آج دن سے ہی اُسامہ ثاقب اور اذان آٶٹنگ کے لیے نکلے ہوۓ تھے۔زَہرہ اور صالحہ کمرے میں تیار ہورہی تھیں جبکہ انزلنا آج بہت دنوں بعد یونیورسٹی گٸ تھی تو تھکاوٹ کے باعث سو گٸ۔ان تینوں کو آج مومنہ کے ساتھ شادی کی شاپنگ کے لیے جانا تھا۔حنا دادو کے کمرے میں چلی آٸیں۔
"خالہ اماں۔" انھوں نے ناصرہ بیگم کا ہاتھ تھام کر کہا تو وہ حنا کی طرف متوجہ ہوٸیں۔وہ کل سے جواب کا انتظار کررہی تھیں۔اب انھیں جواب ملنا تھا۔
"مزمل۔۔۔زَہرہ اور اذان کے رشتے کے لیے راضی ہیں۔باقی جیسا اللہ کو منظور۔" انھوں نے مسکراتے ہوۓ کہا تو ناصرہ بیگم کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گٸ۔پھر دونوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔
"زَہرہ کو بتایا؟اس سے اس بارے میں بات کی تم نے؟" دادو نے پوچھا۔
"نہیں۔رات میں بات کروں گی۔" انھوں نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا پھر بازار کا بتاکر کمرے سے باہر آٸیں تو زَہرہ اور صالحہ ابایا پہنے اسکارف باندھے بالکل تیار کھڑی تھیں البتہ زَہرہ نے نقاب کیا تھا اور صالحہ کو اسکی عادت ابھی نہیں ہوٸ تھی۔
"کہیں جارہے ہیں آپ سب؟" اذان نے پوچھا۔وہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تو پورچ میں ان تینوں کو کھڑا دیکھ کر کہا۔اسامہ اور ثاقب ابھی بھی سیروتفریح میں مگن تھے۔البتہ وہ تھک چکا تھا تو جلدی گھر آگیا۔
"ہاں۔مومنہ کے ساتھ جانا ہے شادی کی شاپنگ کے لیے۔" حنا بیگم نے بتایا۔
"تو میں ڈراپ کردیتا ہوں، اگر آپ سب کو پریشانی نہ ہو تو۔" اذان نے کہا تو حنا بیگم نے مسکراتے ہوۓ پیسینجر سیٹ سنبھالی باقی زَہرہ اور صالحہ خاموشی سے پچھلی سیٹ پر براجمان ہوگٸیں۔
-------------
"اسلام و علیکم۔۔۔۔ارے واہ بھٸ آج تو میری بیٹی آٸ ہے مجھ سے ملنے۔" مومنہ صاحبہ نے مسکراتے ہوۓ سلام کیا اور پھر سب کے ساتھ زَہرہ کو دیکھ کر انکا چہرہ کِھل اٹھا۔
اذان پیچھے ہی کھڑا تھا۔وہ آگے بڑھ کر گلے ملی۔مومنہ نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تو وہ مسکرادی۔ایسا صرف اُسکے باباجان اور امّی جان ہی کیا کرتے ہیں، وہ سوچ کر رہ گٸ۔
وہ سب لاٶنج میں بیٹھ گۓ
"کیسے ہیں سب؟" ابراہیم ہشاش بشاش سا سیڑھیاں پھلانگتا تیزی سے نیچے اترا۔سب کی نظر اس پر پڑی۔ سب سے سلام دعا کرنے کے بعد وہ اذان سے گلے ملا اور حال احوال پوچھا۔اذان کو حیرت ہوٸ اسے یہ امید نہیں تھی کہ عابی کا رویہ اس دن کے بعد سے اسکے ساتھ اچھا ہوگا لیکن وہ غلط تھا۔ابراہیم خوش دلی سے گلے ملا تو اس نے بھی تکلفات کو بالاۓ طاق رکھ کر باتیں کی۔
مومنہ بھی تیار ہوکر آٸیں تو وہ سب شاپنگ کے لیے نکلے۔اس نے زکریا کو پچھلے ایک ہفتے سے نہیں دیکھا تھا۔وہ غلط فہمی دور کرنا چاہتی تھی۔ابھی مل نہیں سکی تو اس نے بھی ساری سوچوں کو جھٹکتے ہوۓ گاڑی کی طرف قدم بڑھادیے۔ اذان کی گاڑی میں مومنہ اور حنا صاحبہ بیٹھیں۔جبکہ ابراہیم کی گاڑی میں زَہرہ اور صالحہ بیٹھیں۔وہ پورے رستے سوچوں کے سفر میں رہی لیکن صالحہ اور ابراہیم کی ٹر ٹر پورے راستے جاری رہی۔
---------------
"آپ یہاں کھڑے ہیں! شاپنگ کرلی آپ نے؟"اس نے حیرت سے پوچھا۔
زَہرہ اپنا ڈریس لے کر بوتیک سے باہر نکلی تھی۔وہ جو سوچوں میں گم کھڑا تھا اسے اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر یکدم چونکا۔
"نہیں۔آپ نے کرلی شاپنگ؟" اس نے الٹا اسے سے سوال کیا۔
"جی۔ انزلنا کے لیے ڈریس دیکھ رہے ہیں باقی سب پھر ابراہیم نے اپنا ڈریس لینا ہے اور۔۔۔اا آپ چلیں بھی چل کر اپنا ڈریس لیںورنہ امی جان مجھے ڈاٹیں گی کہ مہمان کا خیال نہیں رکھا۔" اسنے پوری بات بتاٸ۔پھر پرس کندھے پر ڈال کر آگے بڑھ گٸ۔وہ وہیں کھڑا سوچ رہا تھا پتہ نہیں اُسے انکے رشتے کی بات کا علم ہے بھی یا نہیں۔۔۔
"چلیں بھی۔" زَہرہ نے وہیں کھڑے دیکھ کر جھنجھلا کر پکارا۔
"آرہا ہوں۔" اسنے قدم بڑھاتے ہوۓ کہا تو وہ بھی اُس سے آگے آگے چلنے لگی۔وہ سخم کرکے مسکرادیا۔
"یہ بلیک کلر میں اچھا لگےگا۔" اسے دو سوٹ میں الجھا دیکھ کر زَہرہ نے کہا۔اسنے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا اور کرتا شلوار پیک کروانے چلاگیا۔
وہ شاپ سے باہر کھڑی ہوگٸ۔ وہ باہر آیا تو ابکی وفعہ وہ اس سے فاصلے پر آگے آگے چل رہا تھا اور زَہرہ اس سے فاصلے پر پیچھے پیچھے۔
"ایک بات بتاٸیں۔" اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ وہ شاپنگ کرتے وقت بہت چپ اور کسی بات پہ الجھی ہوٸ لگی تھی۔وہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن پھر خاموش ہی رہا۔
"بولیں" اس نے لمحے بھر کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھا۔وہ جو کچھ سوچتے ہوۓ اسے غیرمرمری نقطہ بناۓ دیکھ رہی تھی اُسے اپنی طرف دیکھتے پاکر وہ شرمندہ سی ہوگٸ۔وہ خاموشی سے چلنے لگا۔
"جس سے محبت کی جاۓ اُسے وضاحتیں دینا ضروری ہوتا ہے؟" زَہرہ نے اس سے قدم ملانے کی کوشش کرتے ہوۓ بہت آہستہ آواز میں پوچھا کہ اسکے علاوہ کوٸ اور سن نہ سکے۔وہ بہت زیادہ الجھی ہوٸ تھی۔چاہ کر بھی وہ یہ سوال کیے بغیر نہیں رہ سکی۔وہ ٹھٹکا لیکن پھر مسکرادیا۔
"انسان جس سے محبت کرتا ہے تو وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ سامنے والے کے دل میں اُسکے لیے کوٸ خلش باقی نہ رہے تو بس اس لیے۔۔۔" وہ چب ہوا پھر اسکی طرف دیکھا، نقاب کے باوجود واضح تھا کہ وہ جواب بغور سن رہی ہے اور ساری توجہ اسی بات پر ہے۔
"اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اُس سے خود بخود امیدیں وابستہ ہونے لگتی ہیں۔" اذان نے چلتے ہوۓ کسی غیرمرمری نقطے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ہاں۔۔۔شاید۔"
"آپکو جس سے محبت ہے اگر وہ وضاحتیں دینے کے بعد بھی ناراض رہے تو آپ کیا کریں گے؟" اس نے الجھتے ہوۓ ٹہر ٹہر کر اپنا سوال مکمل کیا وہ جیسے اسکا جواب سننا چاہ رہی تھی۔
"تو۔۔۔میں اسے منانے کی آخری حد تک کوشش کروں گا۔"اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"اور اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو؟" وہ سوال کرنے لگی۔
"تو میں اُ سے چھوڑ دوں گا۔" اذا نے لاپرواہ انداز میں کہا تو زَہرہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"لیکن وہ کوٸ عام شخص تو نہیں جسے چھوڑ دیا جاۓ۔" اس نے اذان کی توقع کے مطابق سوال کیا تو وہ مسکرایا۔
"اگر آپ اُسکے لیے خاص ہیں! ضروری ہیں تو اسکے لیے آپکی ایک دفعہ معافی مانگنا بھی بہت ہے۔"اذان نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ وہ کچھ لمحے خاموش رہی پھر بولی۔
"اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے۔" زَہرہ نے پوچھا۔اب وہ دونوں دوبارہ اسی بوتیک کے باہر تھے جہاں باقی سب تھے۔
"تو میں آپکو مناتا۔"اس نے مختصر کہا۔وہ اس ٹاپک کو اڈب مزید ڈسکس کرنا نہیں چاہتا تھا۔زَہرہ لمحے بھر کو چونکی،شاید وہ سوال نہیں سمجھا تھا اس نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ مجھے کیسے مناتے؟ اسکا سوال تو دوسرا تھا۔بہرحال وہ خاموش رہی۔
"کتنا مناتے؟ کتنی دفعہ معذرت کرتے آپ مجھ سے اپنی غلطی کی؟" اس نے الجھے ہوۓ انداز سے پوچھا۔وہ سوال پر ٹھٹھکا۔
"جتنی امید آپ مجھ سے لگاتیں اُس سے کہیں زیادہ" وہ مسکراتے ہوۓ بھرپور اعتماد کے ساتھ بولا۔ الجھی ہوٸ سوچوں کے ساتھ اس نے لمحے بھر اذان کو دیکھا۔پھر نظروں کا زاویہ بدلے وہ کچھ سوچنے لگی۔
"زَہرہ!" اسے کسی نے پکارا۔ بلکہ وہ اذان تھا اس نے پہلی دفعہ آج اسکے نام سے اسے پکارا تھا تو وہ لمحے بھر کے توقف میں اسکی آواز پہچان نہ سکی۔وہ خود بھی بہت ہمت جمع کرکے بولا تھا۔
"جس سے محبت کی جاۓ ناں! اسکے لیے اپنے دل کے کسی کونے میں ایک قبر بھی بنالینا چاہیے تاکہ وہاں اس شخص کی غلطیاں اس سے ملی تکلیفیوں کو دفنایا جاسکے۔تاکہ محبت میں کمی نہ آۓ۔" اذان نے کہا۔
"ضروری ہے کیا دل اس قبر کا ہونا؟" وہ بولی تو لہجے میں تکلیف تھی وہ پہچان گیا تھا لیکن اسکی وجہ سے وہ آگاہ نہیں تھا۔
"بالکل ضروری ہے! اگر چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں اور تکلیفوں کو اس قبر میں دفن نہ کیا جاۓ تو بدگمانیاں بڑھنے لگتی ہیں۔اور بدگمانی تو رشتوں میں موجود محبت کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔" وہ بہت ٹہرے لہجے میں اسے سمجھا کر چپ ہوا۔وہ تلخی سے مسکراٸ تو نقاب کے حصار میں موجود بادامی رنگ آنکھوں میں نمی اتر آٸ۔اذان نے اسے دیکھا اور اگلے لمحے وہ نظروں کا رخ بدل گیا۔
"حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول تو سُنا ہوگا آپ نے:
اگر کوٸ شخص تم سے ناراض ہے اور اُسے اِس بات کا غرور ہے کہ تم اُسے منالوگے تو اس کا یہ غرور کبھی ٹوٹنے مت دینا۔" وہ بتاکر چپ ہوا تو اس نے مسکراتے ہوۓ سر کو جنبش دی۔
"چلیں۔" اب شاید آنسو آنکھوں سے باہر آنے کے لیے بےتاب تھے کہ اس نے اذان سے صرف اتنا ہی کہا اور خود بوتیک میں جانے لگی۔
"زَہرہ!" اذان نے بہت ہمت جمع کرکے اسے دوبارہ پکارا۔وہ پلٹی
"بولیں؟" لہجے میں نمی تھی؟ یاشاید اذان نے محسوس کی وہ اندازہ نہیں لگا سکا۔
"آپ جانتی ہیں! ہمیں کسی بھی شخص کی محبت تکلیف نہیں دیتی۔ محبتوں میں وابستہ امیدیں ہی ہماری تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔" اذان نے دھیمے لہجے میں اسے آخری مرتبہ سمجھایا اور آگے بڑھ گیا۔
زَہرہ اپنی جگہ کھڑی مسکرا بھی نہ سکی۔
"شکر ہے کپڑے تو خرید لیے الحمداللہ۔ باقی کی شاپنگ اگلے دنوں میں کرلیں گے۔بچوں کی بھی کچھ شاپنگ رہتی ہے ابھی۔"مومنہ نے حنا سے کہا تو وہ چونکی پھر ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ابراہیم سب کے شاپنگ بیگز پکڑا اذان کو کال کرنے لگا۔اور صالحہ اسے اپنی شاپنگ اسٹوری بتانے لگی۔
-----------
گھر آکر اس نے عشا۶ کی نماز پڑھی اور سونے کے لیے لیٹ گٸ۔ آج بہت تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی۔وہ مزید کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔صالحہ بھی واپسی گھر جاچکی تھی تو زَہرہ نے اسکی تھکاوٹ کا سوچتے ہوۓ کل نہیں کی۔
-----------
"تمیز سے کھانا کھالو تم اوریہ بتیسی اندر رکھو زہر لگ رہے ہو۔" حذیفہ نے زکریا کو جھاڑ پلاٸ جو کہ بڑے پرسکون انداز میں بتیسی دکھا رہا تھا۔اور اڑ گیا تھا کہ بھوک نہیں ہے۔
"بہتبہت خدمتیں کروارہا ہے یہ ہم سے۔" ابراہیم نے منہ بسور کر کہا تو وہ ہنسا۔
"تو اس ٹُوٹے پُھوٹے انسان کو تم جیسے ہٹے کٹے جوانوں کی ہی ضرورت ہے۔" زکریا نے معصومیت سے کہا۔
"بلکل بھی شریف نہیں لگ رہا۔ اب چپ کرکے کھانا کھا ورنہ کھانے کے بجاۓ میرا دماغ گرم ہوجاۓ گا۔" حذیفہ نے کہتے ہوۓ گرم گرم سوپ کا چمچہ اسکے منہ میں ڈالا۔ اسکے ہاتھ کے زخم ٹھیک نہیں ہوۓ تھے اسلیے ان دونوں میں سے کوٸ کھانا کھلا رہا تھا۔باقیوں سے تو اس نے ابھی تک بات نہیں کی تھی۔
"جلدی کھالے پھر بینڈج بھی کرنی ہے۔" ابراہیم جو صوفے پر آڑھا ترچھا لیٹا تھا کہنے لگا۔
"ہوگٸ ساری شاپنگ؟" زکریا نے کھانے کے درمیان پوچھا۔
"نہیں ابھی کہاں! اھی تو بڑی ماما مجھے گھن چکر بنادیں گی مارکیٹ آنے جانے میں ہی۔" اس نے اپنا دکھ بتایا تو وہ دونوں ہنسے۔
"اب بُھگتو! سرپراٸز بھی تو تمہارا ہی ہے۔" زکریا نے اسے چڑاتے ہوۓ کہاتو اس نے زکریا کو گُھورا۔
"کل تمہارے پیر کی بینڈج کھل جاۓ گی۔پرسوں آسانی ہو تو چل لینا تمہاری بھی شاپنگ کرلیں گے۔" ابراہیم نے یاد دلایا۔
"یر مجھے ضرورت نہیں۔چاچو جو گفٹ میں لاۓ تھے ان ہی میں سے کوٸ پہن لوں گا۔" زکریا نے کہا۔ابراہیم اب لیپٹاپ چلانے میں مصروف تھا۔
"اور وہ مناہل کو بھی کہنا۔۔۔۔۔"حذیفہ نے ہنستے ہوۓ بےدھیانی میں کہا پھر اگلے لمحے احساس ہوا کہ کیا کہہ دیا ہے۔زکریا تو بلکل چپ ہوگیا تھا لیکن ابراہیم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا ضرور تھا۔
"سوری یار زکی وہ۔۔۔" حذیفہ ہچکچاتے ہوۓ کہنے لگا۔اسے خود بھی برا محسوس ہورہا تھا۔
"کم آن دفعہ کرو اس بات کو ۔کھانا کھلاٶ تم۔" زکریا نے خوش لہجے میں کہا۔وہ دونوں مزیدکچھ نہ کہہ سکے۔
"یوسف کی کال آرہی ہے۔" ابراہیم نے کہا اور لیپٹاپ اٹھاۓ اپنے کمرے میں چلاگیا۔
حذیفہ نے اسے کھانا کھلایا اور فوراً تیزی سے اٹھتا ہوا ابراہیم کے کمرے میں گیا۔
"عابی سوری یار۔۔۔"
"او بھاٸ زیادہ ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں،معلوم ہے غلطی سے کہ دیا تم نے۔"ابراہیم نے اسکی کمر پر مکہ جڑٹے ہوۓ کہا پھر دونوں ہنس دیے۔
"کب آرہے ہو تم لوگ؟" کال اٹینڈ کرتے ہی ابراہیم نے یوسف کو گھور کر کہا۔
"جلدی آجاٶ یار۔سارہ بھی بہت یاد کررہی ہے تم لوگوں کو۔" حذیفہ نے بھی اپنا حصہ لیا۔
"میری بھی سُن لو۔۔۔" یوسف نے چڑتے ہوۓ کہا۔
"ہاں سناٶ" ابراہیم نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"اِس سنڈے کو آرہے ہیں ہم تینوں۔ باقی مام ڈیڈ نکاح سے ایک دن پہلے آجاٸیں گے کام بہت زیادہ ہے ابھی اسلیے۔"وہ کہہ کر چپ ہوا۔
"چلو ٹھیک ہے پھر جلدی پہنچو شاپنگ وغیرہ بھی تو کرنا ہے تم لوگوں کو یہاں۔" حذیفہ نے کہا اور کچھ دیر باتوں کے بعد کال کٹ کردی۔
-----------
"یہ نکما شہزادہ ابھی تک سورہا ہے۔" معیز صاحب نے اسکے بیڈروم میں داخل ہوتے ہی کہا۔آج اتوار تھا وہ آج ہی اسلامآباد سے واپس آۓ تھے۔ معیز صاحب نے پردے ہٹاۓ تو سورج کی کرنیں منہ پر پڑتے ہی اسکی آنکھیں کھلیں۔
"بابا آپ! اسلام و علیکم۔ آٸیں بیٹھیں۔" وہبڑبڑاتے ہوۓ تھوڑا اٹھنے کی کوشش کرتے ہوۓ بولا تو انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے لیٹے رہنے کو کہا۔
"فجر کی نماز ادا کرلی تھی تم نے؟" انھوں نے صوفے پر بیٹھتے ہی پوچھا تو اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
"جی۔آپ کو کوٸ ضروری کام تھا؟" اس نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا
"ہاں بیٹا تم سے بات کرنا ہے۔" انھوں نے اسی دھیمے لہجے میں کہا۔ اور بیڈ پر اسکے سامنے آکر بیٹھے۔
چہرے پر ہلکی ہلکی جھریاں،داڑھی، لوار قمیص پہنے اور سنجیدہ لیکن پرسکون چہرہ۔
وہ اپنے بابا سے بہت مختلف تھا۔آج دل نے ان جیسا بننے کی خواہش کی تھی۔ ان کی سنجیدگی، ان کا دھیما لہجا،خاموشی میں ایک رعب،وقار، دھیمے اور پرسکون لہجے میں بات۔ وہ ہمیشہ سے انھیں بہت آبزرو کرتا آیا تھا۔آج ہفتہ دس دن بعد وہ انھیں دیکھ رہا تھا۔ہسپتال سے آنے کے بعد سے اس نے انھیں نہیں دیکھا تھا۔وہ مصروف تھے یا اس سے جان بوجھ کر نہیں مل رہے تھے وہ سمجھ نہ سکا۔ وہ کبھی بھی ان سے زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا، انکی شخصیت کا ایک رعب تھا جسکی وجہ سے وہ کبھی ان سے کچھ نہیں کہہ پاتا تھا۔ حالانکہ وہ غصے والے بلکل نہیں تھے۔ ایک رعب ہونے کے باوجود اسکی چاہ تھی کہ وہ ان سے پرسکون انداز میں کبھی بات کرسکے۔
"دیکھو زکریا تم میرے بیٹے ہو اور مجھے تمہاری خوشی بہت عزیز ہے۔" انھوں نے اپنے خاص نرم اور دھیمے لہجے میں مسکراتے ہوۓ کہا جو کہ اسکے بابا اور ماما کی ذات کا خاصا تھا۔
"زندگی میں ایسے بےشمار لوگ آتے ہیں جنہیں آپ اپنا کہتے ہیں، اور وہ بھی آپ کو اپنا کہتے ہیں لیکن اپنا کہہنے سے کوٸ اپنا نہیں ہوجاتا زکی۔بعض دفعی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن وہ اپنے پراۓ کی پہچان نہیں کرپاتے اور یہ سراسر غلط ہے۔۔۔تم سمجھ رہے ہوناں بیٹا؟!" انھوں نے اسے حیر بھری نظروں سے دیکھتے پاکر پوچھا۔
" جج جی" وہ اتنا ہی کہہ سکا۔اسے خوشی ہی اتنی تھی کہ آج اسکے بابا اس سے ایک دوست کی طرح باتیں کرنے بیٹھے تھے۔خاص اس کے لیے!
"ابھی یہ سب تمہارے لیے مشکل ہوگا لیکن اللہ پر بھروسہ رکھنا ہمیشہ! یہ سب یقیناً تمہاری بہتری کے لیے تھا" وہ بہت رسانیت سے سمجھا رہے تھے۔وہ سرجھکاۓ سن رہا تھا۔سب کچھ دوبارہ یاد کرکے اسکی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔
"بابا دُکھ تو بہت زیادہ ہے لیکن میں اپنی طرف سے پوری کوشش کررہا ہوں۔ انشا۶اللہ جلد ہی سنبھل جاٶں گا۔" کہتے کہتے وہ یکدم انکے گلے لگ گیا اور روتے ہوۓ کہنے لگا۔وہ مسکرادیے اور اسے تھپتھپانے لگے۔ تو وہ مزید رونے لگا۔دل کا غبار بہت اچھی طرح باہر نکل رہا تھا اور وہ یہی چاہتے تھے۔
"اچھا! ابب میری بات سنو زکریا۔" دس پندرہ منٹ روتے رہنے کے بعد معیز صاحب نے اسے خود سے الگ کرتے ہوۓ کہا۔اسکی نیلی آنکھیں ہلکی ہلکی سرخ ہوچکی تھیں۔ وہ چپ ہوکر خاموشی سے اپنے بابا کو دیکھنے لگا۔
"ہماری زندگی میں کچھ لوگ پیراساٸٹ (parasite) کی طرح ہوتے ہیں۔ سمجھتے ہوناں پیراساٸیٹ کو۔" ہہ مسکراتے ہوۓ دھیمے لہجے میں کہنے لگے تو اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
" پیراساٸٹ(parasite)کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے شکار (host) کے جسم سے اپنے لیے کارآمد مواد نکال لیتا ہے اور پھروہ اپنے ہوسٹ کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ہماری زندگی میں پیراساٸٹ بن کر آتے ہیں۔پہلے وہ ہمیں چاہ رکھتے ہیں۔ہمیں اہمیت دیتے ہیں اور پھر۔۔۔جب ان لوگوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ جب وہ ہماری ذات سے اپنے سارے فاٸدے حاصل کرلیتے ہیں تب وہ ہمیں اُسی پیراساٸٹ کی طرح چھوڑ جاتے ہیں۔ اس parasite کی طرح ان لوگوں کو بھی کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ اس انسان (ہوسٹ) کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ان لوگوں کا اپنا مفاد پورا ہوچجاتا ہے تو وہ یونہی چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔۔سمجھ آگٸ تمہیں میری بات زکی؟" انھوں نے سے سمجھانے کے بعد پوچھا تو اس نے سر کو دھیرے سے جنبش دی۔
"تو اب کوشش کرو جو کچھ ہوچکا ہے اسے سوچو نہیں۔اب وہ نہیں بدل سکتا، خود کو نارمل لاٸف کی طرف لانے کی کوشش کرو اور(وہ کچھ لمحے رُکے) اور تم تو اتنے ہینڈسم اور خوبصورت ہو! بہو ڈھونڈنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوگی ہمیں۔"انھوں نے دھیمے سے مسکراتے ہوۓ بات مکمل کی تو پہلے وہ چونکا پھر مسکرادیا اور گلے لگا۔
"زکریا"
"جی بابا۔" وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اپنے بابا کے گلے لگ کر بیٹھا تھا۔ناجانے کتنے عرصے بعد ایسا موقع آیا تھا اسے یاد بھی نہیں تھا۔ وہ اسکی حرکت پر بارہا مسکرا رہے تھے۔
"ابراہیم کے ولیمے کے دوسرے دن۔ رات کو گیارہ بجے تمہاری فلاٸٹ ہے۔ابراہیم اور انزلند بھی جاٸیں گے۔کچھ دن ریسٹ کرلینا پھر تم لوگوں نے ہی آفس سنبھالنا ہے۔احمد آسٹریلیا جارہا ہے، وہاں کچھ مساٸل درپیش ہیں۔ اور مجھے امید ہے تم اچھی طرح سب سنبھال لوگے۔" وہ اسے تفصیل سے بتانے لگے۔
"جی بابا۔ میں بھی اُکتا گیا ہوں بیڈ پر پڑے پڑے۔" وہ مسکراتے ہوۓ الگ ہوا اور کہنے لگا تو معیز صاحب کو تسلی ہوٸ۔
"بابا میری ایک شرط ہے۔" اس نے ہچکاتے ہوۓ کہا۔تو انھوں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"میں سب سے پہلے کی طرح رویہ نہیں رکھ سکتا لیکن میں کوشش ضرور کروں گا۔یو نو دِس از ناٹ دیٹ ایزی فار می۔" وہ ہپکچاتے ہوۓ بتانےلگا تو وہ بات سمجھتے ہوۓ مسکرادیے۔
"ایز یو وش ماۓ سن۔ بٹ ٹراۓ ٹو انڈرسٹینڈ وین سم ون گیوس یہ ایکسپلینیشن۔
(As you wish my son۔but Try to uderstand when someone gives you explanation)."
انھوں نے جانے کے لیے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔تو اسے غور قرنے پر سمجھ آیا کہ ابراہیم نے بابا کو اُسکی اور اذان کی لڑاٸ کا بھی بتادیا ہے۔اُس سے تو وہ بعد میں نمٹ لے گا۔،لیکن ابھی بابا ساتھ ہیں تو وہ یہیں توجہ دے۔
"بابا آٸ لو یو۔ تھینک یو فار ایوری تھینگ یو ہیو ڈن فار می۔" وہ تیزی سے کہتا ہوا کھٹنوں کے بل بیڈ پر کھڑا ہوا اور معیز صاحب کے گلے لگا۔وہ پوری گفتگو میں پہلی دفعہ ہنسے اور بہت زیادہ ہنسے۔ وہ ان سے الگ ہوکر الجھے ہوۓ انداز میں انھیں دیکھنے لگا۔
"آخر 23 سال بعد تمہیں اپنے بابا سے یہ کنا یاد آہی گیا! خیر خوش رہو میرے نکمے اور اپنی ماما کے شھزادے۔" انھوں نے کہتے ہوۓ اسکی کمر پر تھپکی دی تو وہ جھینپ گیا اور پھر دونوں ہنس دیے۔
"مجھے سن کر اچھا لگا تم نے نماز کی پابندی شروع کردی ہے۔بہت کامیاب ہوگے انشا۶اللہ۔" وہ مسکرا کر کہہ کر چلے گۓ اور اسے بہت تسلی ملی۔
-------------
"انزو یہ ڈریس دیکھو یہ اچھا لگے گا۔" زَہرہ نے ایک ایک کرکے اُسے نکاح کے لیے ڈریس دکھا رہی تھی۔اسکے کانوں پر جوں تک نہ رینگی تھی ڈھٹاٸ سے موباٸل چلا رہی تھی۔ثاقب بھی آج اسکے کمرے میں تھا اور بیڈ پر آڑھا ترچھا لیٹا تھا۔
"کوٸ سا بھی سیلیکٹ کرلو۔" وہ بےزاریت سے کہنے لگی۔
"کارٹون تو یہ تب تھی لگے گی۔" ثاقب نے جملہ مکمل کیا تو زَہرہ ہنسی۔ وہ دونوں صبح صبح بطورِ خاص اسکا دماغ خراب کرنے بیٹھے تھے۔اور وہ بمشکل غصہ ضبط کیے بیٹھی تھی۔
"اپنے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟ ہاں؟ سڑے ہوۓ ٹماٹر" انزلنا نے چڑ کر کہا تو وہ ہنسا جبکہ زَہرہ مسکرادی۔
"دفع ہوجاٶ تم میرے کمرے سے ورنہ قتل کردوں گی میں تمہارا۔ سن لیا تم نے!" انزلنا نے حلق کے بل چیختے ہوۓ کہا اور ساتھ رکھا بھاری بھرکم تکیہ اسکے منہ پر دے مارا۔ وہ یکدم اٹھا۔
"امّی امّی! میری کردن توڑ دی اس چڑیل نے۔" وہ تیز تیز آواز میں کہنے لگا تو زَہرہ ان دونوں کی جنگ دیکھ کر ہنسنے لگی۔
"اب چپل سے ماروں گی۔نکل جاٶ یہاں سے صبح صبح آگۓ دماغ خراب کرنے۔" انزلنا نے اٹھتے ہوۓ غصہ سے کہا تہ ثاقب نے دروازے کی طرف دوڑ لگاٸ۔
"ہاں ہاں جارہا ہوں! کوٸ ھیرے نہیں جڑے ہوۓ تمہارے بیڈ پر بڑی آٸ آگۓ میرا دماغ خراب کرنے۔ ہونہہ! دماغ ہے ہی کب تمہارے پاس۔" ثاقب نے اُسکی نقل کرتے ہوۓ خوب تپایا اور وہ غصہ برداشت کرتے کرتے لاوہ ہونے لگی تھی۔
""اچھا ناں ثاقب جاٶ اب بڑی بہن ہے یہ تمہاری ، چپ کرجاٶ اب تم" زَہرہ نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوۓ اسے تنبیہہ کی تو وہ فرمانبرداری سے دروازہ کھول کر جانے لگا۔
"جاہل۔" انزلنا تیز آواز میں ثاقب پہ چلاّٸ۔
"کیا کہا؟۔۔۔چڑیل۔" کہہ کر اس نے کرسی پر رکھا کشن اسکے منہ پہ دے مارا اور باہر بھاگا ، انزلنا پیچ و تاب کھا کر رہ گٸ۔
"تم ان ڈریسز میں سے کوٸ پسند کرلو تو بتادینا، صالحہ کی کال آرہی ہے میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں۔" زَہرہ نرمی سے کہتے ہوۓ کمرے سے باہر نکلی۔موباٸل اب بھی بج رہا تھا۔
"زَہرہ!" آواز پر وہ پلٹی۔اذان سامنے ہی کھڑا تھا۔ بلیک شرٹ جینز پہنے وہ فریش دکھ رہا تھا۔ وہ جاگنگ کے بعد باتھ لے کر آیاتھا۔
"بولیں۔" اس نے کال کاٹ دی
"ایک کپ کوفی مل سکتی ہے؟" اس نے ہچکچاتے ہوۓ کہا۔
"شیور۔میں بھجوادوں گی تھوڑی دیر میں آپکے کمرے میں۔" کہہ کر وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔اور صالحہ کو دوبارہ کال بیک کی۔ اور کچن میں کوفی تیار کرنے لگی۔
"آج صبح صبح یادکرلیا خیریت تو ہے؟" اس نے خوش لہجے میں پوچھا۔
"ہاں ایک دو دن سے بات نہیں ہوٸ تو یاد آرہی تھی۔" صالحہ نے کہا تو و مسکرادی۔
سب اپنے اپنے کمروں میں سورہے تھے تو زَہرہ نے اسپیکر آن کرکے ایک اسٹینڈ کے ساتھ ٹکا دیا۔ اور پرسکون انداز میں کپ میں کوفی کا پاٶڈر گھولنے لگی۔
"اور عنزو انابیہ کب تک پہنچ رہی ہیں؟ کتنے بجے کی فلاٸٹ ہے؟" وہ پچھنے لگی۔
"آج تین بجے ہے دوپہر میں۔" وہ بتانے لگی۔
"اور انزو کا موڈ کیسا ہے؟" اس نے ہنستے ہوۓ پوچھا۔
"بہت غصے میں ہیں آجکل۔ خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گی۔" زَہرہ پرسکون لہجے میں بتانے لگی۔
"اور تم کیا کررہی ہو؟ کھٹ بٹ کی آواز آرہی ہے۔" صالحہ نے تشویش والے انداز میں پوچھا۔
"اذان کے لیے کوفی بنا رہی ہوں۔" گُھلے ہوۓ کوفی پاٶڈر کو اس نے گرم ہوتے دودھ میں انڈیلتے ہوۓ بہت سرسری انداز میں کہا۔
دوسری طرف اذان سیڑھیاں اتر رہا تھا فون پر کسی سے بات کرتے ہوۓ سنا تو واپس جانے لگا کہ اچانک ایک آواز نے اسکی توجہ کھینچی۔
"اہیم اہیم! تو یہ اتنی صبح اذان صاحب کے لیے کوفی بناٸ جارہی ہے۔" صالحہ نے چھیڑنے والے انداز میں کہا تو وہ ہنسی۔ اذان بغور سننے لگا۔
"بکواس مت کرو صبح صبح، اذان کو کوفی کی طلب ہورہی تھی۔ میں جاگ رہی تھی تو مجھے کہہ دیا۔بس اب کوفی بھی تیار ہوچکی ہے۔پھر اپنے کمرے میں جاٶں گی اور۔۔۔" زَہرہ خوش لہجے میں تفصیل سے بتانے لگی پھرصالحہ کی ہنسی پہ رکی۔دوسری طرف وہ ناچاہتے ہوۓ بھی وہ مسکرادیا
"اچھا بس کرو یار زوہی۔ اتنی وضاحتیں مت دو اور۔۔۔)وہ کچھ لمحے رکی پھر دوبارہ کہا( اور میں نے کون ساکہہ دیا کو صبح صبح اپنے شوہر نامدر کے لیے کچن میں کوفی بنارہی ہو۔" صالحہ کی معصومانہ آواز اسپیکر پر اُبھری تو وہ اب کی دفعہ ہنس دیا اور جوابی کارواٸ کا انتظار کرنے لگا۔
"بکواس بند کرو تم اپنی ورنہ میں فون بند کردوں گی۔ دل تو چاہ رہا ہے یہ ساری کوفی تمہارے منہ پہ اُلٹ دوں بدتمیز!۔" زَہرہ کو انتہا کی شرمندگی محسوس ہوٸ اور صالحہ کو فون کے ساتھ ساتھ دل ہی دل میں سو صلواتیں بھی سناٸیں۔ دوسری جانب صالحہ کا جاندار قہقہہ اسپیکر پر ابھرا۔ اذان نے بھی بمشکل اپنی ہنسی کو قابو کیا۔
"اچھا اچھا! میں مزاق کررہی تھی زَہرہ۔" صالحہ نے ہنسی کو روکتے ہوۓ کہا۔
"ایسے مذاق نہیں کیا کرو تم بدتمیز۔" زَہرہ نے دھیمی آواز میں کہا تو وہ ہنس دی۔
"کیوں؟ تمہیں ڈر تھا کہ میرا مزاق حقیقت میں نہ بدل جاۓ۔" صالحہ نے جتاتے ہوۓ پوچھا۔ زَہرہ سمجھ گٸ وہ ٹھوس جواب مانگ رہی ہے۔
"مجھے کیوں ڈر ہوگا بھلا۔ بس جو میرے لیے ہے وہ میرے لیے ہے!" زَہرہ نے مسکراتے ہوۓ جتانےوالے انداز میں کہا تو صالحہ مسکراٸ۔ اذان بھی اسکی بات سن کر مسکراتا ہوا دوبارہ اپنے کمرے میں چلاگیا۔
کوفی کا کپ ٹرے میں رکھ کر اس نے اسکارف دوبارہ سیٹ کرکے موباٸل ہاتھ میں لیا اسپیکر آف کرکے فون کان سے لگایا اور کپ پکڑے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
"بہادر ہوتی جارہی ہے میری پیاری شیرنی۔" صالحہ نے پیار بھرے لہجے میں کہا تو وہ کچھ سوچ کر تلخی سے مسکرادی۔
"ہاں بہادر تو بننا پڑتا ہے صالحہ۔ورنہ لوگ جینا محال کردیں۔" زَہرہ نے کہا تو وہ کچھ لمحے خاموش رہی۔کچھ کہنے کو نہیں بچا ہی نہیں
"اچھا اب مامابلا رہی ہیں، میں عنزہ انابیہ رات کو آٸیں گے، تم آٸسکریم بنالو آج پلیز اوکے زوہی باۓ۔" وہ جلدی جلدی کہہ کر کال کاٹ دی تو زَہرہ مسکرادی۔
---------------
"اسلام علیکم تاٸ جان۔" عنزہ انابیہ نے چلاتے ہوۓ کہا اور سیدھا کلثوم کے گلے لگیں تو وہ سب ہنس دیے۔ وہ تینوں سب سے باری باری ملنے لگے۔
"ویلکم بیک۔" صالحہ نےعنزہ سے گرم جوشی سے گلے ملتے ہوۓ کہا تو وہ ہنس دی۔ انابیہ سارہ سے گلے ملنے لگی۔
"کیسے ہو یوسف؟ بھاٸ کیسا ہے میرا؟" نعمان صاحب نے گرم جوشی سے گلے ملتے ہوۓ پوچھا۔
"بالکل ٹھیک، مام ڈیڈ بھی ٹھیک ہیں۔" کلثوم نے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو اس نے بھی جواب دیا۔ پھر سب لوگ لاٶنج میں جانے لگے۔صالحہ وہیں کھڑی خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی۔وہ بھی اسکے قریب سے ہوتا ہوا جانے لگا۔
"تم سے بھی گلے ملنا ہے؟" یوسف نے بتیسی دکھانتے ہوۓ کہا۔
"نہایت ہی چھچھورا ڈاٸیلاگ مارا ہے۔" صالحہ نے دانت پیستے ہوۓ کہا اور اسکا قہقہہ بلند ہوا۔ وہ غصے سے جلتی بھنتی لاٶنج میں گٸ تو وہ بھی وہیں چلاگیا۔
-------------
"بڑی ماما، کوٸ دولہے سے اتنے کام کرواتا ہے کیا؟" ابراہیم نے صوفے پر ڈھہ جاتے ہوۓ دکھ سے کہا۔
"ہاں تو شادی تمہاری ہے تو کام بھی تم ہی کرواٶ۔" زکریا ے اسے تپانے کے لیے کہا۔وہ اور مومنہ ابھی ابھی شاپنگ سے واپس آۓ تھے۔ پوری شام شاپنگ میں گزر گٸ۔ابراہیم خلافِ توقع مسکرایا۔
"ویسے بڑی ماما۔ یہ زکریا کچھ زیادہ ہی بول رہا ہے۔" اس نے مومنہ سے کہا جو ان دونوں کے لیے جوس لے کر آرہی تھیں مسکرادیں۔
"میں تو کہہ رہا ہوں اس کی بھی شادی کروادیں۔" ابراہیم نے ہنستے ہوۓ کہا تو زکریا نے منہ بسورا۔
"تمہیں تمہاری شادی مبارک اور مجھے میری آزادی مبارک" زکریا نے خفگی سے کہا تو مومنہ اور ابراہیم دونوں ساتھ ہنسے۔
"زکریا کل شاپنگ پہ چلے جانا۔" مومنہ نے سنجیدگی اپناتے ہوۓ کہا۔
"ماما آج توبینڈج کھلی ہے اور ویسے بھی میں نہیں جارہا۔ چاچو جو ڈریسز لاۓ تھے ان میں سے پہن لوں گا کوٸ۔" وہ جھنجھلاۓ انداز میں کہا۔
"اچھا لیکن وہ تو کرتا شلوار ہیں اور تم تو وہ پہنتے ہی نہیں۔ عابی تو پھر بھی ہفتے می ایک آدھ دفعہ پہن لیتا ہے۔" وہ حیرت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔
"ہاں تو کوٸ بات نہیں اب پہن لوں گا۔ زندگی میں کچھ چینج ہونا بھی تو ضروری ہے۔" وہ کہہ کر خاموشی سے جوس کے گھونٹ بھرنے لگا۔مومنہ بھی کھانے کی تیاری کے لیے کچن میں چلی گٸیں۔
"زکی" ابراہیم نے اسے پکارا تو اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"تمہیں زَہرہ سے اُس لہجے میں بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔" ابراہیم خفگی سے کہتے ہوۓ زکریا کو اسکی غلطی یاد دلانا چاہی۔
"ہاں تو؟ اب تو کرلی ایسے بات" اس نے چڑ کر کہا تو ابراہیم نے اسے گھورا۔
"تو سوری نام کی بھی کوٸ چیز ہوتی ہے۔" ابراہیم نے جل کر کہا۔
"اچھا! کیا ہوتی ہے سوری؟ مجھے تو نہیں معلوم ایسی کوٸ چیز۔" زکریا نے انجان بن کر ہنستے ہوۓ کہا تو ابراہیم نے دکھ سے اسے دیکھا۔
"زَہرہ کی کوٸ غلطی نہیں ہے زکریا۔" ابراہیم نے جتا کر کہا۔
"تمہیں صفاٸیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" زکریا نے غصے سے کہا۔
"غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی وہ تم سے معذرت کرنا چاہ رہی تھی تاکہ کوٸ غلط فہمی نہ ہو۔" ابراہیم نے خفگی سے کہا۔
"اُسے خود کہنا چاہیے تھا۔" زکریا نے ناراضگی کی وجہ ظاہر کی۔ابراہیم چاہتے ہوۓ بھی مسکراہٹ نہیں چھپا سکا۔
"کیا ہے؟" زکریا سے مسکراہٹ دباتے دیکھ کر غصّے سے کہا۔
"زکریا۔۔۔" وہ تپانے لگا۔
"اپنی بکواس بند رکھنا ورنہ دانت توڑ دوں گا تمہارے۔" زکریا نے اُسے وارن کیا تو وہ ہنسا لیکن کچھ کہا نہیں۔زکریا خاموشی سے اُٹھ کر دھیرے دھیرے چلتا کچن میں چلاگیا۔
*******************Important Note: Episode 24 will be publish when this Episode gets 50 Votes and 20 Coments, We write and you people just read it and go without Even a vote and coment, So if you people wanna Read next chapter too soon so Do This. Otherwise wait for the next chapter when will it publish.
AM_WRITTER.