"امید" (قسط نمبر 18)

276 14 9
                                    

"زکی" وہ پلٹا اور پکارنے والے کا چہرہ دیکھا۔ ایک اس کا ہم عمر تھا اور ایک اس سے کچھ سال بڑا۔
"کون؟ میں پہچانا نہیں" وہ دونوں اسکی طرف آۓ تو وہ پوچھنے لگا۔
"بادام کھایا کر یار اتنی آسانی سے بھول گیا؟" ان میں سے ایک نے ہنستے ہوۓ کہا۔
"اذان؟" زکی نے الجھتے ہوۓ پوچھا
"ہاں یار" اذان ہنسا تو زکریا بھی ہنستے ہوۓ اُس سے گلے ملا۔
"کہاں غاٸب ہوگیا تھا اسکول کے بعد سے؟"
"اُسامہ اور ماما بابا کینیڈا چلے گۓ تھے اور مجھے دادو کے ساتھ اسلام آباد بھیج دیا تھا۔" اذان نے بتایا۔
"اچھا۔۔۔ اور یہ اُسامہ؟" زکریا نے دوسرے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
"شکر ہے مجھے بھی پوچھ لیا ورنہ میں تو یہیں سے گھر واپس چلاجاتا۔" اس کی بات پر تینوں ہنسے اور زکی اسامہ سے گلے ملا۔
"تم تو بہت بدل گۓ ہو اسامہ"زکریا نے مسکراتے ہوۓ اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ہاں بھٸ سینیٸر پولیس آفیسر ہے، لیکن اتنی سخت جاب ہونے کے باوجود کال کرکرکے میرا دماغ کھاتا رہتا ہے۔" اذان کی بات پر وہ دونوں ہنسے
"اور تم تو بلکل ویسے کے ویسے ہو، ہاں بس نیلی آنکھیں مزید خوبصورت ہوگٸ ہیں اور ہینڈسم بھی ہوچکے ہو!"اذان نے تشویش نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔
"اور تم نے بھی بہت محنت کی ہے خود پہ،" زکریا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
"اب جسے پسند کیا ہے اُسی کے خاطر بدلا ہے خود کو۔۔۔" اُسامہ ابھی مزید کچھ کہتا کہ اذان کی غصہ بھری نظروں پہ نظر پڑتے ہی زبان کو بریک لگ گیا۔زکی حیرت سے اذان کو دیکھنے لگا۔
"واہ بھٸ اذان کہاں رہتی ہے وہ ہمیں بھی پتہ چلے آخر اس کا دل جو ہر ایک پہ بہت ہی جلدی آتا تھا، اب کس پہ آکر اٹک گیا ہے؟" زکریا نے اسے زچ کرنے والے انداز میں کہا تو اذان نے معنی خیز مسکراہٹ سے اسے دیکھا۔دونوں ایک دوسرے کی باتکا مطلب اچھی طرح سمجھ گۓ تھے۔کالج شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ہی اذان اپنی دادو کے ساتھ اسلام آباد چلاگیا تھا، تب عابی اور زکی اداس تھے، وہ ان کے بچپن کا دوست تھا۔ اور پھر کالج میں ابراہیم اور زکریا کی دوستی حذیفہ سے ہوٸ تھی۔
"بس کر یار زکی، سارے راز کھول دے گا کیا؟" اذان نے رونے والی صورت بناکر کہا تو زکی ہنس دیا۔
"شریف ہوچکا ہے میرا بھاٸ اب" اسامہ نے آنکھ کا کونا دباتے ہوۓ زکی کو کہا تو وہ ہنس دیا۔
"اچھا ہی
ہوا ورنہ اِسے ہینڈل کرنا کسی عام کے بس کی بات نہیں تھی۔" زکریا نے اذان کے بازو پر مُکّہ مارا تو اذان ہنسا
"ابراہیم کی طبیعت کیسی ہے اب؟" اذان نے سوال کیا۔
"اللہ کا شکر ہے بہتر ہے اب، تم لوگوں کو ہمارا پتہ کیسے چلا؟" زکریا الجھا
"یہ انسپیکٹر کس کام آۓ گا؟" اذان نے ہنستے ہوۓ اُسامہ کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔
"ابراہیم تو ابھی آرام کررہا ہے، اب صبح ہی ملاقات ہوسکتی ہے۔"زکریا ن آگاہ کیا۔
"کوٸ پرابلم نہیں، اب تو ہم دادو کے ساتھ کراچی میں ہی شفٹ ہوگۓ ہیں، ملاقات ہوری رہے گی اب خدا حافظ۔" اذان اور اسامہ چلے گۓ۔ وہ باہر لان میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
"کیسی ہو مِناہل؟کہاں تھیں؟ کب سے بات نہیں ہوٸ" زکریا نے ماتھے کو سہلاتے ہوۓ کہا۔ تین دن بعد آج اس سے بات ہورہی تھی، اور ان تین دن میں مِناہل نے اسے ایک دفعہ بھی کال نہیں کی تھی۔اور نہ ہی کوٸ میسج کیا تھا۔
"ٹھیک ہی ہوں، آگٸ تمہیں میری یاد؟" اس نے شکوہ کیا۔
"یاد ہو تم، میں بس تھوڑا مصروف تھا۔۔۔ اچھا اور بتاٶ شادی کی شاپنگ کیسی چل رہی ہے؟" زکی نے عذر تراشا اور پھر بات کا موضوع دوسری طرف لے گیا۔بہت دنوں کی تھکاوٹ تھی اور وہ کوٸ بحث کرنا نہیں چاہتا تھا۔
"زکریا تمہارے پاس میرے لیے ٹاٸم ہی نہیں ہوتا" اس نے دوبارہ شکوہ کیا۔۔
"کم آن مناہل۔ میں نے بتایا تو ہے ایک کام میں مصروف تھا، اور میری طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی۔" وہ اب کی دفعہ بھی ہر دفعہ کی طرح وضاحتیں دے رہا تھا۔
"اچھا۔" مِناہل نے مختصر جواب دیا۔ اس بات نے زکی کو تکلیف دی تھی، اس نے یہ جانا بھی گواراہ نہیں کیا کہ وہ اب ٹھیک ہے یا نہیں!
"کوٸ پرابلم ہے تو مجھے بتاٶ، مجھ سے کوٸ غلطی ہوٸ ہے تو میں معذرت کرتا ہوں مناہل پلیز ناراض تو نہیں ہوا کرو"
"ہاں ایک پراپلم ہے،کل کیا دن ہے؟" اس نے کچھ لمحے بعد جواب دیا۔
"جمعہ ہے ،لیکن کیوں؟"وہ الجھا
"ہم نیکسٹ ویک کے سنڈے کو ملتے ہیں، اوکے؟"
"اوکے لیکن اس سنڈے کیوں نہیں؟" وہ افسردہ ہوکے پوچھنے لگا۔مِناہل نے جواب نہیں دیا
"شادی میں تین ہفتے رہ گۓ ہیں بس! اگر تم ناراض ہو تو I'm SooRy My Love" اس نے محبت بھرے لہجے میں کہا اور قریب میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور آسمان کو دیکھنے لگا۔مناہل نے جواب نہیں دیا تھا زکی دکھی ہوگیا تھا،لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہاں موجود کسی شخص کے دل پر ایک گہری ضرب اس کے الفاظوں نے لگادی تھی۔
"مناہل۔۔۔تم جانتی ہو تم میرے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہو اور تمہاری ناراضگی مجھے تکلیف دیتی ہے،آٸ ایم سوری۔تم زکریا کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہو مناہل۔
آٸ رٸیلی لَو یو۔۔۔ میں تم سے نکاح بعد ہی کہنا چاہتا تھا لیکن تمہاری ناراضگی آڑے آگٸ،Come On say something" زکریا اپنی محبت کا اظہار کررہا تھا۔وہ الفاظ زکریا کی طرف سے کسی کے لیے مرہم تھے تو دوسری جانب کسی کے لیے زخم۔۔۔اب وہ خاموش ہوگیا تھا۔
"اوکے ہم نیکسٹ ویک سنڈے کو ملتے ہیں تمہارے پسندیدہ کیفے میں! اوکے؟" مِناہل نے تھوڑی مسکراہٹ سے بات کی تو اس کی بات کو محسوس کرکے وہ خوش ہوگیا تھا وہ سمجھا تھا کہ مناہل کی ناراضگی ختم ہوچکی ہے لیکن شاید وقت نے کچھ اور سوچا تھا۔۔۔
وہ بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا کال کاٹ کر وہ اپنے ہی خیال میں مسکرا رہا تھا،پیچھے مُڑا تو دو لوگوں کو دیکھ کر مسکراہٹ مزید گہری ہوگٸ
"ارے زوہی صالحہ تم دونوں اس وقت!" اسنے خوش لہجے میں کہا،وہ دونوں مسکرا دیں، زکریا نے زَہرہ کے آنسو نہیں دیکھے تھے۔ زَہرہ نے صرف اس لمحے اس کا چہرہ دیکھا تھا اور پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
"چلو ساتھ چلتے ہیں۔ شاید عابی سوکر اٹھ گیا ہو!" زکی نے سوچتے ہوۓ کہا اور دھیرے دھیرے چلنے لگا۔
"ہوش آگیا عابی کو؟کیسی طبیعت ہے اب اس کی؟" صالحہ ابایا پہنی ہوٸ تھی جبکہ زَہرہ نے ہر دفعہ کی طرح نقاب کیا ہوا تھا۔
"ہاں اب تو بہتر ہے۔" اس نے جواب دیا۔
"اور جناب آپکی طبیعت کیسی ہے اب؟" زَہرہ نے بھرپور اپناٸیت سے پوچھا، لہجے کی کڑواہٹ اور دل کی تکلیف کو چھپایا تھا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں۔" زکریا نے اس کی طرف مُڑ کر بھرپور مسکراہٹ سے جواب دیا اس کے دونوں گالوں کے ڈمپل واضح ہوۓ تھے، وہ چند لمحے اس کی مسکراہٹ اور اسے دیکھے گٸ۔
"اچھا، یہ بتاٶ آرہے ہوناں تم دونوں میری شادی میں؟" زکریا نے ان دونو کو دیکھ کر کہا
"ہاں ضرور" صالحہ نے جواب دیا تھا،وہ نہیں چاہتی تھی کہ زَہرہ کی آنسوٶں میں کپکپاتی آواز کو زکریا سنے۔

 "امید"    Donde viven las historias. Descúbrelo ahora