"امید" (قسط نمبر 17)

297 14 6
                                    

"انزو اٹھ جاٶ دن کا ایک بج گیا ہے" زَہرہ نے کمبل کھینچتے ہوۓ اسے آواز دی تو وہ ایک آواز میں ہی اُٹھ کر بیٹھ گٸ۔
"کیسی ہے اب ان دونوں کی طبیعت؟" انزلنا نے سلام کرنے کے بعد پوچھا
"ابراہیم کو ہوش نہیں آیا ابھی تک"زہرہ نے دھیمی آواز سے کہا۔
"تم ہسپتال جاٶگی صالحہ کے ساتھ؟"
"نہیں، شام تک معلوم ہوجاۓ گا کیسی طبیعت ہے۔تم دعا کرو اور کھانا کھالو آکر، رات کو بھی اتنی جلدی سوگٸ تھیں کہ کھانا بھی نہیں کھایا!" زَہرہ نے کہا
"تم چلو میں آرہی ہوں۔" انزلنا کہہ کر فریش ہونے چلی گٸ
               ----------------------------
"اسلام و علیکم ماما، کیسی ہیں آپ؟" مومنہ ہسپتال کمرے میں داخل ہوٸیں تو وہ نیم دراز تھا۔ انھیں دیکھتے ہی بیٹھتے ہوۓ مسکرایا۔
مومنہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔ سر پر پٹی بندھی ہوٸ تھی اور چہر پر زخم کے نشانات تھے جو ابھی تک تازے تھے البتہ انھیں دواٸ لگا کر صاف کردیا گیا تھا۔ایک ہی دن میں وہ بہت کمزور ہوگیا تھا۔ پوری رات اسے دواٸ دے کر سُلا دیا گیا تھا تاکہ سکون مل جاۓ، اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ دواٸ کے اثر سے باہر نکلا اور جاگا تھا۔کل شام سے آج دوپہر میں پہلا دفعہ کوٸ اُس سے ملنے آیا تھا ڈاکٹرز نے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور طبیعت بھی ناساز تھی اسلیے کسی نے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
"تم کیسے ہو؟ اور یہ سب؟ کیسے ہوا میری جان" مومنہ نے اس کےسر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ خود سے لگایا۔وہ رو رہی تھیں انھیں دیکھ کر وہ لمحے بھر کے لیے اداس ہوگیا تھا۔
"کچھ نہیں ہوا ماما،ایک گاڑی اچانک رانگ وے آگٸ تھی تو ابراہیم گاڑی کو کنٹرول نہیں کرسکا۔" اس نے بہت دھیمے لہجے میں وضاحت دی۔مومنہ نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ ابھی کچھ دیر وہ باتیں کررہے تھے کہ معیز صاحب بھی آگۓ
"اسلام و علیکم بابا"
"وعلیکم اسلام کیسی ہے اب طبیعت" انھوں نے اس کے باٸیں جانب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
"بہتر۔۔۔ابراہیم کہاں ہے؟ وہ کیسا ہے بابا؟" اچانک یاد آنے پر اس نے پوچھا۔ ابراہیم اس کے ساتھ وارڈ میں نہیں تھا تو پھر کہاں تھا؟ دل عجیب سی کیفیت کا شکار ہوگیا۔ اس کے سوال پر معیز صاحب خاموش رہے
"کیا ہوا بابا؟" اس نے بےچینی سے سوال کیا۔
"بیٹا اسے دعاٶں کی سخت ضرورت ہے، اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا، دعا کرو اسے اگلے چار گھنٹے میں ہوش آجاۓ" انھوں نے پریشان لہجے میں زمین پر نظریں جماۓ کہا۔
"جی بابا وہ انشا۶اللہ ضرور ٹھیک ہوجاۓ گا" زکریا نے معیز صاحب کو اور خود کو تسلی دی تھی۔
"اگر اسے ہوش نہ آیا تو۔۔۔" معیز صاحب نے ٹوٹے ہوۓ لہجے میں کہا۔ اگر زکریا ان کے دل کا ایک ٹکڑا تھا تو ابراہیم انکے دل کا دوسرا ٹکڑا تھا، مومنہ اور معیز صاحب کی زندگی تو انھیں دونوں پر ختم ہوجاتی تھی۔
"بابا ایسا نہیں کہیں پلیز۔وہ انشا۶اللہ ٹھیک ہوجاۓ گا، آپ نے چاچو کو بتادیا؟" اس نے انھیں تسلی دیتے ہوۓ بات پلٹ دی۔
”ہاں بیٹا میں نے کل رات کو ہی بتادیا تھا، ابھی اسی کی فلاٸٹ ہے لینے جارہا ہوں۔میں نے اسلم کو کھانے کا کہہ دیا ھے وہ کھانا لے کر پہنج جاۓ گا تم خیال رکھو اپنا“
وہ اس کے سر بر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسے دیکھے بغیر چلے گۓ۔ وہ جانتا تھا کہ آج بابا کتنے کمزور پڑچکے ہیں۔ آج انکی آنکھوں میں نمی تھی۔ اولاد کی تکلیفیں ماں باپ کو اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اب صرف ابراہیم کے لیے دعا تھی۔
                -------------------------
"اسلم چچا، آج کیا آپا نے کھانا غصے میں تیار کیا ہے؟" مومنہ کے ہاتھوں سے سوپ پیتے ہوۓ اس نے اسلم چچا کو مخاطب کیا تو وہ پریشان ہوکر اس کی بیڈ کے قریب احتراماً کھڑے ہوگۓ
"کیوں کیا ہوا زکی بیٹا؟ اچھا میں دوسرا بنوا لاتا ہوں۔" اسلم چچا کہہ کر جانے لگے
"ارے نہیں چچا، میں مذاق کررہا تھا مجھے لگ ہی نہیں رہا کہ میں پرہیزی کھانا کھا رہا ہوں۔" اس کی بات پر مومنہ اور اسلم چچا مسکراۓ تو وہ بھی ہنس دیا۔
"اللہ تمہیں ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے" اسلم چچا نے کہا تو انھوں نے اور مومنہ نے آمین کہا۔
" میں ابراہیم کو دیکھ کر آتا ہوں" کھانا کھالینے کے بعد وہ کمزور جسم کے ساتھ بیڈ سے اٹھنے لگا۔ اسلم چچا اسے سہارا دینےلگے۔ دکھی تو سب ہی تھے لیکن ایک دوسرے کا ہمت و حوصلہ بڑھانا بھی ضروری تھا۔
زکریا کے لیے اپنے بھاٸ کی تکلیف زیادہ تھی۔ مومنہ نی بھی اسے جانے سے روکا نہیں تھا۔آٸ-سی-یو کے باہر نرس یا ڈاکٹرز نہیں تھے اور ایک شخص کو ہی وہاں جانے کی اجازت تھی کیوں کو ابراہیم کی حالت بہت نازک تھی۔لیکن وہ پھر بھی خاموشی سے اندر چلاگیا۔
                -----------------------
"موصوف کیسی رہی آج کی شام؟آج تو رب کا بہت شکرادا کیا ہوگا تم نے!" اسامہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ چپس اور کوڈرنک کے ساتھ انصاف کرتے ہوۓ کہا۔
"ہاں اچھی۔" آذان کہتا ہوا الماری سے ناٸٹ سوٹ نکالنے لگا۔
"صرف اچھی؟ یہ کیوں نہیںں کہتے کہ دل کو تسکین مل گٸ" اسامہ نے اسے گھورتے ہوۓ کہا تو وہ ہنس دیا
"کیا سننا چاہتے ہو؟" اس نےپوچھا
"وہ ہی جو تمہارے دل کا حال ہے۔محوب تو سب کو ہی محبوب ہوتا ہے اور اس کی تعریفوں کے پل باندھنا ہ ایک کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔"اسامہ نے چپس کا پیکٹ بند کیا اور کولڈرنک کے سپ لیتے ہوۓ کہا،اذان اس کی بات پر ہنستا ہوا شاور لینے چلاگیا۔
"خیر تو ہے اُسامہ؟آج اتنے مشکل الفاظ تم کیسے بک رہے ہو؟کہیں سے بھی مغربی مرد نہیں لگ رہے بلکہ سترھویں صدی کے کوٸ شاعر لگ رہے ہو۔کینیڈا میں کوٸی مشرقی لڑکی پسند آگٸ ہے کیا؟" باتھروم سے وہ تیز آواز میں اسے چڑانے کے لیے کہنے لگا۔
"اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔"
اسامہ نے زوردار آواز میں کہا تو وہ ہنس دیا۔
"ویسے تمہارا دکھ تو میں سمجھ سکتا ہوں، بچپن کینیڈا میں گزارنے کے بعد اب تمہیں واپس آنا بہت زہر لگا تھا۔ ٹھیک کہا؟" آذان نے ہنستے ہوۓ مزے لے کر کہا۔
"ہاں،ویسے آذان تم بھی تو ایک سال کے لیے کینیڈا آۓ تھے لیکن تمہارے مشرقی انداز میں تبدیلی نہیں آٸی؟" اسامہ نے تجسس سے پوچھا۔
"ہاں صرف ایک سال کے لیے ہی آیا تھا۔ اگر ماما بابا کی وفات نہ ہوتی تو میں کینیڈا شاید کبھی اپنی خوشی سے نہیں جاتا اور تب بھی میں خوشی سے نہیں گیا تھا، تم نے کینیڈا کا بزنس سنبھالنے سے انکار کردیا تھا اسلیے مجھے وہاں آکر سب کام سمیٹنا پڑا، اور تم بھی تو صرف مہینے میں ایک دو چکر لگاتے تھے گھر پہ اور بس میسج اور کالز کے ذریعے ہی سب خبر لیتے تھے کبھی کبھی مجھے شک ہونے لگتا تھا کہ تم میرے سگے بھاٸ ہویا کمپنی کے کوٸ ایپلواۓ! اور ویسے بھی تمہارے کورسز وغیرہ جاری تھے، میری پڑھاٸ مکمل ہوچکی تھی پاکستان میں ہی لیکن صرف تمہارے نکمے پن کی وجہ سے ایک سال وہاں رہنا پڑا۔ اور دادو بھی ہر ایک دو دن میں فون کر رہی تھیں۔ ان کا اسلام آباد میں دل نہیں لگ رہا تھا انھیں اپنے آباٸ شہر کراچی آنا تھا تو میں اسلامآباد سے انھیں لے کر وہاب کے ساتھ ہی کراچی آگیا اسے اپنے ماموں کے پاس جانا تھا۔ اور تم تو بہت مہینے وہیں گزارنے کے بعد پاکستان آۓ تھے۔" اذان اب نہاکر آچکا تھا اور پوری تفصیل اسے بتارہا تھا لیکن مدعےکی بات نہیں کی تھی جو اُسامہ کا سوال تھا۔
"اچھا اچھا اب اتنی جلی کٹی نہیں سناٶ، اگر دادو کراچی شفٹ نہیں ہوتیں تو میں پاکستان واپس نہیں آتا، اور تم کون سا دن میں سو دفعہ کال کرتے تھے؟ تمہیں اپنے کاموں سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔" اسامہ نے بےزاریت سے کہا۔
"اچھا! اپنے ملک سے محبت کرنا سیکھو۔ چاہے دنیا کے دوسرے ملک کتنی ہی آسانیاں مہیا کردیں لیکن اپنے ملک کی سرزمین اور اس کا سکون الگ ہی ہوتا ہے۔ اور ماما بابا کو بھی اپنے ملک سے کتنی محبت تھی لیکن وہ بزنس کی وجہ سے دادو اور مجھ سے ملنے نہیں آتے تھے، اور آۓ بھی تو سرزمین کی خاک میں دفن ہونے کے لیے۔ اور مجھے تو اپنے ملک سے بہت محبت ہے! تم میں تو ناجانے کونسی روح ہے!" اذان نے بیڈ پر بیٹھ کر کمبل اوڑھتے ہوۓ کہا، ماما بابا کے بارے میں کہتے ہوۓ اسکی آواز بھر آٸ تھی لیکن پھر اس نے اپنی بات جاری رکھی تھی۔
"اچھا! ملک سے محبت ہے یا ملک میں
رہنے والی سے؟" اُسامہ نے اس کی سنجیدہ بات کو سمجھنے کے باوجود مزے لیتے ہوۓ کہا تو اذان حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
"استغفراللہ! اُسامہ دوسال بڑے ہو مجھ سے سدھر جاٶ تم اور یہ ہر دفعہ اس کا ذکر بیچ میں کہاں سے آجاتا ہے؟" اذان نے حیرت بھرے لہجے میں کہا
"اچھا! تو کیا تمہیں اس کی بات کرنا اچھا نہیں لگتا کیا؟ اور صرف دوسال بڑا ہوں تم سے اور کہتے ایسے ہو جیسے داد کی عمر کا ہوگیا ہوں۔" اُسامہ نے بات شاید دل پہ لے لی تھی۔ اس کی بات پہ اذان مسکرادیا اور پھر سنبھلتے ہوۓ کہا
"بکو مت اور اپنے کمرے میں جاٶ جاب پہ جانا ہے صبح تم نے رات کا ایک بج رہا ہے۔" آذان نے اسے یاد دہانی کرواٸ۔
"اچھا بھاٸ اب لیکچر نہیں دینے لگ جانا، ویسے بتاٶ تو کیسی رہی آجکی ملاقات؟" اسامہ نے دوبارہ وہ ہی بات شروع کی جس کے بعد ایک گھنٹے تک دونوں کی باتیں جاری تھیں۔اب کی دفعہ اسامہ نے گزارش کرتے ہوۓ کہا تھا۔
"تمہاری باتوں کی سوٸ اسی بات پہ اٹک
رہی ہے بار بار" اذان نے اکتاۓ ہوۓ لہجے میں کہا۔
"تم بتا ہی نہیں رہے اسلیے بار بار پوچھنا پڑ رہا ہے۔ میں اس سے خودہی جاکے پوچھ لوں گا۔" اسامہ نے اٹھ کر جاتے ہوۓ لاپرواہی سے کہا اس نے اذان کو جلا کر راکھ کرنے میں کوٸ کسر نہیں چھوڑی تھی۔
"خبردار! اگر تم اُس کے گھر گۓ یا غلطی سے بھی بات کرنے کی کوشش کی۔اپنی خیر چاہتے ہو پو یہاں رہو میرے ساتھ۔" آذاننے غصے سے تنبیہہ کرتے ہوۓ کہا تو اسامہ دروازے سے ٹیک لگاۓ کھڑا ہنسا تھا۔
"پورے 23 سال کے ہوچکے ہو تم پچھلے ماہ، اور ایک لڑکی سے ڈر رتے ہو! ڈرپوک کہیں کا"اسامہ نے معنی خیز مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی تو وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ گیا۔
"شریف ہو چکا ہوں اسکا یہ مطلب نہیں کہ چالاکیاں اور ہوشیاریاں سمجھ نہیں آتیں۔" اذان نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا تو اُسامہ ایک دفعہ پھر ہنس دیا۔ دونوں بھاٸی اشارے کی زبان اچھی طرح سمجھتے تھے۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے، میں سونے جارہا ہوں دادو سے کہوں گا کہ آپکا پوتا اب شریف ہوچکا ہے اس کا کوٸ بندوبست کریں ورنہ بگڑ جاۓ گا۔" اسامہ ہنستے ہوۓ کہہ کر جانے لگا تو آذان بھی ہنسا۔
"اب جواب بھی سن کر جاٶ، ایک سال کے لیے کینیڈا گیا تھا،مجھے نہیں معلوم تھا کہ اچانک جانا پڑے گا۔ اور دل ایک پر ہی ٹہر چکا تھا! تو میں نے پوری دنیا کا کیا کرنا تھا؟ اور آجکی شام خوبصورت ضرور تھی۔ بارش وہ اور میں لیکن احترام اپنی جگہ تھا! (کچھ لمحے کے لیے وہ خاموش ہوا اور دوبارہ کہنا شروع کیا) آج سے دو سال پہلے میں بہت مختلف تھا لیکن تم جانتے ہو ناں، محبت احترام کے بغیر ممکن نہیں ہے! اور اللہ تو سب جانتا ہے،تم دعا کرنا میرے لیے۔"
اپنی بات سکون سے مکمل کرکے وہ خاموش ہوگیا۔ اس کی بات پر اسامہ مسکرادیا۔
"ہاں میں ضرور دعا کروں گا،آج میری محنت وصول ہوگٸ ہے۔ ویسے تم سے اظہار کروانا بہت مشکل کام ہے!" اسامہ نے مسکراتے ہوۓ کہا
"اب جیسا بھی ہوں تمہارے سامنے ہوں۔" اذان نے آنکھ کا کونا دباتے ہوۓ کہا۔ پھر اسامہ شب بخیر کہتا سونےچلاگیا۔ آج وہ بھی پرسکون نیند سورہا تھا۔آج لیپ ٹاپ آن کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔کچھ خوبصورت لمحے اس کے پاس تھے۔۔۔
               ------------------------
"ابراہیم پلیز جلدی ٹھیک ہوجا بھاٸی، سب کچھ بہت برا لگ رہا ہے تیرے بغیر اور ماما بابا چاچو سب بہت دکھی ہیں۔ابراہیم۔۔۔" بہت دیر سے وہ اس کے پاس خاموش بیٹھا تھا۔ وہ سرگوشی کررہا تھا اب مزید بولا نہیں جارہا تھا آواز گھٹنے لگی تھی، سسکیاں بن رہی تھیں۔
ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ اس کے سر میں درد اٹھنے لگا تھا۔ تکلیف کی وجہ سے وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔اور پچھلے لمحے یاد کرنے لگا۔
"(کیا بات ہے بھٸ حذیفہ بتّیسی اںدر جانے کا نام ہی نہیں لے رہی؟)" دو آنسو اس کی آنکھ سے لڑھکتے ہوۓ گرے۔
"(نہیں مجھے یہ بلیک کلر کا سوٹ ہی لینا ہے۔۔۔تمہیں نہیں دلانا تو ٹھیک ہے میں اپنے پیسوں سے لے لوں گا۔۔۔)" اس ناراضگی زکریا کو یاد آٸ تو وہ نم آنکھوں سے یونہی مسکرادیا۔
"(زکی۔۔۔ہاں بولو۔۔۔تجھے معلوم ہے آج انزلنا نے میری تعریف کی۔۔۔اچھا کون انزلنا؟۔۔۔میری پڑوسن ہے!)" ابراہیم کتنی جلدی چڑجاتا تھا اور زکریا کو اسے چڑانے میں بہت مزہ آتا تھا۔
"عابی پلیز جلدی ٹھیک ہوجا بھاٸ۔۔۔" اب کی دفعہ ماضی کی یادوں سے نکل کر وہ حال میں واپس آیا تھا۔اب اور زیادہ رونا آرہا تھا،آنسو قابو نہیں ہورہے تھے۔ سب کچھ ایک دن میں بدل گیا تھا۔کچھ دن پہلے تک وہ بہت خوش تھا اور آج! ابراہیم زندگی اور موت کے بیچ کھڑا تھا۔ کرسی پر بیٹھا زکریا اس کے لیے دعاٸیں مانگنے لگا۔
بہت دیر دعاٸیں مانگنے اور رونے کے بعد اب وہ خاموشی سے دھیرے دھیرے ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔

 "امید"    Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin