Episode 10(d)-بچھڑے کی محبت

73 12 3
                                    

Please vote for the episode.

.

اگلا ایک مہینہ جیسے ہوا کی مانند گزرا۔سب کچھ بہت سپیڈ میں ہوا۔

شادی کے بعد اسکی اور حبیب بہت کم بات ہوتی۔اکثر حبیب ہی کال کیا کرتا اور حال چال پوچھ لیتا پھر آگے باتیں ختم ہو جاتیں سو کال بند کردی جاتی۔ نور جانتی تھی وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے مگر فاصلے اتنے تھے کہ نور اس سے جڑ نہیں سکتی تھی۔

سکندر نے پہلے حبیب کو پاکستان آنے کا کہا مگر چونکہ اس نے کانٹرکٹ سائن کر رکھا تھا سو وہ نہیں آ سکتا تھا یوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر۔ سو واحد اور آخری آپشن یہی تھا کہ نور اسکے پاس جائے۔سکندر نے نور کے سپاؤزل ویزے کے لئے اپلائے کیا جس کو بننے میں بیس دن لگنے ہی تھے۔پاسپورٹ اسکا ویلڈ تھا ابھی تک۔

اس کا رسلٹ بھی آچکا تھا۔ اسکی ریسرچ بھی اکسپٹ کر دی گئی تھی اور اپنے ڈپارٹمنٹ میں وہ دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ اس نے ساتھ ہی ڈگری کے لئے اپلائے کیا اور کچھ ہی دنوں میں ڈگری بھی اسکے ہاتھ آچکی تھی۔

کچھ دنوں سے وہ لگاتار آرٹکلز لکھ رہی تھی اور تقریباً سب ایکپریس ٹریبیون والوں نے اپنے میگزین کیلئے سیلیکٹ کئے تھے۔ اس نے سوچا تھا کہ جب تک وہ باقعدہ کسی آرگنائزیشن میں کام نہیں کرتی تب تک وہ یوں ہی آنلائن میگزینز کے لئے آرٹکلز لکھا کرے گی مگرچونکہ پھر اسکا حبیب کے پاس جانے کا ڈیسائڈ ہوا سو کسی بھی آرگنائزیشن میں صرف چند ہفتوں کیلئے جاب کرنا تو بےکار ہی تھا۔ سو اس نے سوچا کے آگے بھی اسی طرح آنلائن میگزینز کے لئے لکھے گی۔

کچھ ہی دنوں میں اسکا ویزا بھی لگ گیا۔اور اصل گھبراہٹ تو اب شروع ہوئی تھی۔سکندر نے اسکا ٹکٹ لے لیا تھا اور اگلے ہی ہفتے اسکی فلائٹ تھی دوحہ کی، اپنے شوہر کے پاس، حبیب سکندر کے پاس۔ اس نے چلے جانا تھا اور پھر فاصلیں مٹ جانے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ جوں جوں دن گزر رہے تھے، اسکی نروسنس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب حبیب کی دن میں آنے والی دو کالز میں سے وہ صرف ایک ہی اٹھایا کرتی تھی اور ایک دن تو اس نے سرے سے بات ہی نہیں کی۔ وہ صرف حال چال پوچھتا تھا اور نور تو وہ بھی نہیں پوچھا کرتی تھی۔ مگر حبیب نور کی طرح ایکسپکٹیشنز رکھنے والے لوگوں میں سے نہیں تھا۔ وہ حبیب تھا۔ محبت دیتا تھا اور بس!

فلائٹ کے لئے نکلتے وقت وہ رو پڑی۔ اس لئے نہیں کے وہ اپنی بہن کے بغیر رہ نہیں سکے گی بلکہ اس لئے کہ اسکا دل مسلسل گھبرا رہا تھا۔ وہ دوحہ جا رہی تھی، وہاں جہاں وہ سب سے جدا ہوئی تھی۔ وہ دوحہ جا رہی تھی، وہاں جہاں وہ حبیب سے ملی تھی۔ وہ جانا چاہتی تھی مگر نہیں بھی۔ ایک دفعہ پھر سے وہ ان سب سے الگ ہو جائگی۔ تایاجان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اور وڈیو کال پر نظر آتی زرینہ تائی بھی بلکل خاموش سی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اسے اگلے ہی مہینے امریکہ آنے کا کہا تھا۔

*COMPLETE NOVEL*شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرےWhere stories live. Discover now