episode 2

370 48 19
                                    

سلطان آفندی ملک کے مشہور مایا ناز سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے ایک روبدار اور جاذب شخصیت کے مالک تھے سیاسی دشمن بھی ان کی عقلمندی اور شرافت کے گن گاتے نہ تھکتے تھے۔۔۔۔
ان کی چار اولادیں تھیں سکندر آفندی جو سب سے بڑا تھا اور اس کی بیوی حسینہ جو اپنے نام کی طرح حسین تھیں اس کے تین بیٹے تھے ڈاکٹر ابراہیم اور کیپٹن تیمور دس سال چھوٹے ڈاکٹر شیث آفندی جو اپنی خوبصورتی سے ہر کسی کے دل میں بستا تھا اور جاذب شخصیات ہونے کی وجہ سے اپنے دادا کی پر چھائی تھا شیث سکندر کی خوبصورتی کوئی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا تھاشیث سکندر اپنے باپ دادا کی طرح سیاست کا شوقین تھا اور ہاوس جاب کر رہا تھا میڈکل میں جانا تو اس کے گھر والوں کی خواہش تھی۔۔۔۔۔
دوسرابیٹا ڈپٹی کمشنر (ڈی_ سی) سیف اللہ اور نائلہ جس کو اولاد پندرہ سال بعد ہوئی تھی اللہ پاک نے ان کے صبر کا پھل گول مول لیلی کی صورت میں دیا لیلی کی پیدائش سے پہلے شیث آفندی کو گود لے لیا شیث اور لیلہ میں ان کی زندگی بستی تھی۔۔۔۔
سیف اللہ سے چھوٹی نازیہ ہاشم تھی ان کی تین اولادیں تھیں سارا جو خوبصورت تو تھی ہی اور ساتھ سگھر اور سلقہ مند تھی انیٹر کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ کر گھرداری سنبھال لی حارث اور قاسم جو جاذب شکل و صورت کے مالک تھے تعلیم مکمل کرکےاپنے باپ دادا کی طرح زمینداری سنبھالی۔۔۔۔
سب سے چھوٹا ایڈووکیٹ شایان آفندی اور اس کی بیوی فائقہ ان کی دو بیٹیاں زارا اور زویا تھیں زویا نے بھی سارا کی طرح انیٹر پاس کرکے پڑھائی روک دی زارا جو زویا سے پانچ سال چھوٹی تھی کالج کے آخری سال میں تھی اور آگے بھی پڑھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زویا زارا کو دوپہر کے کھانے کے لیے روم میں
بولانے آئی تو وہ روم میں موجود نہیں تھی اس کے روم کی حالت دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا یہاں انسان رہتے ہیں بیڈ کی چادر نیچے قالین پر پڑی تھی ڈریسنگ ٹیبل کی چیزوں کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا ان کو کل رات ہی ترتیب دی گئی ہے کتابوں کا ڈھیر قالین پر بکھڑا ہوا تھا زویا دل ہی دل میں اس کم عقل زارا کو گالیوں سے نواز رہی تھی اور روم کو انسانوں کے رہنے کے لائق بنا رہی تھی
۔۔۔۔کہ اتنے میں نیچے سے فائقہ اور زارا کی اونچی آوازیں سنائی دے رہی تھی جیسے کسی بات کو لے کر جھگڑا ہو رہا ہو
زویا ڈور کر نیچے گئ اس کی تواقع کے عین مطابق زاراشایان پھر کسی فضول بات پر الجھ پڑی تھی
زویا :اف اللہ تعالیٰ اس پاگل زارا کو عقل دیں یا اس کی چلتی زبان کو چپ۔۔۔۔

تائی اور پھوپھو زارا کو سمجھا رہی تھی ایک خاندانی عورت اپنے بزرگوں کے فیصلوں کو تسلیم کر لیتی ہیں اور ان کی آبرو کی لاج رکھتی ہیں
زارا بس کر دیں تائی کس صدی میں آپ سب جی رہیے ہیں اب عورت کا مقام مرد کے برابر ہے عورت اپنی زندگی کا ہر فیصلہ خود کر سکتیں ہیں ان کو پورا حق ہے وہ تعلیم حاصل کریں نوکری کریں گھر سے باہر نکلے اپنی مرضی سے زندگی بسر کریں۔
امی نے زارا کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ زاراشایان۔۔

کیا مجھے پیار ہےWhere stories live. Discover now