قسط نمبر ۴۵

138 21 0
                                    

#میدان_حشر
قسط نمبر ۴۵
باب نمبر ۱۲
"دوسری صور"
(نجات)

"طیات بیٹا  میرے ساتھ باہر چلیں.. پورا پورا دن کمرے میں بند رہنے سے طبیعت مزید بوجھل ہوگی آپکی.."
ناظمہ خاتون نے طیات کے پاس بیٹھتے ہوئے محبت بھرے لہجے میں کہا....

"بیٹا یہ سب کرنے سے کُچھ بدلے گا نہیں البتہ آپکی طبیعت خراب ہوجائیگی مزید..."
وُہ کوئی ردِ عمل نا پاکر اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر بولی...

"میں بِلکُل ٹھیک ہوں آنٹی...آپ بلا وجہ پریشان ہورہی ہے اور حماد بھی.."
وُہ شرمندہ ہوکر بولی...
وُہ اتنے مخلص اور بے لوث محبت کرنے والوں کے ساتھ بے اعتنائی برتتی آرہی تھی...

"بیٹے تحمل سے آپ میری بات سُنیں..."
ناظمہ خاتون نے اُسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا....

"طیات بیٹا زندگی کا اصول ہے جو گزر گیا اُسے بھول جانا چاہئے..."
وُہ متانت سے بولی...

"آنٹی میں اُسے بھول..."
طیات نے وضاحت کرنی چاہی...
ناظمہ خاتون نے اُسکی بات کو بیچ سے کاٹا...

"بیٹا میں بھی ایک عورت ہوں بخوبی آپکی کیفیت سمجھ سکتی ہوں اور میں آپکی آنکھوں میں واضح طور پر محبت کی تحریر دیکھ سکتی ہوں...."
وُہ اب اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی...

"جو آپکو مِلا ہے اُسّے دِل سے لگا کر رکھو  اُسکی حفاظت کریں اپنی تمام تر توجہ اُسکی طرف رکھیں خُدا نخواستہ اگر آپ کی اِسی طرح اُداس رہنے سے پورے پورے دن کُچھ بھی نا کھانے سے اگر آپکے بچے کو کُچھ ہوگیا تو کیا آپ کبھی خود کو معاف کر پائیں گی..اور اگر آپ یہ بچہ نہیں چاہتی تو بھی بتا دیں اِس کا بھی حل ہے بس یوں خود کو ہلکان نہ کریں..."
وُہ کتنے آرام سے اتنی بڑی بات کہہ رہی تھی جس کو سُن کر ہی اُسکا دِل دہل گیا تھا...
"نہیں اِس بار میں اپنے بچے کو کُچھ نہیں ہونے دوں گی.."
طیات بے ساختہ بولی...
ناظمہ خاتون کے چہرے پر محظوظ ہونے والی مسکراہٹ آ رکی...
وُہ جو چاہتی تھی طیات نے ویسا ہی رسپانس دیا تھا...
"تو بیٹا یہ بات آپ ہمیشہ یاد رکھیں ہم تو آپکے ساتھ ہیں ہر مُشکل میں مگر اپنے بچے کا خیال آپکو خود ہی رکھنا ہوگا اپنا بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹنا ہوگا پھر سے کھڑا ہونا ہوگا...زندگی کسی کے لیے بھی رُکتی نہیں ہے ہمیں اِس کے ساتھ چلتی رہنا ہوتا ہے زندگی کے سفر میں چھوٹے موٹے "accidents" ہر کسی کے ہوتے ہیں زندگی بہت مُشکل ترین سفر ہے  اِس سفر میں اپنی گاڑی کو آسانی سے چلانے کے لیے چند rules کو فالو کرنا ضروری ہے سب سے پہلے اپنے "دِل کے accelerator" پر قابو پانا پڑے گا..
کیونکہ دل ہی ہماری سوچوں کو منتشر کرتا ہے ہمارے مضبوط سے مضبوط ارادوں کو بھی با آسانی سے پل میں ہلا سکتا ہے...
اپنے دماغ کے "break" مضبوط رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ دماغ ہمیشہ آپکو اُس پر اُکسائے گا جس سے دِل انکاری ہوگا اور جب انسان بیک وقت دونوں کو سنتا ہے تو دل اور دِماغ کے بیچ اُلجھ کر رہ جاتا ہے نا کنارے کا رہتا ہے نا سمندر کا...
آپکو پتا ہے طیات بیٹا ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے"
ناظمہ خاتون نے اُسے بغور دیکھا.
وُہ سر جھکائے بیٹھی تھی مگر دھیان اُن کی باتوں پر تھا....
"ہمارا سب سے بڑا دُشمن ہمارا غصّہ ہے جو ہر انسان کو بہت جلدی آجاتا ہے اور اِس غصے کی رو میں بہہ کر ہم کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں اور پھر ساری زندگی کے لیے ایک ملال سا رہ جاتا ہے کہ کاش ہم اُس وقت ہم اپنے غصے کی speed" کو کنٹرول کرلیتے وہی وقت ہوتا ہے جب ہم اپنی زندگی کی گاڑی میں ظرف کے tyre" بڑے اور اعلٰی قسم کے لگاسکتے ہیں تاکہ   اپنی گاڑی کو با آسانی ہم اِس سفر پر دوڑا سکے
اور  بیٹا اِس کے لیے آپکے پاس "خوش اخلاقی اور ایمان کا licscence" ہونا لازمی ہے اللہ پر یقین پُختہ ہونا چائیے... تب کہیں جاکر آپ کی گاڑی "دُنیا کے road" پر  آسانی سے چل سکے گی وگرنہ "ناکامی کے چالان" آپکا مقدر ہوگے...
اور یہ چالان آپکو تا حیات بھرتے رہنا ہوگا اور
آپکی ناکامی پر آپکے ساتھ سوائے ایک ذات کے کوئی مستقلاً نہیں ہوگا اور وہ ذات سب رب العزت کی ہے وُہ کسی بھی حال میں اپنے بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا کیونکہ بندہ جیسا بھی ہے پیار سب سے وُہ ایک جیسا کرتا ہے اُسکی ممتا سب کے لیے ایک ہے....
اور بیٹا خودکشی تو اُس نے حرام کی ہے اور آپ یہ سب کرکے خود کو اور اپنی زندگی کو کس جانب لےکر جارہی ہیں اکیلے میں محاسبہ کیجئے گا آپکو اپنی کوتاہیاں ضرور دکھ جائیں گی میں جانتی ہوں میری باتیں اِس وقت آپکو تکلیف دے رہی ہوگی مگر طیات روز مرنے سے بہتر ہے ایک ہی بار حقیقت سے روبرو ہوجایا جائے"
ناظمہ خاتون رُکی بغور  طیات کے سپاٹ چہرے کو دیکھا پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولی...
”میں صرف آپکی بہتری چاہتی ہوں بس میرا مقصد بِلکُل بھی آپکی دِل آزاری کرنا نہیں ہے اور اگر جانے انجانے میری کسی بھی بات سے آپکو میری ذات ایذا دہندہ لگی ہو تو میں دِل سے معذرت خواہ ہوں... حماد بہت فکرمند ہے آپکے لئے پلز میری باتوں پر غور کیجئے گا"
وُہ آگے کو بڑھ کر طیات کی پیشانی کو چوم کر بولی...
”میں کھانا بھجوا رہی ہوں اور ساتھ میڈسن بھی اُمید ہے اِس بار مُجھے مایوسی نہیں ہوگی"
وُہ کہتے ہوئے کھڑی ہوگئی....
"اگر میری امی زندہ ہوتی تو بِلکُل آپ ہی کی طرح ہوتی مُجھ سے اتنا ہی پیار کرتی اسی طرح مُجھے سمجھاتی..."
طیات نے عقیدت مند نظروں سے اُنہیں دیکھا....
ناظمہ خاتون کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آگئی...
"آپ چاہے تو مجھے  امی کہہ سکتی ہے حماد کی طرح..."
اُنہوں نے مسکراتے ہوئےکہا...
طیات محض سر ہلا کر رہ گئی...
وُہ کچھ کہہ ہی نا سکی زبان جیسے ہلنے سے انکاری ہوگئی تھی...
"کھانا کھا لیجئے گا اور دوائی لیکر کُچھ دیر آرام کیجئے گا...اب سے ہر شام آپ میرے ساتھ گارڈن میں بیٹھیں گی..."
وُہ دوبارہ نصیحت اور آرڈر بیک وقت  کرتے ہوئے باہر چلی گئی...
  ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

میدان حشرWo Geschichten leben. Entdecke jetzt