Please vote for this part and keep supporting. You can't wait for my next novel, right?
یہ عالم التحت العرض کا منظر تھا۔وہاں ہال بلکل خالی تھا اور سب اس وقت اپنے اپنے کمروں میں عبدالرزاق کے کسی حکم کا انتظار کر رہے تھے۔ عبدالرزاق نے انہیں اپنی پکار سے پہلے باہر آنے سے منع کیا تھا اور وہ بلاشبہ اسکے حکم کے تابع تھے۔ہال کی چھت کے وسط میں اب کوئی فانوس نہیں تھا سو وہاں اندھیرا تھا۔عبدالرزاق نے چونے کے سفوف بھرے تھیلے سے مُٹھی بھر چونا نکالا اور ہال کے وسط میں اسے پھیلانے لگا۔اس نے ایک پینٹاگان(پنج گوشہ)بنایا تھا۔پینٹاگان کے ہر کونے پر اس نے ایک ایک موم بتّی روشن کی تھی۔ہال میں اب زرا روشنی پھیلی تھی۔ اسکے بعد اس نے سیاہ چونا لیا اور پینٹاگان کے ہر خانے میں اسے پھیلا کر عربی کے چند الفاظ لکھے تھے۔اسکے بعد وہ پینٹاگان کے وسطی خانے میں آلتی پالتی کئے آبیٹھا تھا۔ہونٹوں پر مسلسل چند کلمات پڑھ رہا تھا اور کچھ دیر میں سیاہ سفوف سے لکھے گئے الفاظ سنہرے ہو گئے تھے۔یہ جادو تھا، کالا جادو جو ایسے الٹے انداز مین استعمال کیا جا رہا تھا کہ جنگ وہیں سے شروع ہو جائے۔وہ جانتا تھا جنگ جیتنے کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی، اس کے بعد دنیا پر خاص لوگ حکومت کریں گے اور بنا طاقتوں والے غلامی۔
کچھ دیر مسلسل پڑھتے رہنے کے بعدوہ اٹھا،جادو کا تسلسل ٹوٹا تو سیاہ سفوف کی چمک ماند پر گئی۔کچھ دور جا کر میز پر پڑی انگوٹھی اٹھائی اور اپنی انگلی میں پہن لی۔انگلی پر چڑھاتے ہی وہ جادؤئی انگوٹھی میں لمحے بھر کے لئے سمندر کی لہریں گزرتی دکھائی دی تھیں۔اس نے خاص پھول اٹھایا اور اسکی پتیاں پتیاں توڑ کر بو دریا کے درمیان کے کس صفحے میں رکھ کر واپس پینٹاگان کی حد میں آگیا۔بو دریا پکڑے اس نے پھر سے کچھ کلمات کا ورد کرنا شروع کر دیا تھا۔
باہر بادلوں کی گرج چمک مزید بڑھ گئی تھی۔جوں جوں اسکے ہونٹ حرکت کر رہے تھے، آسمان پر سنہرے رنگ کا ایک حالہ سا نمودار ہونے لگا تھا۔اس نے آنکھیں میچ لیں اور اب وہ باآوازِ بلند کچھ پڑھ رہا تھا۔دفعتاً اسکا وجود وہاں سے مِٹنے لگا تھا،وہ غائب ہو رہا تھا یا شاید کہیں اور جا رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ یہاں سے مِٹ رہا تھا مگر اس نے پڑھنا نہیں روکا۔
اندر کمروں میں موجود سب لوگوں کے وجود وہاں سے مِٹنے لگے تھے۔کچھ دیر میں العالم التحت العرض مکمل ویران پڑ گیا تھا۔
عبدالعزیز لطفی زافر الجمیلیہ کے صحر اکے درمیان ایک جگہ ہاتھ اٹھائے کھڑے تھے۔ وہ جان گئے تھےعبدالرزاق جادو کر رہا ہے اور اسکے جادو سے عام اور خاص لوگوں کے درمیان جنگ شروع ہو جائگی۔وہ جانتے تھے اب کچھ نہیں ہو سکتا سو جو ہو سکتا تھا،وہ اب وہی کر رہے تھے۔ آنکھیں بند کئے وہ زبان سے چند کلمات ادا کر رہے تھے۔آہستہ آہستہ انہوں نے دونوں بازو اونچے کئے اور انکے ہاتھوں سے روشنی نمودار ہونے لگی جو کسی شاخ کی مانند اوپر کو جاتی گئی۔انکے سامنے ایک دروازہ سا نمودار ہوا مگر اس دفعہ دروازہ خود ہی کھلا تھا۔عبدالعزیز کا وجود غائب ہونے لگا تھا اور ہال کے اندر موجود انکی فوج کے وجود بھی مٹنے لگے تھے۔
YOU ARE READING
*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
Fantasyمحبّت کا ایک رنگ ہوتا ہے۔ اور ہر محبت کرنے والا اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ وہ رنگ نور کا ہوتا ہےٗ روشنی کا۔ محبت انسان کی شامِ اندھیر کو چراغاں کر دیتی ہے۔ محبت وہی ہے جو انسان کی شبِ تاریک میں اجالا کر دیتی ہے۔ محبت عجیب رنگ ہے! آۓ حبیب اور نورالعرش...