قسط نمبر ۲۵

173 24 1
                                    

#میدان_حشر
قسط نمبر ۲۵
باب نمبر ۷
"انتہائے ضبط"

ضبط برداشت صبر اللہ کے پسندیدہ ترین عمل ہیں اسلام لفظ خود اِس بات کی گواہی دیتا ہے...
سلام کا مصدر "سَلِم" یا "سِلم" ہے جس کا مطلب ہے سر تسلیم خم کردینا، امن و آشتی کی طرف رہنمائی کرنا اور تحفظ اور صلح کو قائم کرنا۔

اسلام تحفظ، بچاؤ اور امن کا مذہب ہے۔
یہی اصول مسلمانوں کی زندگی میں بھی سرایت کرتے ہیں۔
جب مسلمان نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا سے ان کا رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ خدا کے حضور اپنے یقین اور تابعداری کے ساتھ باادب اور ہوشیار کھڑے ہوتے ہیں۔
اپنی نماز ختم کرتے ہوئے جب وہ دنیا مین واپس آرہے ہوتے ہیں تو اپنے دائیں باٸیں والوں کو امن کی دعا دیتے ہیں "
تم پر سلامتی ہو اور رحمت ہو"۔
امن و امان، تحفظ، آشتی اور سکون کی دعاؤں کےساتھ وہ اپنی عام زندگی کی طرف ایک بار پھر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
دوسروں کو امن اور تحفظ کی دعایئں دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا اسلام میں بہت اہم اور کارآمد چیز قرار پائی ہے۔
جب آپ ﷺ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ اسلام میں سب سے فائدہ مند کام کون سا ہے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا " دوسروں کو کھلانا، اور انکو سلام کرنا، چاہے آپ انہیں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں"

انسان کیلئے ذاتی سطح پر دکھوں اور غم و غصے کے عجیب و غریب اسباب اور سلسلے موجود ہیں تاہم اپنے اندر قوت برداشت پیداکرنے کیلئے بھی آپکو قوت برداشت ہی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا عدم برداشت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے مسائل و مصائب کا حجم مزید بڑھ جاتا ہے۔ بے شک عام روز مرہ زندگی میں ذاتی سطح پر آپ کی قوت برداشت کا سب سے بڑا اور کڑا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو نیکی کے جواب میں مد مقابل کی بلاجواز اذیت یا باقاعدہ بدی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر اس سلسلے میں صرف ایک بات یاد رکھی جائے کہ آپ کسی کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ آپ کے کھاتے میں جائے گا اور جو مد مقابل کا عمل ہوگا وہ اس کے حساب میں درج ہوگا اور یہی منصف اکمل کا وعدہ بھی ہے۔
کہ دو اشخاص کے اعمال کو ہرگز آپس میں گڈمڈ نہیں کیا جائے گا تو آپ کا بدسلوکی کا دکھ برداشت کرنے کا رنج آدھا رہ جائے گا اس سلسلے میں دوسری بات یہ یاد رکھنے والی ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز، کوئی بھی جذبہ، کوئی بھی احساس بے سود نہیں بنایا گیا سب کی اپنی اپنی جگہ افادیت ہوتی ہے، اپنا اپنا ضرر ہوتا ہے کوئی نہ کوئی رمز پوشیدہ ہوتی ہے یہاں تک کہ کوڑا کرکٹ اور مٹی تک کو بھی کام کی چیزیں گنا جاتا ہے بعینہ بدی بھی معاشرے کا کوڑا کرکٹ سہی لیکن وہ بھی اس کا ناگزیر حصہ ہے اگر بدی نہ ہوتی تو نیکی کے وجود پر کس کو اعتبار آتا؟

اندھیرا نہ ہوتا تو روشنی کو روشنی اور اندھیرے کو اندھیرا کون کہتا بلکہ ہوسکتا تھا لاعلمی کے اندھیرے کی وجہ سے ہم اندھیرے ہی کو روشنی سمجھتے کیونکہ روشنی کے بعد ہی اندھیرے کو اندھیرا اور اندھیرے کی وجہ سے روشنی کو روشنی سمجھا گیا۔

میدان حشرWhere stories live. Discover now