"امید" (قسط نمبر 19)

290 12 4
                                    

"بیگم صاحبہ مہمان آگۓ ہیں۔" سکینہ نے اطلاع دی تو وہ لاٶنج میں چلی گٸیں۔
آج ہفتہ تھا۔خاص مہمانوں کی آمد کا سن کر مزمل صاحب بھی جلدی گھر آگۓ۔ وہ بھی فریش ہوکر حنا کے ہمراہ وہاں چلے گۓ۔پانچ سال بعد انکی اپنے دوست سے ملاقات ہونے والی تھی۔بیچ کے تمام عرصہ میں بہت کوششوں کے باوجود عادل اور سدرہ سے مزمل صاحب کی ملاقات نہیں ہوٸ تھی۔اور پھر وقت کا پہیہ بھی بہت تیزی سے گھومتا ہے۔آج ملاقات کا دن تھا۔مزمل صاحب اور حنا بیگم بہت خوش تھے۔جبکہ زَہرہ اور صالحہ اپنے کمرے میں اونگھ رہی تھیں،صالحہ اور وہ صبح سے اپنی گپ شپ اور کاموں میں مصروف تھی۔اب شام ہوچکی تھی۔سردیوں کی شام ہونے کے باعث موسم خوشگوار تھا اسلیے دونوں ہی سستانے لگی تھیں۔ جبکہ انزلنا اپنے کمرے میں بےہوش سوٸ پڑی تھی۔
"اسلام و علیکم خالہ۔" حنا گرم جوشی سے گلے ملیں۔
"اسلام و علیکم خالہ۔ کیسی ہیں آپ؟ عادل اور سدرہ نہیں آۓ؟" مزمل صاحب نے سلام کرتے ہوۓ پوچھا تو ناصرہ بیگم نے شفقت سے انکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ سب لوگ بیٹھ گۓ تو پھر ناصرہ نے ادھر ادھر بات کیے بغیر تین سال پہلے عادل اور سدرہ کے کار ایکسیڈینٹ میں انتقال کے بارے میں بتایا۔چہرے کی مسکراہٹ غاٸب ہوگٸ۔ وہ کچھ دیر ساکت بیٹھے رہے لیکن آنسو نہیں نکلے۔دکھ بہت تھا اپنے بہترین دوست سے اتنے سالوں بعد ملنے کی خوشی اور پھر یوں اچانک عادل اور سدرہ بھابھی کے انتقال کی خبر سن کر انھیں تکلیف پہنچی تھی۔ وہ ان لوگوں سے ہمدردی کے کچھ الفاظ بھی نہیں کہہ سکے۔حنا کے تو آنسو بہنے لگے تھے۔بہت دیر خاموشی رہی تو اذان اپنی جگہ سے اٹھ کر مزمل صاحب کے برابر بیٹھ گیا اور کندھے پہ ہاتھ رکھا، وہ انھیں تسلی دینا چاہتا تھا، اسکے اس عمل سے مزمل صاحب کی آنکھیں مزید بھیگ گٸیں۔ انھوں نے اذان کو گلے لگا لیا۔کچھ دیر کے لیے وہ ساکت ہوگیا۔آج بابا بہت یاد آۓ۔تین سال۔۔۔تین سال سے وہ کتنا یاد کرتا تھا، یہ بات تو ظاہر ہی تھی کہ وہ بابا سے بہت الگ رہا تھا۔وہ سب کینیڈا میں جبکہ اذان دادو کے ساتھ رہتا تھا پھر جب وہ ان سے ملنے کینیڈا گیا تھا تو عادل اور سدرہ کا اسلامآباد آنے کا ارادہ ہوگیا دادو سے ملنے کے لیے تھا تب وہ بابا سے آخری مرتبہ گلے ملا تھا اور تب عادل نے اسے بہت محبت سے گلے لگایا تھا جیسے آج مزمل صاحب نے۔۔۔ پھر دوسرے دن اسے اطلاع ملی تھی کو ان دونوں کا ایکسیڈینٹ ہوچکا ہےپھر سب بدل گیا تھا۔مزمل صاحب کا یوں محبت سے گلے لگانا اُسے بےحد اچھا لگا۔مزمل صاحب بہت دیر بعد نارمل انداز میں آۓ تو پھر اسامہ نے بھی گزرجانے والے دکھ کو بھلا کر ہنسی مذاق کرنا شروع کیا۔ہر تھوڑی دیر بعد وہ ایسی کوٸ نہ کوٸ بات کردیتا کہ سب ہنس جاتے۔حنا، ناصرہ سے سدرہ کی باتیں کرنے لگیں۔پھر کچھ دیر بعد کھانے کے لیے سکینہ کو جاکے کہہ دیا۔اور زَہرہ انزلنا اور صالحہ کو مہمانوں کے آمد کے بارے میں بتایا تو ہڑبڑاتی ہوٸ اٹھیں۔
ابھی وہ سب کسی بات پہ ہنسے تھے کہ کسی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔
"اسلام و علیکم" صالحہ زَہرہ اور انزلنا تینوں ایک ساتھ لاٶنج میں داخل ہوٸیں۔تو سب نے سلام کا جواب دیا۔اسامہ نے اذان کی طرف دیکھا تو عین ممکن تھا کہ اسکی ہنسی چھوٹ جاۓ۔ اذان پر تو حیرت کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔اتنی بڑی غداری کی تھی اُسامہ نے اس سے! بتایا بھی نہیں کہ جا کہاں رہے ہیں۔ اورا بھی وہ کتنے مزے سے بیٹھا زَہرہ کے بابا سے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ حیرت جب کم ہوٸ تو اس نے نظروں کا رُخ زَہرہ سے دوسری طرف کرلیا۔
صالحہ اور زہرہ ایک صوفے پہ بیٹھ گٸیں جبکہ انزلنا ناصرہ بیگم کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔کچھ ہی دیر میں کھانا لگ گیا۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر کے لیے وہ سب لاٶنج میں آگۓ، اسامہ نے اذان کو اکیلے بیٹھے دیکھا تو بغیر کی تاخیر کے اسکے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
"کیا ہوا اذان؟"
اس نے اذان کو زچ کرنا چاہا، بہت دیر سے بوریت ہورہی تھی تو مزے کے لیے صرف اذان کو غصہ دلانا ہی سب سے کارآمد طریقہ لگا۔
"کچھ نہیں۔" اس نے مختصر کہا اور موباٸل پہ ٹاٸپنگ کرنے لگا۔
"کیسا لگا سرپراٸز؟"
"بہت ہی بُرا۔"
"کیوں؟انتظار میں رہتا وہ ہی ٹھیک تھا ناشکرا۔۔۔"اسامہ اسکا جواب سن کر بڑبڑانے لگا
"تمھیں معلوم تھا ناں کہ ہم یہاں آرہی ہیں؟"اذان نے سوال کیا۔
"ہاں تو؟"
"تو یہ کہ مجھے بتانے کی زحمت کرلیتے تم،"اذان نے لفظوں پہ زور دیتے ہوۓ کہا
"ہاہاہا تو بتانے پر کونسا میدان ففتح کرلیتے تم؟آنے سے ہی انکار کردیتے،بڑا آیا مجھے سمجھانے والا،ہونہہ۔۔۔بس شکوے ہی ہوتے ہیں تمہارے پاس!"اسامہ بھی اسے غصہ دلانا چاہا رہا تھا۔۔"ہاں تو پہلی دفعہ بھی میں نے خود کو کیسے سنبھالا تھا۔۔۔اور آج تو ناجانے کیسے۔۔۔اور تم اپنا بڑا پن اپنے پاس ہی رکھو پانڈا۔" اذان نے اپنی بات کہہ کر آخر میں چنگاری چھوڑ دی تھی۔اور اسامہ کا دماغ گھوم گیا۔
"پانڈا کسے کہا؟ یہ کمزور سا جسم اور یہ چہرے کی زرد رنگت۔۔۔یہ تمہیں موٹا سا پانڈا دکھتا ہے؟اب دیکھنا تم میں بھی کیسے بدلا لیتا ہوں اس بات کا۔"اسامہ نے بھی اداکاری کی۔اذان کہ اسے اس نام سے پکارنے میں مزہ آتا تھا،اسامہ کو غصہ دلانے کے لیے اتنا بہت تھا کہ کوٸ اسے اسکے بھاٸ کے دیے ہوۓ لقب "پانڈا" کہہ کر پکار دے۔وہ وھیں کے وھیں ایک سیریس غصے والا پولیس آفیسر بن جاتا تھا۔وھ کھاتا پیتا بہت تھا البتہ یہ بات الگ تھی کہ وہ ہمیشہ دبلا پتلا دکھتا تھا۔
"ہاں ہاں دیکھ لیں گے، بڑا آیا میں بدلا لوں گا" اذان نے اسکی نقل کرتے ہوۓ کہا۔ابھی بھی ان دونوں کی باتونی جنگ جاری تھی کہ حنا کی آواز پہ دونوں چونکے۔
"بیٹے آبس میں باتیں کرتے رہوگے،باقی سب بھی یہیں بیٹھیں ہیں۔" انکی بات پر وہ دونوں ہنس دیے۔غصہ اپنا جگہ قاٸم تھا۔ دس منٹ گزرے تھے کہ ثاقب آگیا،وہ دوستوں کے ساتھ آٶٹنگ پہ تھا تو اس وقت واپسی ہوٸ تھی۔وہ ان دونوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔کچھ ہی دیر میں باتوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ثاقب فریش ہوکے آیا تو عشا۶ کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔اذان مزمل صاحب کے کہنے پر انکے ساتھ ہی چلاگیا جبکہ ثاقب اور اسامہ تھوڑی دیر بعد گۓ۔
نماز سے فارغ ہوکر اب سب بیٹھے تھے ساڑھے گیارہ ہورہے تھے۔تمام کاموں سے فارغ ہوکے اب سب سرد موسم کے مزے لے رہے تھے۔
صالحہ اور زہرہ سبکے لیے کوفی بناکے لاٸیں۔صالحہ ناصرہ بیگم اور انزلنا کے ساتھ بیٹھ گٸ جاکہ زَہرہ سبکو کوفی سرو کرنے لگی۔
"اچھا ایک بات تو بتاٸیں۔میں آپکو نانی کہوں یا دادی؟"انزلنا نے پرسوچ انداز میں پوچھا تو سب اسکی طرف متوجہ ہوگۓ
"نانی کہ لو، دادو تو مجھے اذان اور اسامہ بھی کہتے ہیں۔"ناصرہ بیگم نے کہا
"اوکے۔اب آپ میری دوست بن گٸ ہیں تو میں آپکو نانی کہوں گی ڈن؟"انزلنا نے پوچھا تو وہ مسکرادیں۔
آخر میں ان تینوں کی باری آٸ۔دونوں کو سرو کرنے کے بعد آخر میں اذان کی باری آٸ۔ زَہرہ نے کپ پرچ میں رکھ کر اسکی طرف بڑھایا اذان نے کپ لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔ابھی اس نے ٹھیک سے کپ پکڑا بھی نہیں تھا کہ اسکے برابر میں بیٹھے اسامہ نے اپنی کہنی سے اذان کی کہنی پہ مارا،کپ ہاتھ میں آتے آتے چھوٹ گیا۔۔۔ اور ساری کی ساری گرما گرم کوفی اذان کے داٸیں ہاتھ پہ گرگٸ۔سب لوگ زَہرہ اور اسکی طرف متوجہ ہوۓ۔مزمل صاحب نے ٹشو اذان کی طرف بڑھاۓ اور ثاقب کو اشارہ کرکے کہا تو وہ فرسٹ ایڈ بکس سے ٹیوب نکال لایا اور اسکے ہاتھ پہ لگاٸ۔اسے تکلیف محسوس ہوٸ تو سر اٹھا کر لمحے بھر کے لیے سامنے دیکھا۔زَہرہ بالکل اسکے سامنے کھڑی تھی،آنسو اسکی آنکھوں میں اُمڈ رہے تھے۔جل جانے کی تکلیف۔۔۔بہت خطرناک تکلیف ہوتی ہے۔وہ چاہ کر بھی نظریں نہیں ہٹا سکا۔۔۔
"آٸ ایم سوری!" وہ بس اتنا ہی کہہ سکی، اور وہ سواے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے اور کچھ نہ کرسکا۔۔۔پھر نظروں کا رخ بدلا تو اسامہ اسے چیلنج والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اذان نے اسے کھا جانےوالی نظروں سے گھورا۔ سردی میں مزید اضافہ ہونے لگا تو سب نے اپنے اپنے کمروں کی راہ لی۔
-----------
"زکی"ابراہیم کمرے میں داخل ہوا تو زکی بالکونی سے اندر کمرے میں آگیا۔عابی کرسی پہ بیٹھ گیا۔
"ہاں کیا ہوا؟" اتنی رات ت ک جاگ رہے ہو،دواٸ لے لی؟طبیعت ٹھیک نہیں ہے عابی تیری، مجھے بلا لیتا کسی کو کہہ کر۔۔۔"زکریا اپنا لیکچر کہنے لگا
"یار مجھے اسکی یاد آرہی ہے۔۔۔خونخوار بلّی۔۔۔"کہہ کر وہ تھوڑی دیر بعد مسکرایا۔
"تو ماما اور میں کل جارہے ہیں اسکے گھر،سب ٹھیک ہوجاۓ گا انشا۶اللہ"زکریا نے اسے تسلی دی تو وہ بھی پرسکون ہوگیا۔
"اچھا زکی، کل وہاں جاٶ تو ریڈ روز بُکے لے کر جانا" ابراہیم اسے تاکید کرنے لگا
"اچھا میں منگوالوں گا اسلم چچا سے کہلوا کر، اور کچھ کام ہے تو بتادو۔" زکریا نے اسے زچ کرنا چاہا
"نہیں اور کچھ نہیں۔" ابراہیم مسکرایا اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا۔
-------------------
دروازے پر دستک ہوٸ تو وہ جاۓ نماز اٹھا کر دروازہ کھولنے کے لیے اٹھا۔رب سے سرگوشیوں میں اتنا مگن تھا کہ دروازہ تیسری دفعہ دروازے کے کھٹکھٹانے پر وہ جلدی سے دروازہ کھولا۔
زَہرہ سامنے کھڑی تھی۔آسمانی رنگ کا شلوار قمیض اورچہرے کے گرد دوپٹہ باندھے وہ کھڑی تھی۔اسکے لیے نظروں کا رخ بدلنا مشکل ہوگیا۔پھر زَہرہ نے کہنا شروع کیا۔
"سوری میں نے اتنی رات کو ڈسٹرب کیا۔"زَہرہ نے اسکی نظروں کو محسوس کیا تو فوراً کہا۔اذان نے کمرے میں گھڑی کی جانب دیکھا تو ساڑھے تین ہورہے تھے،اسکا اس وقت جاگنا تو معمول تھا لیکن وہ ابھی تک کیوں جاگ رہی تھی۔ اور یہاں کھڑی کیا کررہی تھی، وہ سوچتے ہوۓ الجھ گیا
"وہ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ کپ معلوم نہیں کیسے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔۔۔آٸ ایم سوری۔۔۔آپکو زیادو تکلیف تو نہیں ہوٸ؟" وہ شرمندہ سی پوچھنے لگی۔اذان نے ابتک کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ آج دوسری دفعہ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے موجود تھے۔
"نہیں،ٹھیک ہوں۔" وہ اتنا ہی کہہ سکا دونوں ہی نظروں ادھر اُدھر کیے بات کررہے تھے۔
"میں کوفی بنا کے لاٸ ہوں،آپ اس وقت نہیں پی سکے تھے تو میں نے ابھی بنادی۔۔کمرے کی لاٸٹس آن تھیں تو مجھے لگا آپ جاگ رہے ہیں بس اسی لیے۔۔۔" زَہرہ نے وضاحت دیتے ہوۓ ٹرے آگے بڑھاٸ۔
"شکریہ"اذان نے مختصر کہا اور ٹرے تھامی۔
"یہ دواٸ ہے ہاتھ پہ لگا لیے گا۔زیادہ تکلیف نہیں ہوگی۔"زَہرہ نے ٹیوب کی طرف اشارہ کیا۔لمحے بھر کے لیے اذان کا دل تھم گیا! وہ صرف ہاتھ کے جلنے پر اتنا خیال کر رہی تھی،وہ مسکراہٹ کو خاموشی سے چھپاگیا۔وہ چلی گٸ تو اس نے بھی دروازہ بند کردیا۔
"گنہگار کو بھی سنا جاتا ہے۔۔۔" اس نے باہر لان کو دیکھا،پھر کوفی پی کر فجر کا انتظار کرنے لگا۔
------------
صبح کے 9 بج رہے تھے جب ڈور بیل بجی،زَہرہ لان میں ہی تھی تو دروازہ کھول دیا۔سامنے ہی مومنہ صاحبہ معیز اور احمد صاحب اور زکریا کھڑے تھے۔اس نے تینوں کو سلام کیا۔مومنہ اس سے گلے ملیں۔
"زوہی آپکی امی کہاں ہی؟" مومنہ نے پوچھا
"وہ ناشتہ پہ آپ سب کا ہی انتظار کررہے ہیں امی جان اور بابا۔" اس نے تفصیلاً بتایا تو مومنہ صاحبہ معیز اور احمد صاحب اندر کی جانب بڑھ گۓ۔
"زوہی"زکریا نے اسے پکارا اور اسکے سامنے آکھڑا ہوا، زَہرہ کی نظر بُکے پر پڑی وہ بہت خوبصورت گلابوں سے بنا تھا،تازو اور شفاف پھول۔
ایک امید تھی۔۔۔کہ شاید زکریا یہ بُکے اسکے لیے لایا ہو!وہ اسے دیکھتے ہوۓ بتانے لگا۔
"یار یہ انزلنا کے لیے بھجواۓ ہیں عابی نے۔ میں نے نام نہیں لکھوایا کارڈ پہ، تم اسے بتانا نہیں کہ عابی نے مھجواۓ ہیں اوکے؟"زکریا بتارہا تھا، زَہرہ کی امید ٹوٹی تھی! اس نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ زکریا کبھی اسے تحفہ دے گا!وہ محض اپنی امیدوں کا گلہ گھونٹ رہی تھی۔۔۔پچھلے تین سال سے۔۔۔اور اب یہ معمولی سی بات تھی۔اس نے اپنے آنسو بخوبی چھپا لیے۔
"تم ٹینشن نہیں لو میں نہیں بتاٶں گی۔" اس نے بمشکل مسکراتے ہوۓ کہا۔
"اچھا۔ایک سیکریٹ ہے لیکن وہ انزلنا کے لیے سیکریٹ ہے باقی سب کو تو معلوم ہے۔" وہ بہت ایکساٸٹیڈ ہوکر بتانے لگا۔زَہرہ کو اسکے انداز پہ ہنسی آٸ۔
"اچھا تو کیا سیکریٹ ہے؟۔" اس نے جیسے سرگوشی کی
"ماما عابی کے لیے انزلنا کی بات کرنے آٸ ہیں۔" اس نے بھی سرگوشی کرتے ہوۓ کہا۔
"ک ک کیا؟" زَہرہ نے تقریباً چیختے ہوۓ ہی کہا
"ہاں گھر میں سبکو معلوم ہے اور میں نے حوذی اور انکل آنٹی کو بھی بتادیا ہے،صالحہ تمہارے ساتھ تھی تو اسے نہیں معلوم باقی تمہیں تو میں نے بتا ہی دیا ہے اور ہم سب خاص طور پہ اسی لیے آۓ ہیں، تم پرامس کرو انزلنا کو نہیں بتاٶگی؟" زکریا نے تفصیلات بتاتے ہوۓ پوچھا
"پرامس! نہیں بتاٶں گی کسی کو"اس نے کہا تو وہ بھی مسکرادیا۔
"صرف دو ہفتے رہتے ہیں سب کچھ کتنا بدل جاۓ گا۔مناہل نے مجھے نیکسٹ سنڈے کو بلایا ہے کوٸ ضروری بات کرنی ہے اسے۔" وہ دونوں ڈاٸننگ روم میں جانے لگے تو اس نے بتایا، وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔
ناشتے کی ٹیبل پہ سارے بڑے بیٹھے کھانے اور باتوں میں مصروف تھے۔ صرف وہ دو ہی وہاں بیٹھے تھے۔باقی انزلنا صالحہ اور باقی مہمان بھی سورہے تھے۔حنا نے خود ہے اس ٹاٸم کا کہا تھا۔ تاکہ ملاقات پرسکون طریقے سے ہوجاۓ ورنہ دوسرے اوقات میں اتنی آسانی سے بات نہیں ہوپاتی۔مومنہ نے جب ابراہیم کے لیے انزلنا کا ہاتھ مانگا تو وہ تو حیرت میں ڈوب گٸیں، حنا کو بےحد خوشی ہوٸ۔مزمل صاحب بھی بہت خوش ہوۓ، چونکہ ابراہیم زکریا کا کزن بھاٸ رھا تو انھوں نے جانچ پڑتال کرنا ضروری نہیں سمجھی۔ اور احمد صاحب سے بزنس کے متعلق ایک دو دفعہ اسلامآباد میں ملاقات بھی ہوچکی تھی،اور ان دونوں کافی اچھی دوستی بھی ہوچکی تھی۔اور اتفاق یہ تھا کہ ابراہیم احمد صاحب کا بیٹا ہے یہ سن کر ہی انھیں تسلی ہوگٸ تھی۔زَہرہ نے ڈھکے چھپے لفظ میں حنا کو انزو کے بارے میں بتادیا تھا تو اس فیصلے میں زیادو آسانی ہوٸ۔ مزمل صاحب نے ہاں کردی تو مومنہ بھی بہت خوش ہوٸیں۔ احمد صاحب مزمل صاحب سے گلے ملے پھر معیز صاحب سے بھی۔البتہ شرط یہ رکھی گٸ کہ انزلنا کو اس بات کی قطعی بھنک نہیں لگنی چاہیے کہ وہ ابراہیم ہی ہے جسکے لیے ہامی بھری گٸ ہے۔مزمل صاحب نے شرط مان لی۔اور بھر کچھ عرصے بعد اہم فیصلے کے لیے بات کی گٸ۔ناشتہ کرکے وہ سب لان میں آگۓ موسم سرما کے دن تھا تو صبح کا موسم بہت خوشگوار تھا۔
مومنہ نے زکریا کی شادی کا کارڈ حنا کو دیا تو زَہرہ کی مسکراہٹ سمٹی اور اسے دیکھ کر حنا بھی یکدم چپ سی ہوگٸیں، وہ جانتی تھیں زَہرہ کسی تکلیف میں ہے،البتہ دونوں نے ہی مومنہ کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔زَہرہ ایکسکیوز کرتے اٹھ گٸ۔ اندرلاٶنج میں گٸ تو ایک سسکی ابھری،اس نے آنسو صاف کیے اور جیسے ہی بے دھیانی میں سامنے نظریں گٸیں، وہاں اذان کھڑا تھا! زَہرہ اسے دیکھ کر ٹھٹھکی،وہ ہشاش بشاش تیار کھڑا تھا، شاید کہیں جارہا تھا۔وہ سیڑھیاں اترتا نیچے آیا اور اس سے کٸ فاصلے پہ کھڑا ہوگیا۔وہ صرف اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ اسے یوں روتا دیکھ کر الجھ گیا۔کیا ہوا ہے اسے؟ یہ ایسے کیوں رو رہی ہے؟ کس کی اتنی مجال کہ وہ زَہرہ کو رُلاۓ؟ اذان کا تو لمحے بھر میں دماغ گھوم گیا۔
"آپ ٹھیک تو ہیں؟!" اذان نے پوچھا۔ وہ سر اثبات میں ہلا کر خاموشی سے اوپر اپنے کمرے میں چلی گٸ۔
اذان باہر گیا تو لان میں زکریا اور باقی سبکو دیکھ کر رک گیا وہاں جا کے سلام کیا زکریا کو اسے وہاں دیکھ کر حیرت ہوٸ پھر کچھ منٹ زکریا کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اسے یہاں ہونے کی وجہ بتاٸ تھوڑی بات چیت ہوٸ پھر ہو کہہ کر کہ اسے ایک ارجنٹ کام ہے وہ
چلاگیا۔
---------------
صالحہ کی آنکھ کھلی وجہ یہ کہ کسی کی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز اسسکے کانوں سے ٹکراٸی۔صالحہ فوراً اٹھی اور بیڈ کراٶن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ، آنکھیں مسل کر نیند دور کرتے ہوۓ اس نے دیکھا زَہرہ اب پانی پی رہی تھی،
"کیا ہوا زوہی؟"
"کچھ نہیں!"
"مت دیا کرو خود کو اتنی تکلیف زوہی!اللہ تعالٰی تمہارے لیے بہتر فیصلہ کرے گا۔تم امید کا دامن نہیں چھوڑنا۔" وہ اس کے پاس جاکر کھڑی ہوٸ اور گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
"ہاں ایک یہ امید ہی تو ہوتی ہے۔۔۔جو جینے کا سہارا بنتی ہے۔۔۔خزاں کے بعد بہار ضرور آۓ گی ہم امید ہی رو لگاتے ہیں۔۔۔رات کے اندھیروں کے بعد دن کا اجالا ہماری آنکھوں کو سکون بخشے گا ہماری روح کو تازگی ملے گی ہم امید ہی لگاتے ہیں۔۔۔سب ختم بھی ہوجاۓ تو ایک یہ امید ہی تو ہوتی ہے جو سمندر کے لہروں میں لکڑی کے تختے پر جھولتے وجود کو یہ دلاسہ دیتی ہیں کو امید رکھو! امید رکھو! اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔" زَہرہ ٹہر ٹہر کر کہنے لگی۔وہ مضبوط ضرور تھی لیکن وہ آج تھک گٸ تھی بہت۔۔۔بہت۔۔۔بہت زیادہ
"زوہی میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ اسے سب سچ بتادو لیکن تم نے۔۔۔" صالحہ کہنے لگی لیکن زَہرہ نے بیچ میں سے ہی بات کاٹ دی۔
"میں نہیں چاہتی کہ وہ میری طرف سے بدظن ہوجاۓ" اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
"تو تمہیں منظور تھا ایک بشر کے لیے رونا گڑگڑانا؟ وہ جان بوجھ کر ایسے الفاظ کہہ رہی تھی۔
"ہاں! تب مجھے لگتا تھا ایسا کرنا ٹھیک ہے۔مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے نہیں ملے گا تو میں مر جاٶں گی۔لیکن صالحہ حقیقت تو صرف اتنی سی ہے کہ۔۔۔زندگی کبھی یہ شرط نہیں رکھتی کہ میں فلاں شخص کے بغیر اچھی نہیں گزروں گی۔! وہ وقت بھی جاچکا ہے جب میں کمزور تھی۔اب اللہ نے مجھے مضبوط کردیا ہے،اب بڑی سے بڑی تکلیف بھی سکون سے سہہ لی جاتی ہے۔"زَہرہ نے کہا اور آنکھیں موند کر بیٹھ گٸ۔
"زوہی۔۔۔" صالحہ کو بہت تکلیف پہنچی تھی، زَہرہ کی کیفیت وہ سمجھ سکتی تھی۔
"میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ اور وہ مجھے مزید ٹوٹنے نہیں دے گا۔"
"اور اگر پہنچاۓ تجھے اللہ تعالٰی کوٸ تکلیف تو نہیں کوٸ دور کرنے والا بجز اس کے،اور اگر ارادہ فرماۓ تیرے لیے کسی بھلاٸ کاتو کوٸ رد کرنے والا نہیں اس کے فضل کو،سرفراز فرماتا ہے اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں سے، اور وہی بہت مغفرت فرمانے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔"
(سورة التوبہ آیت نمبر ١٠٧)
زَہرہ اسے پڑھ کر سنانے لگی،صالحہ رونے لگی تھی، زَہرہ پرسکون بیٹھی تھی۔
"اللہ کے فیصلوں پر سر خم کیا جاتا ہے۔اللہ تعالٰی سے ضد نہیں لگاتے۔۔۔" زَہرہ اسے کہتے ہوۓ جیسے تسلی دے رہی تھی کہ وہ بلکل ٹھیک ہے۔وہ ٹھیک تھی، لیکن دل میں تکلیف کا ایک احساس تھا،اگر حقیقت زکریا کے سامنے آگٸ تو اسکے لیے خود کو سنبھالنا مشکل ہوجاۓ گا۔
"میں زکریا کو سب سچ بتادوں گی چاہے تم کتنا ہی انکار کرو آگٸ سمجھ تمہارے زوہی!" صالحہ نے آنکھوں کو رگڑتے ہوۓ اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوٸ اور کہا کچھ لمحے زَہرہ خاموش رہی پھر کہنا شروع کیا۔
"کیا تمہیں نہیں معلوم! کہ جب بات مناہل کی ہو تو وہ کسی کی نہیں سنتا۔۔۔ اور وہ مناہل کو اتنا چاہے بھی کیوں نہیں؟وہ خوبصورت ہے مارڈرن ہے نۓ زمانے کے ساتھ چلتی ہے۔اسکے ناز و نقش اتنے اچھے ہیں۔اور مجھے خاموش رہنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے کہ زکریا اس سے محبت کرتا ہے!۔۔۔" اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور مناہل کی خوبیوں گنواتے ہوۓ آخر میں اپنی بات کہتے ہوۓ آواز تھوڑی لڑکھڑاگٸ تھی تو وہ مزید کچھ نہ کہہ سکی صالحہ محض اسے دیکھتی رہ گٸ۔وہ جانتی تھی کہ زَہرہ کبھی اس بات کو ایکسیپٹ نہیں کرے گی کو وہ اتنی خوبصورت ہے کہ اس کی سادگی ہی مقابل کو مبہوت کردینے کے لیے بہت ہے!
" زَہرہ سب سے الگ ہے۔وہ دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ہے جنہیں سیروتفریح، ہلا گلا،موسیقی پسند ہو۔۔۔وہ ان سب چیزوں سے دُور رہتی ہے۔۔۔وہ زَہرہ ہے وہ اپنے اللہ سے قریب رہتی ہے!وہ کوشش کرتی ہے وہ اللہ سے وہ نہ مانگے جو اسکے لیے بہتر نہیں ہے بلکہ وہ اسے قبول کرلیتی ہے جو اسکے ربّ کا فیصلہ ہو۔وہ اپنے ربّ سے محبت میں مخلص ہے۔ وہ جانتی ہے کہایک بشر کے لیے مزید نہیں رونا! اسے جسکے لیے بنادیا گیا ہے وہ اسی کے لیے ہے۔اسے راتوں کو ایک نامحرم کو مانگنے کے لیے رونا نہیں ہے وہ جانتی تھی اور شکرادا کرتی تھی اں تمام لوگوں کے لیے جو اسکے ساتھ مخلص ہیں اسکے والدین بہن بھاٸ اسکی دوست اور وہ لوگ جو اس سے قریب رہتے ہیں۔
کیا ہوا اگر ایک شخص نہیں ملا تو؟ کیا ہوا گر زکریا کی محبت اس کے لیے نہیں ہے تو؟ کیا اسکے لیے اتنا کافی نہیں تھا کہ ایک اللہ ہے! جو مسلسل اس کے پاس رہتا ہے۔وہ جانتا ہے وہ پچھلے سالوں میں جس تکلیف سے گزری ہے۔۔۔وہ جانتا ہے۔ہاں بس ایک اللہ ہی تو ہے! جو سینوں میں چھپے بھیدوں سے واقف ہے!۔" زَہرہ سوچتے ہوۓ رونے لگی تھی۔
ہاں وہ ہی تو میرا ربّ ہی
جو سن لیتا ہے باتوں کو بھی
جو سن لیتا ہے آہوں کو بھی
وہ جو واقف رہتا ہے ہر حال سے میرے
وہ چن لیتا ہے میرے آنسوٶں کو بھی
تو یہ نہ سمجھ کو اکیلی ہوں میں!
وہ رہتا ہے پاس میرے تنہاٸیوں میں بھی
ہاں وہ ہی تو میرا رب ہے
جب لڑکھڑاٶں تو سنبھال لیتا ہے مجھے
ج بکرھ جاٶں تو سمیٹ لیتا ہے مجھے
گر ہوں تکلیف میں تو کیا ہوا؟
وہ پہنچاتا ہے راحت مجھے بھی
جب ڈوبنے لگوں دکھوں کے دلدل میں
بچالیتا ہے مجھے میرے رب کا سہارا ہی
ہاں وہ ہی تو میرا ربّ ہے
جو سن لیتا ہے خاموشیوں کو بھی۔
(ایمن انیس)
"زَہرہ۔۔۔" صالحہ نے اسے پکارا لیکن وہ خاموش رہی
"زَہرہ میری بہن آج تو کہہ دو وہ سب جس نے تمہیں تکلیف میں رکھا" صالحہ تھک کر بیڈ کے ایک کنارے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گٸ۔
زَہرہ بھی کرسی سےاٹھ کر اسکے سامنے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھگٸ۔
"صالحہ۔۔۔و و وہ زکریا،مناہل اسے ڈیزرو نہیں کرتی،مناہل اسکے قابل نہیں ہے و وہ دھوکہ دے رہی ہے اسے،اسکے لیے حقیقت کو قبول کرنا مشکل ہوجاۓ گا۔ کاش! (اس نے اپنی حسرت بھری نگاہوں سے اوپر کی جانب دیکھا اور کہا) کاش کو اسے حقیقت معلوم نہ ہو! کبھی کبھی خوش فہمیوں میں جینا زیادہ اچھا ہوتا ہے بجز اسکے کہ انسان حقیقت کا بدصورت چہرہ دیکھے" وہ کہہ کر خاموش ہوٸ تو صالحہ سے گلے لگ کر رونے لگی، اور شاید اللہ تعالٰی کو زَہرہ کا یوں کاش کہنا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
-------------
(ماضی کا ایک اہم حصّہ)
وہ تھک چکی تھی۔ہر روز راتوں کو گڑکڑاتی پورا دن ہنستے مسکراتے گزارتی تو رات ہوتے ہی وہ چہرے پر سے ہیپی پَرسن کا مسک اتار دیا کرتی۔۔۔اس نے اپنی ہر خوشی صرف زکریا سے جوڑ لی تھی۔اسکی منگنی سے ایک دن پہلے جب وہ ملے اور جب سے ابتک۔۔۔چھ مہینے کا عرصہ زَہرہنے کس تکلیف میں گزارا تھا تو یہ زَہرہ اور اسکا ربّ ہی جانتے تھے۔وہ کسی کو اس بات کا احسااس نہیں ہونے دیتی کو وہ کس آزماٸش میں ہے۔حنا اور صالحہ اسے دیکھ دیکھ کر ہی خاموش ہوجاتیں۔
آج وہ صبح صبح فجر کی نماز ادا کرکے لان میں آگٸ۔حنا قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔وہ خاموشی سے بیٹھ گٸ بہت زیادہ رونے کے سبب آنکھیں تکلیف کررہی تھیں،انھوں نے قرآن پاک بند کیا تو وہ حنا کی گود میں سر رکھ کر بیٹھ گٸ۔
"امی جان، میرا دل بہت بھاری ہورہا ہے،رات کو بھی قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی تب ہی نیند آٸ،مجھے مکمل سکون نہیں مل رہا۔۔۔"وہ جیسے روتے روتے بتانے لگی
"اور یاد کرو اپنے ربّ کو اپنے دل میں عاجزی کرتے ہوۓ اور ڈرتے ڈرتے اور زبان سے بھی چلاۓ بغیر(یوں یاد کرو) صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی اور نہ ہوجاٶ (یادِ الہی)سے غافل رہنے والوں سے۔"
(سورة الاعراف آیت نمبر ٢٠٥ )
حنا نے اسے آیت کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو وہ سکن ہوٸ سانس کے ساتھ انھیں دیکھنے لگی۔
"اللہ نے ایسا کہا! امی جان میں تو اللہ کو یاد کرتی ہوں پھر اللہ نے ایسا کہا؟! کیا اللہ مجھ سےناراض ہے؟۔۔۔"وہ چھوٹے بچے کی طرح پںچھنے لگی پھر جیسے اپنے ہی سوال پہ الجھ گٸ پھر اچانک ہی آنسو ابھرنے لگے۔
"نہیں زوہی۔ اللہ تم سے ناراض نہیں ہے بس۔۔۔تم یاد کرو کہیں کوٸ غلطی ہوٸ ہو؟" وہ کسی پہیلی کی طرح اس سے بوجھوانے لگیں
"مجھے نہیں سمجھ آرہا امی جان" وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد جھنجھلاتے ہوۓ کہنے لگی۔
"زوہی میرا بچہ تم زکریا کو کیوں مانگتی ہو؟" وہ اپناٸیت سے پوچھنے لگیں۔ وہ بہت دیر تک کچھ کہہ نہ سکی۔
"کیوں کہ مجھے اسکا ساتھ اچھا لگتا ہے مجھے اس سے محبت ہے۔" زہرہ نے بغیر تمہید باندھے کہا تو حنا اسکی بات پہ مسکرادیں
"صرف اتنی سی بات ہے؟" حنا نے جان بوجھ کر اس انداز میں مسکراکر کہا وہ حنا کو دیکھنے لگی
"تم نے اسکے علاوہ کیا مانگا؟" وہ پوچھنے لگیں
"کچھ بھی نہیں۔۔۔" زَہرہ نے دھیمی آواز میں کہا۔"
اچنک ہی شرمندگی نے اسے گھیر لیا اب حنا کی باتیں اسے تھوڑی تھوڑی سمجھ آنے لگی تھیں۔آج زندگی نے اسے خود کو سمجھنے کا موقع دیا تھا
"زَہرہ میری جان۔ایک یہی تو بات ہے تم اِسے سمجھو، تمہارے پاس زکریا نہیں تھا ٹھیک کہا؟" وہ اسے خود سے لگاتے ہوۓ پوچھنے لگیں،اس نے شرمندگی سے سر اثبات میں ہلادیا۔
"ایک انسان نہیں تو کیا ہوا؟ تمہارے لیے سننا مشکل ہوگا لیکن میرے لیے کہنا آسان ہے زوہی۔کیوں کں تم غلط راہ پہ ہو زَہرہ! والدین،بہن بھاٸ، مخلص دوست،بے تحاشہ چاہنے والے لوگ، زندگی کی بےشمار آساٸشیں! سب ہی تو میسر تھا تمہیں! اور تم۔۔۔تم نے ناشکری کی اللہ کی عطاٶں کی۔۔۔ایک وجود کی چاہت میں! تم نے اللہ کو یاد کیا۔۔۔ تو اسلیے نہیں کہ تم اسکی عبادت کرنا چاہتی تھیں بلکہ اسلیے کہ تم نے ایک وجود کی چاہت میں اللہ کے آگے سر جھکایا۔۔۔ایک بشر کے لیے! اللہ کی ناشکری نہیں کرتے۔۔۔اللہ جو عطا کردے تو اس کا شکرادا کرتے ہیں! اللہ کو شکرادا کرنے والے بندے بےحد پسند ہیں۔ اللہ ہماری ایک نہ سُنے تو ہمیں شکوے یاد آجاتے ہیں تو کیا تم نے یہ سوچا کہ اللہ نے بھی تم سے ستر ماٶں سے زیادہ محبت کی ہے زَہرہ! تم نے اللہ کا شکرادا نہیں کیا۔تم نے ربّ کی ہر نعمت کو ٹھکرایا۔۔۔ایک بشر کے لیے۔ تو کیا اللہ تھوڑا سا بھی خفا نہ ہو؟!" حنا مسکراتے ہوۓ اسے سمجھانے لگیں۔وہ سسکیوں سے رونے لگی تھی تو وہ اسے تھپتپانے لگیں۔
"امی جان۔۔۔ م میں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔" و روتے ہوۓ کہنے لگی تھی۔
"م م میں پوری کوشش کروں گی میں اللہ کو ناراض نہیں ہونے دوں۔"
”زَہرہ۔۔۔انسان کی منزل "اللہ"  ہونا چاہیے۔پھر اس بات کی گنجاٸش نہیں رہتی کہ جس سے محبت کی ہے وہ ملے یا نہ ملے۔وہ صرف اللہ ہی یے۔انسان کو اپنے دل میں محبت کا مقام سب سے پہلے اللہ کو دینا چاہیے ایسا کرنے سے دل ٹوٹنے کی گنجاٸش باقی نہیں رہتی۔اللہ تم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس کی محبت کے لیے اس کاٸنات میں کوٸ پیمانہ موجود نہیں ہے۔اور اب تم رونا بند کرو زَہرہ۔۔۔“ وہ اسے سمجھا کر آخری جملے پہ پیار سے ڈانٹنے لگیں،کتنی ہی دیر سے وہ روۓ جارہی تھی۔
”امی جان اب کیا میں اپنے ربّ سے بات کنے جاسکتی ہوں!(وہ مسکراٸ) اگر آپکی اجازت ہو تو؟ اللہ نے مجھے اتنی اچھی امی جان دی ہیں شکرادا کرنا تو ضروری ہے ناں!۔“ اس نے حنا نے گال پہ بوسہ دے کر کہا تو وہ ہنس دیں۔
”اچھا بھٸ، اللہ کو یہ بھی کہنا کہ امی جان کو اتنی پیاری بیٹی دینے کا شکریہ۔“ حنا نے بھی اسی کے انداز میں کہا تو اسکے لیے ہنسی روکنا محال ہوگیا،پھر دونوں ہی زور سے ہس دیں۔
سورج طلوع ہوچکا تھا۔۔۔اللہ نے ہدایت دے دی تھی۔۔۔اور زَہرہ کی امیداللہ سے جڑچکی تھی۔ "امید" ایک ایسی ڈور جس نے اللہ اور اسکے درمیان کے فاصلے کو ختم کردیا تھا۔اسے اب رونا تھا۔۔۔ایک بشر کے لیے نہیں،بللکہ ہر اس نعمت کے لیے جو  مانگے اور بن مانگے اسکی جھولی میں ڈال دی گٸ تھی۔بھلا اس دنیا میں ہدایت مل جانے سے بڑھ کر بھی کوٸ نعمت ہے!.
وہ کمرے میں پہنچی،وضو کیا نفل ادا کرنے کھڑی ہوٸ،قیام۔۔۔رکوع۔۔۔پھر سجدہ۔۔۔ہر ہر لمحے جیسے وہ آنسوٶں سے بھیگے چہرے کے ساتھ دل میں ندامت لیے اپنے ربّ سے قریب تر قریب ہوتی جارہی تھی۔۔۔آج سکون روح میں اتر رہا تھا۔۔۔بہت گہراٸ میں۔۔۔بہت اچھے انداز میں! دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ تو ایک محبت بھرے احساس نے اسکا استقبال کیا۔اور یہ کیا؟ زبان خاموش۔۔۔الفاظ دم توڑ گۓ، پھر احساسِ شکر نے بھی انگڑاٸ لی تو آنسو نے بھی آنکھوں کے کٹوروں سے باہر نکلنے کے مچلنا شروع کردیا۔۔۔اور پھر اس نے بھی آنسوٶں کو بہنے دیا۔۔۔آج  ہر بوجھ دل سے اتار کر پھینک دینا تھا۔۔۔وہ اتنے مہینوں کی تھکاوٹ،وہ تمام آنسو۔۔۔آج سب کچھ بلکل اسکے برعکس تھا۔رب کی حمد و ثنا۶ بیان کرنے کے بعد وہ ناجانے کتنی دیر تک روتی رہی۔ کتنے گھنٹے وہ روٸ یہ یاد نہیں تھا، جاۓ نماز سے اٹھی تو گھڑی کی طرف نگاہ ڈالی ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔پھر اچانک سے یاد آیا کہ اسے آج صالحہ کے گھر جانا تھا پچھلے ایک ہفتے وہ بابا کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے جا نہیں سکی تھی تو آج وہاں جانا تھا۔
صالحہ کے گھر وقت کا اندازہ نہیں ہوسکا ایسا ہمیشہ ہی ہوتا تھا جب دونوں ساتھ بیٹھتیں تو صالحہ کے پاس باتوں کو ایک انبر ہوتا تھا اور وہ کام کرتے کرتے اسکی باتوں اور کھانے پینے سے لطف اندوز ہوتی رہتیں۔شام ڈھلنے لگی تھی۔اس نے آساٸنمنٹ کا سارا باقی کام سمیٹا اور یہ کہہ کر چل دی کہ بابا کی دواٸیاں لیتے ہوۓ گھر جانا ہے تو وہ جلد ہی اسکے گھر سے نکلی۔راستے میں دواٸ لی تو سردی کے باعث کوفی تینے کا دل چاہا تو ایک ریسٹورینٹ پہ گاڑی روکی۔آج ڈراٸیور ساتھ نہیں تھا کیوں کہ کام بہت زیادہ تھا اور پھر گھر کے دوسرے کام بھی تھے۔ویٹر نے اسے دیکھا تو وہ آرڈر لینے آیا، اسنے آرڈر دیا تو وہ بھی چلاگیا۔ وہ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے ادھر ادھر کا جاٸزہ لینے لگی۔اچنک نظریں پتھر ہوگٸیں۔
لوگ کھانا کھانے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے،وہیں ایک کونے والی ٹیبل پر  مناہل تھی ہمیشہ کی طرح جینز اور سلیولیس ریڈ شرٹ کھلے ڈاۓ کیے ہوۓ بال یہ سب کچھ حیران کردینے والا نہیں تھابلکہ وہ مکمل منظر جو اسکی نظروں میں قید ہورہا تھا۔وہ کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھی تھی اس نے لڑکے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا ہوا،انداز ایسا تھا کہ شاید وہ اسے منارہی ہو لیکن اگلے ہی لمحے اس لڑکے نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے پیچھے کرلیا۔۔۔مناہل کے چہرے پر ناگواری ابھری۔زَہرہ بغور سب دیکھ رہی تھی۔دوبارہ مناہل اس لڑکے کو منانے لگی۔۔۔زَہرہ صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ زکریا نہیں بلکہ کوٸ اور تھا۔
وہ زکریا کو ہزاروں لوگوں کی بھیڑ میں بھی باآسانی پہچان سکتی تھی۔وہ گاڑی سے اتری۔ابایا کو ایک نظر دیکھا اسکارف درست کیا،دس منٹ گزرچکے تھے ویٹر ابھی تک نہیں آیا تھا،اسے دیر ہورہی تھی تو خود ہی جانے کا سوچا۔وہ اندر داخل ہوتے ہی تیزی سے کاٶنٹر کی طرف بڑھی،مناہل نے اسے نہیں دیکھا تھا اسے خیال آیا تو وہ پرسکون انداز میں آگے قدم اٹھاتی چلی گٸ۔۔۔لیکن وہ ہیں جانتی تھی کہ اس لڑکے نے اسے دیکھ لیا تھا۔۔۔محض لمحے بھر کے لیے ہی سہی۔۔۔نقاب آج پہلی دفعہ کیا تھا تو بار بار ڈھیلا ہوتا محسوس ہورہا تھا،جو کہ اسکا وہم تھا۔ویسے آج انزلنا نے کھلے دل سے تعریف کی تھی کو "زَہرہ بہت پیاری لگ رہی ہو نقاب میں" اور زَہرہ مسکرادی،اب خود کو رب کی چاہ کے مطابق چلانا تھا اپنی چاہ کے مطابق نہیں۔پھر اس بات سے کوٸ فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی کو اچھی لگتی یا  بُری۔۔۔وہ بورے اعتماد کے ساتھ کاٶنٹر پہ کھڑے لڑکے کو آرڈر کی یاد دہانی کرواکر ایک ٹیبل پہ بیٹھ  دونوں کی طرف پشت کرکے کے بیٹ گٸ،مںاہل تو اسے اب بھی صاف دکھاٸ دے رہی تھی،البتہ وہ لڑکا۔۔۔اسکا چہرہ وہ چاہ کر بھی نہیں دیکھ سکی۔ابھی اسنے  اسکی طرف دیکھنے کےلیے گردن کو تھوڑی جنبش دی ہی تھی کہ ویٹر اس لڑکے اور اسکے درمیان آڑ بن کر کھڑا ہوگیا،یہ ایک اتفاق تھا۔وہ خاموشی سے شاپر بیگ پکڑے تیزے سے باہر نکل گٸ،آنسو ابھرنے لگے تھے۔
وہ گھر پہنچی تو حنا اور مزمل کو سلام کرکے کے طبیعت کا پوچھ کر حنا کو دواٸ کا  شاپر دے کر وہ اپنے کمرے میں آگٸ۔نماز پڑھ کر بھی وہ بہت دیر روتی رہی۔ مِناہل،زکریا کو دھوکہ دے رہی ہے وہ کسی اور میں انٹرسٹڈ ہے! وہ بار بار زیرِلب یہی الفاظ دوہرا رہی تھی۔اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا اپنی آنکھوں دیکھے پر۔حنا کمرے میں داخل ہوٸیں تو اسکے الفظ نے حنا کے سر پر حیرت کے پہاڑ توڑے۔
اسے بہت مشکل سے چپ کروایا،اس وقت مکمل طور پہ مضبوط نہیں ہوٸ تھی۔ دل تھا کہ کہیں نہ کہیں تکلیف محسوس کررہا تھا۔۔۔
                 تھوڑی دیر بعد صالحہ کو کال کردی، مزید ان سے سنبھالنا مشکل ہورہا تھا۔وہ زکریا سے جڑی ہر بات کو بہت زیادہ سیریس لے لیتی تھی۔۔۔اور اب تو بات زکریا کے بھروسے اور امیدوں کو ٹھیس پہنچنے کی تھی۔! مِناہل کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہورہا تھا؟ وہ تو زکریا سے محبت کا ڈھول اپنے گلے میں ڈالے پیٹتی پھرتی تھی، تو اب اتنی بےحسی۔۔۔کیا محبت اتنا کمتر احساس ہے جِسے ہونہی لمحوں میں بُھلا دیا! کسی اور کے زندگی میں چلے آنے سے اور اسکے اچھا لگ جانے سے کیا اںسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی محبت سے دسبردار ہوجاۓ۔۔۔! جس سے محبت کی اُسے ہی تکلیف دینے کے لیے سازشیں کرنے لگ جاۓ! اگر محبت اسے کہتے ہیں تو زَہرہ ایسی محبت پر نفرت کو لاکھ گُنا ترجیح دینا بہتر سمجھے گی۔
-----------------
کچھ دیر میں ہی صالحہ گھر آگٸ تھی۔اور جب زَہرہ نے اسے اس بات کی اطلاع دی تو اسکی آنکھیں تحیر سے گول ہوگٸیں۔
”زوہی تم اسے شرافت سے بتادو!یہ بات اس سے چھپنی  نہیں چاہیے ورنہ آگے جاکر حالات بدتر ہوجاٸیں گے۔“ صالحہ نے اسے وارننگ دیتے ہوۓ کہا اور سمجھایا۔
”میں نہیں بتاٶں گی۔“ زَہرہ نے نظریں چراتے ہوۓ ہچکچا کر کہا۔
”لیکن کیوں؟؟؟“ صالحہ نے تقریباً چلاتے ہوۓ پوچھا۔
”وہ میری بات کا بھروسہ نہیں کرے گا۔اور مناہل بھی مجھے جھٹلادے گی۔پھر وہ مجھ سے بدظن ہوجاۓ گا اور میں یہ کبھی
نہیں چاہتی۔۔۔بہتر ہی تم بھی اس بات کو یہیں چھوڑ دو وہ خود ہی سمجھ جاۓ گی۔وقتی اٹریکشن کو محبت کا نام دینا تو سراسر بےوقوفی ہے،انسان خود کو محض دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں دیتا ذرا سی وقت گزاری کو محبت نہیں کہتے! ۔“زَہرہ نے اسے وضاحت دے کر سمجھانا چاہا۔صالحہ صرف اسے دیکھے گٸ۔
کوٸ اگر صالحہ سے پوچھتا کہ زکریا سے اصل محبت کس نے کی؟ تو صالحہ لمحے بھر کا انتظار کیے بغیر زَہرہ کا نام لے دیتی، زَہرہ کی محبت ایسی تھی۔۔۔خاموش۔۔۔پرواہ کرنے والی۔۔۔زکریا کو ٹوٹ کر چاہنے والی۔۔۔    پھر اس دن  ڈھاٸ سال کے بعد وہ دن بھی آیا،مناہل اور زکریا کی منگنی کو تین سال مکمل ہونے والے تھے،اور اس واقعے کو ڈھاٸ سال۔۔۔
وہ سب تقریباً سات مہینے بعد ایک ساتھ جمع ہوۓ تھے،اس دن ڈنر حذیفہ کی طرف سے تھا۔سارہ کے دو ہفتے بعد واپس پاکستان آنے کی خوشی میں۔سب کی ایک ساتھ ملاقات نہیں ہوٸ تھی تو یونیورسٹی ختم ہونے کے لمبے عرصے بعد وہ سب ڈنر کے لیے گۓ۔اور تب اسنے دوسری دفعہ مناہل کو اس لڑکے کے ساتھ دیکھا،اس کا قدکاٹھ جسامت سے اسنے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ وہی لڑکا تھا جسے اسنے مناہل کے ساتھ ڈھاٸ سال پہلے دیکھا تھا۔اس دن زَہرہ کو مزید رونا آیا۔کیا اسے اتنے عرصے میں بھی زکریا کی مخلصی کا احساس نہیں ہوا تھا۔؟ اسے گھر آکر بہت رونا آیا۔ زکریا اسکے ساتھ نہیں تھا،اسکی محبت زَہرہ کے لیے نہیں تھی شاید! لیکن وہ جسکے ساتھ تھا اس نے کونسا زکریا سے مخلصی نبھاٸ تھی؟! وہ بھی تو دھوکہ دے رہی تھی۔زکریا جسکے ساتھ زندگی کے سفر کو گزارنے کے لیے نرم قالین بچھا رہا تھا۔ مِناہل اسی قالین کے نیچے کانٹے بچھارہی تھی، یہ جانتے ہوۓ بھی کہ تکلیف زکریا کی روح تک کو محسوس ہوگی۔صالحہ کو بھی بتایا لیکن وہ خاموش رہی کیوں کہ زَہرہ نے ہی اسے ایسا کرنے کو کہا تھا۔
-----------------
(حال میں۔۔۔present day)
”اب کیا مسٸلہ ہوگیا یار!۔“ اذان جیسے جھنجھلاگیا تھا۔پچھلے آدھے گھنٹے میں گاڑی تین دفعہ رک چکی تھی۔اب اسے غصہ آنے لگا تھا، لیکن غصہ اسے بہت کم ہی آیا کرتا تھا۔۔۔وہ گاڑی سے اترا اور چیک کیا تو کوٸ خرابی نکل آٸ،وہ تھوڑی دیر کوشش کرتا رہا لیکن ناکامی رہی تو اسنے اپنے گھر سے ڈراٸیور کے ہاتھ دوسرے گاڑی منگواٸ،اور جانے کے لیے تیار ہوا۔آج اسنے خود سے وعدہ کرلیا تھا کہ اب وہ اس قصے کو ختم کرکے ہی سکون کا سانس لے گا۔خوامخواہ ہی یہ فضول سی پریشانی اسکے سر پہ مسلط تھی۔اور اذان اسکا بوجھ جلد از جلد اتار کر پھینک دینا چاہتا تھا۔اور اب وہ جس راہ پہ تھا،وہاں ایسے اعمال اسکو اللہ کے آگے شرمندہ کروانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔اور یہی شرمندگی اسے راتوں کو سونے نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے بیس سال جس اندھیرے میں گزار کر آیا تھا۔اب اسے اس اندھیرے میں نہیں جانا تھا۔لیکن ناجانے کیا بات تھی کہ وہ اندھیرا اسے اپنی طرف بلاتا تھا،لیکن اب وہ اس ماضی سے تھک چکا تھا۔تو مزید کوٸ پہیلی نہیں رکھنی تھی۔۔۔پہیلی تو اس نے پہلے بھی کچھ نہیں رکھا تھا۔البتہ اب واضح انکار ضروری تھا اسکے سکون کے لیے۔۔۔اور اس محبت کے لیے جو اسکے دل میں دن بہ دن اسُے دیکھ کر پنپتی ہی جارہی تھی۔۔۔وہ اپنےآپ پر۔۔۔اپنےاحساسات پر قابو کرنا بہت اچھی طرح جان گیا تھا۔۔۔کیوں کہ وہ جانتا تھا کو وہ کیا ہے!...
لیکن یہاں بھی قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔پریشانیاں۔۔۔دکھ۔۔۔تکلیفیں۔۔۔آزماٸشیں ان سب کے لیے ایک قطار میں کھڑے منتظر سے مسکرارہے تھے۔۔۔اور وہ سب ہی ناواقف تھے۔

 "امید"    Donde viven las historias. Descúbrelo ahora