"امید" (قسط نمبر 15)

245 14 3
                                    

امتحانات سر پر آچکے تھے اور وہ سب اپنی تیاری میں لگے ہوۓ تھے۔سارہ کی یونیورسٹی کا مسٸلہ حل نہیں ہوسکا تھا لیکن اچھی بات یہ تھی اس کے امتاحانات کا شیڈیول بھی صالحہ حذیفہ کے امتحانات کی طرح تھا۔ اسے ایک مہینے پہلے کینیڈا جانا تھا تاکہ کچھ ہفتے پہلے تیاری کرسکتی۔۔چاچو اور چچی جان نے(حذیفہ کے ماما بابا) اجازت دے دی تھی لیکن حذیفہ اس سے ایک مہینے دُور رہنے پر راضی نہ تھا وہ ضد لگاۓ بیٹھا تھا کہ وہ اتنی جلدی نہیں جاۓ گی تو سارہ نے اس کی بات مانتے ہوۓ انٹرنیٹ سے ہی اپنی دوستوں کے ساتھ تیاری کی تھی، اور پھر امتحانات سے ایک ہفتہ پہلے اس نے حذیفہ کو منالیا تھا۔دن بہت مصروف گزر رہے تھے۔چونکہ یہ لاسٹ ایٸر کے امتحانات تھے تو کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی تھی۔ حذیفہ کی ابراہیم اور زکریا سے ملاقات یونی میں ہی ہوتی تھی یا پھر تینوں فون پہ بات کرلیتے تھے۔دوسری جانب صالحہ اور زَہرہ بھی اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروفِ عمل تھیں۔ البتہ وہ کمباٸن اسٹڈی کرتی تھیں، ایک دن صالحہ اس کے گھر آتی تو دوسرے دن وہ اس کے گھر چلی جاتی۔پورے دو ہفتے اسی طرح گزرے تھے۔
آج جمعہ کا دن تھا اور لاسٹ پیپر تھا،،آج سب کی خوشی دیکھنے لاٸق تھی۔صالحہ نے زَہرہ کو امتحانات ختم ہونے کی خوشی میں ٹریٹ بھی دی اور بدلے میں زَہرہ کے ہاتھ کی بنی ہوٸ چکلیٹ آٸسکریم بھی بنانے کو کہا تو زہرہ بخوشی مان گٸ اور کل اسے صالحہ کے گھر جانا تھا پورے ایک مہینے بعد۔ آج یونی کے لاسٹ ڈے ہونے کی وجہ سے وہ سب دوستوں سے مل کر اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوگٸیں۔
"آج مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں آزاد ہوگیا ہوں۔" ابراہیم نے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے ٹیک لگاتے ہوۓ کہا تو زکریا ہنس دیا۔وہ بخوبی جانتا تھا کہ ابراہی پڑھاٸ سے چڑتا تھا لیکن امتحانات سر پر آنے پر وہ خوب دل لگا کر پڑھتا اور کتابوں سے اتنی محبت وہ صرف امتحانات کے دنوں میں کرتا تھا اور یہ محبت بھی صرف اور صرف احمد صاحب(ابراہیم کے بابا) کی وجہ سے تھی، وہ سخت مزاج نہیں تھے لیکن ابراہیم کی تعلیم کو لے کر سنجیدہ بہت تھے۔ زکریا پڑھاٸ میں شروع سے ہی بہت اچھا تھا لیکن ابراہیم پڑھاٸ میں اچھا ہونے کے باوجود پڑھاٸ سے دور بھاگتا تھا۔ اس لیے احمد صاحب کو سنجیدہ ہونا پڑا تھا۔آخرکار ان کا اور انکے بڑے بھاٸ(معیز صاحب) کا بزنس ان دونوں لڑکوں نے ہی تو سنبھالنا تھا۔
"آگۓ ہمارےنکمے شہزادے۔" معیز صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھانا کھا رہے تھے جب وہ دونوں ہنستے ہنساتے سیّد ہاٶس میں داخل ہوۓ۔ انکی بات پر دونوں نے ہنستے ہوۓ سلام کیا مومنہ ان دونوں کی انتظار میں تھیں۔ زکریا فریش ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپنے کمرے میں چلاگیا۔
"بڑے بابا،آپ اتنی تعریف نہیں کیا کریں ہمیں شرم آتی ہے۔" ابراہیم اور اسکی باتیں تھیں جس سے اُس گھر میں رونق تھی اس کی بات پہ وہ دونوں ہنس دیے۔
تھوڑی دیر میں زکریا بھی فریش ہوکر آگیا اور کھانا کھانے بیٹھ گیا، معیز صاحب اٹھ کر جانے لگے تو ان دونوں کو مخاطب کیا۔
"دونوں بھاٸ قضا نماز پڑھ لینا۔ موصوف کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ مسجد جاکر نماز پڑھ آٸیں۔" تھوڑے غصے سے کہتے ہوۓ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گۓ اور دونوں نے سر اثبات میں ہلادیے۔ سربراہی کرسی پر مومنہ بیٹھی تھیں اور داٸیں باٸیں وہ دونوں بیٹھے بریانی کھارہے تھے۔ معیز صاحب دینی باتوں کو لے کر سخت تھے اور یہ گھر کے سربراہ کی ذمداری ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اللہ اور اس کے نبیﷺ کے دین کے بارے میں بتاٸیں اور سکھاٸیں، کیونکہ بروزِ قیامت اللہ اس بات کا حساب لے گا کہ اپنے گھر والوں کو دنیا کی ہر آساٸش دینے کے لیے تو بہت مچنت کی اور اللہ اور اسکے حبیبﷺ کے دین کی طرف لانے کے لیے کیا کیا کوششیں کی؟ اور اگر اس اہلِ خانہ کے سربراہ کے بارے میں اولاد، بیوی اور باقی تمام نے یہ کہہ دیا کہ اے اللہ ہمیں اس نے ہمیں تیرے دین کے بارے میں نہیں بتایا، تیرے دینِ اسلام کی جانب بڑھنے میں ہماری اصلاح نہیں کی، تو پھر ان سب کا گناہ اس گھر کے سربراہ کے ذمہ ہوگا۔
معیز صاحب اکثر ان دونوں کو بہت سی باتیں بتاتے تھے لیکن دونوں زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے، اور وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ ایک دن ایسا ضرور لاۓ گا جب وہ اللہ کو پہچان سکیں گی، اللہ کی مَحبت اور رحمت کو دل کی گہراٸیں سے محسوس کرکے اس ربّ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ضرور ہونگے۔ اور اسی بات کو سوچ کر وہ پرسکون ہوتے تھے۔ دونوں ہی نکمے سے تھے جب بھی معیز صاحب نماز یاکسی دینی کام کا کہتے تو ادھر اُدھر ہوجاتے، اور زکریا اتوار والے دن صبح صادق فجر میں اسی لیے اٹھتا تھا کہ معیز صاحب بھی گھر میں ہوتے تھی ورنہ اگر اسے فجر کے وقت سوتا دیکھتے تو اس کی طبیعت ٹھیک کردیتے تھے۔
"ابراہیم اور زکریا! یہ اچھی بات نہیں ہے، جس ربّ نے ہمیں اتنی نعمتیں دی ہیں کیا تم شکر ادا بھی نہیں کروگے؟" وہ سنجیدگی اور پیار سے سمجھا رہی تھیں لیکن وہ دونوں سمجھ نہیں رہے تھے۔ آپکو سمجھتے بھی وہ ہی ہیں جو سمجھنا چاہتے ہیں!
”کیا یہ بہتر نہیں کہ جس نے ہمیں بنایا ہم کم از کم دن میں پانچ مرتبہ ہی اسکا شکرادا کرلیں، جب وقت گزرجاتا ہے ناں، تو پچھتاوا ہوتا ہے احساس نہیں!“
انھوں نے سنجیدگی سے کہا اور دونوں کے سر پر بوسہ دیتے ہوۓ اٹھ گٸیں اور وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوگۓ۔ لیکن جب وقت آپکو سکھانے پر آۓ تو اپنی مرضیاں نہیں چلتیں۔۔۔
                ----------------------
"کیا بات ہے حذیفہ؟ آج تمہاری بتّیسی اندر جانے کا نام نہیں لے رہی۔" زکریا صوفہ پر نیم دراز بیٹھا حذیفہ سے ویڈیو کال پہ باتیں کررہا تھا جب مسلسل غور کرنے کے بعد ابراہیم نے پوچھ ہی لیا۔
"کل اسکی زوجہ کینیڈا سے واپس آرہی ہیں بس اس لیے بتّیسی اندر نہیں جارہی۔" زکریا نے بھے مزے لیتے ہوۓ کہا۔
"اور تمہاری سادی کا کیا پلان بنا؟ڈیٹ فکس ہوگٸ؟" حذیفہ نے کام کی بات شروع کی
"ہاں ماما کی بات ہوچکی ہے مِناہل کی مام سے،بس اب ایک مہینہ بچا ہے فاٸنلی!" زکریا نے مسکراتے ہوۓ کہا۔اسکی بات پر وہ دونوں مسکرادیے۔
              ---------------------
"تم نے ویڈنگ ڈریس لے لیا؟" اچانک یاد آنے پر زکی نے پوچھا
"نہیں،ٹاٸم نہیں مل رہا۔" مناہل نے بہانہ تراشا
"مناہل صرف ایک مہینہ ہی رہتا ہے تم کب شروع کروگی تیاری۔" اس نے پریشان لہجے میں پوچھا۔
"ہوجاۓ گی تیاری بھی۔۔۔اچھا میں بعد میں کرتی ہوں" کہہ کر مناہل نے زکی کا جواب سُنے بغیر کال کاٹ دی۔وہ یونہی کرتی تھی کبھی اس کی بات پوری نہیں ہونے دیتی ھمیشہ اپنی بات منواتی تھی۔ اور زکی کو بُرا نہیں لگتا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے وہ بہت مصروف تھی بات بھی نہیں ہوپارہی تھی۔پچھلے ہفتے وہ اسے شاپنگ پرلے گیا تھا کہ کہیں وہ ناراض نہیں ہوجاۓ اور جب سے اب وہ دونوں بات کررہے تھے اور ابھی بھی اس نے کال کاٹ دی تھی اُس کو سنے بغیر، لیکن وہ کبھی برا نہیں مناتا اور اگر برا لگتا بھی تو بات کو صرف اپنے تک ہی رکھتا تھا۔ گلے شکوے اس کی ذات کا خاصا نہیں تھا۔ اور اب اس نےمناہل کی ساری بری باتیں بھلا دی تھیں یہ سوچ کر کہ اب کچھ عرصے میں وہ ایک مضبوط رشتے میں ہمیشہ کے لیے بندھنے جارہے تھے اور اب زکریا کو اپنی خوشیوں کا استقبال کرنا تھا۔۔۔اور شاید تکلیفوں کا بھی۔۔۔
-------
آج ہفتہ کا دن تھا۔ اب یونیورسٹی مکمل ہوگٸ تھی اور فراغت تھی امتحانات کی وجہ سے وہ صبح جوگنگ کے لیے نہیں جارہا تھا۔ آج بہت دنوں بعد وہ جوگنگ کرنے گیا تھا۔ واپس آکر کپڑے تبدیل کرکے وہ سیدھا کچن میں گیا۔آج اسلم چچّا کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی سلمہ آپا بھی جاگ رہی تھیں وہ کچن میں ہی تھیں۔ اسلم چچا اور سلمہ آپا قابلِ اعتماد ملازم تھے۔ وہ کچن میں موجود اسٹول پر بیٹھ گیا۔
"اسلام علیکم آپا۔" اس نے سلام کیا۔مومنہ کی کہنے پر وہ صبح ہی اُٹھ کر کچن پہنچ جاتی تھیں۔
"وعلیکم اسلام زکی بیٹا کیا کھاٶگے بتادو" انھوں نے مسکرا کر پوچھا ۔مومنہ نے زکریا کی فرماٸشوں کی وجہ سے ڈھیر ساری کوکنگ بکس رکھی تھیں تاکہ ہر روز نۓ نۓ کھانے بنانے میں زیادہ مسٸلہ نہ ہو اور انھوں نے آپا کو بھی سمجھا دیا تھا۔
"چیز آملیٹ اور جوس دے دیں فی الحال" کہہ کر وہ باہر جاکر ڈاٸننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کمرے
میں چلاگیا۔
آج صبح سے ہی وہ فارغ تھا۔ ایگزامز ختم ہونے کی وجہ سے ابراہیم تو اپنے کمرے میں بےخبر سورہا تھا۔ جب پانچ بجنے میں دس منٹ رہ گۓ تو وہ اُٹھ کر جانے لگا۔آج سارہ کی پاکستان واپس آنے کی خوشی میں حذیفہ کی طرف سے ڈنر تھا اور شام کو ہی گھر بلایا تھا اور ابھی حذیفہ کے ساتھ ایٸرپورٹ جانا تھا سارہ کو پک کرنے۔وہ لان سے ہوتا ہوا گاڑی تک پہنچا تھا کہ کسی کے قدموں کی آواز آٸی۔ابراہیم تیز رفتاری سے سیڑھیاں اترتا اسکے پاس پہنچا تھا۔زکریا اسے چار دفعہ آوازیں دے چکا تھا لیکن وہ ڈھیٹ بن کر سورہا تھا۔زکریا نے بھی اسکے بغیر جانے کا سوچ لیا تھا۔لیکناب وہ تیار ہوکر آچکا تھا۔
"گُڈ ایوننگ۔، کیا ہوا تمہیں اتنے سڑے ہوۓ منہ کیوں بنا رہے ہو؟" ابراہیم نے اسکے غصے سے مزے لیتے ہوۓ کہا
"تمہاری عادت نہیں جاۓ گی گدھے گھوڑے بیچ کر سونے کی؟ "اس نے گاڑی کی چابی انگلی میں اٹکاۓ گھماتے ہوۓ کہا۔زکریا کی بات پر ابراہیم قہقہہ لگا کر ہنسا۔ زکریا کا غصہ بہت تھوڑا دیر کے لیے ہی ہوا کرتا تھا۔ اب وہ دونوں ابراہیم کی گاڑی میں بیٹھے ہنسی مذاق کررہے تھے۔
               -----------------------
وہ حذیفہ کے گھر پہنچے تو وہ پہلے ہی باہر گاڑی سے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا ان دونوں کا انتظار کررہا تھا۔
سارہ کے گھر آجانے کی وجہ سے گھر میں رونق آگٸ تھی۔فریش ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے نعمان اور کلثوم سے ملی اور پھر کچن میں آگٸ جہاں زَہرہ اور صالحہ آٸسکریم کو باٶل میں نکال رہی تھیں اور انزلنا بیٹھی سیب کھارہی تھی۔ اور تھوڑی ہی دیر میں چاروں بیٹھی ہنسی مذاق باتوں میں مشغول تھیں۔ وہ سب صالحہ کے کمرے میں چلی گٸیں اور زَہرہ کے ہاتھ کی بنی ہوٸ آٸسکریم کے مزے لینے لگیں۔وہ سب پورے ایک مہینے بعد مل رہے تھے۔ پچھلے چھ سات مہینوں میں وہ ملتے ضرور تھے لیکن سب ایک ساتھ ایک جگہ جمع نہیں ہوتے تھے اور آج حذیفہ نے ایک گیٹ ٹوگیدر اسلیے رکھا تھا تاکہ سب آرام سے باتیں کرسکیں اور مزے کرسکیں۔
عشا۶ کی نماز ادا کر کے زَہرہ اٹھی تو سب تیار ہوچکے تھے۔ اس نے بھی اپنا مخصوص بلیک ابایا اور اسکے سات گرے اسکارف لیا جو صالحہ کی طرف سے اُسے برتھ ڈے گفٹ تھا، اور یہ اسکارف وہ بہت خاص موقعوں پہ اوڑھتی تھی۔
گاڑی میں بیٹھتے وقت زَہرہ سارہ اور حذیفہ کی گاڑی میں بیٹھی جبکہ انزلنا اور صالحہ ابراہیم اور زکریا کی گاڑی میں، ابراہیم کے دیکھ کر ہی انزلنا کے چہرے کے نقشے بدلنے لگے لیکن ابراہیم کو کوٸ فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے وقت زَہرہ کی سرسری سی نظر اس پہ پڑی وہ ہمیشہ کی طرح ہنستا مسکراتا ابراہیم کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔اُس کی زَہرہ سے ملاقات نہیں ہوٸ تھی کیوں کہ وہ ساراوقت کمرے میں ہی رہی تھی، اور اب تو وہ نقاب بھی لگاتی تھی اور شاید اس نے دیکھ کر پہچانا بھی نہ ہو!
صالحہ نے آج یونیورسٹی میں اسے بتایا تھا کہ زکریا کی شادی ہونے والی ہے اور تیاریاں بھی جاری ہیں۔ لیکن اب کی دفعہ اُس کا دل نہیں ٹوٹا تھا،اب کی دفعہ وہ بھی نہیں ٹوٹی تھی۔ وہ خاموش رہی تھی۔ اب اُس نے ربّ کا شکرگزار ہونا سیکھ لیا تھا۔ ربّ سے شکایتیں کرنا چھوڑ دی تھیں۔ اب زَہرہ کے امید صرف اللہ سے تھی، اُس نے مایوس ہونا چھوڑ دیا تھا۔ صرف ایک آنسو آنکھ سے گرا تھا اور پھر اس کا رویہ نارمل تھا۔
---------
وہ سب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مال آگۓ تھے کیوں کہ سارہ کو شاپنگ کرنی تھی اور صالحہ اور انزلنا بھی شاپنگ کی دیوانی تھیں۔ وہ سب مصروف تھے، وہ بور ہونے لگی تھی صالحہ اور انزلنا کو بتاکر وہ کیفیٹیریا چلی آٸ اور ایک کونے میں موجود ٹیبل کی جانب چل دی ۔ بیٹھنے کے بعد اس نے Coffee آرڈر کی اور اردگرد کا جاٸزہ لینے لگی۔وہاں زیادہ لوگ نہیں تھے چند ایک فیملی اور دو تین کپلز بیٹھے موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ کیفیٹیریا کا ماحول بہت پرسکون تھا۔ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں کھلی تھیں جہاں سے آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ماحول کو اور دلکش بنارہی تھی اور موسمِ سرما کے آغاز کی اطلاع دے رہی تھی۔ اور کھڑکیوں سے باہر درختوں کی لمبی قطار تھی اور وہ درخت لاٸٹوں سے سجے ماحول کی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھیں اور سڑک کے دوسری جانب ریسٹورینٹس کی لمبی قطار تھی اور ان میں سے ایک میں سے وہ کچھ وقت پہلے ڈنر کرکے آۓ تھے۔ ویٹر نے کوفی لاکر رکھی تو وہ دھیرے دھیرے کافی کے سِپ لینے لگی۔ دوبارہ ایک نظر سڑک پر ڈالی اور اپنے سوچوں میں مگن ہوگٸ ابھی کافی ختم ہوٸ تھی کہ سر اٹھانے پر ایک منظر نے اسکی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔اور وہ بس اس منظر کو دیکھتی رہی۔
کالے رنگ کی گاڑی سے ایک لڑکا باہر نکلا تھا۔زیادہ روشنی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ سکی تھی۔ بلو جینز اور بلیک شرٹ پہنے وہ مکمل تیاری کے ساتھ تھا۔ اور گاڑی کے دوسرے دروازے سے ایک لڑکی باہر نکلی۔۔۔ وہ کیسے بھول سکتی تھی اُسے؟سلیولیس پنک شرٹ اور ٹخنوں سے اور جینز میں ملبوس وہ لڑکی چہرے پر مسکراہٹ لیے اس لڑکے کی جانب دیکھ رہی تھی، جو اس کی طرف آرہا تھا۔اس لڑکی نے اپنے سنہرے بالوں کو کندھوں پر پھیلایا ہوا تھا اور اب وہ ریسٹورینٹ میں داخل ہورہی تھی۔کچھ دیر میں منظر نظروں سے اوجھل ہوگیا تو وہ بھی واپس اپنی سوچوں کے دلدل میں پھنس گٸ۔
اس لڑکی کے بارے میں سوچ سوچ کر زَہرہ کا سر درد کرنے لکا تھا۔
"کیوں کررہی ہو تم ایسا؟ کیا تمہیں نہیں معلوم وہ تمہیں کسی اور کے ہمراہ دیکھ کر مر جاۓ گا!" ایک آنسو اُسکی آنکھ سے گرا۔
"کیا یہ ضروری ہے کہ جب ٹھوکر لگے تب ہی سنبھلا جاۓ؟" وہ سوال کررہی تھی لیکن جواب دینے والا کوٸ نہ تھا۔ اُسی امّی جان سے باتیں کرنی تھیں بہت سی باتیں۔
جو بات وہ ابھی سوچ رہی تھی وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی خالی کپ کو گھورتے ہوۓ وہ کسی الجھن کا شکار تھی کہ کرسی کھسکا کر کسی کی بیٹھنے کی آہٹ محسوس ہوٸ۔ سوچوں کی دلدل سے باہر نکل کر سر اٹھا کر اس نے دیکھا زکریا آکر اس کے سامنے بیٹھا تھا۔وہ سنجیدہ ہوکر بیٹھ گٸ اور نقاب کو بھی ٹھیک کیا جوکہ پہلے ہی ٹھیک تھا!
"کوفی بھی پی لی اور انواٸٹ کرنا بھی گوارا نہیں کیا! بِل میں پے کردیتا،" اس نے اداسی سے زَہرہ کے سامنے رکھے خالی کپ کو دیکھ کر کہا۔آج بہت مہینوں بعد ان دونوں کی ملاقات ہوٸ تھی حذیفہ کی شادی کے بعد چھ سات مہینے ان دونوں کی اتفاقاً بھی کوٸ ملاقات نہیں ہوٸ تھی اور آج اتنے عرصے بعد وہ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
"ایسی بات نہیں ہے اب!" اس نے بھی تھوڑی خفگی سے کہا تو وہ مسکرادیا پھر اپنے لیے ایک کپ کافی آرڈر کی۔ویٹر کوفی لے کر آیا تو وہ گھونٹ بھرنے لگا، وہ اردگرد کا جاٸزہ لینے لگی۔
"زوہی تم نہیں لوگی کافی؟" اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
"نہیں،میں پہلے ہی ایک کپ پی چکی ہوں" اس نے ہلکی مسکراہٹ کیساتھ جواب دیا، لیکن واضح نہیں ہوٸ کیونکہ نقاب لگا تھا۔پھر وہ خاموش ہوگٸ وہ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی، ابھی گھر جانا تھا۔
"چلو کوٸ بات نہیں، آدھا کپ کافی اور پی لو" زکریا نے بھرپور مسکرہٹ کیساتھ کہا تو وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھنے لگی۔ وہ اپنے کپ سے اُس کے خالی کپ میں کافی انڈیل رہا تھا۔اُس کے کپ میں آدھی کافی انڈیلنے کے بعد وہ مزے سے کافی کے سِپ لینے لگا اور ساتھ ساتھ باہر سڑک کا جاٸزہ لینے لگا۔یقیناً وہ صرف ایک دوست کی طرح بی-ہیو کرتا تھا، وہ بس یہ سوچ کر رہ گٸ۔
"اب پی بھی لو زوہی میں نے زہر نہیں ملایا اس میں" اس نے ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر کہا تو وہ خاموشی سے سپ لینے لگی۔ وہ جتنا خود کو سمجھاتی اس سے دور رہنا چاہتی تھی وہ کہیں نہ کہیں سے سامنے آجاتا۔
وہ اُس کی جھوٹی کافی پی رہی تھی۔جس کپ سے وہ کچھ دیر پہلے کافی پی رہا تھا، اب اُس کپ سے اپنے کپ میں موجود زکریا کی جھوٹی کافی کے وہ خاموشی سے سپ لے رہی تھی اور زکریا کو اس بات سے کوٸ سروکار نہیں تھا۔ وہ تمام چیزوں سے بےنیاز بس اپنی باتوں
میں مگن تھا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی!
"بِل تمپے کروگی لاسٹ ٹاٸم میں نے کیا تھا، یاد ہے؟" زکریا نے شرارت بھری مسکراہٹ سے کہا تو وہ سنجیدگی سے پرس سے پیسے نکالنے لگی۔ اس کے اس عمل کو دیکھ کر زکریا کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے۔
"میں مزاق کررہا تھا زوہی، سیریس نہیں لیا کرو میری باتوں کو۔" وہ مسکرا کر کہتا ہوا چلاگیا اور وہ سوچوں میں غرق ہوگٸ۔
            -------------------
"کیسی ہو خونخوار بلّی؟" ابراہیم نے اس سے فاصلے پر کھڑے ہوکر تھوڑی تیز آواز میں کہا تو وہ اسے گھورنے لگی۔ ابراہیم کو دیکھ کر ہی چہرے کے تاثڑات بدلنے لگے۔زکریا اور زَہرہ بھی اسی بوتیک میں آگۓ تھے جہاں وہ پانچوں تھے۔
"ٹھیک ہوں" اس نے بےزاریت سے کہا۔
"یہ مجھے دیکھ کر تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج جاتے ہیں خونخوار بلّی؟" ابراہیم نے تشویش والے اندز میں پوچھا اور پھر خود ہی ہنس دیا۔ آج وہ بہت ہشاش بشاش تھا۔
”چہرہ ہی ایسا ہے کیا کروں؟“ انزلنا نے چہرے پر زمانوں کی شرافت سجاۓ کہا تو وہ بمشکل ہی اپنی ہنسی روک پایا۔
”انسان اپنے چہرے پر مسکراہٹ بھی تو رکھ سکتا ہے۔ یہ خوفناک چرہ دکھانے پر  تو کوٸ بھی اپنی ہنسی بھول سکتا ہے“ اس کی بات سن کر وہ جل بُھن  کر رہ گٸ اور عابی بھی اسے تنگ کرنے سے باز نہ آیا

 "امید"    Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon