عیدِ زندگی
از قلم
سحر قادر
###1st EPISODE###"چچی میں بتا رہا ہوں میں اسکو چھوڑ جاؤں گا۔ پھر خود ہی جائے گی یہ محترمہ یونیورسٹی۔" عون اسکو نیچے نہ آتا دیکھ کر بولا تو عون کی والدہ صوفیہ بیگم نے اسکو آنکھیں دکھائیں۔
"دیکھ رہی ہیں چچی؟ اسنے تو آپکی جیٹھانی کو بھی اپنی طرف کر لیا ہے۔ مجھ بیچارے کی تعلیم کے حرج کی کسی کو پرواہ نہیں۔"عون نے بے بسی کا ڈرامہ کیا۔
"تم فکر نہ کرو میرے بچے آج اسکو میں پوچھوں گی۔" شازیہ اکرم یعنی عون کی چچی نے اسے کہا تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوا۔
"کیا ہو گیا ہے تمہیں عون کے بچے! دو منٹ صبر نہیں کر سکتے؟ اب چلو!" وہ سیڑھیوں سے بھاگتی ہوئی نیچے آئی۔
"ارے حائمہ بیٹا ناشتہ تو کرلو۔" صوفیہ بیگم نے اسے روکا۔
"ارے نہیں تائی امی آپ سر وحید کو نہیں جانتی لیٹ ہوگئی تو وہ میرا قتل کر دیں گے۔" حائمہ نے جواب دیا جسکو سن کر پیچھے سے آتے ہوئے موصوف کے ماتھے پر بل پڑے۔
"ارے ارحان بچے آؤ تمہارے لئے میں نے دیسی گھی کے پراٹھے بنائیں ہیں۔" شازیہ اکرم اسے دیکھ کر بولی تو وہ حائمہ کو گھورتے ہوئے بولا "نہیں چچی میں نہیں کھا سکتا یہ سب۔"
اسکی بات پر حائمہ جو دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی بھاگ کر واپس آئی اور ایک کرسی کھینچ کر بولی "ارے تائی امی حد ہو گئی ہے مجھے تو پراٹھوں کا کسی نے بتایا ہی نہیں۔ جلدی سے لائیں۔"
تو صوفیہ بیگم ہنس دیں۔
"تم کھاؤ بیٹھ کر میں جا رہا ہوں۔" عون نے باہر سے آواز لگائی۔
"تائی امی!" حائمہ نے منہ بسورا۔
"تم فکر نہ کرو تمہیں ارحان چھوڑ دیگا۔" صوفیہ بیگم نے بات ختم کی تو وہ ناشتہ کرنے لگی مگر ارحان کھانا کھاتے ہوئے ایک لمحے کو رکا ضرور تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ہے آفندی ہاؤس!
جہاں کے مکین ہیں نفیل آفندی اور انکے بیٹوں کی فیملی!
نفیل آفندی پنجاب سے کراچی کاروبار کیلئے آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انکے دو بیٹے اکرم اور عباس ہیں جبکہ ایک بیٹی شمائلہ ہے۔وقت کے ساتھ جب بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے انکی شادیاں کیں۔ بڑے بیٹے عباس نے اپنی پسند سے صوفیہ بیگم سے شادی کی جبکہ چھوٹے بیٹے اکرم کی شادی نفیل صاحب نے اپنی بہن جمیلہ کی بیٹی سے شازیہ سے کی جو پنجاب میں آباد تھیں۔
اور بیٹی شمائلہ کی شادی اپنے دوست کے بیٹے ساجد سے کی۔
یوں انکا خاندان بڑھا اور اللہ نے انکے بڑے بیٹے کو دو بیٹوں ارحان اور عون سے نوازا۔
ارحان عون سے تین سال بڑا ہے اور انتہائی ڈسپلنڈ انسان ہے اپنے والد اور چچا کے ساتھ کاروبار سنبھالتا ہے۔ جبکہ عون ایک شرارتی سا لڑکا ہے جو ایم بی اے کے آخری سیمیسٹر میں ہے۔
عون کی ہم عمر ہی اکرم صاحب کی بیٹی ہے حائمہ!
شمائلہ بیگم کی ایک بیٹی مہوش ہے جو عون سے ایک سال چھوٹی ہے اور ایک سترہ سال کا بیٹا علی ہے۔
نفیل صاحب اپنے پوتوں اور پوتی کے ساتھ ایک مثالی زندگی گزار رہے ہیں اور جب انکی بیٹی اپنے بچوں کے ساتھ آ جائے تو گھر میں رونق لگ جاتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ چلو مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔" ارحان نے اپنی ازلی سخت ٹون میں اسے کہا تو وہ اسکو دل ہی دل میں کھڑوس کہتی ہوئی بیگ اٹھا کر اسکے پیچھے چل دی۔
ارحان نے اسے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا تو اسے کہا "پیچھے بیٹھو کوئی ضرورت نہیں آگے بیٹھنے کی۔"
"اگر میں پیچھے بیٹھتی تو آپ نے یہی کہنا تھا کہ آگے بیٹھو شوفر نہیں ہوں تمہارا۔" سوال پیش کیا گیا۔
"یہ ابھی کی بات نہیں ہے۔ اس لیے اگر مگر کو تم رہنے دو!" اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"آپ کو تو مجھ سے ہر وقت مسئلہ ہی رہتا ہے۔" وہ پیچھے بیٹھتے ہوئے بولی۔
" تمہیں ایسا لگتا ہے بس ورنہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔" ارحان نے گاڑی سٹارٹ کی۔
حائمہ فورا اگے کی طرف اٹھ کر بولی "کیا آپ کریلے کا جوس پیتے ہیں روزانہ؟"
"حائمہ میری برداشت جواب دے جائے گی۔ اس لئے چپ کر کے بیٹھو۔" ارحان کا پارہ آہستہ آہستہ چڑھ رہا تھا۔
"ویسے اتنی چھوٹی سی برداشت ہے آپکی۔ کیا کسی کو عطیہ کر دی تھی بچپن میں یہ دولت؟" حائمہ نے ایک نیا سوال پیش کیا۔
"کیا تمہاری عقل بچپن سے کم تھی؟" ارحان نے دانت پیسے تھے
"نہیں دراصل جنکی برداشت کم ہوتی ہے ایسا انکو لگتا ہے ورنہ تو میں ایک ذہین لڑکی ہوں۔" حائمہ نے حساب برابر کیا تھا
"حائمہ اب بولنا مت!" ارحان نے برف سے لہجے میں اسے کہا تو وہ بس منہ بسور کے رہ گئی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"السلام علیکم سر!" تمام سٹاف ارحان کے آفس میں داخل ہوتے ہی کھڑا ہو گیا۔
"وعلیکم السلام! آپ لوگ اپنا کام کریں۔" ارحان یہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
"مس نازش آج کے دن کا شیڈیول لے کر میرے آفس میں آئیں۔" ارحان نے اپنی پی اے کو آرڈر دیا اور پھر آجکی میٹنگ کی تیاری کرنے لگا۔
"سر آج آپکی تین میٹنگز ہیں ایک ابھی پندرہ منٹ بعد ہے ایک دن دو بجے اور ایک شام پانچ بجے ہے۔" نازش نے اسے میٹنگز کی تفصیل بتائی تو وہ بولا "ٹھیک اور کوئی بات ؟؟"
"جی سر لغاری صاحب کے ساتھ میٹنگ کا ٹائم دے دیں انکا پی اے دو دن سے پوچھ رہا ہے۔" نازش نے جواب دیا۔
"اوکے مس نازش آپ جائیں جا کر کام کریں۔" یہ کہہ کر وہ کمپیوٹر سکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔
۔ایسی ہی مشینی زندگی تھی اسکی جس میں ہلچل حائمہ مچاتی تھی اور یہ ہلچل اور حائمہ دونوں ہی اسے زہر لگتی تھیں مگر کیا کیا جا سکتا ہے حائمہ آغا جان یعنی نفیل صاحب کی لاڈلی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"چاچو کیا میں اندر آ جاؤں؟" دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد ارحان اکرم صاحب کے آفس میں موجود تھا۔
"ارے بیٹا ابھی پھر سے کام میں لگ گئے۔ کوئی آدھا گھنٹہ آرام کرتے ابھی دو میٹنگز اور ہیں تمہاری۔" اکرم صاحب اسے دیکھ کر بولے تو وہ اندر آتا ہوا بولا
"نہیں چاچو میں ٹھیک ہوں۔ مجھے آپ سے لغاری صاحب کے پراجیکٹ کے بارے میں بات کرنی ہے۔ وہ میٹنگ کرنا چاہ رہے ہیں۔" ارحان نے آنے کا مقصد بتایا تو وہ سر جھٹک کر اسکے ساتھ پراجیکٹ پر بات کرنے لگے کیونکہ اسنے کسی کی سننی تو تھی نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"سر میں اندر آ جاؤں؟" حائمہ لیٹ ہونے کے باجود بھی پورے اعتماد سے پوچھ رہی تھی۔ حالانکہ سر وحید کا یہ حکم تھا کہ جو دیر سے آئے وہ کلاس میں نہ آئے۔
سر وحید نے اسے چشمہ نیچے کر کے گھورا اور بولا "حائمہ آپ دیر سے آئیں ہیں۔"
حائمہ آرام سے اندر آتے ہوئے بولی "سر وہ میں آ ہی رہی تھی کہ راستے میں میں نے ایک ایکسیڈینٹ دیکھا۔ سر کوئی زخمی کی مدد ہی نہیں کر رہا تھا تو میں زخمی کو ہسپتال لے کر گئی اور پھر اسکے بعد یہاں آئی۔ سر دیر کیلئے معذرت چاہتی ہوں۔" حائمہ نے بڑی معصومیت سے کہانی سنائی جس پر سر وحید کو ہمیشہ کی طرح یقین آ گیا۔
"اچھا کام کیا آپ نے بیٹا آئیے بیٹھے اور ہاں میں اسائنمنٹ جمع کر رہا تھا۔ عون آپ کی اور حائمہ آپکی اسائنمنٹ رہتی ہے۔" سر وحید نے حائمہ کے ایک مسئلے کے ختم ہوتے ہی دوسرا مسئلہ چھیڑا۔
"سر میری اسائنمنٹ یہ رہی۔" عون نے سر کو اسائنمنٹ جمع کروائی۔
"اور حائمہ آپکو کیا میں لکھ کر دوں کہ مجھے اسائنمنٹ دیں۔" سر وحید نے طنز کیا۔
"سر وہ دراصل میری اسائنمنٹ گھر رہ گئی۔ سر یقین مانیں میں کل آپکو خود جمع کرا دوں گی۔" حائمہ نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
"چلیں کل کونسا دور ہے دیکھ لیتے ہیں مگر کل مطلب کل ہی مجھے اسائنمنٹ چاہیے۔"
"جی سر!" حائمہ نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حائمہ رات عون کے ساتھ شاپنگ پہ نکلی تھی
"تمہیں چین نہیں آتا۔ یہ کوئی وقت ہے شاپنگ کا!" عون جھنجھلایا تھا۔
"اچھا چلو فوڈ کورٹ چلو پھر بات کرتے ہیں۔" حائمہ نے اسے کھینچا تھا۔
فوڈ کورٹ کے اندر داخل ہو کر حائمہ نے عون کی منتیں کیں کہ یار اسائنمنٹ بنا دو مگر عون ٹس سے مس نہ ہوا۔
"عون یار تم ہمیشہ دو اسائنمنٹس بناتے ہو۔ ایک بیک اپ کے طور پر۔ اگر وہ تم مجھے دے دو پلیز تم جو کہو گے میں کروں گی پلیز۔" حائمہ نے کہا تو وہ مشکوک انداز میں بولا "پکا میرا کام کرو گی۔"
"ہاں پکا بولو کیا کام ہے؟کل ہی کر دوں گی۔" حائمہ نے اسے یقین دلایا۔
"اچھا یار وہ ایمن ہے نا ہماری جونیئر! بس اس سے میری جان چھڑا دو۔ وہ تو پیچھے ہی پڑ گئی ہے۔" عون نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو حائمہ نے اسے گھورا مگر پھر اسے کام کروانا تھا تو بولی" اگر تم مجھے اسائنمنٹ دو گے تو پھر میں یہ کام کل کر دونگی۔"
"منظور ہے!" عون نے کہا اور پھر وہ لوگ شاپنگ کرنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"سر یہ میری اسائنمنٹ!" حائمہ نے اپنی اسائنمنٹ جب سر وحید کو پکڑائی تو انھوں نے اسے ایک دفعہ غور سے دیکھا اور پھر اسائنمنٹ دیکھتے ہوئے بولے"ارے واہ حائمہ تم ہمیشہ بہت اچھی اسائنمنٹ بناتی ہو۔ بس ذرا سختی کرنی پڑتی ہے تم پر۔"
"شکریہ سر آپ سے ہی تو سیکھا ہے سب۔" حائمہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔
کلاس میں بیٹھا عون سر کی بات سن کر بڑبڑایا تھا کہ" کام میں کرتا ہوں اور تعریفیں اسکی ہوتی ہیں۔"
"عون تو بھی اس سے بدلے میں کام لیتا ہے۔ اب زیادہ معصوم نہ بنو۔"عون کے دوست نے اسے کہا تو وہ بس اسے آنکھیں ہی دکھا سکا۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ میرا کام کب کرو گی تم؟؟" عون باقاعدہ سودے بازی کر رہا تھا۔
"ارے یار تھوڑا انتظار کرو گھر جا کر کرتے ویسے تم مجھے دکھاؤ تو سہی وہ لڑکی۔" ہانیہ نے آرام سے کینٹین کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"وہ رہی وہ جو کونے میں برگر کھا رہی ہے۔" عون نے اسے اشارہ کر کے بتایا تو وہ حائمہ بولی"بال تو دیکھو نا اسکے ایک تو کرلی اوپر سے سرخ رنگ کیا ہوا۔"
"اوئے اسکو ڈائی کرنا کہتے ہیں یہ فیشن ہے۔ تمہیں کیا پتہ!" عون نے اسکا مذاق اڑایا۔
"جی نہیں نانی کہتی ہیں بوڑھی عورتیں سر پر سرخ رنگ مارتی ہیں۔" حائمہ نے صفائی دی۔
"ایک تو تم مجھے کسی گاؤں کی رہنے والی لگتی ہو مطلب اس دور میں کراچی میں ایسی لڑکی جسکو بال ڈائی کرانے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ ناممکن ہے۔"
عون نے پرسوچ انداز میں کہا۔
"چل ہٹ بھاڑ میں گیا یہ ڈائی شائی تم لوگوں کو تو اپنی ثقافت کے بارے میں ککھ نہیں پتہ۔" حائمہ لڑائی کے موڈ میں آئی جو دن میں ایک دو بار وہ دونوں کر ہی لیتے تھے۔
"اچھا میری بہن معاف کر دو مجھے بس تم چپ کرو۔" عون نے کہا اور چھوٹے کو سموسے لانے کیلئے کہا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"ہیلو کدھر جا رہی ہیں آپ؟" نازش فورا سے اسے روکنے کیلئے آگے بڑھی۔
"کیوں آپ کون ہوتی ہیں پوچھنے والی؟" حائمہ نے اسی کے انداز میں کہا۔
تو وہ بولی" آپ بدتمیزی کر رہی ہیں۔"
"نہیں تو جو آپ نے کیا وہ کیا تھا آپ نے مجھے بڑی تمیز سے گارڈ آف آنر پیش کیا ہےنا؟؟" حائمہ اسے سنا رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی۔
"شٹ اپ حائمہ تم کیا کر رہی ہو یہاں اور یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا میری پی اے سے۔" ارحان میٹنگ سے واپس آیا تھا مگر سامنے ہی وہ اپنے جوہر دکھا رہی تھی۔
"اوہ تو یہ آپکی پی اے ہے اسی لئے تو بات کرے تو لگتا ہے سڑے ہوئے ٹینڈے کھائیں ہوئے ہیں۔" حائمہ کو اسکا انداز ایک نہیں بھایا تھا۔
"آپ تو منہ میں گھی شکر رکھ کر بات کر رہی ہیں۔" ارحان نے طنز کیا۔
"بس اپنی خاندانی روایات کا پاس ہے مجھے۔" حائمہ نے اپنے بال جھٹکے تھے۔
"تم میرے آفس میں بیٹھو میں دو منٹ میں آ کر پوچھتا ہوں تمہیں۔" ارحان نے اسے سخت لہجے میں کہا تو وہ ہمیشہ کی طرح منہ بسورنے لگی۔
"جب دو منٹ بعد آئیں نہ یہ تو کہہ دینا میں اپنے والد کے آفس میں ہوں۔" حائمہ سارا غصہ نازش پہ نکالتے ہوئے بولی جو اس آفت کی پرکالا کو دیکھ رہی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"السلام علیکم ابو! کیا کر رہے ہیں؟" حائمہ اکرم صاحب کے آفس میں آتے ہوئے بولی۔
" ارے میرا بچہ آیا ہے۔ آفس کوئی کام ہے کیا؟" اکرم صاحب اسکے آنے کا مطلب جانتے تھے۔
"ابو مطلب کیا ہے؟ آپ کو فورا پتہ چل جاتا ہے۔" حائمہ تپ گئی تھی وہ ہمیشہ اسکی بات سمجھ جاتے تھے۔
"اچھا گھر جا کر ہم لڑائی کریں گے۔ یہ پچاس ہزار کا چیک ہے تمہاری اس مہینے کی پاکٹ منی اور اس سےزیادہ میں نہیں دوں گا۔" اکرم صاحب کہیں جانے کی تیاری کر رہے تھے اسلئے اسے جلدی سے چیک دیا۔
"ہاں جیسے گھر میں آپکی بیگم مجھے بولنے دینگی نا۔" حائمہ چیک پکڑتے ہوئے بولی تو وہ ہنس دئے۔
۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"مل گیا چیک تمہیں؟" عون نے اسے کال کر کے پوچھا تھا۔
"ہاں پچاس ہزار ابو نے دئے ہیں اور پچاس کل تایا ابو نے دئے تھے۔" حائمہ نے اسے بتایا تھا۔
"ارے واہ اب تم مجھے کھانا کھلا رہی ہو اس ہفتے میں۔" عون نے اپنا کام نکلوانا چاہا۔
"اسکو چھوڑو تم یہ سنو تمہارے بھائی نے ایک لڑکی کو پی اے رکھا ہوا اور اسکے سامنے شو آف کیلئے مجھ پر رعب جھاڑ رہا تھا۔" حائمہ اپنے بیگ کے اوپر جھکی سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے عون کو کہانی سنا رہی تھی کہ اچانک وہ ارحان سے ٹکرائی تھی۔
"میری تعریفیں ہو رہی ہیں زرا مجھے بھی تو بتایا جاۓ کہ کیا بات ہو رہی تھی۔" ارحان نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تو حائمہ آنکھوں کو گھماتے ہوئے بولی۔
"نہیں تو میں تو آپکے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔"
"جھوٹ بولنا کب چھوڑیں گی آپ مس حائمہ آفندی ؟" ارحان نے اسے کہا۔
"آپ مجھے جھوٹا کہہ رہے ہیں۔ میں ابھی تایا ابو کو بتاتی ہوں۔" حائمہ آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے بولی۔
"کوئی ضرورت نہیں انکے سامنے مگرمچھ کے آنسو بہانے کی۔ ایم سوری!" ارحان جھنجھلایا تھا۔
"آپکو تو اللہ پوچھے گا معصوم لڑکی کو ڈانٹتے ہی رہتے ہیں آپ۔" حائمہ نے معصومیت کا ڈرامہ کیا تھا۔
"یہ تو میں گھر آ کر بتاؤں گا اور آئندہ آفس میں آ کر ڈرامہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ خبردار جو یہاں آئیں تم!" ارحان نے اسے سخت الفاظ میں حکم سنایا تھا اور منیجر صاحب کے کیبن کی طرف چلا گیا۔
جبکہ پیچھے حائمہ بڑبڑا رہی تھی کہ"میرے باپ کا دفتر ہے یہ کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا!"
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"السلام علیکم!" حائمہ نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ انکے گھر میں سب گھر کے اندر آ کر سب سے پہلے سلام کرتے تھے۔
"وعلیکم السلام!" جواب شازیہ اکرم اور صوفیہ بیگم کی بجائے کسی اور کا آیا تھا۔
"پھپھو آپ؟؟ کیسی ہیں اتنے دنوں بعد آئیں ہیں میں آپکو بہت مس کر رہی تھی۔" حائمہ فورا شمائلہ بیگم کے گلے لگی تھی۔
حائمہ انکی لاڈلی تھی۔
"پھپھو یہ غلط ہے آپ اسکے آتے ہی مجھے بھول رہی ہیں۔" عون نے شکایت کی۔
"تم کیوں جل ککڑے بن رہے ہو۔ میری بھی پھپھو ہیں صرف تمہاری تو نہیں ہیں۔" حائمہ نے اسے کہا تو وہ فورا شازیہ اکرم کو لاؤنج میں آتے دیکھ کر بولا "چچی دیکھ رہی ہیں اس گھر میں کوئی میری پرواہ نہیں کرتا۔"
"ارے میرا بچہ اتنا اچھا تو ہے۔ سب سے پیارا ہے ہمارا عون۔ کون ہے جو عون کو تنگ کر رہا ہے؟" وہ فورا اسکی حمایت میں آئیں تھیں
"یہ آپکی بیٹی!" عون نے بچوں کے انداز میں کہاتھا۔
شازیہ اکرم اسکی بات سن کر بولیں" ارے چھوڑو اسے یہ انتہائی نالائق لڑکی ہے۔ مجھے تو اسکی سمجھ نہیں آتی کسی کی سنتی ہی نہیں ہے یہ۔"
"پھپھو سن رہی ہیں یہ ہر وقت میری امی کو میرے خلاف کرتا رہتا ہے۔" حائمہ نے بھی اپنا دفاع کرنا چاہا۔
"ارے بس کرو کتنا لڑتے ہو اور چلو جاؤ تم لوگ۔ مہوش اور علی آغا جانی کے پاس ہیں جا کر انکو کمپنی دو۔" پھپھو نے بات ختم کی تھی۔
" یا اللہ اس گھر کی رونقیں یونہی قائم رکھنا!"
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"شام کی چائے نہیں پینی کیاآپ لوگوں نے؟" علی نے حائمہ عون اور مہوش سے کہا۔
"اچھا مہوش تم جاؤ میں اور عون ابھی آتے ہیں۔" حائمہ نے علی کو کہا اور انکے جانے کے بعد عون سے بولی "بیٹا فون نکالو تمہاری اس ایمن سے تو جان چھڑاؤں۔"
"کیا کرو گی تم مجھے بھی تو بتاؤ۔" عون سوال کر رہا تھا۔
"تم چپ کر کے بیٹھو میں نے اسے کال ملائی ہے۔" حائمہ نے چپ ہونے کا اشارہ دیا۔
" ہیلو عون کیسے ہو؟ آج کیسے خود کال کر لی تم نے؟ " ایمن فون اٹھاتے ہوئے بولی۔
"میں عون نہیں حائمہ بات کر رہی ہوں۔ اسکی کزن اور تم کیوں پیچھے پڑی ہو اسکے؟" حائمہ نے اس سے پوچھا تھا۔
"عون نے خود مجھ سے بات کی تھی اتنے اچھے سے اور میری پراجیکٹ میں مدد بھی کی تھی۔ اب اسکا کیا مطلب تھا ویسے ہی تو کوئی مدد نہیں کرتا۔" ایمن کے لہجے میں طنز تھا۔
" آئے ہائے ہائے ایسے ہی مدد نہیں کرتا بھئی مجھے تو وہ اسائنمنٹس تک بنا دیتا اور تم صرف مدد پر اترا رہی ہو۔" حائمہ نے سہی لڑاکا عورتوں کا انداز اپنایا ہوا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" السلام علیکم!" ارحان گھر آیا تھا۔
"وعلیکم السلام!" جواب سب نے مل کر دیا تھا۔
"ارے تم آ گئے بیٹا مجھے تو لگا تھا کہ آج میں تم سے ملے بغیر ہی جاؤں گی۔" شمائلہ بیگم نے اس کے دیر سے آنے کی روٹین کے بارے میں سنا تھا۔
"ارے پھپھو آپ کیلۓ ہی تو جلدی آیا ہوں۔ شام کی چائے کے وقت۔" ارحان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی اس سے زیادہ ہنستا مسکراتا وہ نہیں تھا۔
"اچھا امی آغا جانی اور عون کہاں ہیں انھوں نے چائے نہیں پینی۔" ارحان نے چند لوگوں کی غیر موجودگی دیکھ کر کہا۔
"بھائی ویسے حائمہ آپی بھی نہیں ہیں۔" علی نے نچلا ہونٹ دبا کر کہا تھا۔
"اچھا میں سب کو لے کر آتا ہوں۔" ارحان اپنا کوٹ اور بیگ تھامتے ہوئے اندر بڑھ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"تو کیا تم اسے پانے کے خواب دیکھ رہی ہو؟" ایمن نے سوال کیا تو حائمہ فورا بولی"لاحول ولا قوۃ میرا خودسوزی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ میرے بھائیوں جیسا ہے۔"
"تو تمہیں میرے سے کیا مسئلہ ہے؟" ایمن تپ چکی تھی۔
"تم عون سے دور رہو۔ کیونکہ میں کسی چانا بی کو اپنے کزن کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی خدا کا واسطہ اگر ہو سکے تو اپنے بالوں کا کچھ خیال کرو۔" حائمہ نے اسکو کہا۔
"اور خبردار جو آئندہ عون کو فون کیا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" حائمہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور بولی "پکڑو اسے اور دوبارہ کرے تو مجھے بتانا۔"
"بلکل ٹھیک بوس جو آپ کا حکم!" عون نے کہا اور پھر پوچھنے لگا کہ "یہ چانا بی کیا ہوتا ہے؟"
"وہ نا..." حائمہ تھوڑا سا رکی تھی پھر بولی" پنجابی میں کسی کے بالوں کو اگر برا کہنا ہو تو انھیں چانے ٹائپ کوئی لفظ کہا جاتا ہے اور جب کسی پر اسکے بالوں کے حوالے سے طنز کرنا ہو تو اسے چانا بی کہہ دو یعنی عجیب و غریب بالوں والی۔"
اس بات پر عون اور وہ دونوں ہنس دئے۔
مگر باہر کھڑا نفوس جو انکی سب باتیں سن چکا تھا فورا اندر آیا۔
" بگ بی!" حائمہ کے منہ سے نکلا تھا جس پر عون فورا بولا "بگ بی بولا آئیں نا بیٹھیں۔"
"یہ کیا کر رہے تھے تم۔ تم خود تو بگڑ چکی ہو اسکو بھی بگاڑ رہی ہو۔" ارحان کو تو بس حائمہ پر طنز کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔
"بگ بی آپ مجھ پر ہر بات کا الزام کیوں لگاتے ہیں؟ وہ لڑکی میں نے اسکے پیچھے نہیں لگائی تھی۔" حائمہ کی آواز پست تھی۔
" حائمہ رہنے دو تم اور میرے بھائی کو الٹے سیدھے کام سکھانے کی ضرورت نہیں۔" ارحان اسے ڈانٹ رہا تھا۔
"بگ بی حائمہ نے کچھ نہیں کیا۔" عون نے حائمہ کہ صفائی دی تو ارحان غصے سے بولا "تم چپ رہو اور حائمہ تم نے سارے گھر کا ڈسپلن خراب کیا ہوا۔ اپنے آپ کو تبدیل کرو ہر وقت کا ڈرامہ اچھا نہیں ہوتا۔"
ارحان کی بات سن کر حائمہ کی انکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتا تھا ہر بات پر اسے ہی موردِالزام ٹھہراتا تھا۔ وہ جانے کیلئے پلٹا تو حائمہ بولی "ارحان کیا سمجھتے ہو تم کود کو میں اتنے اچھے سے اتنی تمیز سے تم سے بات کرتی ہوں۔ تمہاری عزت کرتی ہوں اور تم مجھے ہی ڈانٹتے ہی رہتے. اور یہ کیا ڈسپلن کا راگ الاپتے ہو۔ تم کہاں سے ڈسپلنڈ ہو بتاؤ!" حائمہ نے اس سے پوچھا تھا اور وہ رک چکا تھا کیونکہ حائمہ صرف سخت غصے میں ہی اسے تم کہتی تھی ۔
"جو شخص مہمانوں کے سامنے منہ سی کر زبردستی کی مسکراہٹ سجا کر خود کو ڈسپلنڈ سمجھتا ہے وہ ڈسپلنڈ نہیں ہے۔ بلکہ اس میں خوش اخلاقی نہیں ہے اور جو شخص ہر وقت کام کرنے کو ڈسپلن سمجھتا ہے تو اس میں جذبات اور احساسات نہیں ہوتے۔ جو شخص پر کام میں ڈسپلن چاہے اسے فطرت کی خوبصورتی کا احساس نہیں ہوتا۔" حائمہ بغیر رکے بولے چلی جا رہی تھی وہ مزید بولی اور "کہاں کا ڈسپلن جو کمرا آپ خراب کرتے ہیں اسکو تائی امی جب ٹھیک کرتی ہیں تو سارے ڈسپلن کا پتہ چل جاتا ہے۔ پہلے آپ اخلاق کا سبق پڑھیں پھر میرے سے بات کیجئے گا۔ میری برداشت کا امتحان مت لیجئے گا۔"
حائمہ فورا کمرے سے باہر نکلی اور اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی۔
ارحان پیچھے اسکی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ عون بولا " بگ بی غلطی آپکی تھی اور آپ بھی جانتے ہیں جب وہ آپکو تم کہہ کر بات کرے تو اسکا مطلب ہے آپ اسکی برداشت کا امتحان لے چکے ہیں۔"
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"حائمہ نہیں آئی؟" شمائلہ بیگم نے آغا جانی ارحان اور عون کو آتے دیکھ کر پوچھا۔
"نہیں پھپھو اسکی طبیعت خراب ہے تھوڑی رات کے کھانے پر ملیے گا دوبارہ آپ۔" عون نے انسے کہا اور سب چاۓ پینے لگے جو ان سب کے آنے پر لگا دی گئی تھی۔
۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کھانے کی میز پر آج خاموشی تھی کیونکہ حائمہ خاموش تھی۔
مہوش عون اور علی ایک دوسرے سے اشاروں کے ذریعے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آغا جانی نے ماحول میں تناؤ دیکھا تو انھوں نے باری باری ارحان اور حائمہ کو دیکھا جنکی توجہ صرف کھانے پر تھی اور یہ لڑائی کی خبر کا اعلان تھا۔
حائمہ انھوں نے کہا تو حائمہ فورا بولی "جی آغا جانی!"
"تمہاری اور ارحان کی لڑائی ہوئی ہے کیا؟" ج آغا جانی نے پوچھا تو حائمہ آہستہ آواز میں بولی "میں کیوں لڑوں گی بگ بی سے آغا جانی؟"
"ارحان تم بتاؤ۔" آغا جانی کی توپوں کا رخ ارحان کی طرف ہوا جو اسکے بگ بی بولنے پر ہمیشہ کی طرح خود کو نارمل کر رہا تھا۔
" نہیں آغا جانی کچھ نہیں ہوا آپ کھانا کھائیں۔" ارحان نے کہا تو حائمہ فورا اٹھی اور بولی "بس میں کھانا کھا چکی ہوں۔"
جس پر حائمہ کے ابو اکرم صاحب بولے "آغا جانی لگتا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسکی۔"
"کچھ نہیں ہے دیکھیے گا دو تین دن بعد اچھلتی پھرے گی پورے گھر میں۔" عباس صاحب مسکرا کر بولے۔
آغا جانی یہ سب دیکھ رہے تھے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں اپنی بیگم کی تصویر اٹھا کر بات کر رہے تھے کہ "تم مجھے اتنی جلدی چھوڑ کر چلی گئی تمہارا بڑا پوتا اور پوتی تو میرے قابو میں نہیں آتے۔ پتہ نہیں ہماری خواہش پوری ہوگی بھی کہ نہیں مجھے اب مشکل لگتا ہے یہ سب۔ کیونکہ یہاں اس قسم کے حالات نظر نہیں آ رہے۔"
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شمائلہ بیگم علی کو لے کر چلی گئی تھیں جبکہ مہوش چند دنوں کیلئے ادھر ہی تھی۔ عون بھی بس اسکے ساتھ بات کر رہا تھا کیونکہ حائمہ کے ساتھ ان تین دنوں میں بات کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے برابر تھا۔
مگر تیسرے دن حائمہ خود ہی انکے ساتھ آ کر بیٹھی اور پرانی روش پر واپس آ گئی۔
وہ ایسی ہی تھی زیادہ دیر کسی بات کو دل میں نہیں رکھتی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"آج کیا تاریخ ہے مس نازش؟" ارحان نے پوچھا تو نازش نے اسے مہینے کی پانچ تاریخ بتائی تو وہ فورا اٹھا۔ کیونکہ یہ دن وہ آفس سے گیارہ بارہ بجے نکل کر سب گھر والوں کیلئے ایک چیز خرید کر انھیں دے کر اور پھر انکے ساتھ باتوں میں گزارتا تھا۔
جب سے اسنے آفس آنا شروع کیا اسکا ہر میہنے کی پانچ تاریخ کو یہی معمول تھا۔
مگر یہ الگ بات یے آج تک اسکی لائے ہوئے کسی بھی تحفے کو حائمہ نے استمعال نہیں کیاتھا۔
وہ اٹھا اور شاپنگ کی اس بار اسنے سب بڑوں کیلئے کتب اور عون کیلئے ایک شرٹ خریدی تھی۔ مہوش آئی ہوئی تھی اسلئے اسنے اس کیلئے فون خریدا تھا۔
حائمہ کیلئے وہ سوچ رہا تھا کہ لے یا نہ لے کہ آغا جانی کا فون آ گیا۔
"السلام علیکم ارحان کہاں ہو میرے بچے؟" انھوں نے اس سے پوچھا۔
"آغا جانی جانتے تو ہیں سب کیلئے تحفہ لے رہا ہوں۔" ارحان نے انھیں بتایا تو وہ بولے "حائمہ کیلئے لیا ہے؟"
"آغا جانی وہ استعمال۔۔۔" وہ کہہ رہا تھا کہ آغا جانی اسکی بات کاٹ کر بولے کہ "حائمہ آفندی اس گھر کا حصہ ہے اور ایک اہم حصہ ہے۔ ارحان میں کسی کو اجازت نہیں دونگا کہ وہ میری پوتی کو اس گھر سے الگ سمجھے۔" اور فون بند کر دیا
اور پھر ارحان نے ایک خوبصورت سی گھڑی حائمہ کیلئے خریدی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" ثناء تم بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ بنا کر لاتی ہوں" صوفیہ بیگم نے کہا اور اٹھ کر اندر چلی گئیں۔
ثناء ارحان کی خالہ زاد تھی اور ارحان کی دوستی بھی اس سے اچھی تھی۔ حائمہ اور عون کو وہ بلکل اچھی نہیں لگتی تھی۔
"عون تم بھی کبھی مجھے ٹائم دے دیا کرو۔ ایک ہی کزن تو نہیں ہیں نا تمہاری۔" ثناء حائمہ پر ایک نظر ڈال کر بولی جس پر عون زبردستی مسکراہٹ سجا کر بولا "بھئی بگ بی ہیں نا تمہیں ٹائم دینے کیلئے۔"
گاڑی گھر کے اندر آ کر رکی تھی وہ سب چیزیں اٹھائیں لان میں آ گیا تھا اور ثناء سے ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔
"عون ویسے تمہاری کزن کتنی چپکو ہے اور بگ بی کو تو دیکھو کیسے ہنس کر باتیں کر رہے ہیں اس سے۔" حائمہ نے عون کو کہا تو وہ آرام سے آگے سے اسے بولا "تمہیں بڑی تکلیف ہو رہی ہے!" جس پر حائمہ اسے گھور کر رہ گئی تھی۔
"حائمہ عون کیا کھسر پھسر کر رہے ہو تم لوگ؟" شازیہ اکرم اور صوفیہ بیگم کھانے کا کچھ سامان لاتے ہوئے بولیں۔
گھر میں کھانا گھر کی خواتین ہی بناتی تھیں۔
"کچھ نہیں!"حائمہ نے کہا تھا۔
"ارحان تم کیا لائے ہو اس بار؟" تائی امی نے اسے کہا تو وہ بولا "ماما بس وہی سب کیلئے کوئی نہ کوئی چیز!"
مہوش بھی چائے لے کر آ گئی تھی۔
ارحان نے جتنےلوگ موجود تھے انکو انکے تحفے دکھائے تھے۔ وہ حائمہ کا تحفہ دکھانے لگا تو ثناء بولی "کتنی پیاری گھڑی ہے! کہاں سے لی میں نے بھی لینی ہے۔"
" ثناء یہ تو ایک ہی پیس تھا۔" ارحان نے اسے جواب دیا تو وہ بولی" یہ میں لے لیتی ہوں تم مجھ سے اسکی قیمت لے لو۔"
"مگر یہ تو میں حائمہ کیلئے لایا تھا۔" ارحان کے منہ سے پھسلا تھا۔
شازیہ اکرم فورا بولیں "بیٹا تم ہی لے لو حائمہ تو استعمال نہیں کرتی۔" ثناء گھڑی اٹھا کر دیکھ رہی تھی۔
نجانے حائمہ کے دل میں کیا آیا فورا گھڑی اس سے لے کر بولی" امی یہ بگ بی میرے لئے لائے ہیں میں ہی پہنوں گی اسے۔" اور فورا گھڑی پہن لی اور عون سے پوچھ رہی تھی کہ "کیسی لگ رہی ہے؟" جو اسے اب کہہ رہا تھا کہ "دماغ ٹھیک ہے آج تمہارا؟"
ارحان بھی اسکا یہ انداز دیکھ کر چونکا تھا مگر پھر بگ بی یاد آنے پر وہ نارمل ہو چکا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے!!!

KAMU SEDANG MEMBACA
عیدِ زندگی (مکمل)
Humorحائمہ ارحان عون یہ میرا دوسرا ناول ہے جو میں واٹ پیڈ پر دے رہی ہوں دوسری بات یہ کہ یہ ناول مجھے جلد ختم کرنا ہے تو جلدی میں ٹائپنگ کرتے ہوئے غلطیاں ہو جاتی ہیں پروف ریڈنگ کا موقع نہیں ملتا اگر غلطیاں نظر آئیں تو معزرت چاہوں گی کہانی ایک خاندان کی...