قسط نمبر ۴۸

134 22 0
                                    

#میدان_حشر
قسط نمبر ۴۸
باب نمبر ۱۲
"دوسری صور"
(نجات)

"کم آن"
مریم نے راحیل کو گریبان سے پکڑ کر کھینچا...
وُہ دوبارہ اُسکی طرف جُھکا مگر پھر وہی ہوا جو ہر رات ہوتا تھا ہر لڑکی میں ایک لڑکی کا چہرہ اُسے دکھتا ایک ہو  چہرہ جسے وُہ دیکھنا چاہتا تھا جسے وہ اپنے اِرد گرد دیکھنا چاہتا تھا.....

"طیات تُم واپس آگئی میری جان تُم واپس آگئی.."
راحیل نے مریم کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا....

"وٹ دا ہیل"
مریم نے ایک جھٹکے سے اُسے پیچھے کیا...
راحیل کو ہوش آیا اُس نے آنکھیں کھولی...

"I am not your bloody tayaat"
مریم نے غصے میں شراب کے نشے میں مدہوش  راحیل کو دیکھتے ہوئے کہا جو اِس وقت ایک ہارا ہوا جواری لگ رہا تھا....
طیات کے لیے ایسے الفاظ سُن کر وہ مدہوشی سے ہوش میں آیا....
"How dare you"
راحیل مریم کا منہ اپنے ہاتھ  میں سختی سے پکڑتے ہوئے کہا....

"اپنی اوقات میں رہو.."
راحیل کا چہرہ آن واحد میں انگارے کی طرح دہک اُٹھا اُس نے قہر برساتی آنکھوں سے  مریم کو دیکھا کنپٹی کی پھڑکتی رگ اور فراغ پیشانی کی لا تعداد شکنیں اُسکے بگڑے ہوئے موڈ کی واضح غماز تھی....

راحیل نے شرٹ کے بٹن بند کیے اور چیئر کو پیر سے ٹھوکر مارتا باہر کی جانب مڑ گیا.....

وُہ لڑکھڑاتے ہوئے اپنی گاڑی تک آیا....
سڑک پر پُر ہول سناٹا چھایا ہوا تھا....
"میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں تمہیں بھولنے کی طیات مگر تمہاری محبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے تُم کہاں ہو بس ایک بار واپس آجاؤ اپنے راحیل کے پاس میں تُم سے تمہارا ساتھ چاہتا ہوں.."
وُہ کُچھ یاد کرکے بولا...
راحیل بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کا دروازہ  کھول کر بیٹھ گیا....
نشے میں انسان سچ بولتا ہے جو وُہ خود سے کہہ رہا تھا جس سے وُہ ہوش میں ہوتے ہوئے بھاگتا تھا....
طیات اُسکے روم روم میں بس چُکی تھی مگر افسوس اُس میں بہت دیر سے جانا....
راحیل نے گاڑی اسٹارٹ کی اور سڑک پر دوڑا دی...
           ⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐

"میں نے آپکے سامنے حماد کی سارے باتیں رکھ دی ہیں اور یہ مت سوچیئے گا میں اُسکی امی ہو تو اسی لیے ایسا بول رہی ہوں حماد سچ میں آپکو بہت پسند کرتا ہے اور یہ میں اُسکی آنکھوں میں دیکھ سکتی ہوں...حماد در در کی خاک چھاننے والو میں سے نہیں ہے اتنا میں اپنے بیٹے کو جانتی ہوں اقراء.."
ناظمہ خاتون یونیورسٹی سے اُسے اپنے ساتھ لیکر ایک  پارک میں لے آئی تھی اقراء نے پہلے انکار کرنا چاہا مگر اتنی شفقت سے بولتی خاتون کے سامنے وُہ زیادہ انکار نا کرسکی.......

"کُچھ بولئے اقراء بیٹا..."
اُنہوں نے سر جھکائے بیٹھی اقراء کو سر تا پاؤں دیکھا جو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کیے سخت تذبذب کا شکار تھی کے کیا جواب دے....

"میں آپکی پریشانی سمجھ سکتی ہوں مگر بیٹا یقین رکھیے مُجھے اِس سے کوئی مطلب نہیں آپ اِس طرح اکیلی کیوں رہتی ہیں اپنے ایک عدد بھائی کے ہوتے ہوئے بھی یہ آپکا پرسنل میٹر ہے اور میں اِس میں بولنے کا حق نہیں رکھتی میرے بیٹے کو آپ پسند ہے اقراء اور میں ایک ماں ہوں اُسکی خوشی مُجھے سب سے زیادہ عزیز ہے.."
وُہ رسانیت سے بولتی اُسے حیران کرگئی....

میدان حشرWhere stories live. Discover now