قسط نمبر ۱۵

200 23 2
                                    

#میدان_حشر
"باد سموم"
قسط نمبر ۱۵

آدھی رات کو وُہ گھر چھوڑ کر نکلی تھی زندگی میں پہلی بار اتنی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا اُس نے کے رات کے ۲ بجے اکیلی گھر سے نکلی تھی...
کسی نے اُسے روکا بھی بھی تھا روکتا بھی کون اور کیوں....
جس گھر میں عزت ہی نہیں تھی وہاں رُکنے کا اُسکے پاس کوئی جواز بھی باقی نہ تھا...
وُہ اُس وقت ایک پوش علاقے سے گزر رہی تھی جہاں تو دن کے وقت بھی سناٹا ہوتا تھا....
اسٹریٹ لائٹ کی روشنی دور تک اُسے رستہ دکھا رہی تھی مگر اس نے طے نہیں کیا تھا اُسے کہا جانا ہے دکھنے والے راستے نکلنے کو بہت جگہ نکلتے تھے مگر اُسے کہاں جانا تھا یہ ابھی اُسے خود بھی نہیں پتہ تھا...
"زندگی اِس طرح بھی بدلتی ہے.."
اُس نے دُکھ سے سوچا....
کبھی خوشیوں سے جھولی کو بھردیتی ہے کہ خود پر ہی رشک آنے لگتا ہے تُو کبھی اُس رشک کو اشک بنا دیتی ہے اِس طرح توڑتی ہے پھر جڑنے کا کوئی آسرا ہی نہیں دکھتا....
سوچوں میں غرق وہ آگے بڑھ رہی تھی....
دِماغ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اِس وقت باہر نکلنے پر اُسے ملامت کر رہا تھا...
دِل ایک لمحہ بھی وہاں رُکنے پر ساتھ نہیں دے رہا تھا...
دِماغ اور دِل انسان کی زندگی میں کس قدر اہمیت رکھتے ہے مگر ۹۰ فیصد اختلاف رکھتے ہیں یہی اختلاف اِنسان کو اُلجھن کا شکار کرتے ہے...دِماغ کی ازل سے دُشمنی رہی ہے دل سے جبکہ دِل یہ تو معصوم ہوتا ہے مگر اختلاف رکھتا ہے اڑ جاتا ہے ڈٹ جاتا ہے...
اُسکے دماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے....
اُسکے ذہن میں بس ایک ہی سوال تھا...
"اتنی بے اعتباری"
اپنے عشق کے منہ سے نکلے الفاظ اُس کے روح کو سلگھا رہے تھے...
آبلے وجود پر نہیں دل پر نکلے تھے....
کیونکہ آگ تو اندر لگی تھی....
کہاں لگی تھی اُس نے تلاشنا چاہا...
اُسکو پورا وجود ہی زندان میں کھڑا محسوس ہوا....

یکدم لگنے والے بریکس کی آواز اُسے سوچوں میں غرق ذہن کو حقیقت میں لے آئی...

اُس نے اپنی پیچھے مڑ کر دیکھا ....
۲ نوجوان لڑکے تھے
آگے والے کےشرٹ کے بٹن اوپری تین کھلے ہوئے
تھے...
پیچھے والے کے گلے سے مُختلف چینیں جھانک رہی تھی دونوں نہایت حریص نظروں سے اُسے دیکھ رہے تھے....
رات کے اِس پھر اِس حالت میں ایک لڑکی کے پاس رُکنے والے وہ دونوں اُسے کہی سے بھی شریف نہیں لگے....
ابھی وہ بھاگنے کے لیے پر تول ہی رہی تھی وہ بائک لے کر اُس تک آگئے....
ابتک کُچھ کہا نہیں گیا تھا مگر وہ عورت تھی مرد کی نظروں کو پہچانتی تھی کم از کم یہ وہ نظرے نہیں جن سے ماوں بہنوں کو دیکھا جاتا ہے.....
اُن نظروں میں غلاظت ٹپک رہی تھی....

اُس نے بھاگنا شروع کردیا...
دونوں لڑکوں نے زور کا قہقہ لگایا..
گویا کہہ رہے ہوں آج شکار کا مزا آئیگا...
وہ بائک لے کر اُسکے پیچھے بھاگے..
اُسکے سامنے آکر روکی بائک...
"خُدا کے واسطے مُجھے بخش دو مُجھے جانے دو”
وہ روتے ہوئے بولی....
وہ لوگ اب بھی کچھ نہیں بولے...
"کہاں جارہی ہو....ہم چھوڑ دے"
پہلا جملہ کہا گیا...
یہ کوئی مخلصانہ پیشکش نہیں تھی مخصوص گھٹیا انداز تھا بے غیرت لوگوں کا...
اب کی بار وُہ پیچھے والا اُتر کے سامنے آ کھڑا ہوا....
دونوں طرف سے بھاگنے کے رستے بند کردیے گئے...
"خدارا مُجھے جانے دو"
وُہ ہاتھ جوڑ کر بولی...
دونوں پر کوئی اثر نہیں ہوا...
ایک نے آگے بڑھ کر دوپٹہ پکڑا جبکہ اگلے ہی لمحے ہوا میں اچھال دیا....
"نہیں"
چیخ بلند ہوئی...
مقابل پر اب بھی اثر نہیں ہوا....
وہ چند قدم پیچھے ہوئی دونوں اُسکی طرف بڑھے...
"کیا پھر؟"
اِس سے آگے وہ سوچ نہ سکی...
ایک تیز روشنی سے اُسکی آنکھیں چندھیا گئی....
                         ✳✴✳✴✳✴✴

میدان حشرWhere stories live. Discover now