"انزو ایسا کرو تم یہیں ٹہر جاٶ۔ ہم کھانا یہیں بھجوادیں گے تمہیں زحمت نہیں کرنی پڑے گی"
پندرہ منٹ گزر چکے تھے اور انزلنا کو لپ اسٹک نہیں مل رہی تھی اور ہر دفعہ کی طرح آج پھر صالحہ اور انزلنا کے بیچ کی نوک جھوک شروع ہوچکی تھی۔
"ہاں بھیج دینا۔ اور ایسا کرو کولڈڈرنک کے دو ٹِن بھیجنا ایک سے مزہ نہیں آتا اور سارا کھانا تم نہیں کھالینا کچھ میرے لیے بھی بچا کے رکھنا۔" اب انزلنا لپ اسٹک لگاتے ہوۓ صالحہ کا خون جلا رہی تھی۔
وہ تینوں پارلر میں موجود تھیں جوکہ صالحہ کی ایک کالج فرینڈ کا تھا اور اب سارہ کی نگاہیں ان دونوں پر جمی ہوٸی تھیں۔
"او اچھا پھر تمہیں تیار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب کھانا ہی کھانا ہے تو اتنا تیار نہیں ہو" صالحہ نے بھی چڑانے والے انداز میں کہا
"سارہ تمہیں کچھ جلنے کی بدبو آرہی ہے؟" انزلنا نے اچانک سارہ کے قریب کھڑے ہوتے ہوۓ سوال کیا۔
" نہیں تو! بلکل نہیں" سارہ نے حیران ہوتے ہوۓ کہا
"اور صالحہ تمہیں اسمیل آرہی ہے؟" اَنزلنا نے پریشان نظروں سے سوال کیا۔
"نہیں مجھے تو نہیں آرہ۔۔۔۔۔۔" ابھی وہ ناسمجھی کے عالم میں بول ہی رہی تھی کہ انزلنا کی طرف دیکھا جو ہنس رہی تھی اور وہ دیکھتے ہی سمجھ گٸی کہ اُس کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ اب انزلنا کی شامت آنے والی تھی اور سارہ دلہن کا لباس زیب تن کیے ہوۓ ایک صوفے پر پیر پہ پیر رکھ کر بیٹھ گٸی کیوں کہ اب اُسے تسلی سے ٹام اینڈ جیری شو دیکھنا تھا۔
"اَنزلنا۔۔۔" صالحہ نے غراتی آواز میں کہا اور انزلنا نے باہر کی جانب دوڑ لگادی۔
"صالحہ جل بُھن کے راکھ ہوجاٶگی۔ اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہے۔"
انزلنا نے پیچھے دیکھتے ہوۓ کہا۔ہاٸی ہیلز اس نے پیروں میں پہننے کے بجاۓ ہاتھ میں پکڑی ہوٸی تھیں کیوں کہ آج ہاٸی ہیلز کچھ زیادہ ہی ہاٸی تھیں اور اُس نے پہلے کبھی پینسل ہیل نہیں پہنی تھی آج اُس کا پہلا تجربہ تھا۔
"چھوڑوں گی نہیں تمہیں میں" صالحہ نے دور سے انگلی ہوا میں لہراتے ہوۓ تنبیہ کی۔
بھاگتے بھاگتے وہ اس روم سے باہر بنگلے کے دروازے پہ تھیں اور اندر میک اپ روم میں سارہ اُن دونوں کا انتظار کر رہی تھی۔
"پکڑو مجھے۔۔۔" انزلنا آج صالحہ کو تھکانے والی تھی۔
"اَنزُو سنبھل کے اگے گاڑی۔۔۔۔۔" صالحہ کا جملہ ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ انزلنا سامنے موجود چیز سے زور سے ٹکرا گٸی۔
"اللہ ! امّی جی میری ناک میرا سر" انزلنا گاڑی کا سہارا لیتے ہوۓ کھڑی ہوٸی اور صالحہ اُسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھی۔
"انزو تم ٹھیک ہو؟" صالحہ نے اُس کا سر سہلاتے ہوۓ پوچھا۔
"میں ٹھیک ہوں لیکن میری ناک اور میرا سر۔۔۔" انزلنا نے جملہ مکمل کرنےسے پہلے گاڑی کے مِرَر میں دیکھا زور سے ٹکرانے کے باعث اب اُس کی ناک تھوڑی دیر کے لیے لال پیلی ہوگٸی تھی اور اس کی گوری رنگت پہ کچھ زیادہ ہی واضح ہورہی تھی۔ اور اب اُس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گر رہے تھے اور صالحہ اپنی ہنسی دباۓ کھڑی تھی۔
"اس گاڑی کے مالک کو بلاٶ۔ جان لے لوں گی میں اُس کی" انزلنا کا غصّہ اب ٹھنڈا ہونے والا نہیں تھا جب تک وہ اس گاڑی کے پارک کرنے والے کا سر نہ پھوڑ دے۔
" اَنزُو کوٸی بات نہیں ۔ گاڑی کے مالک نے گاڑی صحیح پارک کی ہے تم غلط ڈاٸریکشن میں تھیں۔" صالحہ اس کا غصہ کم کرنا چاہ رہی تھی۔
"تم رہنے دو صالحہ۔ آنے دو اس گاڑی کے مالک کو۔ جان لے لوں گی اُس کی،منہ نوچ لوں گی آج میں اُس کا جس کی وجہ سے میرا میک اپ خراب ہوا ہے" غصے سے دھاڑتے ہوۓ اُس نے زور سے اُس سفید رنگ کی گاڑی پر مُکّہ مارا اور اب پھر سے آنکھوں سے آنسو نکل آۓ تھے۔ صالحہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ناک اور سر کی تکلیف کی وجہ سے رو رہی ہے یا میک اپ خراب ہونے کی وجہ سے۔
"ایکسکیوز می لیڈیز۔" نرم لہجہ تھا۔ جسے سن کر وہ دونوں اُس کی طرف متوجہ ہوٸیں۔ انزلنا کے آدھے آنسو تو آنکھوں میں اٹکے رہ گۓ۔ وہ چہرہ ہی حیران کردینے والا تھا۔
"ابراہیم تم یہاں!"صالحہ کے چہرے پر خوشی ظاہر ہوٸی
"آف کورس" اُس نے مسکراتے ہوۓ کہا
"بھاٸی نے بھیجا ہوگا ہیں ناں؟!" صالحہ نے سوال کیا۔
"ہاں تمہارے نکّمے بھاٸی نے ہی بھیجا ہے تم سب کو پِک کرنے کے لیے۔" ابراہیم نے صالحہ کی بات کا جواب دیا اور وہ ایک نظر انزلنا پر ڈالنا نہیں بُھولا تھا۔اُسے دیکھتے ہی ابراہیم کے چہرے کی مُسکراہٹ گہری ہوگٸی۔
" اوکے میں سارہ بھابھی کو لے کر آتی ہوں" صالحہ کہتے ہوۓ چلی گٸی۔
"کیسی ہو" خوش ہوتے ہوۓ اُس کی طرف دیکھ کے کہا۔
انزلنا کے دماغ پہ غصہ سوار تھا اور اس انسان کو دیکھ کر تو اُس کا بی-پی شوٹ کرجاتا اگر صالحہ اُس سے بات نہیں کرتی تو اُسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ حذیفہ کا دوست ہے۔
"جیسی دِکھ رہی ہوں۔"
"بہت ہی۔۔۔" ابراہیم نے جملہ ادھورا چھوڑا اور اس کی طرف دیکھا جن جواب کی منتظر کھڑی تھی۔
"بہت ہی بری لگ رہی ہو۔" کہتا ہوا وہ جلدی سے گاڑی کا لاک کھولنے مڑگیا اگر انزلنا اُسے ہنستا ہوا دیکھ لیتی تو ناجانے کیا کرتی۔ اور اب پیچھے کھڑی انزلنا نے زمین پر سے ایک چھوٹا پتھر اٹھایا اور اسے مارنے کے لیے آگے بڑھی لیکن ابراہیم نے وِنڈو میں اُس کا عکس دیکھ لیا تھا۔
"نہیں نہیں ایسا نہیں کرتے۔" لمحہ بھر کی تاخیر کیے وہ پیچھے مُڑا اُس کے بلکل پیچھے انزلنا میں پتھر لیے کھڑی تھی اور ابراہیم نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے اس کا ہوا میں جھولتا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا
" ہاتھ چھوڑو میرا۔ابراہیم" وہ ڈھٹاٸی سے کہہ رہی تھی۔
"تمہارا کیا بھروسہ۔ مجھے ہسپتال پہنچادو۔۔۔“ اب کے اس نے کہا تو ہاتھ فوراً چھوڑ دیا تھا،ابراہیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔
"میرا بس چلے تو اللہ کے پاس پہنچادوں۔" جیسے ہی ابراہیم نے ہاتھ چھوڑا تو اس نے غصے میں خود سے سرگوشی کی جسے ابراہیم نے سُن لیا تھا۔
"توبہ توبہ! پھر تم جیسی اکڑُو سے شادی کون کرے گا؟" ابراہیم نے اتنی شریفانہ صورت بناٸی کہ انزلنا کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا جارہا تھا۔ اور اُسے مزید غصّہ آنے لگا۔
"کوٸی بھی کرلے گا مجھ سے شادی۔آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے" ڈھٹاٸی سے آنکھوں میں دیکھ کر کہتے وہ غصے سے بھپرتی سیدھا اندر چلی گٸی۔
-------------
" امّی، بابا چلیں؟" زَہرہ مکمل تیار کھڑی تھی۔
"جی چلو میرا بچہ" مزمل صاحب نے کہتے ہوۓ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا
"ایک بات تو بتاٸیں بابا!"
"پوچھو میرا بیٹا۔" زَہرہ سے تو ان کی زندگی جڑی تھی ان کا سب سے زیادہ خیال زہرہ ہی رکھتی تھی۔ ایکسیڈینٹ کے بعد سے زہرہ نے ہی آفس کے کام سنبھال لیے تھے کام زیادو مشکل اور بڑے نہیں تھے لیکن اپنی یونیورسٹی سے ایک ہفتے چھٹی کرنے کے بعد وہ ان کا مضبوط سہارا بنی تھی۔ ثاقب چھوٹا تھا اور اس کے سیکنڈ اٸیر کے امتحان ہورہے تھے جس کی وجہ سے زَہرہ نے مزمل صاحب کے کاروبار میں ان کا سہارا بن کر ان کے دل اور بھی زیادہ جگہ بنالی۔ اور بیٹیاں تو ہوتی ہی ایسی ہیں۔اپنے بابا کے دُکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے والی۔ اور زَہرہ نے بھی ایک بیٹی ہونے کے ناطے اپنا فرض پورا کیا تھا۔
"آپ کی اتنے ہینڈسم ہونے کا راز کیا ہے؟" زَہرہ نے شرارت سے اپنے بابا کی طرف دیکھ کر پوچھا تو مزمل صاحب سوچوں سے باہر نکلتے ہوۓ مسکرادیے۔
"بس اللہ کا کرم ہے اُس نے مجھے اتنی پیاری بیٹی اور اتنی اچھی زوجہ دی ہیں تو میں ہینڈسم تو دکھوں گا ناں۔"
مزمل صاحب نے ہنستے ہوۓ اُسے دیکھ کر کہا تو وہ بھی ہنس دی اور سامنے سے اسکارف اوڑھے آتیں حنا بیگم اُن باپ بیٹی کی گفتگو سن کر مسکرادیں۔
"چلیں؟ کہیں دیر نہ ہوجاۓ پہنچنے میں ورنہ کلثوم ناراض ہوجاۓ گی اور نعمان بھاٸی نے بھی جلدی آنے کا کہا تھا آپ نے دیر کردی تیار ہونے میں۔" گھڑی پر نظر پڑتے ہی انھیں پریشانی شروع ہوگٸی تھی اور اب زہرہ اور مزمل صاحب انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"ہم نے دیر کرواٸی ہے؟" زَہرہ اور مزمل صاحب نے ایک آواز ہوکر کہا تو وہ ہنس دیں
"اچھا بھٸی میں نے دیر کرواٸی ہے۔ بس اب چلیں جلدی" حنا نے دونوں باپ بیٹی کو آگے بڑہاتے ہوۓ کہا
"امّی۔ ثاقب نہیں آرہا؟" زَہرہ نے چلتے چلتے مڑ کر سوال کیا۔
"وہ حذیفہ کے ساتھ آۓگا۔"
"اوکے" کہتے ہوۓ وہ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گٸی اور وہ دونوں فرنٹ سیٹس پر بیٹھ گۓ اور اب وہ ایونٹ ہال کی جانب روانہ تھے۔
-----------
"اسلام و علیکم چچی جان" کلثوم صاحبہ کے پیچھے کی جانب سے کسی کی پرجوش آواز سناٸی دی
"وعلیکم السلام۔" اور سلام کا جواب دے کر وہ مڑی ہی تھیں کہ وہ دونوں اُن سے گلے لگ گٸیں۔
"چچی جان ہم نے آپ کو اور سب کو بہت مِس کیا۔ ہم پہلے سے آنے کا کہہ رہے تھے لیکن بھاٸی نے منع کردیا کہ سب ساتھ جاٸیں گے اور سرپراٸز دیں گے۔ جب ہم نے کہا کہ جانا ہی ہے تو سرپراٸز کا کیا کرنا تو بھاٸی نے کہا کہ تم دونوں اکیلی چلی جاٶ اور مام ڈیڈ اور میں بعد میں آٸیں گے اور پھر ہم دونوں خاموش ہوکر بیٹھ گۓ۔" ان دونوں بہنیں اس گھر میں رونقیں مزید بڑھا دی تھیں۔اور اب گھر میں سکون قاٸم رہنا مشکل ہی تھا۔
"بس بھی کرو تم دونوں ساری شکایتیں آج ہی کردوگی کیا؟" آواز سنتے ہی کلثوم صاحبہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گٸی
"اسلم و علیکم۔ چچّی جان کیسی ہیں آپ؟" وہ ان سے گلے ملا اور کلثوم صاحبہ نے اس کے سر پر بوسہ دیا۔
"میں بلکل ٹھیک تم سناٶ کھانا کھانا چھوڑ دیا ہے کیا تم نے یا کینیڈا میں کھانے کی قلت ہے!"
کلثوم نے پریشان لہجے میں کہا تو وہ تینوں ہنس دیے۔
"ارے نہیں میری پیاری چچی۔ خود کو فِٹ اینڈ فاٸن رکھنا پڑتا ہے ورنہ شادی کے لیے کوٸی لڑکی نہیں ملے گی ناں ۔"اس نے آنکھ مارتے ہوۓ بات کی تو وہ ہنس دیں۔
"میرے شہزادے کو کوٸی کمی نہیں ہے لڑکیوں کی" اس کے بالوں میں ہاتھ سہلاتے ہوۓ انھوں نے تھوڑا خفگی سے کہا تو وہ مسکرادیا۔
"اچھا اچھا اب آپ اتنی ٹینشن نہیں لیں اور مام ڈیڈ سے مل لیں وہ آچکے ہیں" سمیرہ اور ارسلان کے کے آتے ہی اس نے اطلاع دی تو سمیرہ گرم جوشی سے کلثوم سے ملیں اور کچھ دیر باتوں کے بعد وہ سب اپنے اپنے کمروں میں فریش ہونے کے لیے چلے گۓ۔ اور پھر کلثوم صاحبہ سب سے مل کر ایونٹ ہال کے لیے نکل گٸیں۔نعمان صاحب بھی وہیں تھے اور مغرب کا وقت ہونے والا تھا اور مغرب کے بعد حذیفہ اور سارہ کا نکاح تھا۔
*****************