قسط نمبر ۶۸

131 21 1
                                    

#میدانِ_حشر
قسط نمبر ۶۸
باب نمبر ۱۵
"تُو ہی حاصل میرا"

" ٹھیک ہو اب..."
ریسکیو ٹیم کے ایک کارندے نے راحیل کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا....

راحیل مندی مندی آنکھوں سے منظر سمجھنے کی سعی کر رہا تھا...
زندگی کا احساس ہوتے ہی اُس نے کرب سے مندی مندی آنکھیں بھی کرب سے بھینچ لی.....

وُہ لڑکھڑا ہوا کھڑا ہوگیا ...
"سنبھل کر.."
ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر سہارا دیا راحیل نے اُس کے ہاتھوں کو جھٹکا اور تاسف زدہ لہجے میں بولا....

"ٹھیک ہوں..."
کہتے ہوئے نظریں مسلسل اشک برساتے اُفق کی جانب تھی....
لڑکھڑاتے قدموں پر چلتا ہوا ہی وُہ آگے بڑھنے لگا....

ہوا تیزی سے بہہ رہی تھی وُہ ہلکا سا شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا... خنک ہوا اور برستے پانی نے اُس کے جسم پر کپکپی طاری کردی تھی....
سردی کی شدت کے باعث دانتوں تک میں  کپکپاہٹ آچکی تھی...

وُہ انتہائی سست روی سے چل رہا تھا ننگنے پیر بکھرے ہوئے اکڑے ہوئے بال گویا کئی دنوں سے کنگھی نا کی گئی ہو شیو بھی کافی بڑھ چکی تھی...
پہلی نظر میں کسی کو بھی اُس کے فقیر ہونے کا گمان ہوتا....
ہوا کا زور کم ہوتے ہی بارش کا دم خم بھی ٹوٹ گیا اب ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی مطلع اب تک ابرآلود تھا....
وُہ ساحلی پٹی سے دور آ چُکا تھا...
خود نہیں جانتا تھا وہ کہاں جارہا تھا...
مشرقی سمت بادلوں کی گرج چمک سے رات کا دِل دہلا جارہا تھا...
سڑکوں پر پانی جمع تھا کہیں کہیں سڑکیں سینہ تان کر بارش سے مقابلہ کر رہی تھیں...
پانی ڈھل کر کناروں پر آگیا تھا... اور کنارے کنارے اگے ہوئے درختوں اور استادہ بجلی کے کھمبوں سے ٹکرا کر ڈھلانی راستوں پر نالے کی صورت میں بہہ رہا تھا....
منہ زور ہوا اور پُر زور بارش کی وجہ سے موسم کافی اچھا ہوگیا تھا خوشگواری سردی پر طاری ہوگئی تھی...
رات گناہ گار دِل کی طرح تاریک
تھی.. بادلوں کی مہیب گرج چمک دِل دہلا رہی تھی...
ہوا ایک بار پھر منہ زور ہوئی آندھی کا انداز مجنونانہ تھا وُہ  جھاڑیوں اور درختوں کو پٹخ پٹخ کر مار رہی تھی... پتھر بھی اِس جُنوں سے تنگ آکر اِدھر اُدھر لڑھک رہے تھے...

وُہ بس چلتا جارہا تھا....
"گھر..."
حواس بحال ہوتے ہی کھلے آسمان کے نیچے ہونے کا احساس بجلی کی طرح  دماغ میں کوندا....
ہاتھ کے اشارے سے رکشے کو روکنے کی کوشش کی مگر کئی تو اس کی حالت دیکھ کر رُکے تک نہیں...
بلا آخر ایک رکشہ رُکا....
راحیل کو اپنے ہی گھر کا پتہ یاد کرنے کے لئے دِماغ پر زور ڈالنا پڑا...
اُس نے ڈیفنس فیز ۳ کا کہا تو رکشے والے نے عجیب سے نظروں سے اُسے سر تا پاؤں دیکھا اور بولا....

"چھ سو..."
اُس نے جان کر پیسے زیادہ بولے....

راحیل نے سنا نہیں تھا وُہ بیٹھ گیا....
اُس کی حالت عجیب تھی...
رکشے والے کو کبھی اِس گلی کا بولتا کبھی اُس گلی کا وُہ اپنے ہی گھر کا راستہ بھول چکا تھا....

میدان حشرWo Geschichten leben. Entdecke jetzt