Please vote kerna mat bhooliye ga! I hope you will like the story. Enjoy!
حصّہ-'ج'۔۔
۔
دن گزرتے گئے۔ہوا میں تحلیل ہوتے گئے۔روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑتے گئے۔
مارچ کا مہینہ ختم ہونے کو تھا۔گرمی قدرے بڑھ گئی تھی۔زندگیاں آگے بڑھ گئی تھیں۔اب مڑ کر دیکھو تو پچھلے دن کسی الگ دنیا میں گزرے لگتے تھے۔ دن آہستہ آہستہ لمبے ہونا شروع ہو گئے تھے۔انسان کی نفسیات بھی اب لمبے دنوں کی عادی ہونا شروع ہو گئی تھی۔
وقت آگے بڑھ گیا تھا۔مہینے آگے بڑھ گئے تھے۔نظامِ کائنات آگے بڑھ گیا تھا۔دنیا آگے بڑھ گئی تھی۔مگر پھر ساتھ ہی اونچے درخت والے گھر کے لوگ بھی آگے بڑھنا سیکھ چکےتھے۔
آج نورالعرش دادی جان کے ساتھ لاؤنچ میں بیٹھی ٹی-وی دیکھ رہی تھی۔آج ایک مہینے بعد وہ دونوں یوں لاؤنچ میں آکربیٹھے تھے۔لمحہ بھی نہیں لگتے زندگیاں بدلنے میں مگر ان کا عادی ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔دادی جان کے ہاتھ میں سوئی اور گوٹ تھی اور وہ کچھ بن رہی تھیں ۔نور نیوز لگا کر بیٹھی تھی ،مگر ہاتھ میں موبائل بھی چلا رہی تھی۔
نیوز چینل پر دو آدمی بیٹھے کسی بات پر تبصرہ کر رہے تھے۔نور نے موبائل بند کیا اور لیپ ٹاپ کھول لیا۔پھر مریم کی شادی کی پکچرز جو دو ہفتے پہلے ہی فوٹوگرافر نے بھجوائیں تھیں،دیکھ رہی تھی۔ہر تصویر کو دیکھ کر چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر در آتی۔اسے ہر ایک ایک لمحہ یاد آتا۔پرانے دن یادکر کے پیٹ میں جیسی خوشی کا احساس ہوتا ہے،اسے بھی ویسا ہی ہو رہا تھا۔
پھر اسے ان لمحوں میں موجود لوگ یاد آئے۔مریم،عثمان،حبیب،سکندر،زرینہ،حلیمہ،ثناء،زیمل اور جنید۔اور ایک وہ خود۔جسے ایک مہینے سے زیادہ لگا، اس زندگی میں واپس آنے میں جسے وہ چند مہینے پہلے گزارا کرتی تھی۔بس فرق اتنا تھا کہ اب لوگ گھٹ گئے تھے،مصروفیات بدل گئی تھیں اور دن لمبے ہو گئے تھے۔اسے وہ سارے لمحے یاد آئے۔آنکھ کی پتلی پر سائے لہرائے۔۔
مریم کا نکاح ہو رہا تھا اور اس کے ہاتھ تذبذب سے کانپ سے رہے تھے اوروہ اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دے رہی تھی۔پھر مریم سے زور سے گلے مل رہی تھی،مریم کے آنسو صاف کرتے ہوئے۔اور پھر مریم کے رخصت ہونے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے اپنا آپ نظر آیا۔
پھر منظر بدلا۔لوگ بدلے۔
وہ اور حبیب فوڈ سٹریٹ میں کھڑے تھے اور وہ ابھی شروع کے سٹالز میں سے کسی ایک پر موجودد تھے۔وہ بار-بی-کیو کا سٹال تھا اور وہ پلیٹ بنوا رہی تھی۔حبیب اس کے پیچھے کھڑا تھا۔حبیب نے جوں ہی چکھا توبگڑی سی اور معصوم سی شکل بنا لی۔
"اس میں تو بہت مرچیں ہیں۔" حبیب نے معصومیت سےآنکھیں میچیں تھی۔اور نور تلخ سی شکل بنا کر بولی تھی۔
YOU ARE READING
*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
Fantasyمحبّت کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ اور ہر محبت کرنے والا اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ وہ رنگ نور کا ہوتا ہےٗ روشنی کا۔ محبت انسان کی شامِ اندھیر کو چراغاں کر دیتی ہے۔ محبت وہی ہے جو انسان کی شبِ تاریک میں اجالا کر دیتی ہے۔ محبت عجیب رنگ ہے! آۓ حبیب اور نورالعرش...