔
--------------
"جی خالہ اماں؟" وہ بیڈ پر ناصرہ بیگم کے سانے بیٹھیں۔
"مجھے ضروری بات کرنی ہے تم سے۔"
"جی جی آپ کہیں۔"
"انزلنا اور زَہرہ دونوں ہی میری لاڈلی ہیں اور تم تو جانتی ہو کہ زَہرہ بیٹی مجھے کتنی پسند ہے" وہ الفاظوں کو ترتیب دیتے ہوۓ ٹہر ٹہر کر کہنے لگیں۔
"تو حنا۔میں اپنے لاڈلے پوتے اذان کے لیے زَہرہ کو مانگ رہی ہوں۔" ناصرو بیگم نے انھیں کہا تو وہ یک ٹک دیکھتی رہیں۔پھر خوشی کی لہر چہرے پر دوڑی۔
"تم آرام سے سوچ لو، اور مزمل سے بھی بات کرلینا پھر جواب دے دینا مجھے تمہرا ہر فیصلہ منظور ہوگا۔" ناصرہ بیگم نے کہا۔"خالہ اماں آپ نے تو میری مشکل آسان کردی۔میں زَہرہ کے لیے ویسے ہی پریشان تھی اور اذان تو مجھے پسند ہے، میں مزمل سے پوچھ کر جواب دے دوں گی آپکو۔"انھوں نے کہا تو ناصرہ بیگم کو بھی تسلی ہوٸ
"اسلام و علیکم۔۔۔کہاں ہو بھٸ سب؟" ثاقب نے لاٶنج میں قدم رکھتے ہی کہا تو حنا بات مختصر کرکے باہر آٸیں۔
سب لوگ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے،مزمل صاحب اپنے آفس میں تھے اور دادو اپنے کمرے میں جبکہ انزلنا بھی اپنے کمرے میں بند پڑی تھی۔لیکن اسکے احتجاج سے کسی کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
"جاٶ ثاقب بلا کر لاٶ بہن کو۔" حنا نے کہا تو وہ فرمانبرداری سے اٹھ کر سیڑھیاں پھلانگتا چلاگیا۔
"موٹی کھانا کھالو۔۔۔نیچے سب انتظار کررہے ہیں مہارانی صاحبہ کا۔" اس نے تقریباً چلاتے ہوۓ کہا۔وہ جو پہلے ہی بھپری ہوٸ بیٹھی تھی اور کچھ دیر پہلے رونے والا مرحلہ پورا کیا تھا ثاقب کا جملہ سن کر جیسے تن بدن میں آگ لگ گٸ۔
”خود تو جیسے چھوٸ موٸ کا پودا ہو تم،انسان کی شکل میں ہاتھی۔“ کہتے ہی اس نے کشن اسے دے مارا لیکن وہ کیچ کرچکا تھا۔اتنے میں اسے محسوس ہوا کہ وہ رونے والی ہے تو وہ اسکے برابا میں بیٹھ گیا۔
”اوۓ چڑیل رو کیوں رہی ہے؟“ ثاقب نے اسکے سر پر ہلکے سے ہاتھ مارا تو وہ اب رو دی تھی۔
”میں نے اینٹ تو نہیں ماری جو یہ آبشاریں بہارہی ہے۔“ ثاقب نے جھجنھلاتے ہوۓ کہا وہ جناتا تھا وہ امّی جان سے شکایت لگادی گی پھر وہ اسکی کلاس لینگی۔
”یار ثاقب،بابا اور امیّ جان نے میرے نکاح کا فیصلہ کرلیا اور مجھے بتایا تک نہیں اور۔۔۔ پتہ نہیں کون ہے وہ انسان۔“وہ روتے روتے بتانے لگی۔
”اچھا تو یہ بات ہے، اتنی سی بات پہ اتنے آنسو بہا رہی ہو۔“ اس نے سوچتے ہوۓ کہا۔حنا بیگم اور زَہرہ نے اسے احتیاطاًسب بتادیا تھا کہ کہیں وہ اپنی بہن کے لیے جنگ لڑنے کھڑا نہ ہوجاۓ اسکی بات پر انزلنا نے اسے گھورا۔
”ارے یار سب اچھا ہی ہوگا، تمہیں پتا ہے ناں بابا اور امّی جان تم سے کتنا پیار کرتے ہیں حالانکہ میں تم دونوں سے چھوٹا ہوں۔“ وہ شکوہ کرنے والے انداز میں کہنے لگا تو وہ کھلکھلا کے ہنس دی۔
”یہ ہوٸ نا بات، اب ٹینشن نہیں لو تم اٹھو اور کھانا کھاٶ آکے۔ اور یہ رونے کا شوق بعد میں پورا کرلینا، ابھی میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں جلدی نیچے آجاٶ۔۔۔موٹی۔“ وہ کہہ کر جلدی جلدیسیڑھیاں اترتا نیچے بھاگا تو وہ بھی مسکراتے ہوۓ اٹھ گٸ۔
---------------
”ہاۓ ڈارلنگ کیسی ہو؟ کب سے بات نہیں ہوٸ تم سے۔ایسا لگ رہا ہے صدیاں گزر گٸیں۔“کھانے کھانے کے بعد وہ کمرے میں آرام کرنے پہنچی تو کال آرہی تھی۔زَہرہ نے جیسے ہی ریسیو کیا صالحہ کی شوخ لہجے میں کہتی آواز اسپیکر میں ابھری تو زَہرہ ہنس دی۔
”توبہ ہے صالحہ! یہ لڑکوں کی طرح پکارنا بند کرو، میری ہنسی نہیں رکتی پھر۔“ زَہرہ نے ہنستے ہوۓ اسے وارن کرنا چاہا تو دوسری طرف صالحہ بھی ہنسی۔
”ارے یار ایسا لگ رہا ہے کب سے بات نہیں ہوٸ زوہی۔“ صالحہ نے اداس ہوتے ہوۓ کہا۔
”آج صبح ہی تو بات کی تھی جب تم اپنے پیارے دل عزیز کزن سے بات۶ں کرنے میں مصروف تھیں۔“اس نے کال بہت دیر سے ریسیو کی تھی اور زَہرہ نے بہت غصہ بھی کیا تھا اور باقی کی کسر ابھی نکال رہی تھی۔
”ڈونٹ ٹیل می زوہی تم جیلس ہورہی ہو۔“ صالحہ نے زچ کرنے والے انداز میں کہا۔
”تو؟ میں یہاں پاگلوں کی طرح تمہیں بار بار کال کررہی تھی اور تم نے اتنی دیر بعد ریسیو کیا ہونہہ“زَہرہ خفگی سے کہنے لگی اور یہ ناراضگیاں بھی وہ صالحہ کو ہی دکھاتی تھی۔ اسکے کہنے پر صالحہ کو اپنی بہترین دوست پر بہت پیار آیا۔
”یار زَہرہ تمہرای جگہ کوٸ اور نہیں لے سکتا۔“ صالحہ نے اسے تسل دی تو وہ مسکرادی۔
”اچھا۔۔۔(وہ مسکرادی) سنو صالحہ۔“
”بولو کراٸم پارٹنر۔“ صالحہ ے کہا تو وہ ہنس دی۔
”کل ابراہیم کے گھر جاٸیں گے شام کو۔امی جان کو مومنہ آنٹی سے کچھ کام بھی ہےاور شاپنگ بھی کرنی ہے شادی کے لیے تم گھر پہنچ جانا ٹاٸم پہ اوکے۔“ زَہرہ سنجےدہ ہوکر تفصیل بتانے لگی۔
”اوہ واٶ۔ ہعنی کل ہم تمہارے ہونے والے سسرال جارہے ہیں!۔“ صالحہ نے ایکساٸیٹڈ ہوکر کہا۔اسے زَہرہ کو زچ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔
”زیادہ بکواس مت کرو تم پٹوگی ورنہ۔“ زَہرہ نے اسکی بات پر چڑتے ہوۓ کہا تو صالحہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگٸ، کچھ لمحے بعد وہ بھی مسکرادی۔
”اچھا میڈم میں پہنچ جاٶں گی اب سوجاٶ اور مجھے بھی سونے دو خدا حافظ۔“ اس نے کہہ کر کال کاٹی تو زَہرہ بھی مسکراتے ہوۓ سونے کے لیے لیٹ گٸ۔
--------------
”دادو آپ نے بلایا۔“ وہ انکے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”ہاں۔تمہیں تو اب وقت ہی نہیں ملتا دادو سے بات کرنے کا۔“ انھوں نے مصنوعی خفگی سے کہا تو وہ مسکرادیا۔پھر وہاں سے اٹھ کر انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
”دادو ایسی بات نہیں ہے۔“ وہ تسلی دینے لگا تو وہ مسکرادیں۔وہ بہت زیادہ بدل چکا تھا۔
”جی آپ کہیں۔“ وہ آنکھیں موندے انکی بات کا انتظار کرنے لگا۔
”میں نے حنا سے تمہارے اور زَہرہ بیٹی کے رشتے کی بات کی ہے۔“ اسکے بالوں میں سہلاتے ہوۓ دادو نے پرسکون لہجے میں کہا اور وہاں اسے چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا ضرور لگا تھا، وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھا۔آنکھیں تحیر سے پھٹنے کو تھیں۔دادو نے اسکے رویے پہ ابرو اچکاٸ
”کیا ہوا؟ تمہیں زَہرہ پسند نہیں ہے کیا؟“دادو پریشانی کے عالم میں پوچھنے لگیں۔
”نہیں دادو۔۔۔ووہ۔۔۔آ۔۔میرا۔۔۔میرا مطلب یہ کہ۔۔۔۔وہ۔۔۔میں۔۔۔کہ۔۔۔وہ۔۔۔“ وہ ناچاہتے ہوۓ بھی ہکلانے لگا۔دادو کو اسکے انداز پہ ہنس آگٸ۔
”آپ ہنس کیوں رہی ہیں دادو۔“ وہ خفگی سے دیکھتا ان سے پوچھنے لگا۔یہ اتنا ہکلا کیوں رہے ہوں۔“ و ہ کنکھیوں سے دیکھنے ہوۓ پوچھنے لگیں تو وہ سٹپٹاگیا۔
”کچھ نہیں۔۔۔“ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔
”زَہرہ بہت پیاری بچی ہے۔اور تمہارے ساتھ تو وہ اور بھی اچھی لگے گی۔وہ ہی سدھارے گی تمہیں پوری طرح۔“ دادو اسکی حالت سے حظ اٹھاۓ کہہ رہی تھیں۔
”اتنا تو سُدھار دیا ہے۔“ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔لیکن صدشکر کہ دادو نے نہیں سنا تھا
”میں نے بات کرلی ہے۔ کل صبح حنا جواب دے دے گی۔ اب تم بھی جاکر سوجاٶ۔“ دادو نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوۓ کہا تو وہ بھی فرمانبرداری سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلاگیا۔
کمرے میں پہنچا تو گھڑی پر نظر پڑی،رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔وہ وضو کرکے آیا اور نفل اداکیے۔ بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا پھر یکدم آنکھیں برسنے لگیں،دل رونا چاہتا تھا بہت۔۔بہت زیادہ اور وہ رو بھی رہا تھا۔ وہ رونتے روتے کہنے لگا۔
”میں۔۔۔میں اتنا گنہگار! کہ جو اپنے سکھ میں ربّ کو بھول گیا لیکن وہ مجھے کبھی نہیں بُھولا۔۔۔میں اتنا قابل تو نہیں کہ مجھ جیسے انسان۔۔۔مجھ جیسے انسان کی دعاٶں کو شرفِ قبولیت نصیب ہوجاۓ۔ لیکن نہیں! میں غلط تھا اور غلط ہوں! میں کیسے بُھول گیا کہ اللہ عطا کرتے وقت ہمارے اعمال نہیں بلکہ اپنی رحمت اور ہماری نیت دیکھتا ہے! میں نے تو ہمیشہ آپ(اللہ) سے اُسکی خوشی مانگی تھی۔ م۔۔مم۔۔۔میں نے کبھی اُسے اپنے ساتھ تصور کرنا بھی اسکی توہین سمجھی تھی۔ اور آپ! اللہ تعالٰی! آپ دل کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں۔میں کیسے بُھول گیا کہ جو آسمان سے برستی بارش کے قطروں کا بھی علم رکھتا ہے بھلا وہ مجھے کیسے بُھول سکتا ہے! بھلا وہ میری کیوں نہیں سُنے گا! میرا اللہ مجھ پر مہربان تھا مہربان ہے اور ہمیشہ مہربان رہے۔تُ رحمن ہے۔تُو رحیم ہے۔ تو نے مجھے وہ خوشی عطا کی جسکے لیے میں ساری زندگی بھی شکرادا کرتا رہوں تو وہ بھی کم ہے۔میرے ماضی کو جانتے ہوۓ بھی تُو نے مجھ سے محبت کی ہے اللہ۔مجھے معاف کردے میری خطاٶں پر آمین۔میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھنا میرے ربّ آمین۔۔آمین۔۔۔آ۔م۔۔ی۔۔نن۔“ رات کے دوسرے پہر جاۓنماز پر اللہ کے حضور بیٹھے روتے روتے اسکی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔اب مزید کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔صرف آنسو تھے۔۔۔بہت دیر بعد جب وہ جاۓنماز طے کرکے اٹھا تو پگلاس بھر کے پانی پیا اور بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر آنکھیں مند کر بیٹھ گیا۔وہ اذان تھا۔۔۔وہ واقعی اذان تھا۔ہچکیاں لے کر روتا ہوا! ہاں انسان کو ربّ تعالٰی کے سامنے کسی فقیر کی طرح مانگنا چاہیے۔۔۔روتے۔۔۔گڑگڑاتے ہوۓ۔کسی ننھے بچے کو جب اپنی کوٸ باٹ منوانی ہوتی ہے تو وہ اپنی بات منوانے کے لیے روتا ہے گڑگڑاتا ہے۔۔۔انسان کو بھی اللہ کے سامنے اسی بچے کی طرح مانگنا چاہیے۔
-----------------
”عابی۔“ زکریا نے اسے پکارا تو اسنے لمحے بھرکے للیے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر دوبارہ آنکھیں بند کیے لیٹا رہا، وہ صوفے پہ آزھا ترچھا لیٹا تھا اور صوفے پہ جو باقی کچھ جگہ تھی وہاں حذیفہ بیٹھا تھا۔رات کے تین بجے زکریاکو ان دونوں کے ساتھ بیٹھنا تھااور باتیں کرنا تھیں، وہ اچھا محسوس نہیں کررہا تھا۔
”لوگ ہمیں دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟“ضبط کی شدت اختیار کیے اس نے پوچھا۔
حذیفہ نے صوفے سے ٹیک لگاتے ہوۓ اسے دیکھا اسکی بات پر ابراہیم اٹھ کر بیٹھا، کل صبح اس واقعے کو ایک ہفتہ پورا ہوجانا تھا وہ ان دونوں کو بلانے سے پہلے بھی روچکا تھا
”جب ہم لوگوں کو موقع دیتے ہیں۔“ ابراہیم نے سپاٹ لہجے میں کہا۔زکریا نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تمہارا مطلب یہ کہ۔۔۔“ وہ کہنے لگا وہ دونوں ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہے تھے۔اسکے کچھ کہنے سے پہلے ہی ابراہیم نے کہنا شروع کردیا تھا۔
”زکی۔۔۔ دنیا کی ہر چاہت، ہر خوشی، ہر غم، اور ہر زخم و تکلیف کو زوال ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھتے جوچلا گیا اُسے جانا ہی تھا۔رونا دکھ منانا یہ سب ہماری اپنی چواٸس ہوتا ہے ورنہ دنیا کا کوٸ ایسا دکھ کوٸ ایسی تکلیف ایسا زخم نہیں جس کا مرہم اللہ کے پاس نہیں۔اللہ کی طرف جاٶگے تو سکون ملے گا ناں! تم سمندر کے بیچ و بیچ کشتی میں تنہا سوار ہو اور کسی طوفان میں پھنسے ہو اور تم چاہتے ہو محض ہوا تمہیں خشکی تک لے جاۓ تو یہ ناممکن ہے کیوں کہ تم ٹھیک رستے سے بھٹک بھی سکتے ہو اور اگر ایسا ہو بھی جاۓ تو کیا پتہ تم سمندر کی مزید گہراٸ میں چلے جاٶ! تمہارے پاس وہ جو دو لکڑیاں ہیں انھیں استعمال کرو تاکہ تم خشکی تک باآسانی پہنچ جاٶ زکی۔۔۔اسی طرح اللہ نے تمہیں دل و دماغ دیے ہیں۔ اگر تم اللہ کے علاوہ کسی کو دل و دماغ میں سماٶگے اور حواسوں پہ سوار رکھوگے تو تم نے اس جگہ کو پہلے ہی بھر دیا جہاں ربّ کی یاد کو رکھنا تھا. اور اب تم شکایت کرتے ہو کہ تمہیں تکلیف ہے،دل ٹوٹ چکا ہے،کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ ہے تمہیں۔ دل کو اللہ کی طرف لاٶگے تب ہی دماغ درست لے پہ کام کرنا شروع کرے گا۔تم سمجھو اس بات کو پلیز۔“ ابراہیم اسے سمجھا کر چپ ہوا تو وہ اسے تحیر سے دیکھ اور سن رہا تھا،ابرہیم پہلے دکھی تھا لیکن اب اسے غصے آنے لگا تھا۔کل صبح اس واقعے کو ایک ہفتہ ہوجانا تھا لیکن زکریا کا رویہ سبکو پریشان کررہا تھا۔حذیفہ بھی خاموش بیٹھا تھا۔
”لل لیکن۔م م می میں نے۔۔۔“اس نے بولنا چاہا لیکن احساسِ ندامت نے اچانک ہی اسے خود میں جکڑلیا۔
”تم اللہ سے دُور رہوگے تو سکون بھی تم سے دُور رہے گا۔“ ابراہیم نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔اب مزید وہ اسے کچھ نہیں سمجھا سکتا تھا۔وہ رونے لگا تو حذیفہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے برابر میں بیٹھ گیا اور زکریا اسکے گلے لگ گیا۔وہ اسے تھپتھپاتے ہوۓ بتانے لگا۔
”زکی میں آج تجھے ایک بات بتاتا ہوں۔میں سارہ کو بہت پسند کرتا تھا۔ اب تو میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب یونیورسٹی شروع ہونے سے پہلے میں کینیڈا گیا تو میں نے سوچا اسے بتادوں لیکن پھر مجھے ٹھیک نہیں لگا۔جب ہم پاکستان واپس آۓ تو میں نے ماما سے بات کی۔ماما نے کہا وہ بات کریں گی لیکن اس سے پہلے ہی ایک دن چچی کا فون آیا کہ سارہ کا رشتہ طے ہوچکا ہے۔اور پھر ہمیں بلایا تو میں نہیں گیا تھا تب ہمارے سیکنڈ ایٸر کے ایگزامز تھے۔مجھے ویسے ہی دکھ تھا پھر میں نے سوچا اللہ کو منظور ہوا تو مل ہی جاٸیں گے۔۔پھر تب سے ہی میرا اللہ پہ بھروسہ بڑھ گیا۔اور پھر جب کچھ دن بعد ماما بابا واپس آۓ تو بتایا کہ اسکا رشتہ ختم ہوچکا ہے مجھے تو بہت خوشی ہوٸ تھی لیکن ڈرامہ کرنا بھی ضروری تھا۔اور پھر باقی سب پلاننگز تم دونوں کے سامنے تھیں اور آج دیکھو۔“ وہ کہہ کر چپ ہوا اور مسکرایا۔
پھر ابراہیم بھی صوفے سے اٹھ کر اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔
”اور میری کہانی تو تم دونوں کو ہی معلوم ہے۔ان شارٹ جب وہ اتفاقیہ ایکسیڈینٹ ہوا تو مجھے لگا مجھے اللہ کے قریب ہونے کا موقع مل گیا ہے۔انزلنا کے رویے سے مجھے دکھ ضرور تھا اور ناراضگی بھی تھی لیکن میں خود سے درکزر کرگیا۔پھر میں نے نماز قرآن کی پابندی کک اور اللہ پہ بھروسہ کیا اب تم دیکھو اللہ پہ بھروسے کا نتیجہ اب اللہ نے خود ہی راستہ بنادیا ہے۔“ وہ بتاتے ہوۓ بہت خوش تھا۔حذیفہ بھی مسکرادیا۔
زکریا اب خاموشی سے آنکھیں موند کر ایڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
پانچ منٹ گزرے تھے کہ ابراہیم کی شرارتی رگ پھڑپھڑانے لگی، اور حذیفہ بھی ساتھ تھا تو دو دو جن۔
”یار تجھے نہیں لگتا اپنا زکی کہیں گم ہوگیا ہے۔“ حذیفہ نے سنجیدہ ہوکر تشویشی لہجے میں کہا۔پھر ابراہیم بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔صبح کے ساڑھے چار بجے ان دونوں کو ڈرامے سوج رہے تھے۔اور پھر نیند تو دوست کی تکلیف کے سامنے بہت چھوٹی چیز تھی۔
”ہاں حوذی۔میں بھی اتنے دنوں سے یہی سوچ رہا ہوں کہ زکی کو واپس کیسے لایا جاۓ“ابراہیم نے بیڈ کے سامنے کھڑے ہوکر کہا۔زکریا ٹس سے مس نہیں ہوا۔حذیفہ بھی بیڈ سے نیچے اترا اور ابراہیم کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ابراہیم نے ایک کشن اسے تھمایا اور دوسرا خود نے جکڑ لیا۔
”تو کچھ سوچ یار۔ایسے تو کام نہیں چلے گا ہمارا۔“ حذیفہ نے پریشان لہجے میں مسکراہٹ دباۓ کہا۔زکریا کو معلوم نہیں تھا آگے کیا ہونے والا ہے وہ بہت کچھ سوچ رہا تھا۔۔۔بہت ساری باتیں۔ لیکن وہ پھر بھی ان دونوں کی باتوں کو سن رہا تھا۔
”آٸیڈیا!۔“ ابراہیم نے نعرہ لگایا اور اگلے لمحے دونوں نے پوری قوت سے ہاتھوں میں جکڑے کشن زکریا نے منہ پر دے مارے۔اس نے بوکھلا کر آنکھیں کھولیں۔اور وہ دونوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگۓ۔
”ذلیل انسان۔“ زکریا نے تیز آواز میں غراتی ہوۓ کہا۔اسے اس حملے کی توقع نہیں تھی۔پھر برابر میں پڑے دو دو کشنز ان دونوں کو پوری قوت سے مارے، وہ ویسے ہی ہنس ہنس کر پاگل ہورہے تھے۔اسکے کشنز کھا کر وہیں کارپٹ پر گرگۓ۔اب دونوں ہنستے ہنستے آنکھوں سے نکلنے والا پانی صاف کررہے تھے۔ اں دونوں کی ہنسی سن کر اس سے خود بھی قابو نہیں ہورہا تھا۔وہ بھی ان دونوں کی حالت دیکھ کر خوب ہنسا۔اور پورے ایک ہفتے بعد وہ یوں دل کھول کر ہنسا تھا۔اور ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے اسے تواناٸ مل رہی ہے۔ابراہیم اور حذیفہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوۓ۔
”عابی یہ دیکھ ہمارا غصے سے بھپرا شیر ہنس رہا ہے۔“ حذیفہ نے کہا اور دونوں نے اسے جکڑ لیا۔ اب داٸیں جانب وہ اور باٸیں جانب ابراہیم زکریا کے گلے لگا تھا۔
”آٸ لو یو میرے نمونوں۔“ زکریا نے ہنستے ہوۓ کہا تو وہ دونوں ہنس دیے۔
”بس کرو بھٸ۔ اب کیا یڈیاں توڑوگے میری تم دونوں؟ ویسے ہی ٹوٹا پھوٹا بیٹھا ہوں۔“ جب ایک بعد بھی وہ دنوں یونہی اسے جکڑے رہے تو اس نے کہا۔ وہ دونوں الگ ہوۓ اور فلک شگاف قہقہے کمرے میں گونجے۔
”ہم ہیں ناں تیرے ساتھ! جوڑدیں گے تجھے۔۔۔ سیمنٹ سے“ ابراہیم نے تھوڑا رک کر کہا تو تینوں پاگلوں کی طرح ہنس دیے۔اور حذیفہ نے اسے دوبارہ جکڑا تو زکریا نے اسے مصنوعی غصے سے گھورا وہ بتیسی دکھا کر ہنس دیا۔
”بہت ہوگیا ہنسی مذاق۔چلو اٹھو فجر کی اذانوں کا وقت ہوگیا ہے۔ چلو مسجد۔“ ابراہیم نے سنجیدہ ہوتے ہوۓ کہا تو حذیفہ بھی اٹھ گیا۔اور کشن وغیرہ درست جگہ پر رکھنے لگا۔ابراہیم وضو کرنے باتھروم میں گھس گیا۔
””یار میں کیسے جاٶں گا؟ یہ سیدھے پاٶں کا زخم۔۔۔“ زکریا نے اداسی سے کہا۔ ابراہیم باہر آیا تو حذیفہ وضو کرنے چلاگیا۔ دونوں نے جیسے اسکیبات کو سنا ہی نہیں۔زکریا بیڈ پر پاٶں لٹکاۓ بیٹھ گیا۔زخم تھوڑا بہت ٹھیک ہوگیا تھا لیکن ابھی مکمل ریکوری میں وقت لگنا تھا۔وہ اپنے پاٶں کو دیکھتے سوچنے لگا۔
پھر ان دونوں کو دیکھا جو سن کر بھی بہرے بن چکے تھے۔
حذیفہ وضو کرکے آیا تو اسکے بابر میں کھڑا ہوگیا۔ابراہیم دوسری جانب کھڑا ہوا۔زکریا نے دونوں کو ناسمجھی سے دیکھا۔
”ایک۔۔۔دو۔۔۔تین۔“ اور یہ کہتے کے ساتھ ہی دونوں نے جھک کر زکریا کو کندھوں سے پکڑا۔وہ گڑبڑاگیا۔
”چپ کر۔۔۔نہیں گرنے دیں گے تجھے۔“ ابراہیم نے اسکے اںداز کو بھانپتے ہوۓ فوراً کہا تو زکریا کھل کر مسکرایا۔اسکے ڈمپل واضح ہوۓ تھے۔
دونوں نے اسے وضو کروایا۔اور پھر اسی طرح سہارا دیتے ہوۓ سیڑھیاں اترتے تینوں نیچے آۓ۔ اور پھر اسے گاڑی میں بٹھا کر مسجد للے کر گۓ۔
اور آج ناجانے کتنے دن بعد وہ ربّ کے سامنے کھڑا رو رہا تھا۔پھر سجدے میں سر رکھ کر کیفیت ہی الگ ہوگٸ۔ یوں رونا آیا جیسے صدیوں کا غبار جو دل میں بھر چکا تھا اب وہ آنسوٶں کے ذریعے دل کی زمین کو پاک کر رہا تھا۔پوری نماز میں آنسو متواتر بہتے رہے۔قیام میں کھڑے ہوکر پیر کی تکلیف محسوس ہورہی تھی لیکن وہ نماز میں مگن رہا۔
وہ اللہ کے سامےن روتا رہا اور زخم بھی مندمل ہونے لگے۔۔۔سکون روح میں اترنے لگا۔ اور اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا جیسے دل کی دنیا میں ہر طرف سکوں چھا گیا تھا۔
دعا مانگ کر وہ اٹھا تو سوڑج طلوع ہوچکا تھا۔وہ بالکل دھیرے دھریے چلتا مسجد سے باہر آیا۔تو وہ دونوں گاڑی سے ٹیک لگاۓ مسکراتے ہوۓ اسے ہی دیکھ رہے۔ زکریا نے خود کو خوش نصیب محسوس کیا تھا۔اتنے مخلص دوست! اسکا دل بارہا اللہ کا شکر ادا کررہا تھا۔ پیر میں اچانک ٹیس اٹھی تو وہ لڑکھڑایا۔ اس سے پہلے وہ گرجاتا ابراہیم اور حذیفہ نے اسے پکڑلیا تھا۔اسکی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔ وہ واقعی بہت خوش نصیب تھا۔
”سنبھل کر میرے شیر۔“ حذیفہ نے مسکراتے ہوۓ اس سے کہا اور زکریا ابراہیم ہنس دیے۔پھر اسے گاڑی میں بٹھایا۔
”چل یار تجھے بھی گھر چھوڑدوں۔آج تو بھابھی کے ہاتھوں خیر نہیں تیری۔“ ابراہیم نے روتی صورت بناۓ کہا تو وہ دونوں اسکی اداکاری سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ ہنسے۔
”ہاں یار میں بھی اسے بہت مس کررہا ہوں۔“ حذیفہ نے مسکراتے ہوۓ کہا تو وہ دونوں بھی مسکرادیے۔آج زکریا کو ذہنی سکون ملا تھا۔لیکن کوشش ابھی جاری رکھنے تھی۔
بات۶ں کرتے کرتے حذیفہ کو گھر ڈراپ کرکے وہ دونوں گھر پہنچے تو ہمیشہ کی طرح اسلمم چچا نے نیندوں سے دبیدار ہوتے ہوۓ دروازہ کھولا۔اور وہ دونوں اسے سہرا دیتے ہوۓ کمرے تک لر کر گۓ۔
مل جاۓ گی تجھے بھی دُکھوں سے خلاصی
کہ رات کی بھی ایک مُدّت ہوتی ہے
مل جاۓ گا تیری روح کو بھی سکون
بھلا ربّ سے کی جانے والی دعا کہاں رد ہوتی ہے
کبھی جو بڑھ جاۓ شدتِ تکلیف،
تو رو لینا اُس کے سامنے
کہ ربّ کے ہاں احساس و جذبات کی بہت قدر ہوتی ہے
وہ جو ربّ ہے! آگاہ ہے تیری تکلیف کے آنسوٶں سے
تجھے چاہیے، کر اپنے خالق پہ بھروسہ!
کہ ہریالے کھیت کی زمین بھی جی بھر پانی سے سیراب ہوتی ہے
کبھی جو بوجھل ہونے لگیں قدم،
سفرِزندگی کی تھکاوٹ سے
تم دے دینا حاضری
اُس کے در پر پُرخلوص ہوکر
کہ اُس ربّ کے ہاں مہمان نوازی بہت اچھی ہوتی ہے
کبھی جو ہونے لگے شکایت،
تجھے اپنی زندگی سے
تو دیکھ لینا نظر بھر اپنے سے کم تر کو
تو شاید ہوجاۓ اپنی ناشکری کا احساس تجھے
تُو رونا چاہے نکلیں نہ آنسُو الفاظ دم توڑ جاٸیں
صرف ہاتھ اٹھالینا دعا کے واسطے
کہ اُس ربّ کی ہاں!
خاموشی کی زباں بھی قبول ہوتی ہے
مل جاۓ گی تُجھے بھی دُکھوں سے خلاصی
کہ رات کی بھی ایک مُدّت ہوتی ہے۔
***************
